ہندوستان میں نقصان خواہ دہشت گردی سے ہو یا فسادات کے ذریعہ ہر حال میں زیاںمسلمانوں کا ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے ملک بھرکے مسلم نوجوانوں خصوصا آئی ٹی اورپروفیشنلز مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیااوراس طرح مرکزی حکومت نے ہزاروں مسلم کنبوں کو سڑکوں پرلاکھڑا کردیا۔ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے یکسوئی کے ساتھ تعلیم کی طرف توجہ کی تھی تاکہ وہ حکومت ہند کے اس مفروضے کو مسترد کرسکیں کہ مسلم نوجوان پڑھے لکھے نہیں ہیں نوکری کیسے دیں۔ اس تعلیمی بیداری نے مسلمانوں کوتعلیم کی طرف متوجہ کیا اور وہ اپنے بچوں کو جس سطح پر بھی وہ طاقت رکھتے تھے بچوں کو پڑھانا شروع کردیالیکن یہ بھی مرکزاور ریاستی حکومت کے فرقہ پرست لیڈروں اور معتصب افسر شاہوں کو راس نہیں آیا۔ مرکزی حکومت مسلمانوں کی تعلیمی،معاشی اور سماجی حالت بہتر بنانے کے لئے اسکیمیں بناتی رہیں اوریہ لیڈران اور افسران اس پر خاک ڈالتے رہے۔ گجرات ۲۰۰۲ کے بعد ملک میں کوئی بڑا منظم طور پر فسادنہیں ہوا تھا۔ حالانکہ اس دوران مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہے اور مسلمانوں کو تعلیمی اورمعاشی ترقی کی راہ پر چلنے سے روکنے کے لئے متعددکوششیں ہوتی رہیں لیکن مسلمان آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ مسلمانوں کے حالات اس وقت مزیددگرگوں ہوگئے جب ۲۰۰۹ میں مسلمانوں نے گانگریس کو منظم طور پر ووٹ دیااورکانگریس کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد دو سوسے پارکرگئی۔رتھ یاترا کے ماہر ایل کے اڈوانی کاوزیراعظم بننے کاخواب چکنا چور ہوگیا۔ اسی وقت بی جے پی اورآر ایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیمیں یہ طے کرچکی تھیں تشددکے بغیر وہ اقتدار میںنہیںآسکتیں۔ اس کے بعد جہاں جہاں بی جے پی برسراقتدارتھی وہاں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کا اتباع کانگریس حکومت والی ریاستوںنے بھی کیا۔ مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے نت نئے بہانے تراشے جانے لگے اور اس دوران مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے فاربس گنج پولیس فائرنگ، گوپال گڑھ فساد، مراد آباداورحالیہ دنوں میں اترپردیش میں ایک مہینے کے اندر تین جگہ مسلم کش فسادات برپاکرنے کے بعدان فرقہ پرست پارٹیوں کا نشانہ اس وقت آسام ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومت کو یہ معلوم تھا کہ فسادات برپا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ مقامی انتظامیہ بھی اس سے بے خبر نہیں تھی اس کے باوجود اس طرح کی سنگین واردات کو روکنے کی ادنی سی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ چنددن مسلم تنظیمیں شور و غوغا کریں گی اورریلیف کے نام کروڑوں جمع اورلاکھوں تقسیم کریں گی اس کے بعد سب بھول جائیںگے اورپھر یہ خبر لینے والا کوئی نہیں ہوگا کہ فسادزدہ اورمتاثرین پرکیا گزررہی ہے ۔ لاچاری اور بے بسی کے عالم میں وہ ظالموں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں اور فسادیوں کے خلاف چلنے والے مقدمات اپنے آپ دم توڑ دیتے ہیں۔
آسام میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جوکچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے وہ کم از کم آسامی مسلمانوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس کاسرابھی جواہر لال نہروکی ذہنیت سے جڑا ہوا ہے۔جس طرح کشمیر میں ۳۷۰ نافذ ہے اسی طرح شمال مشرق کی بعض ریاستوں میں اسی طرح کا انتظام ہے کہ وہاں مسلمان زمین نہیں خریدسکتے ساری ریاستیں آسام سے ہی الگ ہوئی ہیںالبتہ ہندو اگر وہاں کی ہندو لڑکی سے شادی کرتے ہیں انہیں یہ سہولت حاصل ہوجاتی ہے ۔ یہ واقعہ مسلمانوں کی تاریک ذہنی،دوررسی کے فقدان اورکسی بھی معاملے کو ہلکے اندازمیں لینے یابیان بازی کے حد تک لینے کو اجاگر کرتاہے۔ ابتداء میں اگر اس بارے میں مؤثرانداز میں حکومت ہند اور حکومت آسام کے سامنے معاملہ اٹھایا جاتاہے تو یہ نوبت نہیں آتی جو آسامی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اس طرح کے حالات کا شکار ہیں۔ کمیونسٹ کے بارے میںکہا جاتاہے کہ وہ عوام کو غریب رکھناچاہتے ہیںتاکہ ان کی علمبرداری کے لئے ایک فوج ہمیشہ دستیاب رہے اسی طرح ہندوستان میں مسلم تنظیمیں اسی جدوجہد میں اپنا سارا وقت گزار دیتی ہیں کہ مسلمان کسی حالت میں ترقی نہ کریں ورنہ ان کی بھیک کاٹکڑا کون لے گا۔ ہزار روپے کے امداد دیکر لمبی لمبی خبریں کیسے بنوائی جائیںگی، اخبارات میں نمایاں تصویرکیسے شائع ہوںگی اور اس کے بدلے کروڑوں روپے عطیہ دہندگان سے کیسے وصول کیا جائے گا۔ جس طرح گورکن کسی کے مرنے کی خبرسے خوش ہوتا ہے اسی طرح تنظیم سے وابستہ بعض علماء کرام اورمسلم رہنما خوش ہوتے ہیں ۔کیوں کہ یہ فسادات ان لوگوںکو سرخیوں میں لادیتے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ مسلم تنظیمیں آج تک کوئی مسئلہ حل نہیںکراسکیں۔ وزیر اعظم اورمرکزی وزرائے سے محض ملاقات کو معراج سمجھ لیاجاتاہے ۔ یقین دہانی یا وعدے سے اتنے خوش ہوتے ہیںکہ ایسا لگتاہے کہ جیسے ایک نہیں درجنوں معاملات کا نمٹارہ کرکے آئے ہوں۔ ہوناتویہ چاہئے کہ جب تک معاملہ حل نہ ہوجائے اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں خواہ اس کے لئے ان لوگوںکو بھوک ہڑتال پربیٹھنا پڑے یا مسلسل احتجاج کرنا پڑے۔ اپنے بڑے بڑے پروگراموںمیں تمام پارٹیوںکے لیڈروں اورمرکزی وریاستی وزرائے کواسٹیج کی زینت بناکر بھولے بھالے مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ وزرائے ان کی جیب میں ہیںاور مسلمانوں کا کوئی کام ان کے اشارے کے بغیر نہیںہوسکتا۔آسام فسادات کی خبر میں ان کی تعریف و توصیف اور کارنامہ زیادہ ہے اور متاثرین پر کیا گزر ی ہے یہ اس پر کم توجہ دی گئی ہے۔
تشدد سے مغربی آسام کے چار اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ یہ اضلاع کوکرا جھار، چرانگ، باکسا اور اوڈالگوڑی ہیں۔ ایسے ہی ایک تشدد میں 1993 میں باسباڑی کے ایک بے گھر کیمپ میں 100 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ آسام میں تشدد صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں ہے۔ اس تشدد کے سبب ہندوستان کے کئی مشرقی مغربی ریاست متاثر ہوئے ہیں۔کوکرا جھار کا یہ علاقہ بے حد اہم ہے کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جو آسام کو ملک کے باقی حصے سے جوڑتا ہے۔آسام میں 27 اضلاع میں سے 11 ضلع مسلم اکثریت والے ہیں اور ریاست کی 126 اسمبلی سیٹوں میں سے 60 میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہے ۔ 19 جولائی کوبوڈو قبائلی کے لوگوں نے مسلم نوجوانوں پر حملہ کردیا تھا اس پر مسلم نوجوانوں نے جوابی قدم اٹھایا جس کے بعد بوڈوں نے تشدد کا ننگا ناچ شروع کردیا اور اس تشدد میں غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔آسام میں میں نسلی اور فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ رہی ہے۔ ۱۸ فروری ۱۹۸۳ میں نیلی میں فساد ہوا تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے اس فساد کو ہوا دینے کا الزام ایک بی جے پی نام نہاد معتدل رہنما پر ہے اوریہی کام اس وقت بی جے پی کے بزرگ رہنما ایل کے اڈوانی نے کیا ہے۔ آسام کے حالیہ فسادات بوڈو لینڈ کے علاقہ میں ہوئے ہیں اس سے قبل ۱۹۹۳ ، ۱۹۹۴، ۱۹۹۶اور ۲۰۰۸ میں اس قسم کے فسادات ہوچکے ہیں۔ ۱۹۹۶ میں بھی دولاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے اور ہلاکتوں کی تعداد ۲۰۰سے زائد تھی۔بوڈو عوام کی ابتدائی جنگ حکومت ہند کے خلاف تھی۔ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ نے آزادی کے حصول کے لئے ۱۹۸۸ میں اپنی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا لیکن ۲۰۰۳ میں حکومت کے ساتھ بوڈوؤں کا معاہدہ ہو گیا۔ بوڈو گوریلا کے جنگجو وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات منوانے کیلئے نہتے مسلمانوں کو اپنی دہشت گردی کا شکار بناتے رہے ہیں۔آسو نے بھی یہی کیا تھا اوربنگالی مسلمانوں کے نام پر نیلی میں قتل عام کیااور پھر حکومت ہند سے معاہدہ کرکے اپنی سیاسی جماعت اے جے پی بنائی اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کر کے اپنی ریاستی اقتدار پر قابض ہوگئے تھے ۔ نیلی فسادات میں سرگرم کردار ادا کرنے والوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ کانگریس کی مرکزی حکومت نے آسو کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے ان کے خلاف چلنے والے تمام مقدمات واپس لے لئے تھے ۔ جب مقدمات ہی نہیں رہے تو فسادیوں کو سزا دئے جانے کا کوئی سوال ہی نہیںپیدا ہوتا اور اس طرح تین ہزار مسلمانوں کا خون یوں ہی رائیگاں گیا۔
آسام کے فسادات میں اب تک جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں وہیں چار لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ یہ افراد چار سو گاؤں میں۲۷۵ کیمپوں میں نہایت کمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بوڈو قبائلی کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی حمایت حاصل ہے ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں لوٹنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا ۔ گھروں کو پوری طرح تباہ کیا گیا۔آسام کے چار اضلاع میں مسلمانوں کومسلح بوڈو دہشت گردوں نے جم کر لوٹا۔ بوڈوپہلے دہشت گرد تنظیم تھی لیکن ایک معاہدہ کے تحت وہ قومی دھارے میں واپس لوٹ آئے لیکن چوں کہ وہ ہندو یا عیسائی قبائلی ہیں اس لئے معاہدہ ہونے کے باوجود ان سے ہتھیار نہیں لیا گیا جس کا استعال ان لوگوں نے فسادات کے دوران کیا۔ بوڈو لینڈ ٹیری ٹوریل ایریا ڈسٹرکٹس (بی ٹی اے ڈی) ایسے علاقے میںقائم کیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ معروف سماجی کارکن اور صحافی شمیم احمد حاجی پوری جنہوں نے فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک طویل عرصہ تک آسام میں گزار چکے ہیں کے مطابق بوڈو کونسل میں مسلمان نہیں ہیں۔ بوڈو قبائلی اگر ہندو ہیں تووہ بی جے پی کے ساتھ ہیں اگر عیسائی ہیں تو وہ کانگریس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ ۲۵ جون ۱۹۷۱ میں جاری ایک نوٹی فیکیشن کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا کہ ۲۵ جون سے پہلے جو جہاں ہیں وہیں کے شہری تصور کئے جائیں گے۔ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے نام پر آسام میں جو مسلمانوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے وہ پہلی بات یہ کہ یہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں کیوں کہ جس وقت انگریزوں نے آسام میں زراعت کے لئے ان لوگوں کو لایا تھا اس وقت بنگلہ دیش کا وجوود نہیں تھا اور موجودہ بنگلہ دیش ہندوستان کا حصہ تھا۔ موجودہ مسلمانوں کی تیسری اور چوتھی نسل ہے۔ اس کے برعکس ہندو بنگلہ دیشی بنگلہ دیش بننے کے بعد لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد آسام اور مغربی بنگال میں مقیم ہیں لیکن اس کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔آسام میں دو فیصد صرف برہمن ہیں لیکن وہ ہر شعبے پر قابض ہیں۔ پرفل مہنت کا بھی تعلق اسی طبقہ سے تعلق ہے۔ آسام میں آج جو کچھ وہ ان ہی مسلمانوں کی وجہ سے ہے ورنہ اس سے پہلے وہ صرف ایک جنگل تھا۔ مسلمانوں نے اپنی محنت سے اس علاقہ میں جنگل کو صاف کرکے زراعت کو فروغ دیااور آج یہ علاقہ سیاحت کے لئے بھی مشہور ہے۔
بوڈو لینڈ کے توسط سے سنگھ پریوار اپنا پرانا کھیل کھیل رہا ہے اور اس کا بھرپور ساتھ کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومت دے رہی ہے۔ورنہ تشدد شروع ہوتے ہی فوج کی تعیناتی کی جاتی۔اے یوڈی ایف کے صدر اوررکن پارلیمان بدرالدین اجمل کے مطابق اس فساد میں بوڈو پیوپلس فرنٹ کے سارے گیارہ ممبران اسمبلی ملوث ہیں اس لئے بوڈو سرحدی کونسل کو فی الفور برخاست کر دینا چاہئے۔ اس فساد کو صدر جمہوریہ کے حالیہ اختتام پذیر انتخاب سے بھی منسلک کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ صدارتی امیدوار پی اے سنگما جو اتنے طویل عرصے میں کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ قبائلی لیڈر ہیں لیکن صدر جمہوریہ کے لئے بی جے پی کا امیدوار بنتے ہی وہ خود کو قبائلی لیڈر کہلانے لگے اور انہوں نے مولانا بدرالدین اجمل سے جس کے ۱۷ ممبران اسمبلی ہیں اور آسام کی مین اپوزیشن پارٹی ہے، حمایت طلب کی تھی ۔اے یو ڈی ایف کے صدر نے حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کیوں کہ مسلمان آسان لقمہ ہیں اس لئے قبائلیوںکی حمایت نہ کرنے کے نام پر بھی آسام میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ بوڈو لینڈ کے قیام کی تحریک بوڈو لبریشن ٹائگرز نے چلائی تھی۔ یہ تنظیم اگرچہ اب ختم ہوچکی ہے لیکن بی ٹی سی کی قیادت اسی تنظیم کے سابقہ رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کی پارٹی ۲۰۰۶ سے کانگریس کی اتحادی ہے۔ موجودہ لڑائی بظاہر دو مسلمان نوجوان رہنماؤں پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی اور اس حملے کے لیے بوڈو لبریشن ٹائیگرز کے سابق کارکنوں کو ذمہ دار بتایا جا رہا ہے۔جو تین اضلاع اس وقت تشدد کی زد میں ہیں ان میں بوڈو قبائلیوں کا غلبہ ہے اور یہ بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اس فسادکا ایک مقصد آسامی مسلمانوں کو اس بات کے لئے بھی سزا دینا ہے کہ انہوں نے ایک پارٹی کیوں بنائی اور اتنی بڑی تعداد میں ووٹ دیکر اہم اپوزیشن پارٹی کیوںبنایا۔اس فسادکو ایک منظم سازش کے ساتھ برپاکیا گیا اس کا اہم اس علاقے سے مسلمانوں کا انخلاء ہے۔ تاکہ بوڈو قبائلی اس علاقے میں اکثریت پیدا کرسکیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس طرح گجرات میں قبائلیوںکو سنگھ پریواراوراس کاسیاسی بازو بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا تھا وہی طریقہ آسام میں بھی اختیارکیاجارہا ہے۔ بوڈو چوں کہ مسلح ہیں اس لئے وہ جب چاہتے ہیں مسلمانوں کے خلاف قتل غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں۔
اس خون آشام کے لئے بوڈو اور کانگریس دونوں ہی مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔ کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ اس کا سب سے اہم مقصد آسام میں مسلمانوںکی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ ان میں سیاسی شعور کی بیداری کی وجہ سے کانگریس اور بوڈو دونوں بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ۷۰ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ تمام مسلم رہنماؤں کی پہلی کوشش اب یہ ہونی چاہئے کہ تمام مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ اندراج ہو اور اتحاد و اتفاق کے وہ اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کریں ۔ اے یو ڈی ایف کی بڑھتی ہوئی طاقت سے کانگریس اور بوڈو خوف زدہ ہیں۔ اسی کا غصہ انہوں نے مسلمانوں پرنکالا ہے تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوکر حق رائے دہی میں حصہ نہ لے سکیں۔اس کے علاوہ مسلم رہنماؤں کو یہ بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ جس طرح بوڈو مسلح ہیں اسی طرح آسامی مسلمانوں کو مسلح کیا جائے بصورت دیگر ان سے بھی ہتھیار چھین لیاجائے۔ ویسے بھی بوڈو کوہتھیاروں کی کیاضرورت ہے ان کی مدد کے لئے پوری انتطامیہ موجود ہے۔ پولیس ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مسلم تنظیمیں اس برے وقت میں کام کر رہی ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن بھیک دینے کے بجائے آسامی مسلمانوں کو پیر پر کھڑا ہونے میں مدد کرنی چاہئے اور اس حدتک کھڑا کرنا چاہئے کہ وہ اپنادفاع کرسکیں۔ فساد کے ملزمین کو انصاف کے کٹہرے لانے کی کوشش اس وقت تک ترک نہ کریں جب کہ انہیں سزا نہیں مل جاتی ورنہ یہ فساد ا ت کا سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا وزراء گھڑیالی آنسو بہاکر اپنی ذمہ داری پوری کرلیں گے ۔اس کے علاوہ مسلمانوں جہاں یہ معاملہ قومی سطح پر اٹھانا چاہئے وہیں بین الاقوامی برادری کو متوجہ کرنا چاہئے تاکہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے پر مجبور ہوجائے۔
ڈی۔ ۶۴ فلیٹ نمبر ۱۰، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ، نئی دہلی۔
abidanwaruni@gmail.com
9810372335