طارق حسین بٹ﴿چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای ﴾
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تخلیق جمہوری جدو جہد کا عظیم الشان تحفہ ہے لیکن اس ملک پر اقتدار کی خاطر طالع آزما جرنیلوں نے جس طرح اپنے خونیں پنجے گاڑ کر جمہوریت کی بیخ کنی کی اور سیاسی قائدین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے وہ بڑا عبرت آموز بھی ہے اور باعثِ شرم بھی ہے۔ اکتوبر 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کا شب خون پاکستان میں جمہوریت کے نوزائید ہ پودے پر وہ جان لیوا حملہ تھا جس سے یہ کبھی بھی جانبر نہ ہو سکا ۔ یہ سچ ہے کہ تخلیقِ پاکستان کے ابتدائی ایام میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت جمہوری نظام کے لئے ایک ایسا بڑا دھچکہ ثابت ہوئی تھی جس سے یہ کبھی بھی سنبھل نہ پائی۔یہ سچ ہے کہ نوابزادہ خان لیاقت علی خان کی قیادت میں جمہوریت کا یہ سفر کچھ عرصہ کامیابی کے ساتھ چلتا رہا اور فوج ملکی معاملات سے دوری پر رہی لیکن شہیدِ ملت نوابزادہ خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد محلاتی سازشوں کا ایسا آغاز ہوا جو ہنوز جاری ہے اور جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ تحریکِ پاکستان کے قد آور راہنمائوں کی رحلت کے بعد فوجی جنتا ریاست کے سب سے طاقت ور فریق کی صورت میں ابھری اور اس نے سارے معاملات کو اپنی مٹھی میں اس قوت سے بند کر لیا کہ اس سے نجات کی کوئی راہ اب بھی سجھائی نہیں دے رہی۔ مختلف اوقات میں مار شل لااسی بے رحم غلبے کی داستان بیان کرتے ہیں۔جب قیادتیں عوامی پشت پناہی اور پذیرائی سے محروم ہو جائیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ بیوو کریٹ حکمران بن جائیں تو فوجی غلبے کو کون روک سکتا ے؟سیاست دانوں پر فوجی جنتا کے خوف کی ایسی کیفیت طاری ہے جس پر کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ فوجی جنتا کے ہاتھوں آئینی حکمرانوں اور قائدین کا جو بھی حشر ہوا اس کی وجہ سے سیاسی قیادت کا فوجی جنتا سے خوفزدہ ہو کر ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کر نا با آسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس میں شک وشبہ کی مطلق کوئی گنجا ئش نہیں ہے کہ ۲۱ اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے ایک شب خون کے ذریعے میاں محمد نواز شریف کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت اس شب خون کو آ ئینی قرار دے کر جمہوریت پر ایک اور شب خون مار ڈالا تھا۔یہ شب خون پرانے شب خونوں کا تسلسل تھا جس میں عدلیہ سیاست دانوں کی بجائے فوج کے ساتھ کھڑی تھی۔ میاں محمد نواز شریف کے سارے دیرینہ ساتھی شب خون پر ان کا ساتھ چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئے تو میاں محمد نوز شریف ایک معاہدے کے تحت دس سال کیلئے سعودی عرب میں جلا وطن ہو گئے اور یوں جنرل پرویز مشرف نو سالوں تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ۔سیاسی اداکار، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور فوجی جنتا باہم مل کر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ۔جنرل پرویز مشرف نے ۳ نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ سے چیف جسٹس اور عدلیہ کے بہت سے ججوں کو معزول کر کے انھیں گھروں میں نظر بند کر کے عبدالحمید ڈوگر کو نیا چیف جسٹس مقرر کیا تو ملکی سطح پر اضطرابی کیفیت نے جنم لیا لیکن عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں حکومت عدلیہ گٹھ جوڑ پھر بھی جاری و ساری رہا ۔پی پی پی نے ان معزول ججوں کو بحال کیا تو بحال شدہ ججوں نے جنرل پرویز مشرف کے ایمرجنسی کے نفاز کو غیر آئینی قرار دے دیا حا لا نکہ ۲۱ اکتوبر 1999کے مارشل لاکو عدلیہ کے یہی ججز آئینی قرار دے چکے تھے۔جنرل پرویز مشرف اس فیصلے کے بعد جلا وطن ہو گئے اور ابھی تک مختلف ممالک میں لیکچرز کے بہانے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اپنی اسی جلا وطنی کے دوران انھوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد بھی رکھی جس کے وہ صدر ہیں اور جس کے بہت سے دفاتر دنیا بھر میں قائم ہو چکے ہیں۔انھوں نے وطن واپسی کو اگلے انتخابات تک موخر کر رکھا ہے لہذا دیکھتے ہیں کہ ملک کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر جب وہ ملک میں واپس لوٹتے ہیںتو ان کی آمد کیا گل کھلاتی ہے اور عدالت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ؟۔
میاں محمد نواز شریف جب ملک کے وزیرِ اعظم تھے تو اس وقت جنرل پرویز مشرف نے کارگل کا ڈرامہ رچا کر حکومت کیلئے سبکی کا سامان فراہم کیا تھا ۔ میاں محمد نواز شریف کا موقف یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی اجازت کے بغیر کارگل کا معرکہ پرپا کیا اور انھیں کارگل میں پاکستانی کردار کی خبر اس وقت کے بھارتی وزیرِ ا عظم اٹل بہاری واجپائی سے ملی ۔ کارگل کے اس معرکہ کے چند ماہ تک جنرل پرویز مشرف ہی آرمی چیف تھے اور میاں محمد نواز شریف وزیرِ اعظم پاکستان تھے لیکن میاں محمد نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کی ہمت نہ ہو سکی۔جنرل پرویز مشرف کا یہ اقدام آئین سے صریح بغاوت تھی لیکن میاں محمد نواز شریف میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے آرمی چیف کے خلاف کو ئی قدم اٹھا کر اسے معزول کرتے اور اس پر غداری کا مقدمہ چلا کر اسے آئینِ پا کستان سے بغاوت کی سزا سنواتے بلکہ وہ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے تا آنکہ ۲۱ اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پاکستان کے آئینی حکمران کو دس سال کیلئے سعودی عرب جلا وطن کر دیا اور عدالت خا موشی سے یہ منظر دیکھتی رہی ۔ جنرل پرویز مشرف اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن گئے اور جلا وطنی میاں برادران کا مقدر ٹھہری۔پچھلے سال ایک امریکی نژاد پاکستانی منصور اعجاز کے میمو گیٹ سکینڈل پر میاں محمد نواز شریف نے آئو دیکھا نہ تائو فورا سپریم کورٹ پہنچے اور اس سازش میں ملوث افراد کوغداری کا مجرم قرار دینے کیلئے ایک درخواست دائر کر دی ۔حا لانکہ ان کا فرضِ اولین یہ تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف جیسے غاصب کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور انھیں قرارواقعی سزا دلواتے لیکن ایسا توکچھ بھی نہیں ہوا بلکہ ان کی سازش کا نشانہ وہ شخص بنا جو دو تہائی اکثریت سے صدرِ ممکت منتخب ہوا ہے۔ آج کل میاں محمد نواز شریف اس بات کا بڑی ڈھٹائی سے ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ خفیہ ا یجنسیوں سے ہمارے روابط نہیں ہیں اور ہم ان کے کسی قسم کے کردار کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن ان کا موجودہ کردار ان کے ان دعووں کا ساتھ نہیں دے رہا کیونکہ ایک غاصب کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کی بجائے انھوں نے جمہوری حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں مورچہ لگا کر خفیہ ہا تھوں کے اشاروں کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا تھا ۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف ایک غا صب تھا اور ان کی حکومت ختم کرنے کااسے کوئی اختیار نہیں تھا تو پھر انھیں سپریم کورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ قام کرنا چائیے لیکن ایسا تو کچھ نہیں ہوا ۔ اخباری بیانات کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن عملی طور پر اس سمت میں مسلم لیگ ﴿ن﴾ نے کوئی قدم نہیں اٹھا یا۔ اس ملک میں انصاف کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو تا رہا لیکن بد قسمتی سے اس انصاف کا نشانہ ہمیشہ ہی ایک مخصوص جماعت کو بنایا گیا ۔اب بھی ساری توپوں کا رخ اسی جماعت کی طرف ہے اور آمریت کے سارے خوشہ چین جمہوریت آئین اور انصاف کے چیمپین بننے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ انکی ساری زندگی آمریتوں کے سہارے اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کی رسوا کن داستان ہے۔۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے انکشافات پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے بہت سے سیاست دانوں کے چہروں پر پڑے ہوئے نقابوں کو نوچ کر انھیں بالکل ننگا کر دیا ہے ۔اس فیصلے کی ٹائمنگ بڑی معنی خیز ہے۔ کہیں اس کے معنی یہ تو نہیں کہ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات لگا کر جمہوری بساط کو لپیٹ دینے کی تیاری ہو رہی ہے یا پی پی پی اور فوج کے درمیا ن ایک دفعہ پھر غلط فہمیوں کو جنم دے کر انھیں معتوب ٹھہرائے جانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے؟ آئی ایس آئی کے سا بق سربراہ جنرل حمید گل ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ انھوں نے1988 میں آئی جے آئی ﴿اسلامی جمہوری اتھاد﴾ تشکیل دی تھی اور اس مقصد کیلئے انھوں نے پاکستانی خزانے سے کروڑوں روپے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے وقت بانٹے تھے تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو 1988 کے انتخابات میں واضح فتح سے روکا جا سکے۔ کیا آ ئینِ پاکستان اس کی اجازت دیتا ہے کہ ایک فوجی جنرل پاکستانی خزانے پر دن دحاڑے ڈاکہ ڈال کر ملکی خزانے کو ا پنی ذاتی خواہشوں کی تکمیل کی خاطر استعمال کرے؟ جنرل حمید گل کا یہ اقدام آئینِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی بھی اور اس سے کھلی بغاوت بھی ہے لہذا آئین کا آرٹیکل چھ﴿۶﴾ جنرل حمید گل پر منطبق ہوتا ہے لیکن مذہبی حلقے اور پی پی پی مخالف لابی تو جنرل حمید گل کو کسی ان داتا سے کم مقام دینے کو تیار نہیں ہے لہذا اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اعترافِ جرم کے بعد تو عدلیہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جنرل حمید گل کے خلاف سوموٹو ایکشن لے کر اسے سزا کا مرتکب قرار دے تا کہ غیر آئینی اقدامات کا راستہ روکا جائے لیکن وہ بالکل خاموش ہے ۔ آج کل آزاد عدلیہ کا بڑا ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے اور اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ آزاد عدلیہ اصغر خان کی آئینی پٹیشن پر جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی پر آئینی بغاوت کا فیصلہ سنا کر آئین کی دفعہ چھ﴿۶﴾کے تحت انھیں مجرم ثابت کر کے کڑی سے کڑی سزا سنا کر عوامی امنگوں کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوا بلکہ انھوں نے گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے کہ وہ فوجی جنتا کے تسلط سے نبرد آزما ہو۔جنرل مرزا اسلم بیگ کے اس اعلان کے بعد کہ 1988 میںا نھوں نے وسیم سجاد کے ذریعے عدالت کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو اگر عدالت نے بحال کرنے کی کوشش کی تو پھر ہمیں سڑک پار کرنے میں دیر نہیں لگے گی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ فوج کے ساتھ ٹکرانا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ۔ جنرل اسلم بیگ کے اس بیان پر توہینِ عدالت کی کاروائی بھی ہوئی لیکن جنرل اسلم بیگ باعزت بر ی ہو گئے جبکہ پی پی پی کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئیس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزارتِ عظمی سے فارغ کر دیا گیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں فوج کی بالادستی مسلمہ ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ماضی کی طرح آج بھی پوری توانائی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،