Home / Socio-political / اتناہی یہ ابھرے گاجتناکہ دبادیں گے

اتناہی یہ ابھرے گاجتناکہ دبادیں گے

سمیع اللہ ملک

نائن الیون کے دس سال مکمل ہونے پرابوظہبی گیلپ سنٹرنے ایک سروے کااہتمام کیاجس میں ۳۸۸۳امریکی مسلمانوں کے علاوہ ۹اہزارافرادے اپنی رائے کااظہارکیاتاکہ دیکھا جا سکے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعدبالعموم مغربی ممالک اوربالخصوص امریکا اور میں رہنے والے مسلمانوں پرکیاگزری اوروہ اب اس حوالے سے کیاسوچ رکھتے ہیں۔نائن الیون کے بعدبالعموم پوری دنیااوربالخصوص امریکامیں مسلمانوں کو شدید مشکلات سے دوچارہوناپڑااورانہیں قدم قدم پردلبرداشتہ کرنے والے حالات کاسامناکرناپڑا۔امریکی مسلمانوں سے امتیازی سلوک روارکھاگیالیکن مسلمانوں نے اس کے خلاف دلجمعی کے ساتھ موٴثر آوازبھی اٹھائی۔یہ بات خاصی خوش آئندہے کہ امریکی میڈیابھی اس بات کوتسلیم کررہاہے کہ نامساعدحالات اوردیگرمشکلات کے باوجودامریکی مسلمان دیگرمذہبی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ پرامیدہیں۔

اس سروے سے یہ بھی معلوم ہواکہ باراک حسین اوبامہ کے صدرمنتخب ہونے کے بعدامریکی مسلمانوں کی اکثریت امریکی معیشت اورسیاست کے بارے میں خاصی پرامیدہے اور اب بھی اوبامہ کو۸۰٪امریکی مسلمانوں کی حمائت حاصل ہے۔سروے میں۶۰٪امریکی مسلمانوں نے بتایاکہ وہ امریکامیں اب بھی شدیدمشکلات کے باوجودترقی کی راہ پر گامزن ہیں جبکہ ۶۱٪یہودیوں ، ۵۴٪کیتھولک اور۵۲٪پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے بھی یہی جواب دیامگر۳۷٪مسلمانوں نے کہاکہ وہ بہترزندگی کیلئے پہلے سے زیادہ جدوجہدکررہے ہیں اورانہیں اب بھی قدرے مشکلات اورتعصب کاسامناہے۔اسی سروے میں قومی معیشت کواطمینان بخش قراردینے والے امریکیوں میں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی قلیل تعدادسامنے آئی۔

سروے میں مبنی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاکہ امریکی میں کسی بھی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مسلمان اپنی زندگی سے زیادہ مطمئن اورپرسکون ہیں اوراس کی وجہ وہ اپنے مذہب اسلام کوقراردیتے ہیں البتہ ایک امرپریشان کن ہے کہ انہیں اب بھی امتیازی سلوک اورنسل پرستی پرمبنی رویے کاسامناکرناپڑتاہے۔سروے میں نہ صرف۴۸٪امریکی مسلمانوں نے بتایاکہ دس سا ل گزرجانے کے بعد انہیں اب بھی صرف پچھلے ایک سال کے دوران کسی نہ کسی حوالے سے نسل پرستی یاامتیازی سلوک کاسامناکرناپڑابلکہ امتیازی سلوک کانشانہ بننے والوں میں مارمون چرچ سے تعلق رکھنے والوں میں عیسائی اوریہودی بھی شامل تھے البتہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کئے جانے والے اقدامات نے امریکی مسلمانوں کوفوج اورایف بی آئی سے متنفرکردیاہے۔

بہت سے مسلمانوں کی رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پرجنگ اوردیگراقدامات میں صرف مسلمانوں کونشانہ بنایاگیاہے۔سروے سے یہ بھی سامنے آیاکہ کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مسلمان زیادہ اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ امریکاکواسلامی دنیامیں جن مشکلات کاسامناکرناپڑاہے اس کیلئے وہ خودذمہ دارہے لیکن ایسے میں یہ بات نہائت خوش آئندہے کہ ۸۹٪امریکی مسلمان جہاں بے گناہ شہریوں پرکئے جانے والے حملوں کے خلاف ہیں وہاں وہ خودکش حملوں اوردیگروارداتوں میں نہتے شہریوں کونشانہ بنانے کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی قابل مذمت فعل ہے کہ کسی اورمذہب سے تعلق رکھنے والوں نے ایسی واضح اکثریت کے ساتھ بے گناہ شہریوں پرحملوں کی مذمت نہیں کی جس طرح امریکی مسلمانوں نے برملااس فعل کے خلاف نفرت کااظہارکیا۔

ادھر ایک اورامریکی فکری کلب (Pew Forum on Religion & Public Life)نے پہلی مرتبہ خاصی تحقیق کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیاہے کہ دنیامیں مسلمانوں کی تعدادڈیڑھ بلین سے تجاوزکرچکی ہے گویا مسلمان دنیاکی کل آبادی کاقریباً ایک چوتھائی ہوگئے ہیں۔اس رپورٹ کی روسے مسلمانوں میں اہل سنت کی تعداد۴․۱بلین ہے جبکہ عیسائیوں کے سب سے بڑے فرقے کیتھولک کی تعداد۳․۱بلین ہے۔دنیامیں یہ پہلی مرتبہ ہواہے کہ مسلمانوں کی تعدادکسی بھی دوسرے مذہب کے پیروکاروں سے زیادہ ہوگئی ہے۔اس منصوبے پرکام کرنے والے سب سے بڑے محقق ابرین گریم نے دنیامیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادپراپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا”مسلمانوں کی تعدادہماری توقعات کے برعکس اورہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ نکلی ہے۔کچھ ایسے حقائق ہیں جواس بات پردلالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداداس اعلان کردہ تعدادسے کہیں زیادہ ہے“۔

اس کلب کے محققین نے ۲۳۲ملکوں اورعلاقوں سے گزشتہ تین سال میں آبادی سے ملنے والے اعدادوشمارکے نتائج کابڑی باریک بینی سے تجزیہ کیاہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں یورپ اورامریکامیں مسلمانوں کی تعدادمیں کوئی اضافہ ظاہرنہیں کیا،مثلاً اس رپورٹ میں برطانیہ کے مسلمانوں کی تعداد۶․۱ملین بتائی گئی ہے جبکہ ۲۰۰۱ء میں مسلمانوں کی تعداد۶۹․۱ملین تھی حالانکہ تمام تردلائل اس بات کے حق میں ہیں کہ مسلمانوں کی تعدادڈھائی ملین کے لگ بھگ ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکامیں مردم شماری کی رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کی تعداد۸ملین اوربرازیل میں ۵․املین ہے مگرافسوس کہ اس رپورٹ میں شمالی اورجنوبی امریکادونوں میں مسلمانوں کی تعداد۶․۴ملین ظاہرکی گئی ہے اوراسی طرح روس اورچین میں مسلمانوں کی تعدادکم کرکے دکھائی گئی ہے۔

مسلمانوں کی زیادہ آبادی رکھنے والے دس ممالک سوائے مصر،الجزائر،کشمیر،ترکی اورمراکش ایشیامیں ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق دنیاکے کل مسلمانوں کاصرف پانچواں حصہ یہاں ہے جب کہ دنیابھرکے مسلمانوں کا۶۲فیصدایشیائی ممالک میں ہے۔یہ مسلمان مغرب میں ترکی سے لیکرمشرق میں انڈونیشیاتک پھیلے ہوئے ہیں۔یہ نتیجہ اس غلط فہمی کودورکرتاہے کہ ”مسلمان عرب ہیں اورعرب ہی مسلمان ہیں“۔یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ” اسلام ایک عالمی دین ہے “اورمشرقِ وسطیٰ کے باشندے دنیابھر کے مسلمانوں کی تعدادکابہت تھوڑاحصہ ہیں مگرمشرقِ وسطیٰ کی اہمیت کونظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ یہیں سے نورِ اسلام کاظہورہوا،مسلمانوں کاقبلہٴ اوٌل اورمقدس ترین حرمین الشریفین اسی خطے میں واقع ہیں ۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ شیعہ مسلمانوں کی تعداداہل سنت مسلمانوں میں سات سے دس فیصد کے درمیان ہے اوراس رپورٹ کے مطابق دنیاکے ۸۰٪اہل تشیع ایران، پاکستان،عراق اوربھارت میں مقیم ہیں۔ویٹی کن نے گزشتہ برس اعلان کیاتھاکہ اسلام کیتھولک سے بڑھ گیاہے۔بیسویں صدی کے آغازیعنی ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی تعداددنیا کی کل آبادی کا۳․۱۲فیصدتھی۔مسلمانوں کی تعدادمیں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے اوردنیامیں ان کی تعدادگیارہ فیصدکی شرح سے بڑھی ہے اوراب وہ ۲۳فیصد ہوچکی ہے۔اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی تعدادمیں اضافہ ہواہے مگرغیرمسلم بھی دائرہ اسلام میں تیزی سے داخل ہورہے ہیں اوراس سلسلے کوفروغ نائن الیون کے بعدہواہے چنانچہ مذکورہ فورم کا معاون مدیر”کوپرمان“کہتاہے:

”بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی زیادہ ترتعدادتارکین وطن پرمشتمل ہے ۔ان کایہ خیال مغربی یورپ کی حدتک تودرست ہے لیکن جہاں تک دوسرے یورپی ممالک جیسے روس ،البانیہ اورکوسووکاتعلق ہے تومسلمان یہاں کے اصل باشندوں میں شامل ہیں۔یورپ کے کل مسلمانوں کی تعدادکانصف سے زیادہ حصہ یہاں کے اصل باشندوں پرمشتمل ہے جبکہ مغربی یورپ کے نصف سے زیادہ باشندے یہاں ہی پیداہوئے ہیں“۔محقق کوپرمان نے اسی رپورٹ میں واضح کیاہے کہ ”کچھ ایسے ممالک ہیں جنہیں بالکل اسلامی قرارنہیں دیتے مگروہاں پرمسلمانوں کی بڑی تعدادموجودہے جیسے بھارت،چین اورروس“۔اس محقق کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ہندواکژیت کے ملک بھارت میں مسلمانوں کی تعداد۱۶۱ملین سے بھی کہیں زیادہ ہے۔یعنی یہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعدادہے کہ جوانڈونیشیااورپاکستان کے استثناء کے ساتھ کسی بھی مسلم ملک کی آبادی سے زیادہ ہے ۔بھارتی مسلمانوں کی تعدادمصری مسلمانوں کی تعدادسے دگنی ہے حالانکہ مصرآبادی کے لحاظ سے عرب ممالک میں سب سے بڑاعرب ملک تصورکیاجاتا ہے۔اس رپورٹ کے اخذکردہ نتائج کی روسے یہ دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔

#ایتھوپیامیں افغانستان سے زیادہ مسلمان آبادہیں جن کی تعداد۲۹ملین ہے جواس کی کل آبادی کا۳۴٪ہیں#روسی مسلمانوں کی تعداداردن اورلیبیاکے مسلمانوں سے زیادہ ہے #لبنان کے مسلمانوں سے زیادہ تعداجرمنی میں آباد ہے جن کی تعداچارملین سے زائدہے اورجو ملک کی کل آبادی کا۵٪ہیں#وادیٴ کشمیرمیں مسلمانوں کی تعداد۹۷فیصد سے زائدہے#یورپ کے ایک اورملک البانیہ میں مسلمانوں کی تعداد۸۰ سے۹۰فیصدہے جبکہ یونانی قبرص میں مسلمانوں کی تعداد۴۰فیصد سے زائدتھی جواب یونانی قبرص سے الگ آزادحیثیت میں رہ رہے ہیں#یورپ میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی تعدادفرانس میں مقیم ہے اورفرانس کادوسراسرکاری مذہب اسلام قرارپایاہے#شام سے کہیں زیادہ مسلمان چین میں بستے ہیں جبکہ اس رپورٹ میں چین میں مسلمانوں کی تعداد۲۲ملین دکھائی گئی ہے جوکہ اصل تعدادسے بہت ہی کم ہے۔چندبرس پہلے چین میں سرکاری مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد۵۰ملین بتائی گئی تھی جبکہ چین میں مسلم ذرائع کے مطابق چینی مسلمانوں کی تعداد۱۰۰ ملین سے تجاوزکرچکی ہے۔یہاں پریہ بتانابھی برمحل ہوگاکہ چین اورمسلمانوں کاتعلق بہت پراناہے۔حضرت عثمان نے اپنے عہدِ خلافت ۲۹ہجری میں حضرت سعدبن ابی وقاصکی سربراہی میں اسلام کی دعوت دینے کیلئے ایک وفدچینی شہنشاہ ”وی“کے پاس بھیجاتھا۔چینی حکمران کواسلام کی دعوت کااندازاس قدرپسندآیاکہ اس نے ”کانتون“مسجد تعمیرکرنے کاحکم دیاجوآج بھی موجودہے۔

سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعدروس میں مسلمانوں کی تعداد۲۰ملین تھی جبکہ اس مذکورہ رپورٹ میں۵․۱۶ملین بتائی گئی ہے۔ایک ملین مسلمان توصرف ماسکومیں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام ساتویں صدی ہجری میں روس میں پہنچا۔کیمونسٹ انقلاب کے بعد۱۹۲۴ء میں مسلمان علاقوں پرآہنی پردے ڈال دیئے گئے ،عبادت کی آزادی نہ صرف سلب کرلی گئی بلکہ مسلمانوں کی تمام عبادت گاہوں کوارضِ روس سے مٹادیاگیا۔صرف نادرتعمیر ی یادگارکے طورپرکچھ مساجدکومحض سیاحوں کیلئے محفوظ کرکے حکومتی تسلط میں دے دیاگیالیکن قدرت کاانتقام دیکھئے کہ روس کے ٹوٹنے کے بعدفوری طورپرچھ مسلمان ریاستیں معرض وجودمیں آگئیں۔اس مذکورہ رپورٹ کے مطابق بعض غیرمسلم ممالک میں اب بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادموجودہے ۔

تنزانیہ میں ۱۳ملین مسلمان ہیں جوکل ملکی آبادی کا۳۰فیصدہیں۔ایوری کوسٹ میں ۸ملین(کل ملکی آبادی کا۳۷٪)مسلمان ہیں،موزمبیق میں ۵ملین (کل ملکی آبادی کا ۳۳٪ ) ، فلپائن میں (کل ملکی آبادی کا۷․۴٪) مسلمان بستے ہیں جن پربرسوں سے عرصہ حیات تنگ کردیاگیاہے اوراب وہ اپنی علیحدہ شناخت کیلئے ایک الگ وطن کیلئے جہادکررہے ہیں۔

نائن الیون کے واقعے کے بعداسلام اورمسلم دشمن مغربی میڈیانے جوتاثردیاحقائق اس کے بالکل برعکس سامنے آرہے ہیں۔مغرب اورامریکاکے اندرہی مسلمانوں کے ضبط وتحمل کے خوشگورانتائج سامنے آرہے ہیں اورحکیم الامت علامہ اقبال کی یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے کہ ”اتناہی یہ ابھرے گاجتناکہ دبادیں گے“ ۔یہ بات بلاشبہ باعث مسرت ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے اورباوجودبے شماررکاوٹوں کے اللہ کاسچادین پھیل رہاہے مگراس حقیقت حال کے باوصف ایک حسرت دل میں باربارابھرتی ہے کہ کاش دنیاکے تمام مسلمان ایک مرکزپرجمع ہوتے اور۵۷ممالک پرمشتمل ”اوآئی سی“کی کوئی اہمیت یاحیثیت ہوتی۔

بروزمنگل۱۶صفرالحرام۱۴۳۳ھ۱۰جنوری۲۰۱۲ء

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *