Home / Articles / ’’افسانہ’’ دلال

’’افسانہ’’ دلال

فوزیہ مغل(لاہور، پاکستان)

افسانہ

دلال

چوہدری انور 18 ویں گڑیڈ کا آفیسر، پارک میں واک کرتے ہوئے عجیب و غرب حرکات کررہا تھا کبھی ادھر کبھی ادھر اچانک چلتے چلتے اپنے پیچھے گھوم کر دیکھنے لگتا ،جب دیکھتا کہ کوئی دیکھ رہا تو ایسے ہی ورزش کے پوز بنانے لگتا کیونکے آج وہ کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہا تھا اس کی پریشانی کی وجہ اس کا نیا باس تھاجو پچھلے ہی ہفتے ٹرانسفر ہو کے آیا تھا ۔چونکہ چوہدری انور اپنے کام پر کم ہی دھیان دینے والا آفیسر تھا وہ ہمیشہ اپنے بڑے آفیسرز کی خدمت کسی اور طریقے سے کرنے کا عادی تھا اور وہ خدمت بھی بڑی تند دہی سے کرتا تاکہ بڑے آفیسرکی نظریں اس کے کام سے ہٹی رہے ایک ہفتے میں ہی ثابت ہوگیا یہ نیا آفیسر اپنے کام سے کام رکھنے والا تلخ لہجے اور سخت مزاج ہے چوہدری انور کے لیے یہ بہت پریشان کن سچویشن تھی اس سے پہلے جو آفیسر آتا جلد ہی اس کی باتوں کے اثر میں آجا اس بار چوہدری انور کا ستارا ہی شاید گردش میں تھا نئے آفیسر نے الرٹ کر دیا تھا کہ جلد ہی ایک ایسی مٹینگ ہوگی جس میں تمام عملہ کی پچھلی کارکردگی دیکھی جائے گی ،اس خبر کا دیگر عملہ پر تو کوئی خاص اثر نہ ہوا نہ ہی کسی اور نے زیادہ ٹینشن لی سوا چوہدری انور کے کیونکہ وہ آفس میں نوکری کم اور دلالی زیادہ کرتا حالانکہ وہ جس سیٹ پر تھا اس کی بدولت باآسانی باعزت باضمیرزندگی گزار سکتا تھا لیکن ہر کوشش کے باوجود وہ اپنے اندر کے پیدائشی دلال کو ختم نہ کرسکا۔

انور کا تعلق اس گھرانے سے تھا جہاں نام کیساتھ باپ کی بجائے ماں کا نام لگتا انور کی ماں خورشید بائی نے جب ایک بیٹے کو جنم دیا تو بہت خوش ہوئی کہ اس کے سلگتے آنگن میں کسی بیٹی نے جنم نہیں لیا وہ انور کی انگلی پکر کر اس وقت کوٹھے کی دہلیز پار کی جب انور نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے گھنگھرو پکر کر سوئی ہوئی ماں کے پاؤں میں باندھنے لگا انور کی یہ حرکت خورشید بائی کی روح تک کو زخمی کر گئی اس نے بے اختیار ایک زور دار تھپڑ انور کے معصوم گالوں پر جڑ دیا

انور کے رونے کی آواز سن کر مہتاب بائی کمرے میں آئی انور ابھی اس قابل نہیں ہوا تھا کہ وہ مہتاب بائی کو پوری بات بتاتا روتے ہوئے صرف ماں کی طرف اشارا کیا مہتاب بائی نے خورشید سے تھپڑ مارنے کی وجہ پوچھی خورشید کا جواب سن کر خوب ہنسی اور کہنے لگی اس نے وہی کیا ہے جو اسے بعد میں بھی کرنا ہے اور تُو کیا چاہتی ہے یہ تیرے لئے جائے نماز بچھاتا۔خورشید آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے ہاں میں یہی چاہتی ہوں مہتاب بائی ایکدم غصے سے بولی گندی نالی کی اینٹ کبھی مسجد میں نہیں لگی،خورشید سسکتے ہوئے اس کی رگوں میں گردش کرنے والاخون گندہ نہیں وہ تو بڑے اونچے سادات خاندان کا ہے اور حرکت ایسی نیچ مہتاب بائی گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولی تمہیں مرشد فضل گیلانی کا خون تو یار رہا مگر اسکے باپ مرشد ناصر گیلانی کی داستانیں نہیں سنی جو اپنی رنگین مزاجی میں اپنے بیٹے سے بھی دو قدم آگے تھا جب وہ ادا بائی کو اپنی حویلی میں مستقل لے کر گیا تھا تو ادا بائی اپنی کوکھ میں کوٹھے کی نشانی فضل گیلانی کو لے کرگئی ۔

خورشید بائی اگلی صبح داتا دربار پر حاضری دینے کے بعد سیدھی اس جگہ گئی جس کووہ ہر جمعرات کو داتا دربار پر حاضری کے لئے آتے جاتے بڑی حسرت سے دیکھتی وہ داتادربار اور پیر مکیّ کے درمیان ایک پرائمری سکول کی چاردیواری تھی جہاں بچے صبح کے وقت بڑی عقیدت سے تلاوتِ کلامِ پاک کرتے پھر دُعا مانگتے اور یہ منظر خورشید بائی کو بہت سرشار کرتا آج وہ انور کو اسی پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر کے پاس چھوڑنے آئی ہیڈ ماسٹر کو اللہ رسول کا واسطہ دے کر انور کو ہمیشہ کے لئے وہاں چھوڑ کر سیدھی اسٹیشن پر آئی سیون شریف جانے والی ٹرین کا ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم پر بنے بینچ پر بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگی ۔

ہیڈ ماسٹر کا خاندان کا لہو وطن کی بنیادوں میں کام آگیاتھا وہ اپنوں کی جدائیوں کے غم تنہائیوں میں سہہ سہہ اندر سے باکل کھوکھلا ہوچکا تھا اسے بھی انور کا ساتھ ایک بوجھ کی طرح نہیں بلکہ سہارے کی مانند لگاماسٹر صاحب نے پوری توجو کے ساتھ انور کی اچھی تربیت کرنے لگا مگر اس دن اسے شدید صدمہ پہنچا جب انور صر ف سات سال کا تھا کے ایک ٹیچر کا ایک رقعہ اور ایک تین پیسہ کا سّکہ ہاتھ میں دبا کر سکول کے بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے ہیڈ ماسٹرنے پیٹھ پیچھے کئے ہاتھوں میں دبا ررقعہ پکڑ کر پڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ لرزنے لگے انور یہ صورتحال دیکھ کر گھبرا گیا اور جلدی سے اپنے ہاتھوں سے کان پکڑ کر بولا ماسٹر جی معاف کر دو اب میں ایسا نہیں کرو گا ماسٹر صاحب نے اس واقعہ کے بعداور زیادہ توجو دینا شروع کر دی اور انور نے میٹرک پاس کیا تو محلے بھر میں پتاشے بانٹتے اور انور کو کالج میں میں داخل کروانے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کیے۔انور جب سکینڈڈائر میں تھا کہ ایک دن ماسٹر نے انور سے کہا تمہاری آخری زمہ داری ابھی مجھ پر باقی ہے حالانکہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا لیکن میرے پاس اب وقت کم ہے میری صحت تمہاری ملازمت کا انتظار نہیں کر سکتی لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ نسرین کے ساتھ تیری بات پکی کردو بچی گھر کی ہے اسکے گھرانے کا لہو بھی اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے ۔انور کو نسرین بچپن میں تو بالکل اچھی نہیں لگتی تھی وہ جب بھی شام کی نماز پڑھنے کی بجائے کھیلنے لگتا تو وہ فوراَ ماسٹر صاحب کو آکر شکایت لگاتی۔ لیکن جب انور نے میٹرک کا امتحان دے رہا تھا تو ماسٹر صاحب شدید بیمارہونے کی وجہ سے کھانے پکانے میں بڑی مشکل ہونے لگی جب خالہ صغرا کو پتا چلا تو اس نے اپنی بھانجی نسرین کو ماسٹر صاحب کی روٹیاں سالن پکانے بھیج دیتی نسرین نظریں جھکائے روٹی ہانڈی کے ساتھ ساتھ گھر کی صفائی بھی کرتی اور جاتے جاتے ماچھی سے سارے برتن پانی کے بھرواکے ڈھانپ جاتی ۔

ا س دن سے ماسٹر صاحب بہت دور کی سوچنے لگا تھا اور ٹھیک دو سال بعد وہ اپنی سوچ انور بتائی انور نے ماسٹر صاحب کی بات سُن کر سر جھکالیا انور لاکھ باہر بدتمیز تھا مگر ماسٹر صاحب کی بہت عزت کرتا ماسٹر صاحب نے اسی شام لڈوں کا ڈبہ پکڑکر صغرا کے گھر پہنچ گیا اور خوشی خوشی واپس آیا مگر ماسٹر کو یہ خوشی راس نہ آئی ۔ اگلے دن جب انور کالج سے واپس آیا ماسٹر صاحب کی کی تسبیح چارپائی سے نیچے گری ہوئی تھی اور خود اللہ کو پیارا ہوچکا تھا ۔چہلم کے ختم پر ہی انور کا نکاح نسرین سے ہوگیا انور نے پڑھائی جاری رکھی کیو نکہ ماسٹرصاحب نے اتنی رقم چھوڑی تھی کہ وہ آرام سے اپنی تعلیم مکمل کر کے نوکری ڈھونڈ سکے ا س

زمانے میں تعلیم کی بہت قدر تھی تعلیم یافتہ کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے نوکری کا کوئی خاص مسلہ نہیں تھا ادھر انور نے بی اے پاس کیا ادھر اسے جھٹ سے اچھی نوکری مل گئی انور چاہتا تو اسی سیٹ پر پرموش حاصل کر کے بہت آگے جاسکتا تھا مگر وہ ایسا نہ کر سکا ماسٹر کی تربیت پر انور کے لہو کا اثر زیادہ رنگ لایا وہ اپنے محکمے میں اپنے آفیسرز کی اور ہی طرح سے خدمت کرتا اپنے کام پر دھیان کم ہی دیتا اس کی گھریلو زندگی بھی کوئی خاص اچھی نہ گزر سکی نسرین صرف صرف سال بعد بیٹی کو جنم دے کر اللہ کو پیاری ہوگی انور اور نسرین کی خالہ ننھی شمیم کی دیکھ بھال کرتے جب ننھی شمیم نے اسکول جانا شروع کیا تو انور کی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔پتا ہی نہ چلا کب شمیم نے میٹرک پاس کرلیا ۔ ایک بار جب انور کے بڑے افیسر نے اسے اس کے مطلب کے کام کی آفر کی اور ساتھ یہ بھی کہا مجھے ایسا مال چاہئے جیسے دیکھ کر میں سب کچھ بھول جاؤں انور نے حسبِ عادت بہت سی خوبصورت مجبور لڑکیاں لا لا کر پیش کی مگر آفیسر کی طیبعت خوش نہ ہو سکی آخر ایک دن آفیسر تلخی سے کہا اگر اب بھی تم اچھا مال نہ لائے تو اپنی نوکری جاتی سمجھنا انور اسی شام بہت سی جگوں پر گیا مگر مایوسی ہی حاصل ہوئی آخر تھک ہار کے ناکام جب اپنے گھر واپس آیا تو شمیم نے دروازہ کھولا شمیم نیند کی غنودگی کی وجہ سے اپنا ڈوپٹہ اور ھنا بھول گئی ۔انور کی جونہی شمیم پر پڑی تو اس کی آنکھیں ایکدم چمک اٹھی اور منہ سے بے اختیار ہی جملہ نکلا اب میری نوکری کہی نہیں جاسکتی شمیم آنکھیں ملتے ہوئے بولی ابو کیا کہا انور جلدی سے کچھ نہیں بیٹی تم ابھی جا کر سوجاؤ ۔اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگا آخر ایک دن بیٹی نے تنگ آکر اپنے کالج کے چوکیدار کے بیٹے کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لیا انور کو بیٹی کے گھر سے بھاگنے کا دکھ صرف اس لئے ہوا کہ اب اسے پھر سے آفیسرز کی خواہش پوری کرنے کے لیے خوار ہونا پڑے گا ۔

 فوزیہ مغل(لاہور)+92 300 468 3760

E,mail:fozia_mughal22@yahoo.com

 

 

 

 

 

 

 

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *