وطن عزیزمیں پند و نصائح کی مجالس میں اگر موجودہ حالات کے تناظر میں آئینہ دکھانے کی جسارت محض اس خوش گمانی کی نیت سے بھی کی جائے کہ چہرہ کے بگاڑ کو ذرا بنا سنوار لیں تو ہر طرف سے اس آئینے کے ساتھ ساتھ آپ پر بھی پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار بودے دلائل کا سہارا لیکر نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بالآخر تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ غیروں کے خورشید کا سہارا لیکر ہماری ظلمتوں کا مذاق مت اڑائیں۔لیکن جو بات صحیح ہے اس کو غلط کیسے کہوں؟گمراہوں کیلئے راستے کی کیا قید!جب اپنی گمراہی کوہی سیدھا رستہ سمجھ لیا جائے تو سمجھانا بیکار ۔مجھے اپنی تمام تر خامیوں کا اعتراف ہے اور میں اس کا برملا اعتراف بھی کرتا رہتا ہوں لیکن کیا سچ اور حق بات کہنے اور لکھنے سے بھی منہ موڑ لوں؟مجھے اپنے بارے میں ایسا کوئی عارضہ بھی لاحق نہیں کہ آپ میری تحریروں کو پڑھ کر میرے بارے میں یہ گمان کریں کہ مجھے کسی داد و تحسین کی خواہش ہے لیکن دل میں یہ آرزو ہر وقت تڑپائے رکھتی ہے کہ وطن عزیز کی قسمت بدل جائے۔
ان گنت تعداد میں ٹیلیفون، ای میلز اور خطوط کا تانتا اس بات کی ہمت دلاتا رہتا ہے کہ یہ مشن جاری و ساری رہنابہت ضروری ہے۔میں یہ تمام خطوط اور ای میلزپڑھنے کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں اور کچھ کے جوابات بھی دیتا ہوں۔لیکن کچھ مراسلے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بار بار پڑھنے کے باوجود ان کا جواب دینے سے قاصر رہتا ہوں۔لیکن شاید آپ کے پاس اس کا کوئی جواب ہو!دن اور رات عجیب و غریب واہموں میں کٹ رہے ہیں۔
”بہت سمجھایا آپ کو،بے شمار دلائل بھی سامنے رکھے لیکن آپ کسی کی سنتے اور مانتے کب ہیں!شاید ہماری آواز میں اتنا زرو نہیں کہ جس میں آپ کی آواز دب کر رہ جائے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو ہماری صدا سننی پڑے،نہ ہمارے قلم کی وہ رفتار اور برق بازی جو آپ کے ارادوں کا منہ موڑ سکے اور آپ کے ضمیری طوفان کو روک سکے۔
جانتے ہیں کیوں روکنا چاہتا ہوں آپ کو؟آپ کی آواز کو؟آپ کے الفاظ کی آتش سے بچنے کیلئے۔بارہا چاہا کہ آپ کی چیخوں سے بے بہر ہ رہوں مگر کیسے؟کچھ دنوں کیلئے آپ کے مضامین پڑھنے پر خودساختہ پابندی لگائی لیکن اس ارادہ پر بھی قابو نہ رکھ سکا کہ بازگشت سے اب پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔
خود تو آپ مضطرب بھی ہیں ،طوفان بھی،کرب کا میدان بھی اور با ضمیر بھی،انہی امراض کا نتیجہ آپ کی تحریریں بھی ہیں مگر․․․․․․․!!!آپ کیوں نہیں سمجھتے ؟بھینسوں کے آگے بین بجانے سے کیا حاصل؟برسوں سے لکھنے کا مرض پال رکھا ہے آپ نے ،بے شمار مضامین اور کتابیں بھی لکھ ڈالیں،لوگوں کو بے کل کیا اور خود بھی ہوئے،قلم کو دن میں چین آیا نہ رات کو․․․․․․مگر اونٹ نہ اِس کروٹ بیٹھا نہ اس کروٹ۔
میرا مشورہ اب تو مان لیں!چھوڑیئے،اب الفاظ کے زہر نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔آپ کچھ بھی کہیں ،بے ضمیروں پر اثر نہیں ہوتااور با ضمیر وں پر اثر کا کیا فائدہ!میرا یہ سچ آپ کو بھی کڑوا لگے گا ورنہ کوئی تو بدلا ہوتا۔کیا کہا ”بدلا ہے“!دن یا رات کا موسم یا نظام؟انسانوں کو بدلئے ناں․․․․․․ہاں یہ بھی سچ کہا !بھلا انسان ہیں کہاں؟ورنہ خالد بن ولید سے لیکر محمد بن قاسم تک انسان ہی تو تھے۔ہاں آدمیوں کی بھیڑ ضرور ہے کہ دم لینا یہاں محال ہو رہا ہے!بھیڑ بھی ہے اورمرے ہوئے ضمیروں کی لاشوں کا تعفن بھی!اب اسی تعفن سے مزید اموات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
آدمیوں کی بھیڑ سے انسانوں کی تلاش؟کیا خوب ہیں آپ!نمک کی کان سے مٹھاس کی تلاش کر رہے ہیں!!!ہاں آپ اور دوسرے اہل قلم جو بے چین روحوں کی مانند ہیں وہ بھی تو پورے انسان نہیں آدھے ضرور ہیں۔پوار انسان توعافیہ صدیقی کو کہتے ہیں جس نے قلم کی بجائے تلوار کو اپنے ہاتھوں کی زینت بنایا۔ہاں وہی عافیہ صدیقی جس کیلئے آپ کے کئی مضامین نے ہم کو ہلکان کر دیا ،خود بھی بے چین رہے اور ہم سب کو بھی رلاتے رہے،جانتے ہیں ناں آپ!
اس پتلی دھان پان کی لڑکی کو یہ پیغام بھیجنا مت بھولئے کہ اب محمد بن قاسم کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔عافیہ صدیقی کو یہ پیغام بھی ضرور دیں کہ جب قصر سفید کے گھمنڈ ی فرعون کی جیل سے تمہاری روح کو اپنے جسم سے رہائی ملے تو اس مْردوں کی زمین پر مت آنا،ہاں یہی پاکستان جو اب مْردوں کی زمین ہے۔کیا کریں گی یہاں آکر؟وہ زندہ لاش ہی سہی‘مگر یہ تو خود مْردوں کی بستی ہے ․․․․ہم انہیں وہ ماہ و سال ‘زندگی کی وہ بہاریں‘جو انہوں نے سسکتے بلکتے ہوئے تنہا گزار دیں‘کہاں سے لا کر دیں گے؟خدارا! آپ وہاں سے آزاد ہوتے ہی روح کو بھی آزاد کروالیجئے گا!!!
مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتا ہے یہی ایام تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی
ہم پاکستانی اپنے بچوں کو کیا تحفہ دیتے ہیں ؟کبھی جامعہ حفضہ کی مسخ شدہ لاشیں‘کبھی وزیرستان اور باجوڑ والے بے گناہوں کی لاشیں۔اس دفعہ کا تحفہ تو اور بھی نایاب دیا ہے ہم نے‘پاکستان کی ایک اوربلکتی ہوئی بیٹی آمنہ کی داستان اور بربادی کا افسانہ․․․․بتائیں ناں کیسا لگا‘کیسا لگا یہ تحفہ؟ساری دنیانے ٹی وی پرآمنہ کوروتے بلکتے ہوئے دیکھاجودہائی دے رہی تھی ،بین ڈال رہی تھی،اس کی چیخ وپکارسے دیکھنے والوں کے دل بھی تڑپ اٹھے ،وہ پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں روروکردہائی دے رہی تھی کہ اسے اپنے اس باپ سے الگ نہ کیاجائے جوبیٹی کی جدائی کے صدمے سے ہسپتال پہنچ گیاہے لیکن عدالتی ہرکاریجنہون نے زبردستی گاڑی میں بٹھانے کافریضہ سرانجام دیا آج یقینا وہ اپنے گھروں میں اپنی بیٹیوں سے نظریں چرانے کے عذاب میں مبتلاہوں گے۔ بوڑھے اوربے بس داداکے کانوں میں پوتی کی چیخیں پگھلتے ہوئے سیسے کی طرح انڈیل دی گئیں کہ ہائی کورٹ نے فیصلہ صادرکردیاہے کہ بچی کواس کی غیرملکی فرانسیسی ماں کے حوالے کردیاجائے کہ جس معاشرے کی قباحتوں سے بچاکراس کاباپ اپنی بیٹی کی مرضی سے اس کواپنے ساتھ یہاں لایاتھاکہ یہ وہ ملک ہے جس کوکلمہ کی بنیادپرحاصل کیاگیاتھااوراسی ملک کے ساحل سے ایک بیٹی نے فریادکی تھی تومحمدبن قاسم ان ظالموں پرقہربن کرٹوٹ پڑاتھا۔کہاں ہیں حقوق نسواں کی آزادی کی باتیں کرنے والی لاتعداداین جی اوز؟کیامعصوم آمنہ کو”نسواں“ کے دائرے سے خارج کردیاہے تم نے؟ یقینا چوہدری افتخارصاحب نے بھی ٹی وی پریہ منظرتوضرورملاحظہ کیاہوگا۔یہ بچی بھی بہادرپلوشہ جیسی نظرآتی ہے جوہرحال میں اپنے باپ کے ساتھ رہنے کاحق مانگتی تھی۔ا
مجھے نجانے آج کیوں وہ ایک پاکستانی باغیرت عیسائی جسٹس کارنیلس بری طرح یادآرہے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے عدالتی فیصلوں میں بلکہ عام زندگی میں بھی اسلام کے عادلانہ قوانین کو دلائل کے ساتھ ثابت کیاکرتا تھا۔آمنہ کی اس چیخ وپکارپرتوان کی روح بھی مضطرب ہوگی کہ ایک مسلمان بچی کواس کی مرضی کے خلاف کیوں اس معاشرے کے حوالے کردیاگیاجہاں اٹھارہ سال کی بچی کویہ حق ہے کہ وہ اپنے ہی گھرمیں جواں بہن بھائیوں اوروالدین کی موجودگی میں اپنے کسی بھی بوائے فرینڈکو اپنے کمرے میں مدعوکرلے ۔ اگروہ جسم فروشی جیسارذیل دھنداشروع کردے تواس کوروکنے ٹوکنے اورسمجھانے ولاکوئی نہیں۔جہاں شادی سے پہلے بچوں کی ماں بنناکوئی عیب نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں افزائش نسل کیلئے کئی وظائف میسر ہیں۔
ضمیر بحال نہ سہی لیکن اب عدلیہ تو بحال ہے،تا حال آپ کا قلم تو بحال ہے اورکچھ نہیں تواپنے قلم کے کرتب تو دکھائیں‘شاید عوام اسی سے بہل جائیں۔جہاں پاکستانی قوم چپ چاپ مہنگائی‘ناانصافی اور عریانی و فحاشی کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے وہاں بے غیرتی کے سمندرمیں بھی غرق ہو جائیں․․․․․بے فکر رہیں بڑا اجر و ثواب ملے گا اس کا ․․․․۱۱۱“
فقط آپ کا خوابیدہ ضمیر
آنکھ کھلی تو پسینے سے شرابور کانپتا جسم دیکھ کر بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ خواب تھا۔
گردش دہر ہی کیا کم تھی جلانے کو تو بھی آ پہنچا ہے دہکتے ہوئے رخسار کے ساتھ
”بہت سادہ ہو تم !میں کہاں سے با ضمیر ہو گیا ہوں ‘کہاں کی بے چینی اور بے کلی‘کون سا کرب!میں تو ایلیٹ کلاس سے ہوں‘مزے اڑا رہا ہوں‘دنیا کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہورہاہوں۔کبھی ایک لمحے کیلئے بھی ایسے کسی کرب سے نہیں گزرا جس سے تم ہرروز وطن عزیز پاکستان میں گزرتے ہو۔ہاں ! یہ تم نے صحیح کہا ‘الفاظ کی بازی گری آتی ہے مجھے اور میں مداری کی طرح قلم سے ہر روز کرتب دکھاتا ہوں۔اور ہاں!مجھ میں تو خود آگ نہیں تو پھر میرے الفاظ میں کہاں سے آگئی یہ آگ!
بہر حال آئینہ دکھانے پر تم بڑ ے خوش نظر آرہے ہو ‘میں بھی تمہارا بڑا مشکور ہوں”بہادر ہمیشہ با وقار موت کا سامنا کرتے ہیں“اور میں کہاں سے با وقار ہو گیا۔ہاں !میں نے کہیں یہ ضرور پڑھا تھا کہ :جوگی کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے‘وہ صرف خواہشات دریافت کرتے ہیں ‘کسی کو محل بنانے کی خواہش ہو تو منع نہیں کرتے۔اپنے اگلے پھیرے میں بھی صرف خواہش جاننا چا ہتے ہیں ‘کسی بھی خواہش کا اظہار کیا جائے تو کامیابی اور خوش رہنے کی دعائیں دیکر اپنا راستہ لیتے ہیں‘لیکن اگر کوئی ان کا دامن تھام کر خود ہی چیخ چیخ کر کہے کہ میری ساری خواہشیں تو پوری ہو گئیں مگر میں اب بھی بے چین ہوں ‘پہلے سے کہیں زیادہ مضطرب!․․․․․․تو اسے سکون کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔
میں کہا ں جاوٴں؟میں کیا کروں؟کائنات لا محدود ہے۔میں یہاں لمحے بھر کوچمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں ‘اب میں کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن ․․․․․․․․اس طرف سے زمین کھود کر ادھر نکل جاوٴں‘اس طرف سے کھود کر واپس اس طرف نکل آوٴں․․․․․․اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں!اس لئے براہ کرم میرے سہانے خوابوں کو تو برباد مت کرو!“
یہ آنکھ کا بادل تو برستا ہی نہیں ہے اور عمر کے دریا میں روانی ہے بہت کم
وہ دن جو گزرنے تھے‘گزر ہی گئے آخر اب مہلت گریہ ہے نہ ہے فرصت ِماتم