ڈاکٹر قمر تبریز
کشمیر میں پیدا ہونے والا ایک شخص امریکہ میں رہتے ہوئے آئی ایس آئی کے تعاون سے ہند مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ وہ بین الاقوامی سیمینار کراتا ہے، ہندوستان کے نامور صحافیوں اور دانشوروں کو اس میں مدعو کرتا ہے لیکن کسی کو ذرہ برابر شک بھی نہیں ہوتا۔ وہ کشمیری کاز کو آگے بڑھانے میں اپنی پوری جی جان لگا دیتا ہے، امریکی قانون سازوں کو گاہے بگاہے فنڈ مہیا کراتا ہے، کشمیر کے بارے میں امریکی موقف کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، تب بھی کسی کو اس پر شک نہیں ہوتا۔ لیکن اچانک جب ایف بی آئی کے ذریعے اسے حراست میں لیا جاتا ہے اور امریکہ کی ایک عدالت میں اس کے خلاف ایک کرمنل کیس، 43 صفحات پر مبنی حلف نامہ کے ساتھ داخل کیا جاتا ہے، تو سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میں بات کر رہا ہوں 62 سالہ غلام بنی فائی کی،جن کو امریکہ کی وفاقی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی نے گزشتہ 19 جولائی کی صبح ورجینیا کے فیئرفیکس میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اِن الزامات کے تحت گرفتار کیا کہ وہ گزشتہ 25 سالوں سے امریکہ میں ایک پاکستانی ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں، اور انہوں نے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر اپنا رجسٹریشن نہ کراکر امریکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ خفیہ طریقے سے نہ صرف حکومت پاکستان اور وہاں کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے رابطے میں تھے بلکہ ان سے خفیہ طریقے سے ہزاروں لاکھوں ڈالر منگواکر امریکہ میں کشمیر کے تعلق سے پاکستانی مفادات کو آگے بڑھانے کا بھی کام کر رہے تھے۔ وہ ان پیسوں کا استعمال سیمینار اور کانفرنس منعقد کرانے میں کرتے تھے تاکہ کشمیر کے بارے میں لوگوں کے خیالات و نظریات کو بدلا جاسکے۔
پاکستان کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ہندوستان سے دو بدو جنگ میں کبھی نہیں جیت سکتا، اس لیے اس کی پوری کوشش دوسرے طریقوں سے ہندوستان کے خلاف محاذ آرائی کرنا ہوتا ہے۔ 1989 میں آئی ایس آئی نے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سہ رخی پلان بنایا جس کے تحت پوری دنیا میں ہندوستان کے خلاف سیاسی چال بازی، دہشت گردی اور پروپیگنڈے کے ذریعے ہندوستان کے خلاف محاذ آرائی کرنا تھا۔ امریکہ میں غلام نبی فائی کی سرگرمیاں بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہیں۔
لیکن تعجب اس بات کا ہے کہ کشمیر جیسے حساس موضوع پر کوئی آدمی امریکہ میں لگاتار بین الاقوامی سیمینار اور کانفرنسیں کرتا ہے، اور ہمارے ملک کے چند نامور صحافی اور دانشور بغیر کچھ سوچے سمجھے اس میں شرکت کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کے لیے امریکہ آنے جانے، وہاں قیام کرنے کا مفت انتظام ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی جیبوں میں کچھ پیسے بھی آجاتے ہیں۔ ان حضرات کا نام سن کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔ ہندوستان سے جو لوگ فائی کے ذریعے منعقدہ کانفرنسوں میں اکثر شرکت کرتے رہے ہیں ان میں چند کے نام یوں ہیں : دلیپ پدگاؤنکر، جو اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مذاکرات کاروں کی سہ رکنی ٹیم کے ایک ممبر ہیں اور مشہور انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کے ایڈیٹر بھی ہیں؛ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر؛ نامور صحافی کلدیپ نیر؛ اور مشہور سماجی کارکن گوتم نو لکھا۔ دلیپ پدگاؤنکر انگریزی کے جس اخبار سے جڑے ہوئے ہیں، اس نے چند دنوں قبل پاکستان کے مشہور روزنامہ ’جنگ‘ کے ساتھ مل کر ’امن کی آشا‘ نام سے ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد ہند و پاک کے عوام کو امن و آشتی کا پیغام دینا اور دونوں ممالک کے درمیان موجود تلخی کو دور کرنا تھا۔ اسی طرح کلدیپ نیر صاحب کو جتنی عزت کی نگاہ سے ہندوستان میں دیکھا جاتا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ وہ تہذیبی وثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہندو پاک کے درمیان بہتر رشتوں کو استوار کرنے کی ہمیشہ کوشش کر تے رہے ہیں۔ لیکن اب جب کہ فائی کے تعلق سے ان کے اوپر بھی شک کی سوئی گھوم چکی ہے تو کیا اس بات کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی کہ یہ لوگ ہند و پاک کے تعلق سے جس قسم کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں، کہیں اس میں بھی تو آئی ایس آئی یا پاکستانی حکومت کی طرف سے پوشیدہ طور پر پیسے نہیں لگائے جا رہے ہیں۔ ایک تیسرے شخص ہیں گوتم نولکھا جن کے بارے میں اس وقت زیادہ جاننے کو ملا جب وہ مشہور سماجی کارکن بنائک سین کی حمایت میں کھل کر میدان میں آگئے تھے، کیوں کہ بنائک سین کو چند دنوں قبل چھتیس گڑھ کی ایک عدالت کے ذریعے ماؤنوازوں سے سازباز رکھنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن بعد میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ اس وقت گوتم نولکھا صاحب ہر پلیٹ فارم پر حکومت اور عدالت کی سخت تنقید کرنے میں لگے ہوئے تھے، لیکن آج فائی کے تعلق سے وہ بھی شک کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ ان لوگوں سے اب جب صفائی مانگی جا رہی ہے تو یہ سب ایک زبان ہوکر یہی کہہ رہے ہیں کہ انہیں فائی کے خفیہ مقاصد کا ذرہ برابر علم نہیں تھا۔ شاید یہ لوگ فائی کی فیس بک (Face Book)پروفائل کے جھانسے میں آگئے جس میں غلام نبی فائی نے لکھا ہے کہ وہ ’کشمیر تنازع کا پر امن حل سہ رخی بات چیت کے ذریعے چاہتے ہیں جس میں تینوں فریقین — حکومت ہند، حکومت پاکستان اور کشمیری عوام — شامل ہوں‘۔ لیکن اب جاکر پتہ چلا ہے کہ وہ صرف پاکستانی حکومت کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے اور ہندوستان کے خلاف امریکی قانون سازوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ غلام نبی فائی کا ماضی اتنا گمنام بھی نہیں ہے کہ ہمارے مذکورہ بالا دانشوروں نے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہوتی تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ جموں و کشمیر پولس کی مانیں تو، فائی اسی وقت شک کے گھیرے میں آگئے تھے، جب سری نگر میں طالب علمی کے دوران انہوں نے جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ وِنگ، جمعیت الطلباء کے زیر اہتمام ’ورلڈ مسلم یوتھ کانفرنس‘ منعقد کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش کی وجہ سے پولس نے ان کے خلاف ایک اریسٹ وارنٹ بھی جاری کیا تھا اور کانفرنس کے منعقد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اسی کے کچھ دنوں بعد فائی سعودی عرب روانہ ہوگئے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکی حکام کو غلام نبی فائی کی ان مشکوک سرگرمیوں کا علم اب ہوا ہے، بلکہ پہلے بھی وہ اس سلسلے میں فائی سے جواب طلب کر چکے ہیں۔ پہلی بار مارچ 2007 میں ایف بی آئی نے غلام نبی فائی سے آئی ایس آئی سے ان کے روابط کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ اس وقت فائی نے جواب دیا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہیں کی جس نے اپنی پہچان آئی ایس آئی کے رکن کے طور پر کی ہو۔ اس کے بعد مارچ 2010 میں امریکہ کے جسٹس ڈپارٹمنٹ نے ایک نوٹس بھیج کر فائی کو صلاح دی تھی کہ وہ جسٹس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ اپنا رجسٹریشن غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر کرالیں، لیکن تب بھی فائی نے ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی تنظیم ’کے اے سی‘ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنی طرف سے کسی غیر ملکی ادارہ یا حکومت کو کسی قسم کی خدمات فراہم کی ہیں۔ مارچ 2011 میں ایک بار پھر ایف بی آئی کے ساتھ پوچھ گچھ کے دوران فائی نے پاکستانی حکومت کے کسی بھی اہل کار کے ساتھ اپنا تعلق ہونے سے انکار کیا تھا۔
لیکن ایف بی آئی کی تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ فائی کو 20 سال سے زیادہ عرصے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے خفیہ طور پر مالی تعاون حاصل ہوتا رہا ہے۔ ایف بی آئی کے مطابق جون 2008 سے لے کر اب تک غلام نبی فائی نے حکومت پاکستان کے چار اہل کاروں کے ساتھ چار ہزار بار رابطہ کیا۔ یہی نہیں بلکہ فائی حکومت پاکستان کے ان چاروں اہل کاروں کو خفیہ طریقے سے ’کے اے سی‘ کے بجٹ کو چلانے کے لیے اپنی رپورٹیں بھیجتے رہے تاکہ وہاں سے انہیں منظوری حاصل ہو سکے۔ اس سلسلے میں ایف بی آئی کو ایک دستاویز بھی ملی ہے جس کا عنوان ہے ’مالی سال 2009 کے لیے کے اے سی/ کشمیر سنٹر کا پلان آف ایکشن‘۔ اس دستاویز کے ذریعہ حکومت پاکستان سے امریکہ کے کانگریسی اراکین کو دینے کے لیے 100,000 ڈالر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایف بی آئی کے ذریعے داخل کیے گئے حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غلام نبی فائی کو ظہیر احمد اور دوسرے فنڈنگ نیٹ ورک کے ذریعے 1990 کے وسط سے اب تک پاکستانی حکومت کی طرف سے کم از کم 4 ملین ڈالر بھیجے گئے۔ امریکی عدالت میں فائی کے خلاف لگائے گئے الزامات درست ثابت ہونے پر انہیں پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ غلام نبی فائی نے امریکہ میں رہتے ہوئے اپنے آقاؤں سے رابطہ کرنے کے لیے زیادہ تر امریکہ میں واقع پاکستانی سفارت خانہ کا استعمال کیا، لیکن امریکہ میں پاکستان کے سفیر اس کی نفی کرتے ہیں۔ اب حریت کانفرنس کے شدت پسند گروپ کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت بھی کھل کر فائی کی حمایت میں آگئی ہے اور کشمیر کے تعلق سے ان کی کوششوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت فائی کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے اور ہندوستانی حکومت کا رویہ کیا ہوتا ہے۔
کون ہے فائی
غلام نبی فائی کی پیدائش ہندوستانی ریاست جموں و کشمیر کے بڈگام ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں وادوان میں ہوئی۔ 1971 میں سری نگر کے پرتاپ کالج سے گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فائی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں پر انہوں نے ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد فائی اسلامیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب چلے گئے، جہاں انہوں نے مکہ کی ام القراء یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کشمیر میں طالب علمی کے زمانہ میں ہی ان کا رابطہ ریاست جموں و کشمیر کی جماعت اسلامی سے ہوا، اور وہ جماعت اسلامی، جموں و کشمیر کے بانی مولانا سعدالدین کے اتنے قریبی ہوگئے کہ مولانا نے انہیں اپنا پرسنل سکریٹری بنالیا۔ بعد میں مولانا سعد الدین نے ان کے لیے سعودی عرب کے تعلیمی وظیفہ کا انتظام کیا، جس کی وجہ سے ان کا داخلہ مکہ، سعودی عرب کی ام القراء یونیورسٹی میں ہوا۔1983 میں غلام نبی فائی کچھ دنوں کے لیے ہندوستان واپس لوٹے اور کشمیر میں قیام کے بعد واپس سعودی عرب چلے گئے جہاں پر وہ اس دفعہ بطور ایک ٹیچر کام کرنے لگے۔ سعودی عرب میں ان کا قیام کچھ دنوں تک ہی رہا اور وہ وہاں سے امریکہ چلے گئے جہاں پر انہوں نے پین سلوینیا کی ٹیمپل یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور وہیں پر پڑھانے بھی لگے۔ اسی زمانے میں گرین کارڈ ملنے کے بعد فائی کو باقاعدہ امریکہ کی شہریت حاصل ہوگئی، جس کے بعد انہوں نے ہندوستان کا دوبارہ کبھی رخ نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ (حریت کانفرنس کے لیڈروں کے مطابق) ہندوستانی حکام نے ان کا پاسپورٹ ردّ کر دیا تھا۔ امریکہ جانے سے قبل ہی فائی کی شادی ایک کشمیری لڑکی سے ہو چکی تھی، جو اب بھی اُن کے آبائی گاؤں، وادوان میں رہتی ہے۔ لیکن امریکہ کی شہریت ملنے کے بعد فائی نے چینی نژاد ایک مسلم لڑکی سے دوسری شادی کرلی، جن سے ان کے دو بچے ہوئے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔
امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے امریکہ اور یوروپ میں کشمیری علیحدگی پسند گروپ حریت کانفرنس کے سیاسی معاون کے طور پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ 1990 میں انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کشمیری امیریکن کونسل (کے اے سی) کے نام سے ایک رضاکارانہ تنظیم (این جی او) کی بنیاد ڈالی، جو ’کشمیر سنٹر‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ غلام نبی فائی فی الحال اس کے ڈائریکٹر ہیں۔
کے اے سی پر امریکی حکام کے الزامات
کشمیری امیریکن کونسل (کے اے سی) اپنا تعارف خود کراتے ہوئے کہتی ہے کہ اس تنظیم کا مقصد منافع حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی جدوجہد کے بارے میں امریکہ کے لوگوں کی جانکاری میں اضافہ کرنا ہے۔ لیکن ایف بی آئی کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ حالانکہ ’کے اے سی‘کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک کشمیری تنظیم ہے جس کو چلانے والے کشمیری ہیں اور اسے مالی تعاون امریکیوں سے حاصل ہوتا ہے، تاہم حقیقت میں ’کے اے سی‘ اُن تین ’کشمیر سنٹرس‘ میں سے ایک ہے جسے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) سمیت پاکستانی حکومت کے ارباب چلاتے ہیں۔ اس کے بقیہ دو مراکز لندن اور برسیلز میں ہیں۔ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کے اٹارنی جنرل نیل میک برائڈ نے غلام نبی فائی پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مسٹر فائی اس بات کے ملزم ہیں کہ وہ کئی دہائیوں سے صرف ایک مقصد کے تحت کام کر رہے تھے کہ کیسے کشمیر پر امریکی حکومت کے موقف کو متاثر کرنے کی اپنی کوششوں میں پاکستان کی طرف سے مل رہے تعاون کو خفیہ رکھا جائے۔‘‘ ایف بی آئی کے ذریعے داخل کیے گئے حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی جانچ کے دوران ایک خفیہ گواہ نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ وہ (گواہ) خود ایک ایسی اسکیم میں شامل تھا جس کا مقصد آئی ایس آئی کے ذریعہ فائی کو مہیا کرائے جانے والے پیسوں کے راز کو چھپا کر رکھا جائے۔ اسی گواہ نے ایف بی آئی کو یہ بھی بتایا کہ فائی تک یہ پیسے ظہیر احمد کے ذریعے پہنچتے تھے۔ 63 سالہ ظہیر احمد امریکی شہری ہے جو پاکستان میں رہائش پذیر ہے، اس پر بھی وہی سارے الزامات لگائے گئے ہیں جو فائی پر ہیں لیکن اسے ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے اور امریکی تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ وہ اس وقت پاکستان میں ہی کہیں رہائش پذیر ہے۔
What do you say about thousands of unnamed people found buried together in Kashmir held under forced military occupation by India ?
Is that also done by ISI of Pakistan ?
السلام اعلیکم
ہندوستان جیسے معصوم ملک کے خلاف اتنی بڑی سازش ہوئی اور بالاخر پکڑی گئی۔ کچھ اور سازشوں سے بھی پردہ اٹھائیے تاکہ سب کا جواب ایک ہی دفعہ میں دے دیا جائے
hairat hai ki yai bat bahut dir k bad malum huwe