Home / Articles / افسانہ ۔۔ “ جمعے کا دولہا“

افسانہ ۔۔ “ جمعے کا دولہا“

از؛ ڈاکٹر نگہت نسیم ۔سڈنی

ایڈیٹر عالمی اخبار

بڑے بھیا کو جمعہ پڑھنے کا ہمیشہ سے ہی بہت شوق تھا ۔۔  صبح ہی صبح سب سے پہلے اٹھ جاتے   اور اٹھتے ہی جو کام سب سے پہلا کرتے وہ  اپنا دھوبی سے دھلا کلف لگا سفید کرتہ شلوار  ہینگر پر لٹکا دیتے ۔۔پھرہم  سب کو باری باری اٹھاتے جاتے  اور تلقین کرتے جاتے کہ جلدی کرو جمعہ کی نماز کا وقت جانے والا ہے  ۔۔  اور جو گھر میں کوئی نہ ان کی سنتا تو اپنی بات اس بات پر ختم کر دیتے “ بھلا جو اپنے رب سے نزدیک نہیں ہوسکتا وہ انسان کے نزدیک کیونکر ہو سکے گا ۔۔ ارے  اٹھو ۔۔دیکھو جمعہ کا دن  محبت کرنے اور محبت بانٹنے کا دن ہے   “ ۔۔  ان کی کی خوشی ان کے چہرے پر نور کی طرح چھلکی پڑتی ۔۔  ان کا موڈ اس دن  اتنا خوشگوار ہوتا کہ جی کرتا کہ ہر روز جمعہ کا دن  ہو ۔۔ انہوں نے  جمعے کے روز کبھی کوئی کام نہ کیا تھا ۔۔ نہ پڑھائی نہ نوکری ۔۔ وہ یوں جمعہ کی تیاری میں مگن ہوتے کہ ناشتہ کرنا تک بھول جاتے تھے ۔۔ اس دوران جو انہیں ناشتے کی یاد دہانی  کے ساتھ ناشتہ کروا سکتا تھا تو صرف نورین آپا تھیں ۔۔ وہ بھی تو ان ہی جیسی تھیں ۔۔ محبت سے لبا لب بھری گاگر جیسی  چھلکنے کو بےقرار سی رہتیں  ۔۔۔۔  گھر کے ہرفرد کا خیال رکھنا ۔۔۔ بڑے بھیا ہی کی طرح  سب کے پیچھے دوڑ دوڑ کر انہیں جمعہ کے لئے تیار کرنا صرف انہی کا خاصہ تھا ۔۔

بڑے بھیا تایا جی کہ اکلوتے بیٹے تھے اور ہم سب سے بڑے ہونے کے ناطے خود کو بڑے بھیا کہلواتے تھے پر وہ ہم سب کے بہت ہی مہربان اور رازدار سے دوست بھی تھے ۔  ہم سب کو بڑے بھیا سے  ملنے کے بعد ایک محبت کے احساس کے ساتھ ساتھ ان سے منسوب ایک مخصوص سی  مہک بھی یاد رہ جاتی  تھی  ۔۔ کئی بار ہم نے ان کی غیر موجودگی میں باری باری ان کے کمرے کی تلاشی بھی لی تھی پر ہمیں کبھی کوئی  پرفیوم ان کے کمرے سے نہ ملتا تھا ۔۔ بس جو بھی تھا بس  یوں لگتا تھا جیسے یہ مہک  اور وہ  لازم و ملزوم ہوں ۔۔ بہت قیاس آرائیوں اور تلاش کے بعد پتہ چلا کہ وہ مہک “ ہیگو صندل “ کی تھی اور  یہ میرا ہی  خیال نہیں تھا بلکہ باقی سب کزنز کی بھی رائے تھی کہ بڑے بھیا پر صرف یہی پرفیوم سوٹ کرتی ہے۔  جس سے  ان کا کمرہ ہی تو کیا پورا گھر مہک جاتا اور کئی دنوں تک مہکا رہتا ۔۔ یوں لگتا کہ جیسے  بڑے بھیا کبھی کہی جاتے ہی نہ تھے ۔

جمعہ کا دن ہی ایسا ہوتا تھا کہ ہر چھوٹا بڑا اس دن کے انتظار میں رہتا کہ سب کو ہی تایا جی کے گھر جمعہ کو ایک ساتھ مل کر شور مچانا بہت اچھا لگتا تھا ۔۔ کوئی ایک بار نہیں بلکہ یہ برسوں کا معمول تھا ۔  دادا جی کے وفات کے بعد دادی جی بڑے تایا جی  کے ساتھ ہی رہتی تھیں  ۔  سو ان کا حکم تھا کہ ہر جمعہ کے بعد دوپہر کا کھانا پورا خاندان مل کر ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھائے گا۔ اس  روز ہم سب کزنز صبح ہی سے دادی جی کے پاس  آجاتے تھے اور شام ڈھلے تک سب اکٹھے رہتے ۔۔ تیس افراد کے بیٹھنے اور کھانے کا انتظام کوئی آسان بات نہ ہوتی ۔۔اسی لئے سب کے سپرد کوئی نہ کوئی کام ہوتا ۔۔ ایسے میں بڑے چاچا جی کی بیٹی نورین آپا جو ہم سب لڑکیوں میں بڑی ہونے کے ناطے سب سے زیادہ مصروف رہتیں  ۔۔ ان کے زمے کچن کی ساری زمیداری ہوتی ۔۔ جسے  وہ خوشدلی اور محبت سے نبھاہتی رہتیں ۔ ہر ایک  کے ساتھ ساتھ بڑے بھیا کے بھی سارے کام وہ اسی تواتر سے کئے جا رہی تھی جس تواتر سے بڑے بھیا جمعہ پڑھنے جا رہے تھے ۔۔ شائد محبت کسی سے بھی ہو  ایسی ہی ریاضت سے شروع ہوتی ہو جیسی نورین آپا ہم سب سے کرتیں تھیں ۔

یوں تو ہر جمعہ کو ہم سب کی تیاری دیدنی ہوتی پر یہ سچ تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی بڑے بھیا جیسی تیاری نہیں کر پاتا تھا ۔۔ اس لئے ہم سب بڑے بھیا کو “ جمعے کا دولہا“  کہا کرتے تھے ۔۔ جسے سن کر وہ اتنے خوش ہوتے  کہ ان کی آنکھیں تک ہنس پڑتی ۔ مسجد سے واپس آنے تک گھر بھر جمعہ کی نماز پڑھ چکا ہوتا اور دسترخوان  ٹیبل کی بجائے ڈرائینگ اور ڈائینگ روم میں یکجا ہو کر بچھ جاتا ۔۔ دادی اور تایا جی ہمیشہ یک ساتھ بیٹھا کرتے اور پھر ان کے ساتھ بڑے بھیا ۔۔ سب کچھ ایک تواتر سے ہو رہا تھا ۔۔ بڑے بھیا کی  پسند کے شامی کباب  اور ماش کی دال  نورین آپا ہمیشہ ہی بنایا کرتیں  ۔۔ یہ نہیں تھا کہ نورین آپا باقی سب کو نظر انداز کرتیں ہوں بلکہ ان کو خبط تھا کہ بڑے بھیا کے ساتھ ساتھ باقی سب کی  پسند کا بھی خیال رکھیں ۔۔یوں  جتنے لوگ بھی  دسترخوان پر ہوتے سبھی کا پسند کا خیال رکھناانکاہی کا کمال تھا ۔۔ کالی دال اباجی کی پسند تو مٹر چاول  کے ساتھ رائیتہ دادی جی کو بھاتا تھا ۔۔ ہاتھ کی پکی روٹی تایا ، تائی جی کے لئے تو تندوری نان ہم سب کو چھولوں کے ساتھ کھانے ہوتے تھے ۔۔ یوں لگتا جیسے نورین آپا “ محبت کی انساکلیوپیڈیا “ تھیں ،جس کے ہر صفحے پر صرف ایثار کرنا اور نثار ہونا لکھا تھا ۔

ہم سب کو ہی نورین آپا سے بہت محبت تھی ۔۔ کبھی کبھی جی کرتا کہ کھانے کے مینو کے علاوہ بھی محبت کی  انسایئکلو پیڈیا کی ورق گردانی کی جائے ۔۔ اور جو کبھی کوئی ان کی شخصیت کے اوراق پلٹتا بھی تو اس کو کچھ نہ ملتا تھا سوائے ایثار اور پیار کے جو وہ بلا تفریق سب پر لٹائے جاتیں ۔۔ بلکل اپنی ماں پر گئی ہے ۔۔ دادی جی نورین آپا کی گلابی دوپٹے سے ڈھکی چمکتی  پیشانی چوم لیتی اور  گھر کے سب بڑے  ان  کی بلائیں لیتے نہ تھکتے تھے  ۔

ان دنوں ہم سب وقت جلد گزرنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے  کہ جلد از جلد جمعہ آئے اور ہم سب اکٹھے ہوں  ۔۔ انہی یادگار دنوں میں سے ایک دن ایسا ہوا کہ تایا جی کے دوست انکل پرویز کے ہاں سے ان کے منجھلے بیٹے وقار کے لئے اچانک ہی نورین آپا کا رشتہ آگیا اور لائے بھی تایا جی ہی تھے ۔۔ بھلا سوچنا کیا تھا  ۔۔ بس یوں ہی  ایک جمعہ کی دوپہر کھانا کھانے کے بعد بڑوں میں رسمی سی میٹنگ ہوئی ۔۔ اور دوسرے جمعہ کے دن پوری خاندانی کیبینٹ میں نورین آپا کا رشتہ منظور بھی ہو  گیا ۔۔ یہ سب اتنا چانک ہوا تھا کہ ہم سب حیران رہ گئے تھے ۔۔اوہ اب کیا ہو گا ۔۔ ہمیں نورین آپا کے بغیر رہنے کی عادت ہی کب تھی ۔۔ ایک عجیب سی اداسی نے گھر کا رستہ دیکھ لیا تھا ۔۔ سب اپنی اپنی تنہائی اپنی اپنی لگن کے ساتھ سہہ رہے تھے پر جو نہیں فرق پڑا تھا تو نورین آپا کو نہیں پڑا تھا ۔۔ ان کی وہی  عجز و نیاز والی فراغ پیشانی ، اذلی مسکراتے ہونٹ ۔۔ تاروں جیسی جھلملاتی آنکھیں ۔۔ گلابوں کو ماند پڑجانے والے شہابی رنگت والے ہونٹ ۔۔ وہی محبت ،  وہی انکسار  ، وہی خدمت ۔۔۔ نورین آپا کی روٹین میں کوئی فرق بھی تو نہ آیا تھا  ۔۔اب خاندان بھر میں  نورین آپا کی شادی کی باتیں   زورو شور سے ہو رہی تھیں ۔

جوں جوں شادی کے دن قریب آرہے تھے  ہم سب تیاریوں میں سبقت لے جانے کے لئے ایک دوسرے کو بھی بھولتے جا رہے تھے ۔۔ کپڑے  ۔۔ میچنگ جیولری  ۔۔ ہلدی ۔۔ مہندی ۔۔ گھر   باہر جیسے دلہن بنا ہوا تھا ۔ نورین آپا کا  نکاح مارچ کی بائیس کو جمعہ کے بعد اور رخصتی رات کو ہونا طے پائی تھی ۔ آخر وہ دن آن ہی پہنچا ۔۔ بڑے بھیا ہر بات سے بے نیاز حسب معمول جمعہ کی تیاروں میں مشغول تھے ۔۔ان سے منسوب انکی مخصوص مہک بھی بھٹک کر کئی اور خوشبوؤں میں رل مل گئی تھی ۔ ۔۔اور  نورین آپا دلہن بنی کچھ نہ کر سکنے کے غم سے نڈھال تھیں ۔۔ آج وہ کسی کے لئے کچھ نہیں کر پا رہی تھیں ۔۔ ہاتھوں میں مہندی سجائے شگن کا جوڑ اپہنے وہ اس دنیا کی لگتی ہی نہ تھیں ۔۔ ویسے بھی وہ اپنے مزاج اور عادات  میں  ہم سب سے مختلف تھیں ۔۔ آج تو انہیں دیکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔۔ حسن جیسے ان کے گھر کی کنیز بن گیا تھا ۔۔ ہم سب انہیں تنگ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ “ آج  اگر آپ کا دولہا لیٹ بارات لے کر آیا تو دادی اور تایا جی نے انہیں ؛ جمعے کے دولہا “ کے حوالے کر دینا ہے ۔۔“ سب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے ۔۔ جانے مجھے کیوں لگا جیسے نورین آپا کی شرمگین آنکھیں ایک پل میں روشن ہوئی ہوں ۔۔اس سے پہلے کہ ان آنکھوں میں تھرتھراتی کوئی تصویر دیکھتا انہوں نے اپنی آنکھوں پر دراز پلکوں کی چادر ایسے تان دی  جیسے کوئی جھوٹ موٹ سوتا ہوا بن جائے ۔۔

نورین آپا کی رخصتی کیا ہوئی جیسے دادی جی کے دسرخوان سے ایک ایک کر کے سب رخصت ہو گئے۔ ہمیں بہت دیر بعد یہ احساس ہوا تھا کہ ہم میں کون کشش ثقل کی طرح  تھا ۔۔ شاید نورین آپا ایک محور کی طرح تھیں جس کے گرد ہم سب چکر کاٹا کرتے تھے ۔۔ ہم سب ایک دوسرے سے اتنے  بیزار  سے دکھتے  جیسے  “ محبت کی انسائکلوپیڈیا “  ہم سے کہیں کھو گئی ہو یا پھر  کسی اور نے پڑھنے کے لئے مانگی  ہو  اور اب واپس کرنا بھول گیا ہو ۔۔ دادی جی اور تایا جی ایسے نورین آپا کی کمی کو محسوس کرتے  جیسے خدانخواستہ ان کو دیکھنااب کبھی  نصیب نہیں ہو گا ۔۔ سب کو ہی بہلنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔ آہیستہ آہستہ سب کے کام انداز بدل رہے تھے  ۔۔پر نہیں فرق آیا تھا تو بڑے بھیا کی مصروفیت میں نہ آیا تھا  ۔۔ ان کا وہی جمعہ تھا اور وہی ان کی تیاریاں  ۔ وہ کبھی ہماری دلشکن اور اداس گفتگو کا حصہ نہ بنتے تھے ۔بس دھیمے دھیمے مسکراتے رہتے اور اپنے کاموں میں مگن رہتے ۔۔ نہ کوئی گلہ نہ کوئی شکایتں ۔۔ نہ کوئی یاد یں  نہ کہانیاں ۔۔ جمعے  کا دولہا اسی سج دھج کے ساتھ گھر سے نکلتا اور واپس آجاتا ۔۔ ہاں پر اب ان کی مخصوص سی مہک پہلے جیسی  نہ تھی ۔۔ یا پھر یہ بھی ہم سب کا گمان ہی تھا ۔۔

اداسیوں سے بھرے کئی ہفتوں کے  بعد ایک دن ایسا آ ہی گیا جس دن  نورین آپا نے اپنے مائیکے رہنے کے لئے آنا تھا ۔۔ یعنی ہم سب کا جمعے   کا دن آباد ہونے جا رہا تھا ۔۔  بے قراریوں کو جیسے پر سے لگے تھے ۔۔ ہم سب نے طے کر رکھا تھا کہ اس بار انہیں ہم نے بتانا ہے  کہ ان کے بغیر ہم سب کتنے ادھورے رہ گئے تھے ۔۔ یہ بھی پوچھنا تھا کہ ان جیسا ہمارے خاندان میں کوئی  اور کیوں نہیں ہو سکا ۔۔ ۔ اور ۔۔ یہ بھی کہ جب تک ہم بہل نہیں جاتے تب تک جلدی جلدی ہم سے ملنے آیا کریں  ۔۔ پھر آخر وہ دن بھی آ گیا جب وہ ہم سب سے ملنے   تایا جی کے گھر آ ہی گئیں ۔۔ اس دن بھی جمعہ کا ہی دن تھا  ۔۔ سبز  سلمی ستارے والے سوٹ میں وہ سبز پری لگ رہی تھیں ۔۔ ان کی فراغ چمکتی پیشانی پر ہمیشہ کی طرح کوئی  سلوٹ نہیں تھی ۔۔ ان کی آنکھیں اب بھی ویسی  ہی بولتی تھیں جنہیں چپ کرانے کے لئے  ان کی دراز پلکیں ہر وقت ایک دوسرے سے الجھتی رہتیں  ۔۔ ان کے  لپ سٹک سے بے نیاز خوبصورت  ہلکے گلابی ہونٹ اب بھی گلاب کی پتیوں جیسے ہی تھے ۔۔ جو بس ہر وقت مسکراتے رہتے تھے ۔۔  وہ آتے ہی اپنے سارے کام سنبھال چکی تھیں ۔۔۔  بڑے بھیا حسب معمول صبح سے اٹھ چکے تھے ۔۔ ان کا دھوبی سے  دھلا کلف والا سفید کرتا شلوار ہینگر پر لٹک چکا تھا ۔۔  ایک مدت بعد ان کی مخصوص سی صندلی مہک  گھر بھر میں پھیلی ہوئی تھی ۔۔ ہم سب کو یوں لگا جیسے جمعہ کا دن جو کبھی بڑے بھیا کی اسی خوشبو سے منسوب ہوا کرتا  تھا وہ لوٹ آیا ہو ۔۔ پر وہ اپنے تاریخی بیان دیتے ہوئے کسی کو بھی گھر بھر میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے ۔

یہ سوچ کر کہ انہیں شائد پتہ نہیں چلا کہ نورین آپا آگئی ہیں ۔۔خوشی اور بے یقینی میں بڑے بھیا کو بتانے کے لئے میں ان کے کمرے کی طرف لپکی ۔۔کمرے میں ان کی مخصوص مہک  بکھری ہوئی تھی ۔۔ گہرے سبز پردوں کے  ہلکے ہلکے اندھیرے میں  بڑی سی آبنوسی کرسی پر شاید بڑے بھیا ہی تھے  ۔۔ وہ ایسے بیٹھے ہوئےتھے کہ سوائے ان کی مخصوس مہک کے کوئی اور پہچان ممکن نہیں تھی ۔۔ میں نے دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دئے ۔۔ اور ہلکے سے کہا “ میں کون“ ؟

ارے  تم ۔۔۔

اوہ ۔۔ آپ ۔۔ میں حیران رہ گئی ۔۔

آئی ایم سوری ۔۔ نورین آپا ۔۔ میں سمجھی کہ ۔۔۔۔۔ بڑے بھیا ۔۔  ؟  ساری باتیں جیسے تسلسل اور معنی کھو رہی تھیں ۔۔ نورین آپا کے ایک ہاتھ میں بڑے بھیا کا کلف لگا سفید کرتہ تھا اور ایک ہاتھ میں “ ہیگو صندل “ کی پرفیوم ۔۔ جسے جو وہ بڑی محبت اور محویت سے کرتے پر چھڑک  رہی تھیں ۔۔اتنی محویت سے  کہ انہیں میرے آنے کی خبر تک نہ ہوئی تھی جبھی تو انہوں نے مجھے آنکھ اٹھا کر دیکھا تک نہ تھا ۔۔

اوہ ۔۔  یہ صندلی خوشبو ۔۔ نورین آپا ۔۔ اور بڑے بھیا سے منسوب وہ  مخصوص سی مہک ۔۔۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ۔۔ پر بڑے بھیا کہیں نظر نہیں آ رہے  تھے ۔۔

نورین آپا ۔۔ میں نے دھیرے  سے  کھوئی کھوئی سی نورین آپا  کو  پکارا اور بے اختیار  ہو کر ان سے لپٹ گئی ۔۔

گہرے سبز پردوں کے  ہلکے ہلکے اندھیرے میں بھی  نورین آپا کی آنکھیں آنسوؤں سے ایسے جھلملا رہی تھیں جیسے شمع کی لو تھرتھراتی ہے ۔۔ پھر ان شبنمیں آنکھوں پر دراز   پلکیں یوں گر گئیں جیسے آخری سین کے بعد پردہ گر جاتا ہے ۔۔  مجھے ایسے لگا جیسے ہم سب اپنی  اپنی محبتوں میں  مگن “ محبت کی انسائیکلو پیڈیا “ کو پڑھنا ہی بھول گئے تھے  اور صندلی مہک  کے اس دکھ کو محسوس ہی نہیں کر پائے  جو انجانے میں جمعے کے دولہا  سے بچھڑ گئی تھی ۔۔۔۔

***

About admin

Check Also

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت یہ اکیسویں صدی کی  تیسری دہائی  ہےجو  عالمی سطح پر ترقیات  کی صدی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *