اسلام پسند اخوانی صدر محمدمرسی کی معزولی اور فرعون مصر کی واپسی
مصرمیں جس انداز میں منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کرکے فوجی حکومت قائم کی گئی ہے اس سے نہ صرف عرب ممالک میں پنپنے والی جمہوریت کا جنازہ نکلا ہے بلکہ فوجی آمریت کو فروغ ملا ہے۔ اس جنازہ کو نکالنے میں صرف آمر ملک ہی نہیں بلکہ بیشتر جمہوریت اور جمہوریت کے نام پر دوسروں کے اقتدار کو تہ و بالا کرنے والے ممالک شامل ہیں۔ جہاں ایک طرف امریکہ، ایران اور مغربی ممالک اس کھیل میں شامل ہیں وہیں سعودی عرب کا کردار بھی کم کریہہ نہیں ہے۔ مصر میں کامیاب اور زیادہ انسانی جانوں کے زیاں کے بغیرجس طرح اخوان المسلمین انقلاب لانے میں کامیاب ہوا اس سے لگنے لگا تھاکہ اس کی روشنی پورے عرب ممالک میں پھیلے گی۔جس طرح عرب ممالک میں شہنشاہیت قائم ہے اور اس کے نام پر عوام کو جس طرح اظہار آزادی سے محروم رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے وہاں پورے معاشرے میں گٹھن محسوس ہورہا ہے۔ اس حبس کے ماحول میں عوام نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ اس کے بعد انقلاب کی کونپلیں پھوٹنی شروع ہوئیں۔ سب سے پہلے انقلاب کا مزہ تیونس نے چکھا اس کے بعد مصر نے ۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا اس کے بعد یمن میں بھی اقتدار کی تبدیلی آئی اور لیبیا میں کرنل معمر قذافی کو جان دے کر اقتدار حوالے چھوڑنا پڑا۔ اس کی آنچ شام تک پہنچی لیکن چوں کہ شام میں اقتدار کی تبدیلی ایران، امریکہ اور مغربی ممالک کے مفاد میں نہیں تھا اس لئے وہاں ڈیڑھ سال سے خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ، ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا علویوں (خوارج) نے قتل کردیا ہے۔ شامی صدر بشارالاسد کا تعلق علوی شیعوں کے اس فرقہ سے جو حضرت علی رضی اللہ کو خدا تسلیم کرتاتھا ۔شام پر صرف مگر مچھ کے آنسو بہائے جارہے ہیں۔ شام میں سنی خواتین کی جس طرح اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے اور جس طرح ذلت آمیز طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے اس سے اسلامی ملکوں کو شرمسار ہونا چاہئے۔
مصر میں فوج نے ملک کے پہلے جمہوری طریقے سے منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کرکے آئینی عدالت کے سربراہ عدلی منصوری کو کارگزار صدر منتخب کیا گیا ۔اس کے ساتھ مرسی کے حریف اور مغرب کے پسندیدہ چہرہ محمد البرادعی کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ مصری فوج کے چیف، جنرل عبد الفتح سی سی نے ٹیلی ویڑن پر خطاب میں آئین کو معطل کئے جانے کا اعلان کیاتھا۔صدر دفتر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ محمد مرسی نے فوج کے اس اعلان کو فوج کی سازش بتاتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور ہمارے ملک کے آزاد لوگ پوری طرح سے خارج کرتے ہیں۔اس سے پہلے مسلح گاڑیوں کے ساتھ فوج کے دستوں نے دارالحکومت قاہرہ کے اہم مقامات پر قبضہ کر لیاتھا کئی ہزار اپوزیشن مظاہرین اور محمد مرسی کے حامی سڑکوں پر اتر آئے۔ملک میں جمہوری طریقے سے منتخب پہلے صدر مرسی کے خلاف نومبر 2012 سے ہی عوام میں بے چینی پنپ رہی تھی ۔ محمد مرسی نے ایک عبوری آئین جاری کیا تھا۔ اس میں صدر کو بے پناہ اختیارات دئے گئے تھے۔کئی دنوں کے احتجاج کے بعد وہ اپنے اختیارات کو محدود کرنے پر راضی ہو گئے تھے لیکن گزشتہ ماہ کے آخری میں آئین ساز اسمبلی نے جلدی میں تیار کئے گئے آئین کے مسودے کو منظوری دے دی تھی۔ اس کے بعد اور مظاہرے ہوئے۔جیسے جیسے ان کی مخالفت بڑھتی گئی، صدر مرسی نے فوج کو ایک حکم جاری کیا۔ اس حکم کے مطابق آئین کے مسودے پر 15 دسمبر 2012 کو ہونے والے ریفرنڈم تک فوج کو تمام قومی اداروں اور انتخابی مقامات کے تحفظ کا حق دے دیا گیا۔ ناقدین نے اسے ایک طرح سے’’مارشل لاء‘‘قرار دیا تھا۔ اس کے بعد فوج بیرکوں میں واپس گئی لیکن کچھ ہفتوں میں ہی محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کو روکنے کے لئے سویز نہر کے آس پاس کے شہروں میں فوج کو تعینات کرنا پڑا۔ ان جھڑپوں میں 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جنرل سی سی نے 29 جنوری 2013 کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی بحران “حکومت تحلیل ہونے کہ طرف بڑھ سکتا ہے۔اپریل کے آخر میں حزب اختلاف کے کارکنوں نے تمرود (انقلاب) کے نام سے ایک مخالفت کی تحریک شروع کی۔ اس کا مقصد محمد مرسی کے خلاف ایک خط پر دستخط کروانا تھا۔ اس خط میں محمد مرسی پر ملک میں سیکورٹی کو بحال کرنے اور معیشت کو پٹری پر لانے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس خط میں نئے صدارتی انتخابات کا بھی مطالبہ تھا۔ 30 جون 2013 کو صدر مرسی کی مدت کا ایک سال مکمل ہونے پر اس تحریک کے تحت بڑے احتجاجی مظاہرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ان مظاہروں کے پیش نظر فوج نے صدر مرسی کو یکم جولائی کو متنبہ کیا کہ اگر وہ اگلے 48 گھنٹوں میں لوگوں کے مطالبے پورے کرکے سیاسی بحران ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو وہ مداخلت کر کے اپنا ‘روڈ میپ’ نافذ کرے گی۔تین جولائی کو سیاسی، مذہبی اور نوجوان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد جنرل سی سی سے کہا کہ مصر کے لوگ “مدد مانگ رہے ہیں” اور “فوج خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔مصر میں سابق صدر محمد مْرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اخوان المسلمون کے سیاسی چہرے “آزادی و انصاف” کے کئی سرکردہ رہ نماؤں کوحراست میں لیے گئے ہیں۔’’آزادی و انصاف‘‘ (فریڈم اینڈ جسٹس) کے چیئرمین سعد الکتاتنی، اخوان المسلمون کے نائب مرشد عام ڈاکٹر رشاد البیومی اور کئی دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا ۔ گرفتاریوں کا دائرہ اخوان المسلمون کے علاوہ کئی دوسری مذہبی جماعتوں اور مذہبی چینلوں کے مالکان اور عہدیداروں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اخوان کے سارے چینل بند کردئے گئے اور اس کے اخبار کی اشاعت بند کردی گئی۔ مصر کے کثیرالاشاعت عربی روزنامہ “الاھرام” نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے اخوان المسلمون کے تین سو سرکردہ رہ نماؤں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے اور گرفتار بھی کرلئے گئے ہیں۔ مصری صدر مرسی نے اپنے عوامی خطاب میں کہا ہے کہ وہ قانونی طور پر ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور کسی بھی دباؤ کے نتیجے میں مستعفی نہیں ہوں گے۔ وہ حکومت مخالف مظاہروں کے باوجود اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔ مرسی کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں اور ملک میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کرایا جائے۔ مرسی نے اپنے عوامی خطاب میں فوج کی طرف سے دیے گئے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہوئے عوام کو پر سکون رہنے کی تاکید کی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے پر جو رد عمل سامنے آیا ہے اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سی حکومتیں ’سیاسی اسلام‘ کو پسند یا ناپسند کرتی ہیں۔محمد مرسی کی معزولی کی سب سے زیادہ خوشی سعودی عرب اور شام کو ہوئی ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ تحریک ان کے ملک میں نہ پھیل جائے اور وہاں نوجوان بھی کہیں اخوان کی راہ نہ چل پڑیں۔ اس لئے سب سے پہلے مبارکبا ددینے والوں سعودی عرب شامل تھا۔ اس کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے عبوری صدر عدلی منصور کو تہنیتی پیغام میں کہا کہ مصرکی مسلح افواج نے ملک کو گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا۔ اگر مصری فوج فوری ایکشن نہ لیتی تو نہ جانے اس کے بعد کی صورتحال کے کیا نتائج سامنے آتے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ الشیخ عبداللہ بن زاید نے مصرمیں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “مصرکی عظیم مسلح افواج نے آج ایک مرتبہ پھرثابت کردیا ہے کہ وہ ملک اور وقوم کی محافظ ہیں”۔ ادھر اردنی وزیرخارجہ ناصر جودہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فوج کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے ملک وقوم کے مفاد میں فیصلہ کرے۔ کویت کے حکمران صباح الاحمد الصباح نے مصری فوج کی تعریف کرتے ہوئے اس کے کردار کو ’’مثبت اور تاریخی‘‘ قرار دیا ہے۔ محمد مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایران اور مصر کے تعلقات میں بہتری آئی تھی۔ محمد مرسی نے اقتدار میں آتے ہی ایران کا دورہ کیا تھا لیکن ایران نے بھی انتہائی محتاط رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ محمد مرسی شام میں اسد حکومت کی مخالفت میں بیان دے چکے ہیں جب کہ ایران دمشق حکومت کا حامی اور حلیف ہے۔ تیونس کے صدر منصف مرزوقی کے مطابق ’’فوجی مداخلت کلی طور پر ناقابل قبول ہے اور ہم مصر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مرسی کی جسمانی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔‘‘ اس ملک میں برسر اقتدار النہضہ جماعت نے اس فوجی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آئینی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہے۔تیونس کے ساتھ ساتھ ترک حکومت نے بھی مرسی کی حکومت کے خاتمے پر مصری فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کے حوالے سے کہا گیا کہ ’’ایک جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی حکومت کا اس طرح غیرقانونی طریقے سے تختہ الٹ دینا ناقابل قبول ہے۔‘‘مغرب کے پٹھو فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فوجی اقدام پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ افریقی ممالک کی تنظیم افریقین یونین نے صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد مصر کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ بیان میں صدر مرسی کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیا گیا اور مصر کی نئی انتظامیہ سے تمام سیاسی عناصر سے بات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا نے کہا تھا کہ ایک جمہوری طور پر منتخب رہنما کی برطرفی افریقہ کے لیے شدید تشویشناک ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت مصر میں فوجی مداخلت کی حمایت نہیں کرتی ہے۔تاہم ولیم ہیگ نے فوجی بغاوت کے ذریعے صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے اقدام کی مذمت نہیں کی ہے۔
فوج نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مصری عوام کی امنگوں کی تکمیل کیلئے ایسا کیا ہے۔ حزب اختلاف کی آرزو عوام کی خواہش ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ اگر ایران، امریکہ،سعودی عرب یا دیگر ممالک میں اپوزیشن کے ارکان لاکھوں کی تعدادمیں سعودی شاہ عبداللہ، ایران کے حسن روحانی، امریکہ کے بارک اوبامہ یا دیگر ممالک کے سربراہ کے خلاف احتجاج کریں گے تو وہ اقتدار چھوڑ دیں گے ؟ اور فوج تختہ پلٹ دے گی؟ دیگرممالک میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تو مصر میں کیوں کیاگیا۔ کیا صرف احتجاج کو اقتدار کی تبدیلی کا جواز بنایا جاسکتا۔ آج تک کسی ملک میں نہیں ہوا ۔حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اٹھارہ دن تک ایسے مظاہرے ہوئے تھے جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس بار صدر مرسی کو ہٹانے کے لیے صرف چار دن کے مظاہرے کافی رہے!۔مرسی کو معزول نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسلام کو معزول کیا گیا ہے اس کا سہرا سعودی عرب کے سرزیادہ جاتا ہے۔ چھوٹے موٹے احتجاج بہت دنوں سے کئے جارہے تھے ۔ ایک دن کا احتجاج منظم کرنے میں خزانہ کادہانہ کھولنا پڑتاہے جب کہ وہاں کئی مہینوں یہ جاری تھا تو سوال یہ ہے کہ پیسہ کہاں آرہاتھا؟ کون ملک مالی مدد کر رہا تھا؟یہ مرسی کی معزولی نہیں صیہونیت ، نصرانیت اور فرعونیت کی واپسی ہے۔ اس سازش میں جہاں طاغوتی نظام کارفرما رہاہے وہیں عرب ممالک نے بھی زبردست طریقہ سے صیہونیت، نصرانیت اور فرعونیت کا ساتھ دیا ہے اس کی قیمت سعودی عرب سمیت تمام ممالک کو چکانی ہوگی۔ مرسی کی وجہ سے 2012کی جنگ میں حماس اسرائیل کو اس کی اوقات بتانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ قارئین کو یہ جان کا کر افسوس ہوگا کہ 2010کی غزہ کی جنگ میں اسرائیل کو مہمیز دینے میں عرب ممالک شامل تھے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com