Home / Socio-political / اسی عطارکے ….. سے دوالیتے ہیں

اسی عطارکے ….. سے دوالیتے ہیں

سمیع اللہ ملک

یوں لگتاہے کہ میموسکینڈل کاپہاڑ کسی نہ کسی پرگرنے والاہے اورپچھلے تین ہفتوں سے اس کی بازگشت نے ملک کے دوسرے مسائل کویکسرنظروں سے اوجھل کردیاہے جبکہ ملک میں توانائی کے بحران نے ملکی معیشت کی کمرتوڑکررکھ دی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جلدازجلداس میموسکینڈل کی حقیقت قوم کے سامنے لائی جائے تاکہ قوم کے معاشی اورمعاشرتی مسائل کاکوئی مداواکیاجاسکے۔صدرزرداری کی پراسراراندازمیں صحت کی خرابی کی بناپردبئی روانگی کومیڈیامیں جس قدرپذرائی ملی اس نے بھی ملک کی موجودہ قیادت کو کئی شکوک وشبہات کے سمندرمیں غرق کررکھاتھاکہ اچانک ۱۶دسمبرکویوسف رضاگیلانی اورپاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی ملاقات کے دوران صدرزرداری سے ٹیلیفون رابطے نے زرداری کے واپسی کے سفرکوآسان کردیاجبکہ آئی ایس پی آرکے اعلامیے نے اس ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ایک منٹ کی گفتگوکوصرف صدرکی خیریت دریافت قراردیالیکن سیاسی حلقوں میں صدرزرداری کے انتہائی قریبی دوست اورسندھ کے سابقہ وزیرداخلہ ذوالفقارمرزاکے اس بیان کی تصدیق ہوگئی کہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کاسہراجنرل کیانی اورآئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشاکے سرہے۔

اسلام آبادکے سفارتی اورسیاسی حلقوں کااب بھی مسلسل دعویٰ ہے کہ کہ صدرزرداری کی اچانک دبئی روانگی کہ وجہ میموسکینڈل ہی تھی۔صدرزرداری نے دبئی روانگی سے پہلے صدراوبامہ سے ٹیلیفون پرمبینہ طورپراعجازمنصورکوخاموش کرانے کی استدعاکی تھی لیکن انہوں نے امریکی میڈیاکومکمل آزادقراردیتے ہوئے کسی بھی امریکی شہری کواپنی رائے کے اظہارسے روکنے پراپنی مجبوری کااظہارکردیا۔امریکی حکومت سے توقع کے مطابق مددنہ ملنے کی وجہ سے صدرزرداری کی طبیعت کافی بگڑگئی لیکن اس کے باوجودوہ حسین حقانی کو جہاز میں بٹھانانہیں بھولے تھے لیکن وزیراعظم نے صدرسے باقاعدہ ضدکرکے حقانی کو اس شرط کے ساتھ جہازسے اتروالیاکہ ان کابال بھی بیکانہ ہوگا۔حسین حقانی پاکستان آنے سے ایک دن پہلے تک تہیہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی قیمت پرپاکستان نہیں جائیں گے لیکن ایک اہم شخصیت نے انہیں فون کرکے ان کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہوئے کہاکہ اگرانہیں کبھی بھی کوئی خطرہ لاحق ہواتووہ ان کوملک سے باہربھیجنے کے پابندہونگے۔اس یقین دہانی کے بعدحسین حقانی اگلی فلائٹ سے پاکستان پہنچ گئے تھے۔

اس اہم شخصیت نے فون پریہ بھی کہاتھاکہ اگروہ پاکستان نہ آئے تووہ خوداس میمومقدمے میں پھنس سکتے ہیں۔سناہے کہ اب حسین حقانی نے ملک کی دواہم شخصیات کوواضح پیغام دیاہے کہ وہ قربانی کابکرابننے کیلئے بالکل تیارنہیں اوراگران کی مددنہ کی گئی تووہ خودکوبچانے کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں اورعدالت میں اپناموٴقف بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ حسین حقانی کے اس پیغام کے بعدان کوملک سے باہربھیجنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اوران کے ساتھ ایک ریٹائرڈبیوروکریٹ جوآج بھی ایک اہم ترین عہدے پرکام کررہے ہیں،اس غیریقینی کی صورت حال کے پیشِ نظرطبی بنیادوں پرملک سے فوری طورپرروانہ ہوناچاہتے ہیں ۔ادھرسپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں میموکی سماعت کاباقاعدہ فیصلہ کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان کے چیف جسٹس قاضی فیض عیسی کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیدیا ہے ۔ اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حمید الرحمان اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم اس کمیشن کے اراکین اور اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اور سیشن جج جواد عباس حسن اس کمیشن کے سیکرٹری مقرر کیے گیے ہیں۔گویااعلیٰ سطح پراس میموسکینڈل کی تحقیقات کاآغازکردیاگیاہے۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ میموسکینڈل کے پاکستانی محرکین کوکافی دیرکے بعداس حقیقت کاپتہ چلاہے کہ امریکی دوستوں نے اپنے مقاصدکیلئے انہیں بڑی ہوشیاری سے استعمال کرلیاہے اوریہ کہ ان کی اپنی آستینیں بھی سانپوں سے خالی نہیں۔میمواسکینڈل سے بچنے کیلئے جس طرح آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد پاشاسے استعفیٰ طلب کرانے کاجومطالبہ کرایاگیااس سے صاف ظاہرہوگیاکہ میمواسکینڈل کااصل نشانہ توآئی ایس آئی کے سربراہ تھے جنہوں نے امریکی سی آئی اے کے افغان جنگ کوپاکستان میں دھکیلنے کے عزائم ناکام بنائے اورسی آئی اے کی ڈبل گیم کابھانڈہ پھوڑدیا۔سی آئی اے نے صرف اورصرف احمدشجاع پاشاسے بدلہ لینے کیلئے ۲مئی کوایبٹ آبادمیں اسامہ بن لادن کوڈھونڈنے کاڈرامہ رچایاتھااورجب انہیں معلوم ہواکہ ان کاوارخالی گیاہے توانہوں نے بعض پاکستانیوں بشمول حسین حقانی کے ذریعے یہ فتنہ پروراطلاعات نشرکرائیں کہ ایبٹ آبادمیں آپریشن کے بعدفوج اورآئی ایس آئی پیپلزپارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کی بیدخلی کی سازش کررہے ہیں۔

سی آئی سے کاپلان یہ تھاکہ برطانوی جریدے ”فنانشل ٹائمز“میں اس نام نہادمیموکی اشاعت کے بعدامریکااوراس کے اتحادی ممالک میں کہرام برپاہوجائے گا جس کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے سربراہ اشجا ع پاشاکوان کے عہدے ہٹادیاجائے گامگراس سے پہلے امریکی اوراتحادی حکومتوں کے فوجی اورسول قائدین کویہ معلوم ہوگیاکہ ایبٹ آبادآپریشن کاڈرامہ کامیاب نہیں ہوسکااورایبٹ آبادکمیشن ممکنہ طورپریہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیاہے کہ اسامہ بن لادن ۲مئی کومذکورہ امریکی کمانڈوآپریشن کے وقت وہاں موجود ہی نہیں تھااورچونکہ اس حقیقت کارازفاش ہوسکتاتھااس لئے فوری طورپریہ مضحکہ خیزدعویٰ کیاگیاکہ اسامہ بن لادن کوقتل کئے جانے کے بعد ان کی لاش تین گھنٹے کے اندراندرسمندر برد کر دی گئی ،جس نے امریکااوریورپ کے عوام کوبھی حیران کردیاتھاکیونکہ کوئی بھی ذی شعورشخص یہ ماننے کوتیارنہیں ہوگاکہ وہ انتہائی مطلوب شخص،جس کی بظاہرتلاش میں دنیاکی ۳۸ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں عرصہ دس سال سے دن رات پوری دنیاکی خاک کھنگال رہی تھیں اسے ڈھونڈنکالتے ہی فوراًاس کی لاش سمندربردکردی گئی۔امریکی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ اسامہ بن لادن کی ۲مئی کے آپریشن میں ڈھونڈنکالے جانے کی فلم جلدمیڈیاکے ذریعے دنیابھرکودکھائی جائے گی مگرسات ماہ کاعرصہ گزرجانے کے باوجودفلم جاری نہیں کی گئی،جودال میں کالاہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔

امریکی سی آئی اے کے لوگ شجاع پاشاکوخصوصی طورپراسی روزسے انتہائی ناپسندکرنے لگے تھے جب انہوں نے ریمنڈڈیوس کی حقیقت کوبے نقاب کیااوریہ ثابت کیاکہ سی آئی اے بلیک واٹرکے ایجنٹوں کوطالبان اوردوسری انتہا پسندتنظیموں کی صفوں میں داخل کرواتی رہی ہے اورانہی ایجنٹوں نے فوجی تنصیبات خصوصاً جی ایچ کیوپراکتوبر۲۰۰۹ء میں حملے جیسے اقدامات کروائے اورپاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں اوردفاترپرخودکش حملوں کااہتمام کرایاتھا،اس لئے فروری ۲۰۱۱ء میں ریمنڈڈیوس کے ڈرامے کے بعدایبٹ آبادکے آپریشن کاظیم ڈرامہ اسٹیج کیاگیا ۔اس سے پہلے ہی یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ امریکاافغانستان میں اپنی ناکامی کابدلہ آئی ایس آئی سے لیناچاہتاہے ۔بعض اہم سفارتی حلقوں کادعویٰ ہے کہ سی آئی اے میموسکینڈل کے دونوں ممکنہ نتائج سے فائدہ اٹھاناچاہتی تھی ،یعنی اس کے نتیجے میں اگرسیاسی حکومت کاخاتمہ ہوجائے توبھی اس کے بعداگرفوجی حکومت قائم ہوئی تواولاً اس پردباوٴڈالاجائے اورپھراس سے افغانستان میں من مانیاں کرائی جاسکیں ۔

اس سے قبل جس طرح امریکانے پاکستان کی فوجی امدادبندکی تھی اس سے ظاہرہوگیاتھاکہ امریکاسی آئی اے کی سفارش پرپاک افواج کوکمزورکرناچاہتاہے جوامریکااوریورپ میں سالہاسال سے اپنے پنجے گاڑے صیہونی لابی کی ترتیب دی گئی تیسری عالمی گریٹ گیم کاایک تقاضہ بھی ہے کیونکہ یہ قوتیں سمجھ چکی ہیں کہ پاک فوج کی موجودہ حیثیت اورقوت کے پیش نظرپاکستان کے حصے بخرے نہیں کئے جاسکتے اورنہ بلوچستان کوایک نیاملک بنایاجاسکتاہے جس کاخواب پینٹاگون کے کرنل رالف پیٹرنے نیوورلڈآرڈر کانقشہ بناکرپیش کیا تھا۔بلوچستان کی تشویشناک صورتحال کاادراک کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب عطااللہ مینگل کی نوازشریف سے حالیہ ملاقات میں موجودہ حالات کو”پوائنٹ آف نوریٹرن“قراردیاہے۔

اس بیان پرپوری سنجیدگی کے ساتھ فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکاکے مشہورصہیونی افرادکی ملکیتی سونے کاکاروبارکرنے والی کمپنی بیرک گولڈکی ٹیتھان کمپنی کے ذریعے بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں دریافت ہونے والے سونے وتانبے کے ذخائرکاٹھیکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منسوخ کئے جانے کے بعدپاکستان کے خلاف کافی سرگرم ہوچکی ہے۔اس نے عالمی ثالثی کونسل برائے بین الاقوامی سرمایہ کاری میں اپیل دائرکی تھی جس کے بعداس نے برطانیہ کے چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری کی سرمایہ کاری کے تحفظ کی کمیٹی کے سامنے اپنامدعاپیش کیاہے کہ اس نے ریکوڈیک فیلڈمیں انفراسٹرکچرکی تعمیرپربھاری رقم خرچ کی ہے ،اس لئے یہ اس کاحق ہے کہ ان ذخائرکاٹھیکہ بھی اسے ہی ملے لہنداپاکستانی حکومت کویہ ہدائت کی جائے کہ کہ وہ اس کاٹھیکہ بحال کرے۔

دراصل اس خطے میں معدنی وسائل پرقبضے ،مسلم ریاستوں کے نقشے تبدیل کرنے کے عزائم اورپاکستان کے جوہری اثوثوں سے محروم کرنے کیلئے کوشاں غیرملکی طاقتیں ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے مجوزہ انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجی اڈے برقراررکھناچاہتی ہیں جس کی سابق افغان صدرپروفیسربرہان الدین ربانی نے اپنے پراسرارقتل سے قبل شدیدمخالفت کی تھی اورامریکاپرواضح کیاتھاکہ اس کی افواج کوافغانستان میں مستقل بنیادوں پراڈے دینے کافیصلہ اس کی ۲۰۱۴ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعدافغان لویہ جرگہ کرے گاجس میں طالبان کے نمائندے بھی شامل ہونگے،لہندااس امرکابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ برہان الدین ربانی کواپنے راستے سے ہٹانے کافیصلہ کن قوتوں نے کیا۔

یہ وہ حالات ہیں جوپاکستانی سیاست پربراہِ راست اثراندازہورہے ہیں اورسیاسی اکابرین ان کاحقیقی ادراک کرنے سے قاصرہیں اورایسی عالمی طاقت سے بظاہرمددطلب کررہے ہیں جن کے مفادات کاتقاضہ یہ ہے کہ پاکستان میں مستقل بنیادوں پرسیاسی بحران موجودرہیں اورسیاسی قیادت کے عسکری قیادت سے تعلقات کشیدہ رہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دانشورحلقوں میں حکومت کی جانب سے اپنے استحکام کیلئے امریکاسے مددطلب کئے جانے کے بارے میں میرکاشعرحسب حال رہے گا،

میرکیاسادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب اسی عطارکے لونڈے سے دوالیتے ہیں

جنرل کیانی اورشجاع پاشانے بروقت سیاسی قیادت کواصل صورتحال سے مطلع کرکے حالات کوبگڑنے سے بچایاہے جبکہ وزیراعظم کوبھی اب اس کاادراک ہوگیاہے کہ اگرصدرزرداری اقتدارسے الگ ہوجائیں توملک میں جمہوریت کے ممکنہ زوال کاتدارک ہوسکتاہے لیکن صدارتی کیمپ نے اس حوالے سے وزیراعظم کوآڑے ہاتھوں لیاہے جس کی بناء پروزیراعظم کویہ بیان دیناپڑاکہ وہ پارٹی سے ب ے وفائی کرنے کی بجائے اقتدارسے الگ ہونے کوترجیح دیں گے۔ پیپلزپارٹی کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ صدرزرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات مستقبل میں بھی ان کاتعاقب جاری رکھیں گے کیونکہ این آراوکے تحت ان کے خاتمے کی کی ایک غیردانشمندانہ اورغیرآئینی کوشش کی گئی تھی جوعدالتِ عظمیٰ منسوخ کرچکی ہے۔حکومت کی این آراونظرثانی کی درخواست مستردکئے جانے کے بعدچیف جسٹس نے چاروں صوبائی حکومتوں کے علاوہ نیب کے سربراہ سے ۲جنوری تک یہ جواب طلب کرلیاہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے ۱۶دسمبر۲۰۰۹ء کے این آراوکے خلاف فیصلے پرکیوں عمل درآمدنہیں ہوسکا؟

عدالت کے اس فیصلے کاسب سے اہم حصہ یہ تھاکہ صدرزرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈمیں منی لانڈرنگ کے مقدمات دوبارہ کھولنے کیلئے سوئس حکام کوخطوط تحریرکئے جائیں۔پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمااورسابق وزیرقانون اعتزازاحسن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ حکومت کویہ خط تحریرکرناپڑے گامگرصدرزرداری کے معاونین کی کوشش ہے کہ اس معاملے کواپریل ۲۰۱۲ء تک موٴخرکیاجاسکے،جب سوئس قانون کے مطابق ۲۰۰۷ء میں واپس لئے گئے مذکورہ مقدمات دوبارہ کھولے جانے کامقررہ وقت ختم ہوجائے۔اس کوشش میں صدارتی کیمپ نے صرف ایک فردِ واھدکوبچانے کیلئیپوری جمہوری حکومت کے مستقبل کوداوٴپرلگانے کافیصلہ کرلیاہے جس میں اب وزیراعظم گیلانی کویہ فیصلہ کرناہے کہ وہ صدر کوبچاناچاہتے ہیں یاجمہوری نظام کو۔

وزیراعظم یہ جانتے ہیں کہ اگرانہوں نے قانون کی عملداری کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کو شش کی توایک ایسی نگران حکومت کے قیام کی راہ ہموارہوسکتی ہے جوملک کی ایک ایک کرپٹ شخصیت کے خلاف ایسے احتساب کاسلسلہ شروع کرے جس کے سبب مستقبل قریب میں انتخابات ہی نہ ہوسکیں،تب ہی انہوں نے ۱۴دسمبرکوسینیٹ کے اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران کہاکہ اگروہ مستعفی ہوجائیں تواپوزیشن کوکوئی فائدہ نہیں ہوگابلکہ ایسے حالات پیداہوجائیں گے کہ ہماری زندگیوں میں دوبارہ انتخابات نہ ہوسکیں۔اسلام آباد کے سیاسی اورسفارتی حلقوں کے مطابق وزیراعظم کایہ بیان کسی گیدڑبھبکی سے کم نہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے پرانے فوجی ادوارِ اقتدارسے کافی سبق حاصل کرلیاہے کہ ملک کے تابناک مستقبل اورسلامتی کیلئے جمہوریت ناگزیرہے ۔اسی لئے جنرل کیانی نے اپنامنصب سنبھالتے ہی تمام فوجی افسران کویہ حکم جاری کیاتھاکہ وہ سیاست سے دوررہیں اوریہ کہ فوج جمہو ریت کی معاونت کرے گی۔جنرل کیانی نے دومئی ایبٹ آبادکے واقعے کے بعدپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ان خیالات کااظہارکیاتھاکہ ملک کی خارجہ اوردفاعی پالیسی سیاسی حکومت طے کرے ،فوج اس کی تعمیل کرے گی۔

جنرل کیانی نے ماضی کے تجربات سے بھرپورسبق حاصل کرتے ہوئے نہ صرف سیاسی قیادت کی مددکی بلکہ پارلیمنٹ کے سامنے خودکوجوابد ہ بنایااورملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ ستمبرمیں امریکی دہمکیوں کے تناظرمیں وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیزکانفرنس میں ملکی سلامتی کے امورپرفوجی قیادت اورانٹیلی جنس حکام کوجوابدہی کیلئے پیش کیا۔ابھی پچھلے دنوں قوم کودہلادینے والا وزیراعظم کاپارلیمنٹ میں خطاب جس میں انہوں نے ریاست کے اندرریاست کے کام کرنے کاالزام لگایاتوفوری طورپرجنرل کیانی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ملکی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ایسے بیانات سے گریزکرناچاہئے اور فوج پہلے کی طرح اب بھی جمہوری نظام کوبچانے کیلئے اپناکرداراداکرے گی ۔گویاحکومت اپنی بے شمارناکامیوں اورکرپشن کوچھپانے کیلئے جوشہادت کی تمنارکھتی ہے اب اس کافیصلہ عدالتِ عظمیٰ کرے گی۔

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *