انتخابات کی وبا سے سیاسی بخار میں مبتلا معاشرہ بہبود یا فلاح کو بھول چکا ہے۔ ڈاکٹر سے دوا لینے جائو تو وہ پوچھتا ہے کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔ تھانے جائو تھانیدار پوچھتا ہے کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔ پی ٹی سی ایل کمپلینٹ بھی سیاسی بخار میں مبتلا ہے۔ کمپیوٹرائزڈ کمپلینٹ کا ڈھکوسلہ اور لولی پاپ عوام کے لیے لانچ کیاگیا ہے۔ کال کریں کمپیوٹر آ پ کی نہیں سنے گا آپ کمپیوٹر کی سنتے جائیں ۔ کمپلینٹ کرانے کیلئے پہلے کمپیوٹر میں مہارت پیدا کریں پھر اس سروس کو استعمال کرنے کے قابل ہونگے۔بیلنس جلانے کا ثمر ہوگا کہ آپ کی کمپلینٹ رجسٹرڈ ہو گئی ہے آپ کا کمپلینٹ نمبر یہ ہے۔ آپ سو رہے یا نیم غنودگی میں ہونگے تو ایک کال آپ کو اٹھنے پر مجبور کرے گی وہ کمپیوٹرائزڈ کمپلنیٹ سیل کی ہوگی۔ کمپیوٹر بتائے گا شکایت حل کر دی گئی ہے ۔ درست ہے تو2 پریس کر دیں اور اگر نہیں تو 1 پریس کر دیں ۔ آپ جو بھی نمبر پریس کریں وہ تعاون پر مشکور ہونے کی نوید سنا کر کال منقطع کر دے گا۔مسلہ جو ں کا توں رہے گا۔ کمپلنٹ اٹینڈڈ اگر کال ریسیو کر بھی لیں گے تو وہ سوال کریں گے کہ یہ دیکھیں وہ دیکھیں ۔ آپ کا مسلہ انٹرنیٹ کا ڈی ایس ایل کا نہیں لائن کا ہے آپ کی کال میں مین مینو میں شفٹ کر رہا ہوں آپ فلاں بٹن پریس کریں وہاں سے آپ کی بات اس مسلہ سے متعلقہ بندہ سے ہوگی۔ اب آپ دوبارہ انتظار کریں کہ کوئی کال ریسیو کرے تو اس کے سامنے اپنی التجا پیش کریں ۔ یقینا کال پہلی بار کبھی بھی ریسیو نہیں ہوگی اس وقت تمام لائن اٹینڈنٹ مصروف ہیں اور آپ انتظار کریں۔ آپ مزید انتظار کی زحمت یاایک اور کال کرنے پر مجبور ہونگے۔
کسی زریعہ سے لائن مین کا نمبر مل جائے اول تو فون اٹینڈ ہی نہیں کرے گاکیونکہ وی آئی پیunknownنمبر ریسیو ہی نہیں کرتے۔ بات سن کر اس طرح انجان بن جائے گا کہ جیسے ابھی اس دنیا میں وارد ہو ا ہو ۔ سر یہ کس طرف ہے ۔سر میں اس وقت فلاں جگہ پر ہوں ۔ کمپلینٹ میں مصروف ہوں وقت لگتا ہے۔ اس کے بعد شکایات ہیں ۔ کمپلینٹ نمبر کیا ہے ۔ آپ کی کمپلینٹ تو میرے پاس ہے نہیں ۔ آپ کمپلنٹ کرائیں میں کر دوں گا۔ بھائی میرا کمپلینٹ نمبر یہ ہے اور میرا انٹر نیٹ پندرہ روز سے کام نہیں کر رہا ۔ سر میں اس وقت یہ کمپلینٹ کر رہا ہوں آپ کا نمبر تو ابھی کافی دور ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے مزید بہانہ دے دیا کہ سر بجلی نہیں ہے انتظار کر رہا ہوں ۔
جو سروسز پندرہ روز ادارے نے مہیا نہیں کیں اور جو کوفت صارف کو ہوئی اس کا ازالہ کرنا کیاادارے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بل کی ادائیگی کسی ڈسکائونٹ کے بغیر کرنی پڑے ۔جو سروسز آپ نے دی نہیں اس کا بل بھی تو کم ازکم نہیں بھیجنا چاہیے۔ ایسا سوچنا بھی گناہ کبیرہ کے زمرہ میں آئے گا۔ اگر آپ کسی ذمہ دار سے شکایت آپ کو مزید مہنگی پڑ جائے گی۔ نوکری خرآب کرنے کے جرم میں آپ کو کس اذیت سے دوچار ہونا پڑے یہ لائن مین اور اسکے حواری گروہ کے غصے پر منحصر ہے ۔پاکستانی ادارے اور پاکستانی کارکن ایٹمی طاقتیں ہیں۔ PTCL کو سرکاری نرغے سے بیچا گیا کہ چیرہ دستیاں ختم کر کے عوام کو لائن مین کی گرفت سے آزاد کرایا جائے۔ سروسز بہتر کی جائیں اور عوامی بہبود کا مطلوبہ کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ کاروباری ادارہ صارف کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ مطلوبہ چیز کی ترسیل آسان کی جائے ۔ یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ شیخ صاحبان بھی شاید پاکستان کے رنگ میں رنگے گئے ہیں یا پھر پاکستانی دوستوں نے انہیں رام کر لیا ہے۔ بل وصولی مئوخر نہیں کی جاتی تو صارف کے حقوق بھی مہیا کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ممکن ہے انتظامیہ کا رویہ چھوٹے کارکنوں کے ساتھ مناسب نہ ہو جس کی وجہ سے وہ کام کرنا بوجھ سمجھتے ہوں۔ کام دلجمعی سے سرانجام نہیں دیتے ۔ کارکن کی ضروریات اور مراعات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔سب سے اہم عزت نفس کا احساس رکھنا ہے۔ کارکنوں کی تزہیک آفسر اپنا حق قرار دیتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی اولین شق ہے۔ انسانی حق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ کسی کو برتری حاصل ہے تو وہ صرف تقوی کی بنیاد پر ہے۔ عزت کو دنیاوی مراتب کے تحت نہیں رکھا گیا۔ کارکنوں کے مسائل کو حل کرنا اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ ادارے اس سلسلے میں مجرمانہ کوتاہیوں کے مرتکب ہیں۔ قانون کا نفاذ اور عملدرآمد کرانے والے ادارے اس سلسلے کی چشم پوشی کر کے اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہیں۔ اس کی وجہ سرمایہ کار کواور اس سے حاصل معاشی فوائد ہوتے ہیں۔ سرمایہ کار کے سرمایہ کے تحفظ کیلئے تو اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن کارکن کی عزت طاقت اور ہنر کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا۔کنڑیکٹ کی تلوار سرمایہ کار کے سرمایہ کے تحفظ کیلئے ہے۔ کارکن کا کتنا استحصال ہوتا ہے اس سے سرمایہ کار کو کوئی غرض نہیں۔ہمارے ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں رہی اور ہے کیا ان سے اتنی ہی ذمہ داری کا مطالبہ کیا گیا۔ آئے لوٹ کر چلے گئے ۔ اسمبلی میں بولے نہ بولے ۔ قانونی کاروائی میں حصہ لیا نہ کوئی تجویز پیش کی نہ کوئی قومی نوعیت کا منصوبہ پیش کیا ۔ کچھ بھی نہیں گلیاں بنا دیں نالیاں بنادیں ۔ پل اور کچھ روڈ بنا دئیے کیا یہ ان کی ذمہ داری تھی ۔ ان کی ذمہ داری قانون سازی تھی وہ نہیں کی لیکن اگلے الیکشن کیلئے اہل قرار پاتے ہیں۔ ان کا کنڑیکٹ قائم ودائم اوریہ مستقل ہیں۔ سیاسی بنیادوں اور سیاسی مقاصد کیلئے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے اعلانات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ کنٹریکٹ کی ضرورت چھوٹے ملازمین کیلئے نہیں ۔اگر ہے بھی تو آفیسر گریڈ پر ہونی چاہیے ۔ تاکہ ان کی کارکردگی کا گراف اور معیار بلند کیا جا سکے ۔ جن کو کنٹریکٹ پر ہونا چاہیے وہ مستقل ہیں کچھ کریں یہ نہ کریں ۔نائب قاصد کنٹریکٹ پر ہے ۔ صاحب کی چائے لیٹ کی گستاخی کرے تو اس کا کنٹریکٹ منسوخ کیا جائے۔ کنٹریکٹ کی شرط چھوٹے ملازمین سے ختم کی جائے۔ انہیں مستقل کرنے کی قانون سازی کے احکامات اور آئینی تحفظ کے اقدامات کیے جائیں۔ جن اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کی اکثریت ہے ان پر حکومت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بڑے اداروں میں ملازمین کا طرح طرح سے استحصال کیا جا رہا ہے ۔ گولڈن شیک ہینڈ ٹائپ اقدامات چھوٹے ملازمین کو بے روزگار بنانے کا باعث ہیں۔ نجکاری کیے جانے والے اداروں کے ملازمین کو نئی انتظامیہ تنگ کر کے فارغ کرنے کے اقدامات سے سرمائے کا تحفظ بہتر بناتی ہے۔کارکنوں کے مفادات کا تحفظ بہتر بنا کر انہیں تحفظ فراہم کر کے خوشی سکون اور استقامت پیدا کی جا ئے۔بڑے اداروں میں لیبر لاز کے اطلاق کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ لیبر لاز اور لیبر کورٹس تک کارکن کی رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ لیبر کورٹس کی تشہیر کی جائے تاکہ کارکنوں کو انکے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں کہ یہ کہاں ہیں اور کیا ہیں۔ لیبر لاز سے اگاہی کیلئے سرکاری سطح پر مہم چلائی جائے تاکہ کارکنوں کو حقوق وحدود سے اگاہی ہو۔ لیبر لاز کی خلاف ورزی پر کارکنوں کا استحصال کرنے والے سرمایہ کار سے کارکن کا حق دلانے کو دیوانی کیس بنانے کی کوشش ناکام بنائی جائے۔ کارکن کو وکیل کی فیس سے بچایا جائے تاکہ وہ حق کے حصول کیلئے رسوا نہ ہوں۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں جن سے مزدور صنعتی کارکن پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ان کی راہنمائی ہو۔ ان کو یونین کی بلیک میلنگ کے بغیر ہی اپنا حق حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
Dr. Khwaja Ekram Prof. Dr. Khwaja Mohd Ekramuddin