اسامہ بن لادن کی ہلاکت
آج کا دن عالمی تاریخ میں ایک اہم دن کے طور پر یاد کیاجائے گا کیونکہ 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے شہر نیو یارک پر ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد سے ہی اسامہ بن لادن کی امریکہ کو تلاش تھی ۔ ماناجاتا ہے کہ اس حٕملے کا ماسٹر مائنڈ اسامہ ہی تھا۔ اسی لیے اس وقت سے آج تک اسامہ اور القاعدہ کو دہشت گردی کا سب سے بڑا نیٹ ورک مانا گیا ۔اور آخر کار 2 مئی کو امریکی ایجنسیوں کی کاروائی میں اسامہ کا ہلاک کر دیا گیا ۔اس اعتبار سے یہ دن دہشت گردی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے جانا جائے گا۔اسامہ کی ہلاکت سے پوری دنیا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور اسے دہشت گردی کی شکست کے روپ میں دیکھا جا رہا ہے ۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے جب اسامہ کی موت کا اعلان کیا اس وقت سے دنیا کے تمام چینلوں میں یہی خبر باز گشت کے طور پر گونج رہی ہے ۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ امریکی عوام اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو امریکی اہلکاروں نے پاکستان کے شمال مغربی شہر ایبٹ آباد میں اتوار کی شب ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا۔ اس آپریشن کو دنیا کے کامیاب ترین آپریشن میں سے ایک مانا جارہاہے ۔ لیکن دنیا اس بات پر متحیر بھی ہے کہ پاکستان کی سرزمین اسامہ کی موجودگی کی خبر امریکی ایجنسیوں نے پاکستان کو نہیں دی اور نہ اس آپریشن میں اس کی مدد لی بلکہ حکومت پاکستان کی جانب سے اب تک جو بیان آیا ہے اس سے یہی معلوم ہو رہا ہے پاکستان کو خبر کیے بغیر اورا س کی اجازت لیے بغیر یہ کاروائی کی گئی ۔ یہ اپنے آپ میں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔ ایک تو یہ کیا امریکی ایجنسیوں کو پاکستا ن پرت بھروسہ نہیں تھا؟ یا پاکستان کو معلوم تھا مگر اپنے یہاں خلفشار کی وجہ سے لاعلمی کا اظہار کیا جا رہاہے ۔ دوسر ابڑا سوال یہ بھی ہے کہ جب اسامہ کو گھیر لیا گیا تھا تو اسے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا امریکہ کو اسامہ کے مزید راز جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ یہ وہ سولات ہیں جو کچھ ہی دنوں میں ابھر کر سامنے آئیں گی۔ ‘پاکستان کےوزیر اعظم یوسف رضا نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت تاریخی کامیابی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے ملک کی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر مبارک باد دیتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت بڑی فتح ہے۔’دنیا کے تمام حکمرانوں کی جانب سے بیانات اور تاثرات آرہے ہیں۔ہر جانب سے خوشیوں کا مژدہ بھی سنایا جا رہا ہے ۔ لیکن یہ لڑائی ابھی یہیں ختم نہیں ہوئی کیونکہ ایک اسامہ کے مرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس پر سنجیدگی اور خلوص سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ براک اوبامہ کے اس بیان کا بھی استقبال کیا جانا چاہیے کہ یہ لڑائی اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ اب یہ بات یاد رکھنے کی ہے اور بار بار امریکہ کو ہاد دلانے کی ہے کہ اسلام اور دہشت گردی میں دور دور کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔
واقعی اسامہ کی موت کی خبر بہت بڑی خبر ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ خاص طور سے اس حالت میں کہ ابھی تک یقینی طور پر اسامہ یا اس کے گروہ کے اس دہشت گردی ملوث ہونے کی بات نہیں کہی گئی۔