Home / Articles / اردو صحافت اور دہلی

اردو صحافت اور دہلی

ڈاکٹر محمد یوسف

دہلی میں اردو صحافت کی تاریخ کم و بیش پونے دو سو سال پرانی ہے۔ دلی کا پہلا اردو اخبار ۱۸۳۶ء میں”دہلی اردو اخبار“کے نام سے جاری ہوا۔ جس کے مدیر مولوی محمدباقر تھے۔ صحافت کی تاریخ کو اور پیچھے کی طرف لے جانا چاہیں تو یہ سلسلہ عہد اشوک تک پھیلا ہوا ہے۔ مگر عوامی صحافت کا عہد طباعت کی ترقی کے عہد سے وابستہ ہے۔

طباعت کا آغاز ۸۶۸ء کے قریب چین میں ہوا ۱#۔جہاں سب سے پہلے لکڑی کا ٹائپ تیار کیا گیا تھا۔گیارہویں صدی عیسوی میں چین میں الگ الگ حروف کا ٹائپ (Movable Type) تیار ہوگیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ فن طباعت چین و عرب کے سفر طے کرکے یورپ ہوتا ہوا ۶ستمبر ۱۵۵۶ء میں گوا کے مقام پر ہندوستان پہنچا۔ اے․کے ․پرولکر اپنی کتاب ”ہندوستان میں چھاپہ خانہ“ میں لکھتے ہیں۔

”چھاپہ خانہ کا فن ہندوستان میں سب سے پہلے ۶ ستمبر ۱۵۵۶ء کو پہنچا اور اس کا یہاں ورود بھی ایک خوش اتفاقی کا نتیجہ تھا۔ یورپ کے باہر فن طباعت کا استعمال عموماً عیسائی مذہب کی تبلیغ کے سلسلے میں ہوا۔“۲#

ہندوستان میں طباعت کا آغاز بھی ٹائپ کے ذریعہ ہوا۔ یہاں جس دیسی زبان میں ٹائپ تیار ہواوہ مالاباری تمل زبان تھی۔ ۱۵۵۷ء میں سینٹ فرانسس ریورس کی کتاب”کاط ازم آف دی کرسچین ڈاکٹرین“ کا تمل زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۵۵۹ء میں شائع ہوا تھا۔ جس کا ایک نسخہ پیرس کے کتب خانہ Bibliotheque Nationalمیں محفوظ ہے۔۳#

طباعت کا یہ سفر ضرورت کے مطابق ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ٹائپ ایجاد کرتے ہوئے موجودہ رسم الخط کے ٹائپ تک جا پہنچا۔ ۱۷۷۸ء میں کلکتہ میں شائع ہونے والی پہلی کتاب ہیل ہڈ کی”گرامر آف دی بنگالی لنگویج“ تھی جس میں جابجا بنگلہ رسم الخط کا استعمال کیا گیاتھا۔ جسے سی رام پور کی مشنریوں نے بعد میں مزید ترقی دی۔ ۱۷۸۴ء میں فرانسس گلیڈون نے کلکتہ گزٹ کے نام سے ایک انگریزی ہفت روزہ جاری کیا۔ جس میں ایک کالم فارسی کا بھی تھا۔ اس میں فارسی کی غزلیں اور ان کا انگریزی ترجمہ یا کبھی کبھار اردو یافارسی میں تجارتی اشتہارات شائع ہوتے تھے۔۴# اس وقت برطانیہ میں مطبوعہ صحافت کے آغاز کا ایک طویل عرصہ گذرچکا تھا۔ وہ صحافت کی افادیت اور اخبار بینی کے قائل تھے۔ لیکن ایک غلام ملک میں اس فن کے فروغ کے مضمرات سے کماحقہ واقف تھے۔ اس لئے کمپنی کے اہل کاروں کی یہی کوشش رہی کہ جہاں تک ممکن ہو سکے ہندوستانیوں کو اس فن سے دور رکھا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ولیم بولٹس نامی ایک ولندیزی نے جنہیں کمپنی کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا ۔ اخبار نکالنے کی پہلی کوشش ۱۷۶۶ء میں کی جو بار آور نہ ہوسکی۔ ولیم بولٹس کو ۱۸اپریل ۱۷۶۸ء ۵#میں ہندوستان بدر کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور برگشتہ ملازم جیمس آگسٹس ہکی نے ۱۷۸۰ء میں کلکتہ میں ایک ذاتی مطبع قائم کیا اور ۲۹ جنوری ۱۷۸۰ء میں کلکتہ جزل ایڈورٹائزر یا ہکیز گزٹ کے نام سے ۸*۱۲ انچ سائز کے چار صفحات پر مشتمل ایک اخبار نکال کر ہندوستان میں صحافت کی تاریخ مرتب کی۔ لیکن کمپنی بہادر نے اس اخبار کی بے باک تحریروں کو دیکھتے ہوئے اخبار کی ترسیل کے لئے نہ صرف ڈاک کا دروازہ بند کردیا بلکہ ۱۷۸۲ء ۶#میں اس کے چھاپہ خانے کو بحق سرکار ضبط کرکے اس ہنگامہ خیز اخبار کو اقتدار کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

ہندوستان کا دوسرا انگریزی اخبار انڈ یا گزٹ کے نام سے کمپنی کی سرپرستی میں نومبر ۱۷۸۰ء ۷# میں کلکتہ سے جاری ہوا ۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جو ہکیز گزٹ کے جواب میں نکالا گیا تھا۔ہندوستان کا پہلا فارسی اخبار ہندوستانی کے نا م سے۱۸۱۰ء میں مولوی اکرام علی نے کلکتہ سے جاری کیا تھا ۸#۔ بنگالی زبان کا پہلا اخبار ۱۸۱۶ء میں گنگا دھر بھٹا چاریہ کی ادارت میں بنگال سماچار کے نام سے جاری ہواتھا ۹#۔ اس کے دو سال بعد سی رام پور کے عیسائی مبلغیں نے اپریل ۱۸۱۸ء میں ”ڈگ درشن“نامی رسالہ اور ۲۳مئی ۱۸۱۸ء میں ہفت روزہ اخبار ”سماچار درپن“ بنگالی زبان میں نکال کر ہندوستان میں صحافت کی تاریخ کو مزید آگے بڑھایا ۱۰# ” سمبد کمودی“دسمبر ۱۸۲۱ ء میں تارا چند کے زیر اہتمام جاری ہواتھا ۱۱#۔ سماچار چندریکا“ کے نام سے ۱۸۲۲ء میں سمبد کمودی کے معاون مدیر بھوانی چرن بندو پادھیہ نے جاری کیا تھا ۱۲#۔ ہری ہردت نے ۲۷ مارچ ۱۸۲۲ء میں جام جہاں نما کے نام سے اردو کا پہلا اخبار جاری کیا تھا۔ ۲۰ اپریل ۱۸۲۲ء میں راجہ رام موہن رائے نے مراة الاخبار کے نام سے فارسی میں ایک اخبار جاری کیا تھا۔ یہی و ہ شخص ہے جنہوں نے سب سے پہلے پریس آرڈینینس کے خلاف پریو یوکونسل میں اپیل دائر کی تھی جب ان کی اپیل رد کردی گئی تو انہوں نے بطور احتجاج اپنا فارسی اخبار مراة الاخبار کو بند کردیا۔ نوآبادی مشنریوں کا ایک انگریزی رسالہ فرنڈآف انڈیا بھی تھا۔اس میں ایسی خبروں کا انتخاب کیا جاتا تھا جن کاتعلق عیسائیت کی تبلیغ سے تھا۔ سرچارلس مٹکاف گورنر جنرل نے ۱۸۳۵ء میں محکمہ سینسر میں اخبارات سے متعلق نیا قانون نا فذ کیا۔ جس سے اخبارات کو بہت سی پابندیوں سے آزادی ملی۔ جس کے نتیجے میں صحافت کے میدان میں ایک عمومی ترقی ہوئی۔ اردو کی حیثیت یکم اکتوبر ۱۸۳۵ء میں سرکاری ہوگئی تھی۔ ۱۳# اس کا اعلان۲۹ اکتوبر ۱۸۳۵ء کے جام جہاں نما (فارسی ) میں شائع ہواتھا۔

۱۸۳۶ء میں مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا دہلی اردو اخبار دلی سے جاری ہوا ۱۴# یہ اخبار دلی میں اردو صحافت کا نقش اول ہے۔ اپنی ابتداء سے قبل اس اخبار کے پاس شاندار علمی و راثت تھی لیکن باضابطہ کوئی ایسی روایت موجود نہیں تھی جس پر اردو صحافت کا قصر تعمیر کیا جا سکے۔ ایسے حالات میں دہلی اردو اخبار کی پیشہ وارانہ کارکردگی ایک غیر معمولی چیز تھی۔ دہلی اردو اخبار ایک ہفت روزہ اخبار تھا اس کے پہلے صفحہ پر دو مستقل عنوان تھے۔ ایک حضور والا جس کے تحت قلعہ معلٰی کی خبریں اور دوسرا صاحب کلاں جس میں کمپنی بہادر کی سرگرمیوں کی روداد شائع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ملکی وغیر ملکی خبریں چھاپی جاتی تھیں۔ اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ صرف سیاسی خبریں ہی نہیں بلکہ تعلیمی ، تمدنی اور مجلسی زندگی سے متعلق کی خبریں بھی شائع کرتا تھا․ اس میں ادبی مضامین کے علاوہ ذوق،مومن اور غالب کی غزلیں چھپتی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر اور نواب زینت محل کا کلام بھی شائع ہوتاتھا۔ دہلی اردو اخبار ۱۸۳۶ء سے ستمبر ۱۸۵۷ء تک آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ لیکن اس کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ البتہ اس کے نام میں تبدیلی ہوتی رہی۔ اور ساتھ ہی اس کے پرنٹر و پبلیشر بھی بدلتے رہے۔

مولوی محمد باقر نے اکتوبر ۱۸۴۳ء میں مظہر الحق کے نام سے ایک اور اردو اخبار نکالاتھا۔ جس میں شیعہ فرقے کے نقطہ نگاہ کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اس کے مدیر امداد حسین تھے۔ دلی سے نکلنے والے اخباروں میں ایک اہم نام سید الاخبارکا بھی تھا۔ جسے سرسید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں نے ۱۸۴۱ء میں جاری کیا تھا۔ یہ ہفت روزہ اخبار سید اعبداغفور کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ اخبار وکیلوں میں بہت مقبول تھا۔ دلی کا پہلا فارسی اخبار ۳۰ جولائی ۱۸۴۱ ء میں سراج الاخبار کے نام سے جاری ہوا۔ یہ اخبار مطبع سلطانی میں باہتمام مصلح الدولہ سید ابوالقاسم خاں و قائع نگار وامداد بیگ خاں چھپ کرشائع ہوتاتھا۔ روزاول سے سراج الاخبار بہادر شاہ ظفر کا روز نامچہ تھا۔ یہ روز نامچہ تاریخ و اردرج ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ اس میں ملکی وغیر ملکی اور مقامی چیزیں نیز موسم کے حالات درج ہوتے تھے۔ یہ اخبار بہادرشاہ ظفر کے دربار کا کورٹ گزٹ تھا ۱۵# ۔

دلی سے نکلنے والے اخباروں میں صادق الاخبار ، کریم الاخبار اور اخبار آئینہ گیتی نما بھی تھے۔ اخبار آئینہ گیتی نما ۱۸۴۱ء میں سید اولاد علی کی ادارت میں جاری ہواتھا۔ صادق الاخبار کے نام سے یک بعددیگرے کئے اخبارات جاری ہوئے۔ ان میں زیادہ مشہور وہ صادق الاخبار تھا جسے مولوی سید جمیل الدین خان نے جولائی ۱۸۵۴ء میں جاری ہوا ۱۶#۔ دوسرا صادق دالاخبار ۱۸۵۱ء میں مصطفی خاں کی زیرادات جاری ہواتھا جبکہ چوتھا صادق الاخبار جنوری ۱۸۵۴ء میں سید عبدالقادر کے زیر اہتمام جاری کیا تھا۔ جس کے مدیر شیخ خدابخش تھے۔ یہ اردو کا ہفت روزہ اخبار تھا۔ اور ہر پنج شنبہ کوآٹھ صفحات پر مشتمل مطبع قادری میں چھپ کر شائع ہوتاتھا۔ مولوی کریم الدین ہفت روزہ اخبار کریم الاخبار ۱۸۴۵ء میں جاری ہواتھا۔ اس کے علاوہ مولوی کریم الدین نے ایک ادبی رسالہ گل رعنا بھی جاری کیاتھا ۔ جس میں اپنے مکان میں منعقد مشاعرہ کی روداد شائع کر کے عوام میں پیش کرتا تھا ۱۷#۔

دلی سے جاری ہونے والے رسالے قران السعدین، محب ہند، فوائدالناظرین اورتحفتہ الحدائق ہیں۔ قران السعدین کے مدیر دلی کالج کے شعبہٴ انگریزی کے سینئر اسکالرپنڈٹ دھرم نرائن اور فوائد الناظرین کے ایڈیٹر ماسٹر رامچندر تھے۔ یہ دونوں رسالے ۱۸۴۵ء میں جاری ہوئے تھے۔ رسالہ محب ہند کے مدیر بھی خود ماسٹر رامچندر تھے۔ یہ رسالہ ستمبر ۱۸۴۷ء میں خیر خواہ ہند کے نام سے جاری ہواتھا لیکن نومبر ۱۸۴۷ء سے یہ رسالہ خیر خواہ ہند کے بجائے محب ہند کے نام سے نکلنا شروع ہوا۔ یہ ادبی رسالہ پچاس صفحات پر مشتمل ہر انگریزی مہینے کی پہلی تاریخ کو شائع ہوتاتھا۔ فوائد الناظرین ایک باتصویر، علمی، تاریخی اور سائنسی رسالہ تھا۔ قران السعدین بھی ایک باتصویر رسالہ تھا ۱۸#۔ پنڈت دھرم نرائن بھاسکر کے مالوہ چلے جانے کے بعد اس کے مدیر محمد حسین مقرر ہوئے۔ ۱۸۵۰ء میں سید اشرف علی اس کے مدیر ہوئے اس کے بعد رسالہ کے مدیر کریم بخش مقرر ہوئے تھے۔ تحفتہٴ الحدائق ایک پندرہ روزہ رسالہ تھا۔ یہ رسالہ ۱۸۴۸ء میں محمد جعفر اور علی نقی کے زیر اہتمام جاری ہواتھا۔

نومبر ۱۸۴۶ء میں پربھودیال کے اہتمام میں ایک قانونی اخبار فوائد الشائقین کے نام سے جاری ہوا ۱۹# یہ اخبار چار صفحات پر مشتمل ہفتہ میں ایک بار ہی جاری ہوتاتھا۔ جس میں دیوانی اور فوجداری اور مال کے ضوابط بالالتزام چھپا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ آگرہ اور کلکتہ کی برطانوی عدالتوں کے اہم فیصلوں کے تراجم بھی شائع ہوتے تھے۔ ۱۸۵۳ء میں دلی سے اردو کے دو اخبار جاری ہوئے ۔ ایک کا نام نور مشرقی ہے جبکہ دوسرا نورمغربی۔ نور مشرقی کے مدیر سید امیر علی تھے جبکہ نور مغربی کے مدیر بلدیو سنگھ تھے۔ دونوں کامقصد ایک ہی تھا لیکن ناموں کے لحاظ سے اول ذکر مشرقی اور نور مغربی مغربی خیالات کا اظہار کرتاتھا۔ ۲۰#

دہلی ارد و اخبار کی اشاعت سے لیکر ۱۸۵۷ء تک دلی سے بڑی تعداد میں اردو کے اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔ جن میں سیاسی، علمی، ادبی، اور تجارتی تھے اور دعوت و اصلاح کے مخصوص ترجمان بھی۔ یہاں ایسے اخبارات و رسائل کی بھی کمی نہ تھی جو کسی تحریک سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے سامنے زندگی کا ایک واضح نصب العین تھا۔ ۱۸۵۷ء سے قبل اردو اخبارات کی تعداد پینتیس(۳۵) تھی لیکن ۱۸۵۸ء کی فہرست میں صرف بارہ اخبارات رہ گئے تھے۔ ان اخباروں میں صرف ایک اخبار کے مدیر مسلمان تھے ۔ بقول عبدالسلام خورشید:

”اس انقلاب نے مسلمانوں کو عملاً صحافت سے بے دخل کردیا۔ انقلاب برپا ہوتے ہی شمال مغربی صوبہ جات کے زیادہ تر اردو اخبار بند ہوگئے۔ بہت سے اردو اخبار بغاوت کے دوران میں بند ہوگئے تھے۔ان کی جگہ نئے اخبار نکل آئے، جن کی ادارت کے فرائض ہندووٴں کے ہاتھ میں تھے۔۱۸۵۳ء میں اردو زبان کے اخبارات کی تعداد پینتیس تھی۔ ۱۸۵۸ء کی فہرست میں صرف بارہ اخبار رہ گئے۔ ان میں چھہ پچھلے اخبار تھے اور چھ نئے۔ ان بارہ اخباروں میں صرف ایک اخبار کی ادارت کسی مسلمان کے سپرد تھی۔“ ۲۱#

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے پہلے مسلمان صحافت کے میدان میں اپنے جوہر خوب دکھائے لیکن جنگ آزادی (۱۸۵۷ء) کی ناکامی کے بعد مسلمانوں پر جو مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انگریزوں کا اعتاب زیادہ ترمسلمان پر نازل ہوا۔صحافت کے میدان میں بھی مسلمانوں ہی کو زیادہ نقصان پہنچا۔ انگریزوں کے حامی اخبارات نے مسلم اخبارات اور مسلمانوں کے خلاف سخت انتقامی کا روائیوں کا مطالبہ کیا۔ جن میں لاہور کرانیکل ،بنگال ہرکارو، سرجارج ٹریویلیان وغیرہ اخبارات کا لہجہ بے حدخوفناک تھا۔ انقلاب فرانس کے دوران ہیرٹ اور مارات کے بے رحم اور سفاک جرائد نے جو کچھ لکھا وہ ان اخبارات کے سامنے ہیچ تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا ایک نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ سے نکل کر براہ راست تاج برطانیہ کے تحت ہوگئی۔ ایک سال بعد Act Gagging ختم ہوگیا۔ مگر دیسی زبانوں خصوصاً اردو اخبارات اور مسلمانوں پر انگریزوں کے اعتاب کی دہشت اتنی تھی کہ ۱۸۵۷ء کے بعد ایک عرصے تک اخبار جاری کرنے کا کسی میں حوصلہ ہی نہیں تھا۔ گویا جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد مسلم صحافت عملی طورپر ختم ہوگئی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جو اردو اخبارات جاری ہوئے ان کے مالک اور مدیر غیر مسلم تھے۔ اور ان اخبار کا لہجہ خوشامدانہ تھا۔

۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد دلی سے نکلنے والا اردو کا پہلا اخبارا کمل الاخبار ہے۔ یہ اخبار جنوری ۱۸۶۶ء میں بلی ماران سے جاری ہواتھا ۲۲#۔ا س اخبار کے مالک دیوان حکیم محمود خاں اور مدیر منشی بہاری لال مشتاق تھے۔ یہ اخبار اپنے ہم عصر ممتاز اخباروں میں سے ایک تھا ۔ اس میں ملکی وغیر ملکی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اس کی کوئی خاص پالیسی نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس میں اداریہ کا کوئی کالم تھا۔ لیکن حکومت برطانیہ کے ذریعہ کی جانے والی زیادیتوں کے خلاف گاہے بگا ہے مواد شائع ہوتاتھا۔ اس اخبار کا پہلا منیجریا ایجنٹ اور پروپگنڈ کرنے والے مرزااسداللہ خاں غالب تھے۔ اکمل الاخبار مرزا غالب کا حامی تھا۔ اس میں مرزا غالب کے مضامین اور خطوط شائع ہونے کے علاوہ ان کے حامیوں کے جوابات اور اعتراضات بھی شائع ہوتے تھے۔ جس کا ذکر مرزا غالب نے مولوی سیف الحق کے نام ایک خط لکھتے وقت کیاہے۔

”بھائی تمہارا خط کل پہنچاآج جواب لکھتا ہوں۔ پہلے یہ پوچھتاہوں کہ میری طرف جواعتراز چھپا ہے وہ تمہاری نظر سے گذراہے یانہیں۔ نہ گذرا ہوتو اکمل الاخبار ماہ شوال کے چاروں ہفتہ کے دوورقہ دیکھ لوایک ہفتہ میں نکل آئے گا۔واقعی اعتراز کے جواب ایک مولوی نے لکھے ہیں اس ہفتہ کے اکمل الاخبار میں دیکھ لوجو تم سے کلام کرے اسی انداز سے بھی کلام کرو۔نجات کا طالب غالب#۔۱۹ اپریل ۱۸۷۶ء“ ۲۳#

۱۵ فروری ۱۸۶۹ء میں مرزا غالب کا انتقال ہواتو ۱۷ فروری ۱۸۶۹ء کے اکمل الاخبار کے پورے ایک صفحہ پرسیاہ حاشیہ کے ساتھ مرزا غالب کی وفات کی خبر شائع ہوئی تھی۔ اس میں مقامی خبروں کے ساتھ دلی کا لج کی رپورٹ، شخصیتوں کے حالات شعرا کے کلام اور خاص کر دلی میونسپل کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوتی تھی۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد دلی کا دوسرا اخبار فروری ۱۸۶۶ء کو چراغ دہلی کے نام سے جاری ہوا۔ ۲۴# اخبار چراغ دہلی کے ٹائٹل پیج پر ”یاہو“ لکھا ہوتاتھا۔ اس کے مالک ومہتم سردار نین سنگھ تھے۔ اس اخبار میں مولوی امین الدین کی کتاب”قاطع القاطع“ کا اشتہار شائع ہواتھا۔یہ وہ کتاب ہے جس پر مرزا غالب نے اس کے مصنف پر ہتک عزت کا دعویٰ کیاتھا۔ اشرف الاخبار کب جاری ہوااس سے متعلق اختلاف ہے۔ امداد صابری نے اس کا سن اجرا ۱۸۶۷ء بیان کیا ہے جبکہ اختر شہنشاہی کے مطابق ۱۸۶۵ء میں کوچہ چیلان گذرفیض بازار سے جاری ہوا۔ امداد صابری نے ثبوت میں مرزا غالب کا خط بنام مولوی صیف الحق ۱۲ فروری ۱۸۶۷ء پیش کیا ہے۔ گارساں و تاسی نے اس اخبار کو دلی کے ممتاز اخباروں میں شمار کیا ہے اور اس کے مالک و مدیر محمد مرزاں خاں کی بڑی تعریف کی ہے۔ خیر خواہ عالم کے مالک و مدیر سید میر حسن رضوی اور مدیر شاہزادہ عبدالغنی تھے۔ یہ اخبار محلہ بلبلی خانہ دلی سے ۱۸۷۲ء کو جاری ہوا ۲۵# اس میں ملکی حالات کے متعلق خبریں اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ دیسی ریاستوں میں رونما ہونے والے واقعات کو بھی نمایاں انداز میں پیش کیا جاتاتھا۔ جب خدابخش لائبریری پٹنہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کی ایک خیر خواہ عالم مورخہ ۱۶ نومبر ۱۸۹۰ء میں شائع ہوئی تھی۔ جس کی عبارت حسب ذیل ہے۔

”خان بہادر مولوی خدابخش وکیل پٹنہ نے دو لاکھ روپے کی قیمتی کتابیں وقف کردیں اور بیس ہزار روپیے کے صرف سے ایک لائبریری کھولی ہے۔“۲۶#

۱۸۶۶ء میں ”اردو اخبار“ کے نام سے ایک ہفت روزہ چاندنی چوک سے ہر جمعہ کوشائع ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ ایک اور دس روزہ اخبار ”ضیاء الاخبار “ کے نام سے کوچہ چیلان سے جمعہ کے روز نکلنا شروع ہوا جس کے مدیر حاجی عزیز الدین نظیر تھے۔ جبکہ اردو اخبار کے مدیر خواجہ قمر الدین تھے یہ اخبار بارہ صفحات پر مشتمل مطبع بدرالدجی میں چھپ کر شائع ہوتاتھا۔ رسالہ دہلی سوسائٹی کا اجرا ۱۸۶۶ء میں ہوا ۲۷#۔ یہ سوسائٹی ایک علمی وادبی سوسائٹی تھی۔ اس کا قیام ۱۸۶۵ء میں دلی میں ہوا تھا۔ اس سوسائٹی کی جو میٹینگیں ہوتی تھیں اس میں مرزا غالب، منشی ذکاء اللہ ، ماسٹر رامچندر، مولانا الطاف حسین حالی، میر نصرت علی ایڈیٹر نصرت الاخبار دہلی اور ماسٹر پیارے لال شامل ہوتے اور مضامین پڑھتے تھے۔ مولانا حالی کا مضمون قا بلیت اور استعداد اہل ہند رسالہ سوسائٹی کے ۲۱ مارچ ۱۸۷۱ء میں شائع ہواتھا۔ نصرت الاخبار یکم جنوری ۱۸۷۳ء میں جاری ہوا ۲۸# اس کے ایڈیٹر مولوی سید نصرت علی تھے۔ اس میں ایک ضمیمہ مہر درخشاں کے نام سے نکلتا تھا۔ یہ ضمیمہ ۱۸۷۵ء سے نکلنا شروع ہوا جس میں عیسائیوں کے اعتراضات کی تردید ہوتی تھی۔ مولوی نصرت علی کی ادارت میں ایک اور اردو اخبار”ناصرالاسلام“ کے نام سے ۱۸۷۳ء میں جاری ہواتھا۔ یہ ایک پندرہ روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبار دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے وقف تھا۔

خیر خواہ ہند لالہ مہانرائن کا اخبار تھا۔ انہوں نے اس اخبار کو ۱۸۷۵ء میں حوض قاضی دلی سے جاری کیا تھا۔شاہزادہ مرزا عبد الغنی کا ضیاء الاسلام ۱۸۷۷ء میں بلبلی خانہ دلی سے جاری ہوا۔ ہندوستانی اردو لغات یہ رسالہ ۲۴ صفحات پر مشتمل تھا اور ترکمان گیٹ سے یکم نومبر ۱۸۸۲ء میں جاری ہواتھا۔ ایک پندرہ روزہ اخبار جس کا نام ریختہ تھا۔ منشی مہانرائن نے حوض قاضی سے ۱۸۸۲ء میں جاری کیاتھا۔ ایک ادبی ماہنامہ یکم جنوری ۱۸۸۳ء میں کلاں محل سے نکلاتھااس کا نام مشاعرہ تھا۔فیض الحسن نے حامی اسلام کے نام سے ایک دس روزہ اخبار کوچہ رائمان سے جون ۱۸۸۳ء کوجاری کیاتھا۔ انجمن انصاریہ کا آرگن جاء الحق ایک ماہنامہ رسالہ تھا۔ یہ چاندنی چوک سے یکم مئی ۱۸۸۴ء کوسید منور علی کے اہتمام میں جاری ہواتھا۔ خواتین کادس روزہ اخبارالنساء یکم اگست ۱۸۸۴ء کو ترکمان گیٹ سے جاری ہوا تھا۔ اس اخبار کے مالک سید احمد دہلوی تھے۔ اخبار النساء عورتوں میں بہت مقبول تھا۔ اس میں عورتوں کی تعلیم اور امور خانہ داری سے متعلق مضامین شائع کئے جاتے تھے۔ آئین ہند پریس کا ماہنامہ مفید ہند یکم نومبر ۱۸۸۴ء کوجاری ہواتھا۔ ظریف ہند ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبارا فضل خاں دہلوی کی ادارت میں چاندنی چوک سے یکم مارچ ۱۸۸۵ء کوجاری ہواتھا۔ اسی تاریخ کو منشی غلام حسین نے صحیفہ قدسی کے نام سے مولوی محبوب علی چھتہ شیخ منگلو سے جاری کیا تھا۔ اس کے مالک مولوی عبدالقدوس تھے اور یہ مولاناراسخ کے پھوپھی زاد بھائی اور مولانا محمد حسین فقیر کے بھانجے تھے۔مارچ ۱۸۸۵ء میں ایک اور اردو اخبار بیر بر کے نام سے چاندنی چوک سے جاری ہوا۔ اس کا سالانہ چندہ چار روپیہ تھا۔

بھوجلہ پہاڑی سے جنوری ۱۸۸۶ء کو ایک پندرہ روزہ اخبار جاری ہوا جس کا نام مشتہر تھا۔ اس میں بیوہ عورتوں کی شادی کا اشتہار تجارتی اشتہاروغیرہ شائع کیے جاتے تھے۔ منشی امیر سنگھ یکم اپریل ۱۸۸۶ء کو بستی حضرت نظام الدین سے ایک ادبی ماہنامہ گل دستہ کے نام سے جاری کیا تھا۔ بھوجلہ پہاڑی سے مزاحیہ ہفت روزہ اخبار جس کا نام چلتا پرزہ تھامولوی عبدالرحمٰن راسخ کی ادارت میں ۱۶ جنوری ۱۸۸۷ء کوجاری ہواتھا۔ صدر پنچ بھگوان داس کے زیر اہتمام یکم فروری ۱۸۸۷ء کوصدر بازار سے جاری ہوا۔ اس کے مدیر ایک امجد نامی شخص تھے۔ مولوی شیخ محمد دین نے مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اخبار الاخیار کے نام سے ایک اخبار ۱۸۸۷ء میں جاری کیاتھا۔ مولوی محمددین ۱۸۴۷ء میں دہلی کے ایک متقی پرہیزگار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ اخبار عیسائیت کی بیخ کنی اور حکومت کے ہر محکمے کی بد عنوانیوں پر روشنی ڈالناتھا اخبار کے بند ہوجانے کے بعد مولوی محمد دین نے موئد الاسلام کے نام سے ایک انجمن قائم کیا اور ایک یتیم خانہ بھی کھولا جس میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ایک اسکول قائم کیا۔ تاکہ عیسائیت کے خلاف اپنا مشن جاری رکھ سکے۔

یکم اپریل ۱۸۸۷ء کومحلہ گندی گلی دلی سے ایک ہفت روزہ اخبار جس کا نام دوست تھا جاری ہوا۔ اس کے مدیر وبانی بابو رچھپال سنگ شیدا دہلوی تھے۔ دوست کے بند ہوجانے کے بعد سول اینڈ ملٹری نیوز کے مدیر بنے۔ اس وقت ہندوستان میں سودیشی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔بعد میں وہ لاہور چلے گئے اور اخبار کیسری اورہندوستان کے مدیر مقررہوئے۔ اس کے بعد اودھ اخبار کے ادارہ میں شامل ہوگئے پھر انہوں نے دلی کے ایک اخبار جس کا نام ریاست تھا اس کے مدیر بنے۔ جہان انہوں نے اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا۔ شاہزادہ ثریا جاہ نے نظام ہندکے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا تھا۔ یہ اخبار فروری ۱۸۹۰ء میں نظام ہند پریس سے شائع ہواتھا۔ ۱۸۹۳ء میں زبان کے نام سے ایک ادبی گلدستہ جاری ہواتھا۔ اس میں ہندوستان کے نامی گرامی شعراء کے کلام شائع کئے جاتے تھے۔ اخبار کی لوح پر داغ# کا ایک شعر جو حسب ذیل ہے درج ہوتا تھا۔

ہے بلند یہ، ترقی یہ، وہ شان دہلی

کہ زمانے میں ہے مشہور زبان دہلی

اس گلدستہ کے بانی و مدیرمولانا راسخ دہلوی تھے۔ انہوں نے جنوری ۱۸۹۵ء میں کوچہ چیلان سے ایک ظریف اخبار ”دہلی پنج“ بھی جاری کیا تھا۔ اس میں عمومی خبروں اور تبصروں کے مقابلے میں نظم و نثر کو زیادہ نمایاں انداز مین پیش کیا جاتا تھا۔ جنوری ۱۸۹۵ء میں مرزا عبدالغفار نے بھی ایک اخبار ا فضل الاخبار کے نام سے کوچہ چیلان ہی سے نکالا تھا لیکن اس کے مدیر خود راسخ ہی تھے۔ اس میں ملکی وغیر ملکی خبروں کے علاوہ علمی و ادبی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ اخبار کے ٹائٹل پیج پر اخبار کا نام انگریزی و اردو دونوں زبانوں میں لکھا جاتا تھا۔ مرزا حیرت نے فروری ۱۹۰۰ء میں کلاں محل سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا جس کا نام کرزن گزٹ تھا۔ یہ اخبار ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔ اخبار کی پالیسی بے باک اور بے لاگ تھی۔ حکومت اور اس کے وفاداروں کا بے لاگ ناقدتھا۔ اس میں مختلف کتابوں کو قسط وار شائع کیا جاتا تھا۔ ملکی وغیر ملکی خبروں کے علاوہ اس میں یادریافتگان کے عنوان سے بہادر شاہ ظفر کے اخبار سراج الاخبار کے منتخب اقتباسات بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیے جاتے تھے۔ ۱۹۰۰ء میں مٹیا محل سے ایک گلدستہ نسیم جاری ہوا۔ یہ ایک ادبی رسالہ تھا اور انگریزی مہنیے کی ہر تیسری تاریخ کو ۳۸ صفحات پر مشتمل شائع ہوتا تھا۔ اس کے سروق پر مندرجہ ذیل شعر درج ہوتاتھا:

وہ تازگی ہو غنچہ دل منھ سے بول اٹھے

جھونکا جدھر سے آئے نسیم بہار کا ۲۹#

دلی کے ان اخبارات و رسائل اور جرائد کے علاوہ انیسویں صدی میں ہندوستان کے کونے کونے سے بہت سے اخبارات و رسائل جاری ہوئے ہیں۔ جن کی تعداد بقول شانتی رنجن بھٹاچاریہ ؛ پوری انیسویں صدی یعنی ۱۸۲۲ء سے لیکر ۱۸۹۹ء تک کم و بیش پانچ سو اخبارات و رسائل ہندوستان کے کونے کونے سے نکلے ہیں۔ جب اتنے بہت سے اخبارات نکلے ہیں تو ان کے مسائل بھی طرح طرح کے رہے ہوں گے ۳۰# ایسی صورت میں اس کی مکمل فہرست تیار کرنا مشکل ترین کام ہے۔

###

حواشی:

۱۔علی ابن الحسین زیدی :مقدمہ، ہندوستان میں چھاپہ خانہ، ترقی اردو بورڈ، نئی دہلی،۱۹۷۹ء،ص:۷

۲۔اے۔کے۔پرولکر:ہندوستان میں چھاپہ کانہ، ترقی اردو بورڈ ، نئی دہلی،ص۔۱۰

۳۔محمد عتیق صدیقی: ہندوستانی اخبار نویسی (کمپنی کے عہد میں)، انجمن ترقی اردو علی گڑھ،۱۹۵۷ء،ص۔۳۸

۴۔اردو انسائیکلو پیڈیا: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،۱۹۹۷ء،ص۔۵۸۲

۵۔عتیق صدیقی: ہندوستانی صحافت کے دو سوسال، آجکل،نئی دہلی، جنوری،۱۹۸۰ء،ص۔۱۱

۶۔عتیق صدیقی: ہندوستانی صحافت کے دو سوسال، آجکل،نئی دہلی، جنوری،۱۹۸۰ء،ص۔۱۲

۷۔عتیق صدیقی: ہندوستانی صحافت کے دو سوسال، آجکل،نئی دہلی، جنوری،۱۹۸۰ء،ص۔۱۲

۸۔آر۔ آر۔ بھٹناگر:The Rise and Growth of Hindi Journalism,KitabMahal,1947, p.57

۹۔ محمد عتیق صدیقی: ہندوستانی اخبار نویسی (کمپنی کے عہد میں ) ،ص۔۱۱۳

۱۰۔ ایضاً،ص۔۱۲۲

۱۱۔ ایضاً،ص۔۱۴۴

۱۲۔ ایضاً،ص۔۱۴۸

۱۳۔ انور علی دہلوی (مرتبہ): اردو صحافت ، اردو اکادمی، دہلی، ۲۰۰۶ء،ص۔۴۴

۱۴۔مولانا محمد حسین آزاد: آب حیات، الہ آباد،۱۹۷۴ء، ص۔۲۶

۱۵۔جے۔ نڑاجن، History of Indian Journalism, 1955, p.49

۱۶۔ محمد افتخار کھوکھر: تاریخ صحافت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی،۲۰۰۷ء،ص۔۵۲

۱۷۔گارساں دتاسی: خطبات گارساں دتاسی، انجمن ترقی اردو دکن، ۱۹۵۳ء، ص۔۱۲۷

۱۸۔نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ(۵۷۔۱۸۲۲ء) ،ص۔۱۶۰

۱۹۔ امداد صابری: تاریخ صحافت اردو جلداول دہلی، ۹۵۳اء،ص۔۲۹۲

۲۰۔ گارساں دتاسی: خطبات گارساں دتاسی، انجمن ترقی اردو دکن، ۱۹۵۳ء،ص۔ ۱۸۵

۲۱۔ عبداسلام خورشید،صحافت پاکستان و ہند میں،مجلس ترقی ادب،۲۔کلب روڈ،لاہورجون۱۹۶۳ء، ص۔۱۷۸

۲۲۔ امداد صابری:تاریخ صحافت اردو (جلد دوم)،ص۔۲۱۸

۲۳۔ایضاً، ص۔۲۲۰

۲۴۔ایضاً، ص۔۲۴۴

۲۵۔ ایضاً،ص۔۴۳۸

۲۶۔ایضاً، ص۔۴۴۳

۲۷۔ایضاً، ص۔۲۶۹

۲۸۔محمد افتخار کھوکھر: تاریخ صحافت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی،۲۰۰۷ء،ص۔۵۷

۲۹۔ امداد صابری،تاریخ صحافت اردو، جلد سوم،ص۔۷۵۶

۳۰۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ: انیسویں صدی، اخبار و رسائل، آجکل نئی دہلی، نومبر، دسمبر، ۱۹۸۳ء ،ص۔۱۲

323- Jhelum Hqstel,J.N.U.

New Delhi-110067

Mob:+91-9968399900

E.Mail:sm.yusufjnu@gamil.com

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *