بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از: غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
حرمین مقدس سے علماے ہند کے تعلقات و مراسم کی کڑیاں ماضی بعید سے پیوستہ ہیں۔ عثمانی عہد جو کئی صدیوں پر محیط ہے اس عہد میں عرب و ہند تعلقات میں مزید پختگی آئی۔ عالم اسلام کے علما حرمین طیبین حاضر ہوتے وہاں کے جید و اکابر علما سے درس لیتے، تفسیر و حدیث اور دیگر علوم دینیہ کی سند طلب کرتے۔ سعادتوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔
انقلاب آتے رہے۔ صہیونی افکار کی یلغار اور اندرونِ خانہ سازشوں نے قوم کو مضمحل کر کے چھوڑا۔ اُدھر حجاز مقدس میں ’’سعودی انقلاب‘‘ آیا، اِدھر ہند میںنئی نئی جماعتیں وجود پائیں۔ اغواے فکر و نظر کے لیے ایسے لٹریچر سامنے آئے جن میں شان و عظمت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں کھلی بے ادبیاں و گستاخیاں کی گئیں۔ یوں ایمان کی زمین کو بنجر کرنے میں توانائیاں صرف کی گئیں۔
ہندوستان کے شہر بریلی میں امام احمد رضاقادری برکاتی محدث بریلوی ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے سلف صالحین کے مسلک حق کی پر زور حمایت کی اور اسلام کی سچی راہ کی طرف بلایا، نو پید فرقوں کی سختی سے تردید کی۔ اور ایک بڑی تباہی سے قوم کو بچایا۔ آپ کی کاوشوں کے نتیجے میں ایمان و ایقان کی خوش بو پھیل گئی اور نفاق کی چادر تار تار ہو گئی۔ ۔ ۔ امام احمد رضا نے ادب و احترام سکھایا۔ ۔ ۔ بارگاہِ الٰہی کا ادب۔ ۔ ۔ بارگاہِ رسالت کا ادب۔ ۔ ۔ محبوبانِ خدا کا ادب۔ ۔ ۔ سلف صالحین کا ادب۔ ۔ ۔ بے شک جو مؤدب رہا وہ کام یاب رہا۔ ۔ ۔ وہ سلف صالحین کی تعلیمات کے ترجمان تھے۔ ۔ ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسلامی احکام کا عامل بنے اوردانش فرنگ کی ظاہری روشنی نگاہوں کو اپنا اسیر نہ بنا سکے
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
امام احمد رضا کی خدمات کا چرچا بہت جلد عام ہو گیا۔ ۔ ۔ ہند سے عرب تک اور مشرق سے مغرب تک، بہ قول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد:
ان کی شخصیت معمولی شخصیت نہیں، چودھویں صدی ہجری کے آغاز ہی میں ان کا شہرہ پاک و ہند کی سرحدیں عبور کر کے حرمین شریفین، بلاد اسلامیہ، برما، چین، روس، امریکہ اور افریقا تک پہنچ گیا تھا۔ اور وہ مرجع ہر خاص و عام ہو گئے تھے۔ (تقدیم،اکرام امام احمد رضا،ص۹)
آپ کی فکر و بصیرت اور فہم و فراست کو دیکھ کر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ عالم اسلام کے عظیم دانائے راز تھے، ان کی مومنانہ فراست و بصیرت اپنے زمانہ سے آگے دیکھتی تھی۔ ۔ ۔ انھوں نے جو کچھ کہا مستقبل نے تصدیق کی۔ ۔ ۔ (آئینہ رضویات،ج۴،ص۲۲) سچ ہے کہ
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
امام احمد رضا کی آفاقی شخصیت نے فکر و نظر کو متاثر کیا۔ ۔ ۔ ان کی مومنانہ بصیرت نے ذہنوں کو بیدار کیا۔ ۔ ۔ ایمان کو تازہ کیا۔ ۔ ۔ علم و دانش کی انجمن کے خوشہ چینوں کو متاثر کیا۔ ۔ ۔ عالم اسلام کے عظیم فقہا و علما آپ کی طرف مائل ہوئے اور اپنے الجھے ہوئے مسائل کا حل چاہا۔ ۔ ۔ آپ کی علمی شان اور فکری آن بان کو کلمات تحسین سے نوازا۔ ۔ ۔ آپ کی فراست اور مومنانہ بصیرت نے علمائے حرمین اور مفکرین ملت کو مائل کیا۔
اسی مومنانہ فراست و بصیرت نے شاعر مشرق اقبالؔ کو متاثر کیا اور وہ کہہ اٹھے: ہندوستان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ بہ مشکل ملے گا۔(مقالات یوم رضا،ج ۳، ص۱۰)
اسی مومنانہ فراست و بصیرت نے ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ(م۱۹۴۷ء) کو متاثر کیا اور انھوں علم ریاضی میں استفادہ کے بعد برجستہ کہا: صحیح معنوں میں یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے۔(اکرام امام احمد رضا،ص۶۰)
اسی مومنانہ فراست و بصیرت نے مسجد الحرام کے شیخ الخطبا شیخ احمد ابوالخیر میرداد مکی (۱۲۵۹ھ۔ ۱۳۳۵ھ) کو متاثر کیا اور وہ امام احمد رضا کی علم غیب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر عربی تصنیف الدولۃ المکیۃ بالمادۃالغیبیۃ (۱۳۲۳ھ) سن کر مسرور ہوئے اور بے ساختہ فرمایا:
انا اقبل ارجلکم انا اقبل نعالکم ’’میں تمہارے قدموں کو بوسہ دوں میں تمہارے جوتوں کو بوسہ دوں۔‘‘ (الملفوظ،دوم، ص۱۵۲)
عرب کے وہ مشاہیر علما جو عالم اسلام کے مرجع تھے، انھوں نے امام احمد رضا کی اصابت فکر اور علمی صلاحیت کے جلوے دیکھ لینے کے بعد ’’عین الیقین‘‘ اور ’’علم الیقین‘‘ کی بنیاد پر عمدہ سے عمدہ القاب و آداب سے یاد کیا۔ معاصرین میں دیے جانے والے القاب کا جامع پایا۔ ۔ ۔ ان کے القاب سے اندازا ہوتا ہے کہ امام احمد رضا عبقری شان کے مالک تھے، اور عالم اسلام کے لیے باعث فخر۔ ۔ ۔ وہ ’’ برکۃ الزمان‘‘ بھی ہیں اور ’’الشیخ الکبیر‘‘ بھی۔ ۔ ۔ وہ ’’وحیدالعصر‘‘ بھی ہیں اور ’’سیدالعلما‘‘ بھی۔ ۔ ۔ وہ ’’علامۃالزمان‘‘ بھی ہیں اور ’’امام المحدثین‘‘ بھی۔ ۔ ۔ الغرض علماے حرمین نے امام احمد رضا کی مدح میں اپنی زبانیں تر رکھیں اور تجدیدی شان کو سراہا۔
علماے حرمین کے امام احمد رضا سے روابط پر کئی مقالے شایع ہو چکے ہیں اس تعلق سے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے اپنی کتاب ’’فاضل بریلوی علماے حجاز کی نظر میں‘‘واضح فرمایا ہے کہ عرب کے اکابر علما بالخصوص مکہ شریف و مدینہ منورہ کے اعاظم علما جن سے امام احمد رضا کا رشتہ و علمی تعلق تھا ان کی تعداد ۳۰۰!سے متجاوز ہے۔ ان میں اکثریت ان علما کی ہے جنھوں نے علم حدیث و تفسیر،فقہ و تصوف میںامام موصوف سے سند طلب کی۔
٭٭٭