قدامت پرستی اور تجدد پسندی سے نجات کے لیے
اسلام کی معتدل تعبیر کی ضرورت!
خوشتر نورانی
ادارہ فکر اسلامی، شاہین باغ، اوکھلا، نئی دہلی-۵۲
09868629227
email:k_noorani@yahoo.com
کہاجاتا ہے کہ”عبارتTextخود نہیں بولتی، اس لیے اس کے پڑھنے والے اس کی مختلف توجیہ و تشریح کرتے ہیں-“ معاصر دنیا میں اسلامی مآخذ و مراجع اور اس کی تاریخ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے- ”صحیح اسلام“ کی تعبیر و تشریح میں آج جو کتابیں اور مضامین آرہے ہیں، ان کے مطالعے سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ داخلی سطح پر مسلمان کس فکری بحران سے دوچار ہیں- اسلام پر لکھی جانے والی ان سیکڑوں تحریروں سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ مسلکی اور مشربی امتیازات سے بالاتر علما اور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اسلام کی تعبیرات، شریعت کی تشریحات اور مسلم امہ کی ذہنی تشکیل کے سلسلے میں دو حصوں میں بٹ گیا ہے-
ایک طبقہ قدامت پرستی اور قدماءکی عقیدت میں اس قدر جامد ہے کہ کسی فرعی فقہی مسئلہ میں اختلاف رائے کو بھی گمرہی قرار دیتا ہے- سیاسی، معاشی، جمہوری اور سیاسی انقلابات سے ناواقفیت اور زمان و مکان کے تغیر سے بے نیازی کے ساتھ یہ طبقہ اسلام کی جو تعبیر پیش کر رہا ہے وہ معاصر مسلمانوں کی دینی تفہیم میں رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے- اسلام کے دین کامل ہونے کی جو توجیہ مفسرین نے بیان کی ہے وہ ہے اس کی ہمہ گیریت، آفاقیت اور یسر،جس کا دوٹوک مفہوم یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہیں، قیامت تک کے لیے قابل انطباق Applicableہیںاور حالات، زمانے اور ماحول کے زیر اثر پیدا ہونے والے مسائل کا قابل عمل حل اپنے اندر رکھتی ہےں- لیکن اسلام کی جو تعبیرات و تشریحات مذکورہ طبقے کے ذریعہ منظر عام پر آرہی ہیں وہ اسلام کی کاملیت، ہمہ گیریت اور آفاقیت کے مفاہیم سے متصادم ہیں- اس تصادم کی وجہ سے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس طرح ہیں:
۱-داخلی سطح پر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ علما سے برگشتہ ہو گیا ہے، جس کے سبب علما کا ذاتی وقار اور ان کی مذہبی قدریں مسلم سماج سے رخصت ہورہی ہیں جو بالواسطہ اسلام سے دوری کی وجہ بن گئی ہے-
۲- بلا تفریق مذہب و ملت عام ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو رہی ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلامی تعلیمات بھیOutdatedہیں اور نو پید مسائل کا قابل نفاذ حل نہیں رکھتیں-
۳- ذرائع ابلاغ(میڈیا)کو اسلامی قوانین اور نظریات کے خلاف محاذ آرائی کا موقع مل رہا ہے، اس طرح عالمی سطح پر اسلام کی آفاقیت پر سوالیہ نشان قائم کیا جارہا ہے-
۴- اسلامی تعلیمات جن کی اساس محبت، رواداری، مساوات، انسانیت، حکمت بالغہ اور امن پر قائم ہے، اسلام کی ان نئی تعبیرات میں یہ اساس مفقود ہوگئی ہے- نتیجے کے طور پر دعوت و تبلیغ کا تصور امت کے دماغ سے ختم ہوتا جا رہا ہے-
۵- فروعی مسائل فرضیت کے دائرے میں آگئے ہیں جس کی وجہ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات پر امت مسلمہ کا ارتکاز ختم ہورہا ہے اور مستحبات کو غایت دین سمجھا جا رہا ہے-اس عمل نے امت کو گروہ در گروہ میں تقسیم کر دیا ہے اور ایک ہی مسلک و منہاج پر چلنے والے آپس میںدست و گریباں ہیں-
۶- مدارس سے فارغ ہونے والی علماءکی نئی نسل اور قدیم علما کے درمیان تناو
¿ کی صورت پیداہو گئی ہے، یہ نسل ان کی فکری تشریحات کو نہ قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ان کے علمی سرمایے کو اپنے بعد آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کی آرزو مند-
اسلام کے حوالے سے امت کے مختلف طبقوں کے درمیان یہ صورت حال عام ہے جو ظاہر ہے کہ اسلام کی توسیع،مسلم سوسائٹی میں شریعت کی بالا دستی اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے خطرے کا الارم ہے-
مسلم سوسائٹی میں دوسرا طبقہ اسلام کی مادر پدر آزاد تعبیرات و توضیحات کرنے والا تجدد پسندوں کا ہے-یہ گروپ اسلامی قوانین اور اس کی تعلیمات کے حوالے سے علماءکی بالعموم ملوکانہ ادوار کی تشریحات کے رد عمل میں سامنے آیا ہے-ان کا رد عمل فکری جارحیت پر مبنی ہے کہ خدا کے کلام اور رسول کی سنت کے علاوہ کوئی چیز تحلیل وتجزیہ سے بالاتر نہیں اور وقت آگیا ہے کہ ہم چودہ صدیوں پر محیط اپنے دینی ورثے پر تنقیدی نگا ہ ڈالیں اور انھیں کالعدم قرار دے کر براہ راست اسلامی مآخذ سے استفادہ کریں -ظاہر ہے کہ یہ فکر اباحیت پسندی ،اجماع سے انحراف،اسلاف بیزاری،بے اصولی،سرمایہ
¿ اسلامی میں تشکیک اور دین کے سیکولرائزیشن کی دعوت ہے،جسے کم از کم بالغ ذہن قبول نہیں کرسکتا-لیکن مستقبل میں عام مسلمانوں کو داخلی سطح پر سب سے بڑا خطرہ اسی طبقے سے ہے-ابھی مسلم سوسائٹی میں ان کے اثرات بہت نمایاں نہیں ہیں ،مگر یہ طبقہ جس منظم اور موثرانداز میں اپنے افکار کی توسیع میں سرگرم ہے ،ان پر توجہ نہیں دی گئی تو مسلم سماج پر ان افکارکے جو اثرات مرتب ہوں گے وہ کچھ ایسے ہوں گے:
۱-ہر زید ،بکر اور عمر دین کی من چاہی تعبیر کرے گا،کیوں کہ اسلام کے چودہ سو سالہ فکری وعلمی وراثت پر اعتماد قائم نہیں رہا-
۲-وہ مسائل جن پر جمہور علماءکا اتفاق ہو چکا ہے ،ان سے انحراف عام سی بات ہوگی-
۳-عام مسلمانوں میں عدم تقلید کا رجحان فقہی ذخائر سے بے نیاز کردے گا اور یہ بے نیازی عام مسلمانوں کو فقہاءاور ائمہ
¿ متقدمین کی اہانت پر اکسائے گی –
۴-اسلام کا دوسرا بنیادی ماخذاحادیث رسول کا سرمایہ ہے-یہ سرمایہ اسانید اور فن رجال کی کسوٹی سے گزر کر ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے،جب ناقدین حدیث کی وہ کسوٹی ہی ناقابل اعتماد ٹھری تو پھر مسلمانوں کے درمیان حدیثی سرمایہ میں تشکیک کے رجحان کا فروغ پانا تعجب خیز امر نہیں ہوگا-
۵-احادیث پر تشکیک کا مطلب ہے قرآنی اعتقادیات پر تشکیک -اس طرح یہ بے سمتی ،تجدد اور بے اصولی صرف اسلام کے چودہ سو سالہ علمی وفکری ورثے کو کالعدم ہی نہیں قرار دے گی بلکہ دین حنیف کی اساس کو ہی معطل کردے گی،اس کے بعد اسلام کے نام پر جو دین ہمارے پاس ہوگا وہ دین محمدی نہیںبلکہ اس کا سیکولرائزڈ ایڈیشن ہوگا –
مشکل یہ ہے کہ مذکورہ دونوں طبقے کو ہی اپنی درستی اور صالحیت پر جس قدر اصرار ہے، دوسری کی گمرہی پر اس سے زیادہ یقین- جب تک یہ دونوں گروہ اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات و روایات کی روشنی میں اپنا محاکمہ نہیں کرتے انہیں اندازہ نہیں ہو سکتا کہ پوری امت کو وہ کس فکری بحران سے دوچار کر رہے ہیں اور بیک وقت وہ دین کی آفاقیت اور اپنے چودہ سو سالہ تہذیبی ورثے کو کس قدر مجروح اور محدود کر رہے ہیں- ساتھ ہی بالواسطہ لوگوں کی اسلام سے برگشتگی کی راہ ہموار کر رہے ہیں-
مسئلہ یہ ہے کہ تشدد کے ان دونوں کناروں کے خلاف ہمارے پاس احتجاج کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ افکار کو احتجاج، مخالفت اور تشدد سے نہیں دبایا جاسکتا- ایک فکر کی کاٹ اس سے محکم فکر کے توسط سے ہی ممکن ہے- پریشانی یہ ہے کہ اب تک قدیم صالح وجدید نافع کے حامل ایسے افراد سامنے نہیں آسکے ہیں جو ان دونوں انحرافات سے ہٹ کر راہ اعتدال کی علمی، فکری، لٹریری و تحریکی خاکہ پیش کرسکیں جو ماضی کے صالح ورثے کا بھی حامل ہو، حال کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے والا ہو اور مستقبل میں انسانیت کو درپیش چیلنجیز کا صحیح اسلامی و انسانی حل بھی فراہم کرنے والا ہو- یہ سوال قائدین امت اور داعیان اسلام سے ایک ہمہ گیربیداری، گہرے تفکر اور عملی پیش رفت کی دعوت دے رہا ہے- کیا خیر امت ہونے کا احساس ہمیں اس سمت بڑھنے کے لیے آمادہ کرسکے گا؟