Home / Socio-political / اردو یونیورسٹی میں اردو کا قتل : اردو کے بہی خواہ کب بیدار ہوں گے؟

اردو یونیورسٹی میں اردو کا قتل : اردو کے بہی خواہ کب بیدار ہوں گے؟

عابد انور

اردو ہندوستان کی زبان کی ہے، بہت میٹھی ہے، تہذیب و اقدار کی زبان کی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوسکتی، اردو نے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے وغیرہ وغیرہ یہ ایسے خوشنما اور مسحور کن الفاظ ہیں

جو سننے میں بہت اچھے لگتے ہیں کیوں کہ یہ کوئی عام آدمی اپنی زبان سے نہیں نکالتا بلکہ یہ جملے وزرائے اعلی، مرکزی وزراء اور اعلی سیاست دانوں کے ہوتے ہیں جو اردو کی مختلف تقاریب میں واہ واہ لوٹنے کے لئے اردو سامعین کے سامنے دہراتے رہتے ہیں۔ سامعین تالیاں بھی خوب بجاتے ہیں اور یہ جملے اردو اخبارات کے شہ سرخیاں بھی بنتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے ”رات گئی بات گئی“۔ اردو کے حوالے سے کسی بھی سیاسی لیڈر کی کوشش محض وعدے سے کبھی نہیں آگے بڑھ سکی۔ اردو کو تمام سیاست دانوں نے اپنے جذبے کو بہتر ڈھنگ سے عوام کے سامنے ظاہر کرنے اور متاثر کرنے کے لئے استعمال تو کیا لیکن جب بھی اردو کو حق دلانے کی بات کی گئی تو ان کا رویہ ہرجائی محبوب کی طرح ہوگیا۔ اردو کو دہلی میں سرکاری زبان کا رتبہ حاصل کئے ہوئے پانچ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس کانفاذ قومی راجدھانی میں سڑکوں کے نام غلط املا کے ساتھ لکھے جانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ وزیر اعلی کے سکریٹریٹ میں کوئی اردو داں نہیں ہے۔ دہلی کے انفارمیشن اینڈ پبلسٹی کا محکمہ دس سال ایک اردو انفارمیشن آفیسر کے لئے ترس رہا ہے۔ یہاں کی وزیر اعلی مسلمانوں کے ہر تقریب میں اردوکی ترقی اور روزی روٹی سے جوڑنے کے لئے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن عملی طور پر نتیجہ صفر ہی رہا ہے۔ دہلی سے نکلنے والا ماہنامہ ”دلی“ کنٹریکٹ کی بنیاد پر نکالا جارہا ہے۔ مستقل اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ پابندی سے شائع نہیں ہورہا ہے۔ دہلی کے انفارمیشن اینڈ بپلسٹی کا محکمہ میں انفارمیشن آفیسر کے ساتھ ایک ٹرانسلیٹر کی جگہ بھی تقریباَ دس سال سے خالی پڑی ہے لیکن دہلی کی شیلا حکومت نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔وہیں دہلی حکومت کے محکمہ السنہ میں اردو ٹرانسلیٹراور ٹائپسٹ کی جگہ کافی عرصہ خالی ہے اس کو پرکرنے میں بھی کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گے۔ اردو اخبارات نے کبھی شدت کے ساتھ اس مسئلے کو نہیں اٹھایا اور نہ ہی دہلی کے منتخب مسلم نمائندوں نے اس موضوع پر کبھی کھل کر کوئی بات کی۔ اردو اخبارات کی اردو سے محبت سے صرف حصول اشتہارات تک محدود ہے۔وہ کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے دس بار یہ سوچتے ہیں کہ اس سے ان کے حصول اشتہارات پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہ اردو داں حضرات کو سایہ فراہم کرتے ہیں جو اردو کی بنیادپر اعلی عہدے پر پہنچے لیکن وہ اردو والوں کے مفادات اور اردو زبان کا بے دریغ قتل کرتے ہیں۔ اردو کے پروفیسر کو کسی کیڈمی کی سکریٹری شپ یا وائس چیرمین شپ مل جائے تو ان کی شب معراج ہوجاتی ہے۔اس کے بعد ان میں اردو کے تعلق سے ان کے منصوبے پر برف موٹی تہہ جم جاتی ہے جو کبھی نہیں پگھلتی۔

مولانا آزاد اردو اردو یونیوسٹی کا قیام پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت 1996 میں عمل میں آیا تھا۔آندھرا پردیش کی اس وقت چندرابابو نائیڈو حکومت نے زمین دینے کی پیشکش کے ساتھ حیدرآباد میں قائم کرنے مطالبہ کیا تھا۔ چندربابو نائیڈو اس وقت ڈھائی سو ایکڑ زمین دے کر ہیرو اور محب اردو بن گئے تھے۔ انہوں نے اردو یونیورسٹی کے لئے مسلمانوں کے وقف کردہ ان زمینوں میں سے دی تھی جس پر آج آئی ٹی ہب بنا ہواہے اوریہ پوری زمین وقف کی ہے۔ چندربابو نائیڈو حکومت نے اس طرح مسلمانوں کو خوب بے وقوف بنایا تھا۔ اس یونیورسٹی کا مقصد ملک میں اردو زبان میں تمام تکنکی اور پیشہ وارانہ تعلیم مہیا کرانا ہے جو آزادی سے قبل عثمانیہ یونیورسٹی کرتی تھی۔ اس کے سہارے اردو کی ترویج و اشاعت اور اردو داں طبقہ کو روزگار دلانا ہے۔ مولانا آزاد یونیورسٹی کے ویب سائٹ کے پہلے صفحہ پر اس یونیورسٹی کے مقصد کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ An Act to establish and incorporate a University at the national level mainly to promote and develop Urdu language and to impart vocational and technical education in Urdu medium through conventional teaching and distance education system and to provide for matters connected therewith or incidental there to.

Be it enacted by Parliament in the Forty-seventh year of the Republic of India as follows:

جب رہبر ہی رہزن بن جائے اور محافظ ہی قاتل بن جائے تو اس کا پتہ لگانا اور علاج کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی صورت حال سے آج کل مولانا ابولکلام آزاد یونیورسٹی گزر رہی ہے۔ اس کے مقصد کو کسی غیر نے زک نہیں پہنچائی ہے بلکہ اسے اپنوں نے اس کی حق تلفی کی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اردو یونیورسٹی کے ملازمین میں غیر اردو داں طبقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کھیل بہت پہلے سے جاری ہے اور اس سے پہلے دو، تین کی تعداد میں کرتے تھے لیکن اس وقت جو ہوا ہے وہ تھوک کے حساب ہوا ہے۔ اردو یونورسیٹی کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اس یونیورسٹی میں تمام کام اردو زبان میں کیا جاتا ہے یہاں تک کے فارم بھی اردو میں ہی بھرے جاتے ہیں لیکن نان ٹیچنگ اسٹاف کو جانے دیں ٹیچنگ اسٹاف تک غیر اردو داں کو رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے جہاں ملک کے دوسرے سنٹروں میں غیراردو حضرات کو رکھا گیا وہیں دہلی اور ہریانہ کے ریجنل سنٹر میں بھی غیر اردو زبان کی تقرری کی گئی تھی۔ اس تقرری کی وجہ معلوم کی گئی تھی تو ذرائع سے پتہ چلا تھا کہ وزارت فروغ انسانی وسائل کے سکریٹری اور یو جی سی کے ایک سینئر عہدیدار کی سفارش پر یہ تقرری ہوئی تھی۔اس بار مولانا آزد اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں نے یونیورسٹی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے تمام حدوں کو پار کردیا ہے۔ یہ تقرریاں نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس یونیورسٹی کو تباہ کرنے کی سمت ایک مضبوط قدم بھی ہے۔

گزشتہ دنوں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ۲۸ پروفیسر حضرات کی تقرری عمل میں آئی ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں 19 کا تعلق غیر اردو داں طبقہ سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی تقرری عمل میں آئی۔ سوال یہ ہے ان لوگوں کی تقرری عمل میں کیسے آئی، کیسے انٹرویو میں بلایا گیا۔ درخواستیں بہت ساری آتی ہیں لائق امیدوار کی درخواست کو الگ کیا جاتا ہے۔ ترجیحات کی بنیاد پر امیدواروں کو انٹرویو کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تقرری کے پورے عمل میں کہیں بھی کسی ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا۔ اردو یونیورسٹی میں تقرری کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ دسویں، بارہویں یا بی اے میں اردو مضمون کے ساتھ پاس ہونا لازمی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جتنے غیر اردو داں کا تقرر ہوا ہے انہوں نے ان مذکورہ کسی جماعت میں بحیثیت اردو مضمون کے نہیں پڑھا ہوگا۔ پھر ان لوگوں کو انٹرویو لیٹر کیسے جاری کیا گیا اور کس کی ہدایت پر جاری کیا گیا۔ درخواست کی چھٹنی کا کام جن کے ذمہ تھا کیا ان کو پہلے سے ہدایت موصول ہوچکی تھی کہ ان لوگوں کو ہر حال میں بلانا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پہلے ہی مرحلہ میں ان امیدواروں کی درخواست کو مسترد کردیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ انٹرویو کے دوران سرٹی فیکٹ دیکھے جاتے ہیں اور تمام دستاویزات کی تصدیق کی جاتی ہے ۔ کیا تصدیق کے دوران بھی حسب ہدایت ان بڑی کمیوں کو نظر انداز کردیا گیا؟۔ باوثوق ذرائع کے مطابق درخواست دہند میں ایسے اردو داں حضرات بھی شامل تھے جنہوں نے نامور یونیورسٹیاں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو اور دیگر یونیورسٹیوں کے ایم اے ایم ایڈ، نیٹ نکالے ہوئے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں لیکن ان لوگوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ آخر کس کے اشارے پر؟۔ آج کل یہ بات مشاہدے اور اخباری خبروں میں آتی رہتی ہے کہ ایک چپراسی کی تقرری کی جگہ نکلتی ہے تو پی ایچ ڈی والے بھی اس کے لئے درخواست دیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے مذکورہ عہدہ کے لئے سیکڑوں ایم اے، پی ایچ ڈی سند کے حامل افراد نے درخواست نہیں دی ہوگی۔ پھر ان لوگوں کی تقرری کیوں نہیں ہوئی؟ جب یہ سارے حضرات ضوابط و قواعد کو پورے کرتے تھے ۔ یہاں تک بحالی فارم میں واضح طور پر اردو کا بطور ایک مضمون پڑھنا لازمی ہے ،درج ہے پھر بھی اس کو کیسے نظر اندازکیا گیا۔ ذرائع کے مطابق شعبہ تعلیم میں تین ایسوسی ایسٹ پروفیسر جوائن کرچکے ہیں جن میں دو خاتون غیر اردو داں ہیں ان کے نام کے نام پروفیسر رینوکا سنگھ اور پروفیسر وینیجاہیں۔ دربھنگہ (بہار) کے کالج آف ٹیچر ایجوکیشن مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں چھ پروفیسر نے جوائن کیا ہے جن میں چار کا تعلق غیر اردو داں سے ہے۔ اسی طرح سری نگر (کشمیر ) اور بھوپال (مدھیہ پردیش) کے لئے تقرر کئے گئے 19 پروفیسر میں سے 13 غیر اردو داں ہیں ۔ یہ سمجھ میں آتی اگر اردو داں نہ ملتے جب کہ ہرسال سینکڑوں طلباء ملک کے مختلف جامعات سے شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔اس کے باوجود غیر اردو حضرات کا تقرری حاصل کرنا ہے کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے نہ ان پی ایچ ڈی ہولڈر افراد کی حق تلفی ہے بلکہ اردو کو ختم کرنے کی سمت ایک قدم بھی ہے۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں کی دیدہ دلیری تو دیکھئے ہیں کہ وہ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ” باصلاحیت افراد کاتقرر کیا گیا ہے“۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ تمام غیر اردو پروفیسر حضرات سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اردو زبان سیکھ لیں۔ یہ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ضابطہ کا مذاق اڑانے والا بھی ہے۔ اس تقرری کو بالکل صیغہ راز میں رکھا گیا تھا۔ ان منتخب امیدواروں کو فہرست تک آویزاں نہیں کی گئی تھی۔ کیا سنسکرت یونیورسٹی یا ہندی یونیورسٹی میں غیر ہندی داں (صرف اردو جاننے والوں) کا تقرری ممکن ہے۔جتنے غیر اردو ادارے ہیں ان میں مسلمان برائے نام ہیں۔ لیکن جتنے بھی اردو کے ادارے ہیں ان میں غیر اردو داں حضرات (ہندو) کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ خصوصاً مالیات سے تعلق ہے توہندو ہی ہوں گے تاکہ مسلمانوں کے نام غیرمسلموں کا بھلا کیا جاسکے۔ایسا کیوں ۔ اس کا جواب کون دے گا۔ حکومت، حکام یا تقرری کرنے والے حضرات؟۔ یوں تو یہاں کے کم و بیش سارے محکمے میں اردو کی جگہ ہوتی ہے لیکن اعلی حکام اسے پر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ تقرری کسی مسلمان کی کرنی ہوگی اور وہ لوگ مسلمانوں کو نوکری دینا نہیں چاہتے اس طرح کی سیکڑوں عہدے سالہا سال سے خالی پڑے ہیں۔ کئی وزارتیں ایسی ہیں جہاں سے مسلمانوں کا سیدھا رابطہ ہوتا ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے بنائی گئی ہیں لیکن وہاں بھی اردو داں حضرات نہیں ہوتے جس سے مسلمانوں کے متعلق منصوبے اور پروگرام فائل میں بند ہوکر دھول پھانکتے ہیں۔ اردو داں حضرات کی بحالی کے لئے ایسے اخبارات میں اشتہاردئے جاتے ہیں جسے کوئی مسلمان نہیں پڑھتا یا اس وقت دیا جاتا ہے کہ درخواست دینے کا وقت ہی نہ مل سکے۔ اردو والوں کی روزی روٹی چھیننے کے لئے بہت عہدے ایس سی اور ایس ٹی کے لئے ریزرو رکھے گئے ہیں جب مسلمانوں میں ایس سی ایس ٹی نہیں ہوتے تو ایس ٹی ایس ٹی کوٹہ کیوں رکھا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ مسلما نوں پر ترقی کے دروازے کو بند کرنا۔

معاملہ چند غیر اردو پروفیسر حضرات کا ہی صرف نہیں ہے بلکہ معاملہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے مستقبل کا ہے۔ اگر اس رویہ کے خلاف احتجاج اور تدارکی اقدامات نہیں کئے گئے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی نہیں بلکہ ہندی یونیورسٹی میں تبدیل ہوجائے گی۔ ابھی یہ یونیورسٹی ترقی کے مدارج طے کر رہی ہے اور بہت سارے شعبے کھلنے باقی ہیں جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی تقرری عمل میں آئے گی اگر اس رویہ کو نہ روکا گیا تو سارے شعبہ میں غیر اردو داں حضرات کا قبضہ ہوگا اور مسلمان صرف کف افسوس ملیں گے۔ یہ اچھی بات ہے کہ چند اردو تنظمیں اور بہار کے ایک ایم ایل اے اخترالایمان نے اس سلسلے میں پہل کی ہے۔ اس کے خلاف زوردار طریقہ سے احتجاج درج کرایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو نہ صرف سیاسی سطح پر اٹھایا جائے بلکہ اس معاملے کو عدالت کے سامنے بھی پیش کیا جائے کہ آخری اردو میں تعلیم دینے کے لئے غیر اردو داں حضرات کا تقرری کیسے عمل میں آیا۔ اس کے پیچھے کون سے لوگ کار فرما ہیں۔ اردو یونیورسٹی کو جو ابھی جوانی کی دہلیز پر بھی قدم نہیں رکھ پائی ہے حالت نزع میں کون پہنچانا چاہتے ہیں۔ پروفیسر محمد میاں تو صرف ایک آلہ کار ہیں ۔ آخر انہوں نے کس کے اشارے اور ہدایت پر اردو کا گلا گھونٹنے کا کام کیا ہے۔ کیا یہ تمام تقرریاں یو جی سی کے اشارے پر کی گئی ہیں؟۔ کیا یو جی سی اردو یونیورسٹی کو بلیک میل کر رہا ہے اور گرانٹ روکنے کی دھمکیاں دے رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ان تمام سوالوں سے پردہ اٹھایا جانا ضروری ہے۔ تمام اردو داں حضرات جو اردو سے محبت کرتے ہیں متحد ہوکر اس سمت میں مثبت قدم اٹھائیں تاکہ آئندہ کے لئے اردو والوں کے ہاتھوں اردو کے قتل کے سلسلہ کا سدباب کیا جاسکے۔

اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک تقریباً ہر جگہ بڑے اور منظم پیمانے پر ہورہا ہے۔ دہلی دوردرشن ڈی ڈی ارو میں بیشتر ملازم کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ ہندی اور دوسری زبان کے مقابلے میں اردو داں حضرات کو کم پیسے دئے جاتے ہیں۔ ڈی ڈی اردو میں ایم اے، پی ایچ ڈی والوں پر اردو سرٹی فیکٹ کورس کے حامل افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ریڈیو میں بیشتر اردو کی جگہیں خالی پڑی ہیں جس کی وجہ سے دہلی سے باہر اردو کا پروگرام نشرنہیں ہورہا ہے یہ بہت بڑی اردو کی حق تلفی ہے۔ بہار میں اردو ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے کئی کالجوں میں شعبہ اردو بند ہے اردو کو بہت خوبصورتی کے ساتھ ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں اہل اردو کے حکومت کے رفیق کار ہوگئے ہیں۔ اردو اکیڈمی اورانجمن ترقی اردو میں حالت نزع میں ہے۔ بہار میں بیشتر اردو کی جگہیں عرصہ سے خالی پڑی ہیں جس کی وجہ سے اردو کی سرگرمیاں تقریباً ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔ اگر کہیں اردو کے تعلق سے مدہم سی آواز اٹھتی بھی ہے تو لالی پاپ کا وعدہ کرکے حکومت ان کی آواز کو دبادیتی ہے اور اہل اردو محض وعدے سے ہی شیش محل تیار کرلیتے ہیں۔ مجموعی طور پر اردو کی حالت پورے ملک میں نہایت خستہ ہے اور اردو والے ہی اس کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔

D- 64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025 INDIA

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. معلوم ہوتا ہے کہ پڑوس میں اردو آخری سانسیں لے رہی ہے…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *