ابرار احمد اجراوی
ہندستان میں ریڈیو کی ابتداء ۱۹۲۴ء میں ہی ہوگئی تھی، اور ۱۹۳۴ میں تو آل انڈیا ریڈیو کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوچکا تھا۔ لیکن ہندستان میں ٹیلی ویژن کی عمر ابھی پچاس پچپن سال ہوئی ہے۔اطلاعاتی ٹکنالوجی کے انقلاب سے پہلے مطبوعہ صحافت کا ہی جلوہ تھا۔ اگر پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کا تقابل کریں، تو وہ اس کے سامنے طفل مکتب لگتا ہے۔ لیکن حالیہ تناظر میں دیکھا جائے، تو برقی ذرائع ابلاغ کی زود رفتاری نے مطبوعہ صحافت کو بہت پیچھے چوڑ دیا ہے۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ نے ساری معلومات کو آپ کے ڈرائنگ روم تک بآسانی پہنچادیا ہے۔ ایک بٹن دبانے پر معلومات اور اطلاعات کی پوری کائنات حاضر ہے۔الیکٹرانک میڈیا کی عقابی نظروں سے دنیا کی کوئی بھی چیز بھی پوشیدہ نہیںرہ گئی ہے۔ انٹرنیٹ جیسے جام جہاں نماکے وجود میں آنے کے بعد تو اطلاعاتی ٹکنالوجی کے میدان میں وہ انقلاب آیا ہے کہ جس کا تصور بھی دو دہائی قبل ممکن نہ تھا۔ برقی ذرائع ابلاغ خواہ وہ ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن، کمپیوٹر ہو یا سنیما، موبائل ہو یا انٹرنیٹ نے جہاں معلومات کی ترسیل میں ہنگامہ برپا کیا ہے، وہیں صارفیت پسندی اور کمر شلائزیشن نے سطحیت اور عجلت کا خون بھی ذرائع ابلاغ کی رگوں میں دوڑا دیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اب رپورٹنگ خبر رسانی کے جذبے کے ساتھ نہیں کی جاتی، بلکہ اب مسابقہ آرائی اور TRPبڑھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ککرمتے کی طرح ہر گلی نکڑ پر پھیلے پرائیویٹ نیوز چینل نے خبروں کی جگہ افواہوں کا بازا ر گرم کرنا شروع کردیا ہے۔وہ اشتہاریت کے میدان میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ اخلاقیات اور پریس قوانین کی خلاف ورزی پر آمادہ ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا نے اطلاعاتی میدان میں بہت سے قابل رشک نقوش بھی ثبت کیے ہیں۔ اس کے سحر سے عام آدمی سے لے کر ہمارے سیاہ و سفید کے مالک بالا نشیں طبقات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ برقی میڈیا کی وجہ سے سیاسی کرسیوں پر براجمان طبقہ ہر وقت خوف کے دائرے میں محصور رہتا ہے۔ پرنٹ میڈیا تو بڑی مشکل سے ان سفید پوش طبقوں کے خلاف کوئی تحیر خیز خبر نشر کرپاتا ہے۔ لیکن برقی ذرائع ابلاغ نے ان سفید پوش طبقے کی ہر حرکت پر نظر رکھنے میں جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر الیکٹرانک میڈیا: تہلکہ ڈاٹ کام کے دور پورٹرس نے ہمت نہ دکھائی ہوتی، تو بنگارو لکشمن کا رشوت پر مبنی معاملہ کبھی ہندستانی عوام کی نظروںمیں نہ آپاتا۔افغانستان اور عراق پر امریکہ کے حملے سے لے کر ممبئی حملے کی پل پل کی خبروں کو راست طور پر نشر کرنے میں جو مستعدی ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے دکھائی وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ممبئی کے تاج ہوٹل، نریمن ہاؤس اور اوبرائے ٹرائڈنٹ کا لائیو ٹیلی کاسٹ انھی برقی ذرائع ابلاغ کے حوصلہ مند اور بہادر رپورٹرس نے ہماری ٹی وی اسکرین پر مہیا کیا تھا۔اس حوالے سے سی این این، آئی بی این، این ڈی ٹی وی، انڈیا ٹی وی وغیرہ کے جواں سال اور جرأت مند رپورٹرس کے جذبوں کو سلام نہ کرنا صحافتی بد دیانتی کے مترادف ہوگا۔ گجرات فسادات کے مجرمین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے اور ان کے جرم کا پردہ فاش کرنے میں ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے قابل ستائش رول ادا کیا ہے۔ ووٹ فور کیش، اور اسی طرح بد عنوانی کے بہت سے معاملات کو ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے ہی سب سے پہلے واشگاف کرنے کا حوصلہ دکھایا ہے، بابری مسجد کے انہدام کی فلم بندی بھی ایک جاں باز صحافی نے ہی کی تھی، جس نے بہت سے چہروں سے فرقہ پرستی کا نقاب الٹنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔
لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ہر پہلو اتنا روشن نہیں ہے۔ اس نے تعمیر سے زیادہ تخریب اور اطلاع سے زیادہ اشتہار پر فوکس کیا ہے۔برقی ذرائع ابلاغ نے اپنے کامیاب اسٹنگ آپریشن کے ذریعے بدعنوانوں کے دلوں میں دہشت ضرور پیدا کر رکھی ہے۔ لیکن اس کا گناہ اس کے کار خیر پر بھاری ہے۔ اسٹنگ آپریشن کی آڑ میں اسی الیکٹرانک میڈیا نے بد عنوانی کے کارو بار کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ جس سے دشمنی ہوئی اس کے خلاف اسٹنگ آپریشن کرکے سودے بازی کا بازار گرم کرلیا۔ کسی کی شبیہ شکنی الیکٹرانک میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو کر رہ گیاہے۔ منفعت اندوزی کی ہوس نے الیکٹرانک میڈیا والوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ سروودے اسکول دریا گنج کی ایک خاتون ٹیچر کے خلاف ایک پرائیویٹ نیوز چینل کا اسٹنگ آپریشن سراسر جھوٹا اور فرضی تھا۔ چند سال قبل جس اسٹنگ آپریشن میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سمیت چند بڑے مدارس کے مفتیان کرام کو فتوی کے بدلے نوٹوں کی گڈی ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا، وہ بھی جعل پر مبنی تھا۔ برقی میڈیاکی اسی قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کو دیکھ کر بعض سیاست داں اور دانشور نیوز چینل والوں کی ہوس کا پردہ فاش کر نے کے لیے ان کا اسٹنگ آپریشن کرنے کے فراق میں ہیں۔جس کرپشن کے خلاف ہمارا میڈیا شمشیر بکف نظر آتا تھا اب وہ خود اس حمام میں ننگا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور صحافی اور ہفت روزہ چوتھی دنیاکے مدیر سنتوش بھارتیہ کو اس تلخ نوائی پر مجبور ہونا پڑا کہ’’آج کا میڈیا بک گیا ہے۔ اس نے اپنی بولی لگادی ہے۔اور نیوز ایجنسیاں ہوںیا سروے ایجنسیاں سب کی سب سیاست دانوں کے ہاتھوں بک چکی ہے۔‘‘(میڈیا :اردو اور جدید رجحانات، ص:۲۷)
ہمارے برقی میڈیا کی فتوحات کا دائرہ بہت سکڑا ہوا اور تخریب و شر انگیزی کا دائرہ پھیلا ہواہے۔ اس نے معاشرے میں فحاشی و عریانیت، بے ہودگی اور اباحیت زدگی کو فروغ دینے میںایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منفعت اندوزی کی ہوس نے آج برقی ذرائع ابلاغ کو ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے کہ اگر وہ اپنے ماضی کی طرف جھانکے تو اس کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ رےئلٹی شوز ’مجھے اس جنگل سے بچاؤ‘اور ’سچ کا سامنا‘اور’بگ باس‘ جیسے جنس زدہ اور پھوہڑ پن اور ماوارائے اخلاق مذاق پر مبنی پروگراموں نے ابلاغ کی دنیا میں وہ جوتم پیزار مچائی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ اس میدان میں ہر چینل والا بازی مارلے جانا چاہتا ہے۔
میڈیا پہلے سچائی کا عکاس ہوتا تھا۔ کوئی بھی خبر انتہائی چھان پھٹک کے بعد ہی نشر کی جاتی تھی۔ اب خبروں کا معاملہ کاتا اور لے بھاگا والا ہے۔ اس کی صداقت اور سچائی کی پرواہ کسی کو نہیں۔اسلم فرشوری کا یہ تجزیہ بڑا بر محل ہے:’’ ریڈیو اور ٹی وی پر جو اربوں الفاظ بولے جارہے ہیں، ان میں خبر کو دو لفظوں میں قید کردیا گیا ہے۔ اطلاع اور افواہInformation & Speculation ۔ یہی وجہ ہے کہ خبر سے علم اور آگہی غائب ہو چلے ہیں۔‘‘(اردو اروعوامی ذرائع ابلاغ، ص: ۳۹)
پہلے میڈیا غیر جانب دار ہوتا تھا۔ذات پات، مذہب اور اونچ نیچ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب میڈیا اور خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا نے فرقہ پرستی کا چولا پہن لیا ہے۔ وہ جب چاہے جعلی واقعات کی بنیاد پر کسی کی پگڑی اچھال دے۔ کسی کو دہشت گرد اور دیش دروہی بناکر پیش کردے۔ کوئی حملہ ہو پولس والوں اور ہماری انتظامیہ کو تو اس کی کانوں کان بھنک تک نہیں لگتی، لیکن ادھر حملہ ہوا، کہیں بم بلاسٹ ہوا اور ادھر ہمارے نیوزچینل والے ایکسکلوزو (Exclusive)اور اسپیشل اسٹوری کے نام پرکئی ماسٹر مائنڈ ڈھونڈ لاتے ہیں اور اس پر سنسنی خیز تبصرے شائع کرنے لگتے ہیں۔ خاص خبر((Exclusive Newsاور اسپیشل انویسٹی گیٹو اسٹوری) Special Investigative Story)کی تلاش نے سب سے زیادہ سنسنی خیزی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ سطحیت اور غیر اخلاقی رویوں کو شہہ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں خبروں کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے۔
بازاریت اور اشتہاریت کے تصور نے الیکٹرانک میڈیا کا اصلی چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ پیسے کمانے اور اپنی TRP بڑھانے کے لیے ایسے ایسے بیہودہ اور فحش اشتہار نشر کیے جارہے ہیں، جنھیں کوئی بھی مہذب شخص دیکھنا پسند نہ کرے۔ پرفیومز، صابن، زیورات، ملبوسات، لڑکیوں کے پوشیدہ کپڑوں اور زیبائشی سامان کو حیا سوز ایکٹرس کی مدد سے اس طرح اسکرین پر اجاگر کیا جارہا ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا والے ہندستان کے ۸۰! فیصد عوام سے تو کوئی دل چسپی نہیں لیتے، لیکن گنتی کے چند خاندانوں میں جنم لینے والی فلم ادا کار اور داکاراؤں کی زندگی کے ایک ایک پل کو مرچ مسالہ لگا کر نشر کرنا ان کی عادت ثانیہ بن کرر رہ گئی ہے۔ کس ہیروؤن کا کس کے ساتھ معاشقہ چل رہا ہے، کون کس کے ساتھ DATING پر جارہا ہے، کون ایکٹریس امید سے ہے، یہی کچھ الیکٹرانک میڈیا کا میدان بن گیا ہے۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اسی صورت حال پر افسوس کرتے ہوئے تفریح اور میڈیا کے عنوان سے منعقد چھٹی سالانہ چوٹی کانفرنس میں کہا :’’میڈیا ایک حاملہ فلم اسٹار کی رپورٹ شائع کرکے کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ زندگی کے اصل مسائل پر توجہ مرکوز کیوں نہیں کرتا۔ .. کیا یہ نہیں دیکھ سکتے کہ ملک کے ۸۰! فی صد عوام کی حالت خراب ہے۔ آپ انھیں سپر اسٹار کی زندگی دکھاتے ہیں۔‘‘ ایسے ماحول میں پیدا ہونے والی نسل نے اسی فحاشی اور عریانیت کو سماج کی مسلمہ قدر کے طور پر برتنا شروع کردیا ہے۔ وہ پیدا ہوتے ہی دیکھتا ہے کہ گھر کے سارے لوگ شراب و کباب کی محفل گرم کیے ہوئے ہیں۔ بچے ماں باپ کے سامنے ہی احلاق سوز حرکت کر رہے ہیں او روالدین تحسین و آفریں کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے بچے کا یہی حشر ہوسکتا ہے۔
یہ تو رہی ہمارے ہندی اور اردو نیوز چینل کے پروگراموں کی نوعیت۔ اب آئیے ذرا ان کے معیار پر بھی غور کر لیجیے۔ ان تجرباتی اعتبار سے نابالغ اور فیشن ایبل رپورٹرزنے اپنی جدت پسندی کا مظاہرہ کرنے اور زبان دانی کا سکہ لوگوں پر جمانے کے لیے زبان کا زائیچہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کی زبان سے ایسے ایسے الفاظ ادا ہورہے ہیں، جن کے معانی و مطالب سے بھی وہ ناآشنا ہوتے ہیں۔ اب’ مخالفت ‘کے بجائے’ خلافت‘ ہورہی ہے۔اب بارش ہوتی نہیں، بلکہ بارش برستی ہے۔ بارش بند نہیں ہوتی ، بلکہ برسات بند ہوتی ہے۔ان نیوز چینل والوں کی ڈکشنری لگتی ہے تبدیل ہوگئی ہے، وہ مہارت کو مہارتھ بولتے ہیں۔جمع الجمع بنانے کا جرم تو یہ غیر اردو داں لوگ دھڑلے سے کر رہے ہیں۔جذباتوں ، خیالاتوں، اور علماؤوں ان نیم خواندہ رپورٹرز کی زبان پر چڑھا رہتا ہے۔اس معاملے میںاین ڈی ٹی وی وغیرہ کے لوگ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں، لیکن آج تک اور اسٹار نیوز والے خوب اردو کا مثلہ کر رہے ہیں۔ یہ تو غلط الفاظ کے استعمال کی بات رہی، اگر ان کے تلفظ پر غور کریں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہے گا۔ یہ لوگ تو بے روک ٹوک’ ذلیل‘ کو’ جلیل‘ بنادیتے ہیں۔
آن لائن میڈیا نے معلومات کے دائرے کو عام آدمی کی رسائی کا حصہ بنادیا ہے۔ آن لائن صحافت اور آن لائن جرنلزم نے معلومات کو ہماری چوک چوپال پر انڈیل کر رکھ دیا ہے۔ تعلیم اور تجارت سے لے کر روزمرہ کی تمام ضروریات کے لیے انٹرنیٹ موجود ہے۔ ملازت چاہیے تو نوکری ڈاٹ کام پر جائیے، شریک حیات کی تلاش ہو تو بہت سی میٹری مونیل سائٹس تجسس کی تسکین کے لیے حاضر ہیں۔ٹیوشن کے لیے بہت سے آن لائن انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں۔لیکن آپ کسی بھی سائٹ پر چلے جائیے، جائزہ لینے پر محسوس ہوتا ہے کہ معلومات فراہمی کے نام پر کھلواڑ کیا گیا ہے۔ ہر ایرا غیرا اب اپنا بلاگ لکھنے لگا ہے۔ کوئی خالی الذہن آدمی ان بلاگس کو پڑھ کر گمراہ ہوسکتا ہے۔ خاص طور سے مذہبی ویب سائٹس پر اس قسم کے مواد کی بھرمارہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی روش نے اس قسم کی گمراہ کن معلومات کو بڑھاوا دیا ہے۔ کسی بھی اطلاع کو نیٹ پر ڈالنے سے پہلے اس کا سینسر ہونا ضروری ہے، ورنہ قاری گمراہ ہوسکتا ہے۔
سنیما اور فلم بھی ابلاغ اور آگاہی کا ایک ذریعہ ہے۔ سنیما کی عمر بھی سو سال ہوگئی ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ معیاری اور کسی سماجی کہانی پر مبنی فلمیں بنتی تھیں، لیکن اب فلموں کی دنیا میں معیار کا کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا ہے۔فلموں نے کہنا چاہیے کہ ترقی معکوس کی ہے۔ ماضی کی فلمیں دیکھ کر ہمارے سماج اور معاشرے میں ایک مثبت پیغام جاتا تھا۔ فلموں میں پیغام اور کہانی کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ لیکن اب فلموں میں کہانی اور پیغام گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے ہیں۔ اب فلموں میں کہانی اور مرکزی پیغام کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ یہاں لاکہانی اور لامرکزیت کا بول بالا ہے۔ بازاریت نے وہ جادو کیا ہے کہ صرف آئٹم سونگ اور کسی سمندری ساحل کے کنارے نیم عریاں تصاویر پر مبنی گانوں کو محوری حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ ناظرین کو بھی اس سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔فحاشی، عریانیت، بھونڈے قسم کے مذاق یہی کچھ فلموں کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔ فلم کے گانوں او رمکالموں میں ایسی گالیاں دی جاتی ہیں کہ کوئی مہذب آدمی دیکھنا تو کجا، اس کو سننا بھی گوارا نہ کرے۔ دیو داس، امراؤ جان، مدر انڈیا، مغل اعظم اور پاکیزہ جیسی فلموں کی روایت کو فلم انڈسٹری سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ہے۔ اب فلموں میں سیکس، تشدد، معاشقے بازی اور ماورائے ازدواج تعلقات کے قصوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ دبنگ، دیسی بوائے، جسم، ڈرٹی پکچر وغیرہ خدا معلوم فلم انڈسٹری کو کس رخ پر ڈالیں گے اور ابھی فلموں میں عریانیت اور فحاشی کے نام پر کیا کیا جائے گا اس کا محض تصور کیا جاسکتا ہے۔اب فلمیں کوئی اصلاحی پیغام نہیں دیتیں، بلکہ تشدد اور سیکس کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ فلمیں دیکھ کر اسی انداز میں معصوم اذہان اپنے معاشرے کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک بچے نے فلم اگنی پتھ دیکھ کر اسی انداز میں اپنی خاتون ٹیچر کو چھری گھونپ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
الیکٹرانک میڈیا کی فیملی کے سارے ممبران کا یہ حال نہیں ہے۔ اب بھی بہت سے ایسے نیوز چینل ہیں، جن کے نزدیک صحافت تجارت سے زیادہ ایک مشن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے رپورٹرس اور کیمرہ مین افواہوں کا بازار گرم نہیں کرتے، بلکہ وہ موقع واردات پہنچ کر ایک سماجی ورکر کا کام بھی کرتے ہیں۔ اپنا TRPبڑھانے کے لیے لوگوں میں دہشت اور خوف کا ماحول قائم نہیں کرتے۔وہ رپورٹنگ اور اطلاعات رسانی کا کام انجام دیتے ہیں، اور وہ اس سلسلے میں کسی جانبداری یا تعصب یا کسی ذہنی تحفظ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایسے ہی میڈیا کے افراد اور رپورٹرس سے برقی ذرائع ابلاغ کی آبرو باقی ہے۔ ورنہ بیش تر نیوز چینلز پر جس قسم کی بے سروپا باتوں کو نمک مرچ لگاکر نشر کیاجاتا ہے کہ برقی میڈیا کب کا دم توڑ چکا ہوتا۔٭٭٭
*ABRAR AHMAD
ROOM NO,21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067
MOB:9910509702