پوری دنیا میں افغانستان کو صرف اس لیے بدنام کیا جارہا ہے کیونکہ افغانستان میں موجود مذہبی گروپ اپنی شناخت او ر تہذیب پر قائم رہنے کے لیے عوام کو نئی تہذہب اور اس کی خامیوں سے دور رہنے کے لیے اپنے اپنے طور طاقت کا استعمال کرکے لوگوں کو قدیمی روایات پر قائم رہنے کی باتیں کرتے ہیں ۔مگر کون سی روایت اور کونسی تہذیب کو اپنایا جائے ؟اس کا میعار کیا ہو؟ کون سا پیمانہ ہو ! اس پر اجتماعی رائے کبھی نہیں بن سکی اس لیے تہذیبی تصادم ہوتے رہے اور ایک دن یہ بھی آیا کہ لوگ اسے طالبانی فرمان کے نام سے جاننے لگے۔عالمی میڈیا نے بھی طالبان کے انہیں منفی پہلوؤں کو طرح طرح سے اجگر کر کے انہیں بدنام کرنے میٕ کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔طالبانی تحریک کے نام پر میڈیا میں جو بھی کلپینگس Clippings) )دکھائی گیئیں وہ تقریبا ایک ہی جیس تھیں۔لیکن اتنی بات ضرورہے کہ انھوں نے اپنی عسکری قوت سے اپنے نظام کو لاگو کرنے کی پوری کوشش کی اور دنیا میں بدنام ہوئے ۔
ہندستان بھی تقریبا اسی راہ پر چل رہا ہے ۔ہندستانی حکومت غیر ملکی تشدد اور دہشت گردی پر خوب چیختی چلاتی ہے مگر خود اپنے ملک میں جب مذہبی تشدد سر چڑھ کر بولتا ہے تو حکومت بالکل اسی طرح سے ان ہندو دہشت پسندوں اور تشدد پسند جماعتوں سے خوفزدہ رہتی ہے جیسے پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں۔پاکستان نے ایک عرصے تک وہاں کی شدت پسند تنظیموں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستانی حکومت ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے ۔ تقریبا یہی صورت حال ہندستان کا ہوتا جارہاہے۔ افغنستان میں ایک زمانے میں مذہب کے نام پر جو تشدد موجود تھا اب وہ ہندستا ن میں دیکھنے کو مل رہاہے ۔ ہندستان میں مذہب کے نام پر اور ہندستانی تہذیب و ثقافت کے نام پر ان کی جانب سے جو تشدد ہو رہا ہے ان کو ہندستان نے ہمیشہ نظر انداز کیا لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہے ہے تو فکر دامن گیر ہے۔ لیکن یہ فکر بھی حکومت کو عملی اقدامات کی طرف مائل نہیں کر رہی ہے۔اگر یہ رویہ رہاتو ہندستان کو بھی افغانستان بننے میں بہت دن نہیں لگیں گے۔
شیوسینا، رام سینا ،نو نرمان سینا، بجرنگ دل،ودیارتھی پریشد جیسی سخت گیر سیاسی اور نیم سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں نے ہندستانی تہذیب کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ہامرے ملک کے کسی ادارے نے نہیں بنایا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی پیمانہ اور میعار ہے ۔ یہ تو ان کی خود ساختہ ہندستانی تہذیب ہے جس کی حمایت کرنے والے صرف اور صرف انہی تنظیموں کے افراد ہیں اور مخالفت میں پورا ہندستان ہے لیکن ان تنظیموں کی ہٹ دھرمی کا حال یہ ہےکہ جب چاہیں اور جہان چاہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں ،ہندستان کو کوئی قانوں ، اور کوئی آئینی دستو ر آج تک ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا ہے ۔اسی لیے ان کا حوصلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے حد تو یہ ہے کہ ان کے خلاف بولنے والوں کوہی پولیس اور کورٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں ۔جنوری میں منگلور میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا جو واقعہ سامنے آیا وہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔پب میں اپنے دوستوں کے ساتھ رقص و سرود میں محولڑکے اور لڑکیوں کو جس طرح دوڑا دوڑ اکر رام سینا کے لوگوں نے مارا پیٹا اور ان کو بے عزت کیا ،اس پر مرکزی وزیر رینکا چوہدری نے انھیں ہندو طالبان کہا ،نہ صرف انھوں نے بلکہ الیکٹرانک میڈیا نے بھی انھیں ہندستانی طالبان کہا ۔اب صورت حال یہ ہےکہ ان پر ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے کہ انھوں نے یہ قابل مذمت لفظ ان کے لیے کیوں استعمال کیا۔ان کے اس عمل سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کی طاقتیں روز بروز کتنی بڑھتی جارہی ہیں اور اگر ایسا ہی رہا تو مسقتبل میں کیا ہوگا ؟ کیا اس کا امکان موجود نہیں کہ رفتہ رفتہ یہ بھی افغانستان کے طالبان کی طرح مضبوط ہوتے جائیں گے اور پورا معاشرہ ان کے خوف وہراس میں رہے گا،اور کیا اس طرح کی سخت گیر ہند تنظیمیں ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں بنتی جارہی ہیں ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر حکومت ہند کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
14 فروری کو ملک بھر میں رام سینا ، شیو سینا ،بجرنگ دل جسی سخت گیر کہندو تنظیموں نے اس کے خلاف طوفان بدتمیزی۔ لیکن صرف یہی نہیں ہیں بلکہ کشمیر میں ڈختران ملت تنظیم کے کارکنوں نے ریستورانوں پر دھاوا بول کر ’عشقیہ ملاقاتوں‘ کے خلاف نوجوان جوڑوں کی سرزنش کی۔ ملک میں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی یہ واردتیں کسی بھی طرح درست نہیں کیونکہ یہسب رویے ہندستان کو افغانستان میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہیں ۔
واقعی یہ عجیب سی سوچ ہے کہ ایک ملک، ایک قوم ، ایک مذہب ہوگا تو سب تھک ہوگا۔
ہندوستان جیسے ممالک جہاں مخطلف مذاہب، اور مخطلف قومیں ہیں وہاں تو اس کا تصور بھی ممکن نہیں، پھر بھی لوگ اگر ایسا سوچتے ہین تو یقینا کسی سازش کے تحت ہی سوچتے ہیں۔
جرمنی میں ہٹلر کی مثال بہت پرانی بھی نہیں ہے کہ لوگ اسے بھول گئے ہوں، اکثر اسکے حوالے آتے رہتے ہیں۔ کیا ہوا آخر اس ظالم حکمراں کا؟ لوگ آج اس کی برائیاں ہی یاد کرتے ہیں۔ پھر بھی ہندوستاں کا یہ فاششٹ گروہ کھلے عام اسکی پہیروی کر رہا ہے۔ کسی کو اس پہ حیرت تک نہیں۔ چند جلوس چند نعرے بازیاں بس۔ جبکہ اسے تو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
یہ ہندو تو کی بری طاقتیں پورے ہندوستان کے لئے خترہ بن چکی ہیں۔ کسی بھی حالت میں یہ ہنداستان کی قوم کو ترقی نہیں پانے دینا چاہتیں۔ یہ پورے ہندوستان کو یہاں کے دور جاہلیت سے بھی پیچھے دھکیکل دینا چاہتی ہیں۔ انکے خلاف کوئی فورس ابھی تک نہیں ابھر پائی ہے۔ کوئی مظبوط طاقت ہی ہندوستان سے اسکا خاتمہ کر پائے گی۔ اور میرا ماننا ہے کہ یہ مظبوط طاقت ہم عوام ہی ہیں۔ ہم سب مل کر کچھ ایسا کریں کہ اس ناپاک طاقت کا نام ونشان مٹا دیں۔