ابرار احمد اجراوی*
بچے کسی بھی قوم اور معاشرے کی ہمہ جہت ترقی میں شاہ کلید تصور کیے جا تے ہیں۔ ایک صحت مند اور صالح انسانی سماج کی تعمیرمیں بچے خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کے یہ ننھے منے بچے ہی اپنے بے شعوری کے ایام سے صحت منداور صاف ستھرا فکری اور علمی سرمایہ لے کر شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد، قوم و ملت کے لیے حال کی اصلاح و درستگی اور مستقبل کی تعمیر و ترقی میں ایک ذمے دار شہری کی طرح اپنا تعاون دیتے ہیں۔ بشر طیکہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی اور فکری پرورش و پر داخت پر ایام طفولت سے ہی گہری نظر رکھی جائے۔ اور ان کی ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے ، ان کو ایسا ادبی مواد فراہم کرا یا جائے جو ان کی مستقبل کیِشخصیت، ان کی افتاد طبع اور ان کے اخلاق و کر دار پر مثبت اثر ڈال سکے۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں خاص طور سے یوروپی ممالک میں بچوں کی ذہنی اور فکری نشو و نما کو خاص طور سے مرکز نظر میں رکھا جا تا ہے اور اس عظیم کام کے لیے بر سر اقتدارحکومتیں معقول بجٹ مختص کیا کر تی ہیں۔ لیکن اس کو ایک المیہ ہی کہا جا ئے گا کہ اردو میں ادب اطفال کے تعلق سے بے توجہی اور بے اعتنائی ہر دور میں عام رہی ہے۔ آج کل شاعروں اور ادیبوں کی یہ لا پروائی ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، جو کسی بھی زاویے سے قوم و ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں لڑکپن کی عمر کو بیکاری کا دور فرض کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اس شعبے میں سرکاری یا نجی طور پر منظم اور مربوط انداز میں کوئی ایسا منثور یا منظوم کام نہیں ہو سکا ہے، جس پر والدین اور اساتذہ کلیتا اعتماد کر سکیں۔پہلے ترقی کی چکا چوند سے ہمارا معاشرہ آشنا نہیں تھا۔ آج ہر گھر میں ترقی کی برقی لہریں دوڑ رہی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کی سہولت میسر نہ ہو۔ ایسی صورت میںبچوں کی ذہنی ترجیحات اور بھی بہت کچھ ہم سے تقاضا کر تی ہیں۔ ہمارے ادیبوں اور دانش وروں اور قومی وملی رہ نماؤں کو ان تمام پہلؤوں پر از سر نو غور کرنے اور پھر ان کی روشنی میں مستقبل کے منصوبے تیار کر نے کی ضرورت ہے۔ ورنہ قوم و وطن کی ترقی دیوانے کا خواب بن کر رہ جا ئے گا۔ علامہ اقبال نے کئی مواقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلا تے ہوئے کہا تھا: ’’ اگر بچوں کی تربیت میں خامی رہ جا ئے تو تعمیر قوم ووطن کی بنیاد میںخامی رہ جا ئے گی۔ ‘‘
اردو زبان میں ادب اطفال پر ابتدا سے ہی نثر و نظم کے اکا دکانمونے ملنے شروع ہو جا تے ہیں۔ لیکن ایک مستقل اور علاحدہ ادبی صنف کے طور پر اس کا چلن بہت بعد میں جاکر ہوا۔امیر خسرو کی خالق باری ، میر کی چند نظموںاور غالب کی قادر نامہ کو اس سلسلے میں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ان کتابوں میں اخلاق و کردار کی درستگی، حسن معاشرت اور ہم دردی و انسان نوازی کے اصولوں کوبرتنے پر زور دیا گیا ہے۔ مغلیہ عہد حکومت میں سرکاری زبان کے منصب پر فارسی بلا شرکت غیرے قابض و متصرف رہی ہے۔ اس دور میں فارسی ادبیات ہی بچوں کی درسی کتا بوں میں شامل ہو تی تھیں۔ جو کتابیں موجود تھیں ان میں بھی بچوں کی ذہنی سطح اور ان کی طفلانہ تر جیحات و ضروریات کا پہلو سرے سے نا پید تھا۔ مغلیہ حکومت کی بساط الٹ جا نے کے بعد جب انگریزوں کا اثر و رسوخ ملک پر بڑھنے لگا ، تو انھوں نے اپنی تہذیب و تمدن کا دائرہ اثر وسیع کر نے کے لیے اردو کا ہی سہارا لیا، فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کا قیام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، لیکن ان کا مقصد چوں کہ صرف اپنے غلبہ واقتدار کی سر حدوں کی توسیع اور اس کو استحکام بخشنا تھا، اس لیے انھوں نے بھی دانستہ طور پر ادب اطفال کو اپنے ایجنڈے سے باہر ہی رکھا۔ انگریزوں کے قائم کردہ فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج میں اس شعبے کا ذکر ہی نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مصلح قوم سر سید اور ان کے رفقائے کار بھی دوسرے اہم منصوبوں کی تشکیل اور تنفیذ میں لگے رہے۔ البتہ انجمن پنجاب میں کر نل ہالرائڈ کی سربراہی میں ہندوستان کی مشترکہ روایات کاترجمان اور گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ دار، جو ادب میں وجود میں آیا اس میں کسی نہ کسی طور بچوں کے ادب کو جگہ دی گئی تھی۔ اس عہد میں مو لانا محمد حسین آزاد ، خواجہ الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال ، علامہ شبلی ، برج نارائن چکبست ، تلوک چند محروم ، منشی پیارے لال آشوب، اسماعیل میرٹھی وغیرہ ایسے نابغہ روزگار ادیبوں نے اس طرف توجہ دی ، لیکن سوئے اتفاق کہ اس آغاز کو وہ لوگ مستقل روا ج نہ دے سکے۔ ان میں سے اکثر کتابیں درسیات تک محدود تھیں، جن کی طباعت و اشاعت کا بڑا مقصد تجارتی ہو تا ہے۔ درسی کتابوں کے پائیدار اور طویل المیعاد اثر سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کتابوں کا استعمال وقتی ضرورت تک محدود رہتا ہے۔ ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد دوسری بار ان کو ہاتھ لگانا بچوں کے لیے ذرا مشکل ہوتا ہے۔ قصے کہانیاں، ڈرامے اورلطیفے وغیرہ بچوں کی ذہنی تفریح کے ساتھ انھیں زندگی کی منزلوں پر کامیابی کے ساتھ بڑھنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔ بچے اس قسم کی کتابوں کو بار بار پڑھتے اور ہر بار ایک نئی لذت سے ہم کنار ہو تے ہیں۔
اردو میں ادب اطفال کو بیسویں صدی میںخوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ کچھ اور اچھے لکھنے والے اس مہم کا حصہ بنے ۔ مائل خیر آبادی، شفیع الدین نیر، منشی پریم چند ، ڈاکٹر ذاکر حسین، خواجہ حسن نظامی، کرشن چندر اور صالحہ عابد حسین جیسے ادیبوں کا نام لیے بغیر ادب اطفال کی تاریخ ادھوری رہے گی۔اس فہرست میں بہت سے اور ناموں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، لیکن نام شماری میرا مطمح نظر نہیں ۔ غور کر نے کا مقام ہے کہ اپنے وقت کے اتنے بڑے ادیبوں نے ادب اطفال تخلیق کر نے میں کسی جانب داری یا کسی ذہنی تحفظ کا مظاہرہ نہیں کیا ، نہ وہ ایسا کرتے ہوئے کسی احساس کمتری یا کسر نفسی کے مرض کا شکا ر ہوئے، لیکن آج کل کے ادیبوں کے لیے ادب اطفال تخلیق کر نے سے شاید ان کے عزت نفس مجروح ہو تی ہے۔ اسی لیے وہ اس کو اپنی حیثیت عرفی کے کے متصادم اور اپنے ادیبانہ مقام و مرتبے سے فرو تر سمجھتے ہوئے، بچوں کے لیے کچھ بھی لکھنے سے جی چراتے ہیں۔ اگر وہ کچھ لکھتے بھی ہیں تو اس میں بچوں کی نفسیات اور ان کے شعور و ادراک کی سطح کا خیال ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ معاصر تخلیق کاروں کواپنے پیش رووں سے سبق لیتے ہوئے اپنی قلمی صلاحیتوں کا رخ اس طرف بھی موڑنا چاہیے، ورنہ آج کی نئی نسل جب جوانی اور شعور کی منزل پر قدم رکھے گی تو انھیں اس نا انصافی کے لیے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ علامہ اقبال جہاں اپنے فکر و فلسفے کی ندرت کاری کے سبب بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں وہیں ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے اعلی نمونوں سے بچوں کی نفسیات کو بھی محروم نہیں رکھا ہے۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد نظمیں بچوں کے لیے کہی ہیں، جو اردو ادب کے ذخیرے کالافانی سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔شفیع الدین نیر تو صرف اس وجہ سے ادبی افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے کہ انھوں نے اپنی تمام تر فنی صلاحیتوں کو بچوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔
اگر بچوں کے لیے جزوی طور قائم مکتبوں اور اداروںکی بات کی جائے تو بہت سے مکتبوں نے اس عنوان سے شہرت و ناموری کی منزل طے کی ہے۔ اور مالی منفعت کے میدان میں بھی وہ کسی محرومی کا شکار نہیں رہے ہیں۔دارالاشاعت پنجاب، مکتبہ حمایت الاسلام اور فیروز سنز لاہور، انڈین پریس الہ آباد، نسیم بک ڈپو لکھنو، مکتبہ الحسنات رام پور، الجمعیۃبک ڈپو دہلی ، ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مکتبہ جامعہ ، اردو اکادمی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وغیرہ قومی اداروں نے اس سمت میں پہل کر کے اچھا خاصا ذخیرہ بچوں کے لیے شائع کیا ہے۔ لیکن کیا یہ صورت حال آج بھی بر قرار ہے۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ آج کل کے ناشر حضرات پر مال و زر کی بے لگام ہوس اور زیادہ سے زیادہ منفعت اندوز ی کا بھوت اتنا شدت سے سوار ہے کہ وہ ایسی کتابوں پر اپنا سرمایہ لگانے کو تیار نہیں جن سے منافع کی امید کم ہو۔ یا جن کتابوں کی فروخت کم ہونے کی توقع ہو۔ نجی ادارے کی بات تو چھوڑ دیجیے سرکاری ادارے بھی صرف تجارتی مقاصدکو پیش نظر رکھ کر منافع بخش کتابیں ہی شائع کر تے ہیں۔ اردو اکامی دہلی اور اردو کے فروغ کے لیے قائم کی گئی دوسری ریاستی اکادمیوں کو اس سمت میں پہل کر نے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے لیے کوئی ماہ نامہ چھاپ کر ، یا ان کے لیے سال میں قصے کہانیوں کی دوچار کتابیں شائع کر کے اس عظیم فریضے سے سبک دوش نہیں ہو سکتے۔
دوسری علاقائی زبانوں کی بہ نسبت اردو میں بچوں کے لیے جرائد و رسائل کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پہلے جب کہ رسل ورسائل کی سہولت اتنی فراوانی سے میسر نہیں تھی۔ ملک کے اطراف سے بچوں کے لیے سینکڑوں معیاری رسائل شائع ہوتے تھے۔ بچوںکا اخبار، پھول، پیام تعلیم، کھلونا، غنچہ، نونہال، کلیاں، چمن، چاند، گلشن، بچپن وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جوبچوں کو مختلف اور متنوع طریقوں سے علمی اور ادبی تفریح کا سامان فراہم کر تے تھے۔ ان میں ایسے قصے اور کہانیاں اور تاریخی واقعات ہو تے تھے جو اپنے اثر آفریں اور دل چسپ اسلوب نگارش میں طلبہ کو خود آموزی پر بھی آمادہ کر تے تھے۔ اب یہ سارے رسائل ماضی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ صرف چند رسائل ہی آج پابندی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ پیام تعلیم، امنگ، الحسنات وغیرہ آج کل بک اسٹال پر نظر آجاتے ہیں۔ لیکن یہ سارے رسائل بھی وسائل کی قلت اور افراد کار کی لا پروائی کے سبب جاں کنی کے عالم میں ہیں۔ ان کی تعداد اشاعت روز بروز زوال کی طرف گامزن ہے۔ اگر مناسب لکھنے والے قلم کار ان رسالوں کو میسر نہیں ہیں ، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رسالے کے ذمے دار حضرات مضمون نگاروں کو معقول معاوضہ نہیں دیتے۔ صرف اردو اکادمی کے رسالے امنگ کا استثنا ہے جو مضمون نگاروں کو ان کی قلمی محنت کے اعتراف میںقلیل معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ معاوضوںکے حوالے سے اردو پروگرام نشر کرنے والے ٹیلی ویژن چینلز، ریڈیو اور دوسرے رسالوں کا بھی برا حال ہے ۔ادب اطفال تخلیق کر نے میں جہاں کو تاہی کی اور بہت سی وجوہات ہیں وہیں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ لازمی تعلیمی اصول ونکات، بچوں کی بنیادی نفسیات اور ان کے شعور و آگہی کی سطحوں سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ نتیجتا بچوں کے جذبات اوران کی خواہشات کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے والے عناصر ادبی مواد سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ادب اطفال تخلیق کرنا بڑوں کے لیے لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ماضی میں جتنے ادیبوں نے ادب اطفال کے میدان میں ملک گیر شہرت حاصل کی ہے ان میں سے اکثر کسی تعلیمی ادارے سے باضابطہ وابستہ تھے۔ اور ان کے لیے ادب تخلیق کر تے وقت اپنے وسیع علم و مطالعہ اور تجربے کی بنیاد پربچوں کے فطری مطالبات ، ان کی مبتدیانہ سوچ اور ان کی ذہنی ترجیحات کو سامنے رکھتے تھے۔ آج کل کے جتنے بھی ادیب ادب اطفال تخلیق کر رہے ہیں وہ اس کو بچوں کے وسیع تر مفاد کے تناظر میں با معنی عمل بنانے کے بجائے صرف اپنی تخلیقی قوت کے اظہار تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
بچوں کے لیے اگر شعری ادب خلق کیا جائے تو اس میں نغمگی اور موسیقیت کا عنصر حاوی ہو نا چاہیے، تاکہ موزوں طبع اورموسیقیت پسند بچے اس سے استفادہ میں کسی قسم کی بد مزگی کا شکار نہ ہوں۔ اگر نثری ادب تخلیق کیا جائے تو آسان اور دلچسپ زبان کے ساتھ اس میں بنیادی کر دار ایسا ہو، جو بچوں کوانسانیت ، بہادری و بیباکی، قوم و ملک کی ترقی کی منصوبہ بندی اور ہم دردی و انسان نوازی جیسے آدرشوں کو اپنانے پر آمادہ کرسکیں۔
آج کا زمانہ ماقبل کے زمانے سے کئی اعتبار سے مختلف ہے، آج کی پسند کا خیال کر تے ہوئے رنگین تصویروں سے مزین کتابیں شائع کی جائیں، تا کہ بچوں کی بصری حس بھی محظوظ ہو سکے۔ کتابت و طباعت اور کاغذ بھی اعلی اور معیاری ہو نا چاہیے تا کہ بچوں کے بصری ذوق کو صحیح غذا میسر آسکے۔ اگر کتابت اچھی ہوگی تو بچوں کے اندر خوش خطی کا رجحان بھی پر وان چڑھے گا۔ کتابوں کی قیمت آسمان کو چھوتی ہوئی نظر نہ آئیں ۔ قیمتیں مناسب ہوں تاکہ غریب فیملی کے بچے بھی کتابیں خرید کر پڑھ سکیں۔ اردو کے ناشرین کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وسائل اور سرمایہ کی قلت کے سبب وہ اپنی مطبوعات کی تشہیر پر مطلوبہ توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے کتابیں عام قارئین کی دسترس سے باہر رہتی ہیں۔ سائنسی ترقیات نے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کر دیاہے، پوری دنیا سائنسی علوم کی حیران کن ایجادات سے انگشت بدنداں ہے، اب بچوں کv پنچ تنتر کی جانوروں اور پریوں والی افسانوی کہانیوں اور الف لیلی کے جادوئی قصوں میں وہ تفریحی غذا نہیں ملتی، جو حقیقت اور سچائی پر مبنی کسی سائنسی کارنامے کو پڑھ کر ملتی ہے، اس لیے سائنسی مضامین کو بھی ادبی پیرایہ بیان اور سیدھے سادے اسلوب میں شائع کیا جائے تاکہ بچوں کا ذہنی تجسس صحیح رخ پر پر وان چڑ ھ سکے۔ اردو زبان میں سائنسی معلومات پر مشتمل کتابوں کی کمی ہم سب کے لیے باعث فکر ہے۔ اس طرح کی کتابیں معقول معاوضہ دے کر ماہرین فن سے لکھوائی جا سکتی ہیں۔ تاکہ وہ فکر معاش اور روزی روٹی کے جھمیلوںسے آزاد ہو کر تن دہی کے ساتھ اس اہم کام کو انجام دے سکیں۔ صرف نصابی کتابو ںکی اشاعت پر سرمایہ نہ لگا یا جائے اس سے الگ ہٹ کر ایسا مواد بھی شائع کیا جائے، جو بچوں کی شخصیت سازی کے لیے مؤثر اور کار آمد ہو نے کے ساتھ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو۔
*ABRAR AHMAD
ROOM NO,21/LOHIT HOSTEL
JAWAHARLAL NEHRU UNIVERSITY
NEW DELHI.110067
m: 9910509702
ادب اطفال: عصری حسیت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت
ادب اطفال: عصری حسیت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت