موجودہ حالات میں سیاسی تبدیلی کی ضرورت انتہائی محسوس کی جارہی ہے۔ ساٹھ سالہ پرانے روایتی سیاسی نظام نے عوام کو وہ کچھ نہیں دیا جو ایک جمہوری معاشرے کی ضرورت تھی۔ سب سے اہم چیز جو جمہوریت کے دعویداروں نے عوام کو نہیں دی وہ ایک جمہوری سوچ ہے۔ اس لیے اس بوسیدہ سیاسی چہرے کو اب نئے سیاسی میک اپ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ پرانے سیاسی عمائدین اور اکابرین نے جمہوریت کیلئے جو اقدار سیٹ کی ہے وہ نہ تو ایک اسلامی معاشرے اور نہ ہی کسی جمہوری معاشرے کو زیب دیتی ہے۔ سیاست نہ تو خدمت کا نام ہے اور نہ ہی اس میں غریب کیلئے کچھ رکھا ہے۔ اس لیے جب کوئی سیاسی تبدیلی کی بات کرتا ہے تو یہ سیاسی کھلاڑی اس کے مخالف ہی نہیں دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ حالانکہ تبدیلی کی بات کرنا اور تبدیلی کی خواہش کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں پہلا بنیادی حق ہے۔ اگر سیاسی کھیل میں مخالف کی توہین اس کے اعیال اور قرابت داروں کو شامل کیا جائے تو یہ سیاست نہیں۔ سیاستدانوں کو وسیع القلب اور ذہین اور متحمل مزاج ہونا چاہیے۔ سیاسی عمائدین نے اپنے کردار سے معاشرے کیلئے اچھائی کے عنصر کو کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے عوام میں بھی خود غرضی کا عنصر تقویت وترویج کی منازل طے کرتا گیا۔ جواس وقت اپنے عروج پر ہے ۔خود غرضی ہی کی وجہ سے لوگ اب قومی یا ملی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد ات اور خواہشات وضروریات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ووٹ ذاتی امانت نہیں بلکہ قومی امانت ہے اسے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنا قومی امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ پھر بھی لوگ ووٹ کو ذات برادری اور لسانی وگروہی مفادات کے پیش نظراستعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ایسے گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ گئے ہیں جن کے مفادات مخصوص اور محدود ہیں۔ انہیں ملک قوم یاملت سے کوئی سروکارنہیں وہ اپنے پیٹ کی حد سے باہر نہیں جاناچاہتے ۔ سیاسی فضاء میں تبدیلی کی خواہش کے باوجود بھی تبدیلی نہ آنے کا سبب کیا ہے۔ عوام کے اندر لا شعوری طور پر خوف مقید کر دیا گیا ہے۔ عوام اچھائی چاہتے ہوئے بھی اچھائی کی طرف مائل ہوتے ہوئے بھی عمل نہیں کرتے ۔زبانی طور پر سب مسلمان ہیں مسجد کی طرف جاتے ہوئے پائوں کانپتے ہیں۔ سرکار پر سب کی جانیں نثار ہیں لیکن باہر نکلنے کا ٹھیکہ صرف مولوی حضرات کا ہے۔ عوام ان مفاد پرستوں جنہیں عام فہم الفاظ میں مافیا کا نام دیاجاتا ہے سے ڈرتے ہیں۔ عوام کے ذہن میں یہ خوف صرف اس بات کا ہے کہ انقلابی انہیں اس گروہ سے گردانتے ہوئے قبول نہیں کریں گے۔ اس طرح وہ نہ ادھر کے رہیں گے اور نہ ادھر کے ہو پائیں گے۔ اس دوران میں اگر انہیں کوئی مسلہ درپیش ہوا تو وہ دونوں طرف کی حمایت سے محروم ہو کر تنہا رہ جائیں گے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو تفاعل کرنے کا عمل انتہائی غفلت کا شکار ہے۔ عمران خان کے بارے میں لوگوں کی عمومی رائے یہی ہے کہ وہ اچھا آدمی ہے اور اس سے بہتری کی توقع بھی ہے لیکن وہ اس کا ساتھ دینے سے خوفزدہ ہیں۔ اس میں بھی کچھ ایسے ہی عوامل کا عمل دخل ہے جو کہ معاشرتی رکاوٹوں کو نا قابل عبور بنانا ہے۔ سیاسی کارکن مافیا جس کی وجہ سے معاشرہ جمہوری پنجرے میں مقید کر دیا گیا ہے۔ یہ سیاسی کارکن اپنے مفادات قومی یاصوبائی اور علاقائی سیاسی لیڈر شپ سے حاصل کرتے رہتے ہیں ۔اس کے عوض وہ عوام کو اس گروہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال و اختیار کرتے ہیں۔ یہ سیاسی لیڈر شپ کی حمایت میں درپردہ اپنے مفادات اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کا زینہ ہے۔ جہاں ان کے مفادات کوزد پڑنے کا خطرہ ہو وہ اس شخص اس ادارے یا اس وجوہ کے مخالف ہی نہیں دشمن ہو کر اس نابود کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مافیہ کے یہ کارکن دولت کے ہتھیار سے لیس ہونے کے سبب اور سیاسی قیادت کی آشیرباد سے مسلح ہونے کی وجہ سے نہ صرف قانون بلکہ قانون کانافذ کرنے والوں کو بھی خرید لیتے ہیں۔ جب قانون اور قانون والے دونوں مٹھی میں ہوں توپھر من مانی سے کون روک سکتاہے۔ اس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں مشکلات اور تکالیف کا عنصر پیدا کرکے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان سیاسی چمچوں سے متھا لگانے کی بجائے انہیں گلے لگانے پر مجبور ہو جائیں۔اس سبب ہی عام آدمی کی سوچ ہوتی ہے کہ ایک ووٹ کی خاطر وہ اپنی زندگی کیوں اجیرن بنائے اور کیوں ایسے عناصر سے دشمنی مول لے ۔وہ اس سوچ کے تابع ہو کر انہیں دوست اور قریبی بنانے کیلئے کوشش کرتا ہے۔یہ غلامانہ سوچ کو تقویت دینے کا بنیادی سبب ہے۔ ذہنی غلام بنانے کیلئے سیاسی ماتحت رکھنا کیلئے عوام کو ایسے عناصر کے زیر اثر رکھا جارہا ہے۔ تاکہ ان کے اندر سے سیاسی آزادی کی فکر ہی جنم نہ لینے پائے۔ سیاسی کارکن زیادہ تر تعلیم یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ سکول سے بھاگے یا تعلیم سے دلبرداشتہ شارٹ کٹ اپنانے کی سوچ والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر شارپ ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کو ہر حربے سے ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ڈرگ مافیا لینڈ مافیا کمیشن مافیا کے لوگ ان میں صف اول میں شامل ہیں۔ سڑیٹ فائیٹر آوارہ گلیوں میں لڑنے بھڑنے والے سیاسی کارکن بن کر ہیرو بننے کی آرزو پورا کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت سکول سے بھاگے ہوئے یا تعلیم سے نالاں لڑکوں کی ہوتی ہے۔ ان میں کچھ کے والدین بھی ان کو تعلیم کے اخراجات ادا نہ کرپانے کی وجہ سے سکول سے اٹھا لیتے ہیں۔یہ گلیوں محلوں میں جھگڑے کر کے نام بناتے ہیں اور لوگ ان کی دلیری اور جیداری پر ان سے ڈر کر ان کی قربت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم کے بغیر ہی زندگی میں ترقی اور کا
میابی چاہتے ہیں۔ اس کا سب سے کامیاب ترین رستہ سیاست ہے ۔ جس میں تعلیم کے بغیر ہی اختیار اور اقتدار دونوں حاصل ہو جاتے ہیں۔سیاسی لوگ انہیں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔سیاسی لوگ مخالفین کو دہشت زدہ کرنے اور سیاسی کارکنوں کو دوسرے سیاسی نظریے کی حمایت سے روکنے کیلئے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ اسے وہ اپنی وفاداری کاروپ دے کر سیاسی لیڈر شپ سے اس کاعوضانہ وصول کرتے ہیں۔ اس عمل اور سوچ نے سیاست کو گلی کوچوں کی گندگی بنا کر رکھ دیا ہے۔ سیاست گلی محلے کی لڑائیوں اور اجارہ داری قائم رکھنے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس میں رواداری اور خدمت کے عنصر کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔ زبان سے اچھائی کا پرچار کرو اور درپردہ بدی کے ہر روپ کو اختیار کرو۔