پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی
نئی دہلی
اردو شاعر ی میں انسانی اقدار
اقبال نے انسانی عظمت وبلندی اور ترقی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا :
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نی بن جائے
اقبال کا یہ شعر در اصل انسانی عظمت کو بیان کرتا ہے کہ انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے بہت بلد و بالا ہے مگر انسانی اپنی سرشت سے ابتر بھی ہوسکتا ہے ۔ اقبال نے اسی عظمت کی طرف اشارہ کیا تھا جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کو درجہ دیا ۔لیکن آج کا انسان کیا اس عظمت کا حامل ہے یہ ایک بڑا سوال ہے ؟ کیونکہ آج کا انسان شاید سب کچھ ہے مگر انسانیت سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر گام پر فریب و مکر نے انسان کو بدل کا کررکھ دیا ہے ۔ یہ سوال ہر محفل میں ، ہر مجلس میں اور اکثر مواقع پر کیا جاتا ہے ۔ اردو کے شاعروں نے بھی اس جانب جوجہ مرکوز کی ۔ آپ جانتے ہیں اردو شاعری بالخصوص غزل نے ہر عہد میں شانہ بشانہ چل کر وقت اور حالات کو سمجھا ہے ، اس عہد کے مسائل کی ترجمانی کی ہے ۔ کبھی انسانوں کو براہ راست مخاظب کیا ہے تو کبھی طنز کے تیر بھی چلائیں ہیں اور کبھی ناصحانہ رنگ بھی اختیار کیا ہے ۔ یہ انسان اور انسانی اقدار کے یہ مسائل اردو شاعری میں شروع سے ہی اہم موضوعات رہے ہیں ۔ خواجہ الطاف حسین حالی جو اردو شاعری میں اصلاحی تحریک کے لیے جانے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں :
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ خواجہ الطاف حسین حالی
غالب نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا غالب
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر ایک تنہا آدمیت ہی نہیں جگرؔ مرادآبادی
مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیاآدمیوں سے بھری پڑی ہے لیکن انسان کم دیکھائی دیکھتے ہیں ۔ ندا فاضلی نے اسی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا:
ہر طرف ، ہر جگہ بے شمار آدمی پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا ہر نئے دن نیا انتظار آدمی
گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر آخری سانس تک بے قرار آدمی
آج کی دنیا ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات کے اعتبار سے بام عروج پر ہے تو دوسری جانب لوگ ان ترقیات کے پس منظر میں گُم ہوتے ہوئے انسان اور انسانیت کی جانب بھی تشویش بھرے انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ در اصل سائنسی ترقیات ہماری زندگی میں انقلاب انگیز تبدیلیاں لے کر آئی ہیں۔ان تبدیلیوں کا سیدھا اثر ہماری شب و روزکی زندگی پر مرتب ہوئیں ۔ زندگی اتنی آسان ہوگئی کہ ہم نے ان ٹکنالوجی کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا اورگرد وپیش کو بھی اسی عینک سے دیکھنے لگے۔ آج کی زندگی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ مشینی دور میں خود بھی مشین بن گئے ہیں اور ان کی زندگی کا انحصار بھی انھیں مشینوں پر ہے۔ مشین پر جینے والے آج کے دور کے انسان کا عالم یہ ہے :
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان نےوقت اور حالات کے تحت بدلنے کا ایسا ہنر سیکھ لیا ہے کہ آدمی کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے بقول ندا فاضلی :
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا ندا فاضلی
جانور آدمی فرشتہ خدا آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
اور بشیر بدر نے بڑے ہی سیدھے سادے انداز میں اس سورت ھال پر بڑا گہر اطنز کیا ہے :
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا بشیر بدر
شہزاد احمد اسی موضوع کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا شہزاد احمد
اردو شاعری کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے انسانی معاشرے کی ہر اچھائی اور برائی کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا ہے ۔ انقلاب کی بات ہو یا محبت کی ہر طرح کے نغمے اردو شاعری میں ملتے ہیں ۔ کیونکہ شاعری انسانی حسیات اور ادرکات کا نام ہے ۔ غزل کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ دل سے اٹھنے والی آواز ہے جو سیدھے دل تک پہنچتی ہے ۔اسی لیے اردو شاعری نے کبھی انسان کو آئینہ دیکھایا تو کبھی عقل و ادراک کی راہیں دیکھائیں ۔نظیر اکبر آبادی جنہیں عوامی شاعر کہا جاتا ہے ، ان کی شاعری کو بہت دنوں تک ناقابل اعتنا سمجھا گیا ۔ لیکن جب عوامی زبان میں بلند و بالا خیالات کی جانب نگاہیں گئیں تو انھیں انسان دوست شاعر کہا گیا ۔ انھوں نے انسان اور دنیا کی حقیقت کو ایسے پُر اثر انداز میں پیش کیا کہ وہ باتیں دل میں گھر کرنے لگیں ۔ نظیر جب یہ کہتے ہیں :
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
نظیر نے انسان کو جو درس دیا وہ یہ ہے کہ یہ دنیا دائمی نہیں ہے ہر شخص کو یہاں سے جانا ہے تو پھر اس دنیا کے لیے اس قدر ہنگامہ آارئی کیوں ؟ اس موضوع کو اردو کے تقریباً تمام شاعروں نے بیان کیا ہے ۔ خواجہ میر درد کہتے ہیں :
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
اور یہ شعر آدمی بلبلہ ہے پانی کا کیا بھروسا ہے زندگانی کا
ایک معمہ ہے سمجھنے کا مہ سمجھانے کو زندگی کاہے کو ہے کواب ہے دیوانے کو
اور انشا کہتے ہیں :
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے چلنے کو سب تیار بیٹھے ہیں
اور انسانوں کا جانا بھی ایسا کہ :
نہ ہے گور دارا ، نہ قبر سکندر مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اور میر تقی میر کہتے ہیں :
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
باوجود اس کے انسان اپنے کو پہچاننے میں ناکام رہا ہے اسی لیے اردو شاعروں نے انسانی اقدار کو اپنی شاعری میں خصوصی جگہ دی ہے ۔ خواجہ میر درد کہتے ہیں :
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
خواجہ میر درد کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کو ایک اخلاقی لے بخشی ، اس سے پہلے اخلاقی مضامین کے بیان کے لیے کوئی مخصوص لہجہ نہ تھا۔ میر درد نے اپنی انفرادیت سے ایک ہموار اور نرم لہجہ اختیار کیا۔ بعد میں آنے والے شعراءنے بھی اس سلسلے میں ان کی تقلید کی۔ انسان کی عظمت کا گہرا احساس اور وسیع المشربی ان کے کلام میں جابجا جھلکتی ہے۔
باوجود یکہ پرو بال نہ تھے آدم کے وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
انسانی اقدار کو اردو شاعری میں براہ راست ناصحانہ انداز میں نہیں پیش کیا گیا ہے بلکہ شاعری نے اشارے کنائے اور رمزو ایما کے پیکر میں پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً ندا فاضلی کا یہ شعر:
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا ندا فاضلی
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے ندا فاضلی
اس کے مقابلے میں نظیر کو دیکھیں تو انھوں نے آدمیوں کے مختلف قسمیں گنوا دی ہیں ۔ اب آپ خود طے کریں کہ آپ کون ہیں ؟
یاں آدمی پہ جان کو مارے ہے آدمی اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اُتارے ہے آدمی چِلّا کے آدمی کو پُکارے ہے آدمی
اور سُن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
اپنی بات کو میں اسماعیل میرٹھی کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں :
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خد مہرباں ہوگا عرش بریں پر
*****