محترم سوال وجود کی بقاء کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکی دہشت گردی کی جنگ لاحاصلی کے سوا ۔ ۔ ۔ ۔
نام نہاد دہشت گردی جنگ سے لاتعلقی جرات اظہار چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
نائین الیون کے بعد امریکی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے آغاز پر ہمارے ارباب اقتدار دانشوروں اور امریکی برتری سے متاثر تجزیہ نگاروں نے جو حاشیہ آرائیاں کیں،امریکی دست وبازو بننے کے حوالے سے جو خوبصورت مناظر تراشے،آج اُس کے تمام دلکش نقوش پھیکے اور ماند پڑچکے ہیں،دعوؤں کی قلعی اترچکی ہے اور اِس سپردگی کی حقیقت اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ عریاں ہوکر سامنے آچکی ہے،اِس وقت حال یہ ہے کہ امریکی طوفان بلاخیزی کے سامنے ہماری ملکی قومی سلامتی اورپاکستان کا وجود سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جبکہ ہماری بے پناہ قربانیاں اور نقصان کے باوجود امریکی جارحیت کا منہ زور طوفان ہمیں نگلنے کیلئے بہانے اور جوازتلاش کررہا ہے،بار بار امریکی عہدیداروں کی طرف سے متنبہ کیا جارہا ہے اور کھلم کھلا دھمکیاں دی جارہی ہیں، امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن کے بعد وزیر دفاع لیون پینٹا اور امریکی سفیر کیمرون منٹر کی طرف سے دھمکیاں بھی اسی سلسلے کی تازہ کڑیاں ہیں ۔
گذشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع نے کابل میں اتحادی افواج کے دفاتر اور امریکی سفارت خانے پر حملے کا حقانی نیٹ ورک کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ ”پا کستان حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی میں ناکام ہو گیا ہے،اب امریکہ خود پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کرے گا،اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنی افواج پر پاکستان میں موجود طالبان کو حملوں کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے،امریکہ اپنے مفادات کیخلاف پاکستان سے ہونیوالے حملوں کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔“ لیون پینٹا نے پاکستان کو دھمکی نما پیغام دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم افغانستان میں تعینات اپنی افواج کے دفاع کیلئے ہر ممکن قدم اٹھا سکتے ہیں ۔
اپنے پیش رو کی پیروی میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بھی تمام سفارتی آداب اور تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سرعام امریکی الزام کا اعادہ کیا اور کہا کہ امریکہ کے پاس شواہد موجود ہیں کہ حکومت پاکستان کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث حقانی گروپ کے ساتھ تعلقات ہیں،ریڈیو پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد دہشت گردوں کی محفوظ پنا گاہ نہ بنے،ہم دہشت گردوں کے خلاف کہیں بھی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور القاعدہ جہاں بھی ہوگی اُسے نشانہ بنائیں گے۔“امریکی عہدیداروں کی رعونیت آمیز اِن دھمکیوں پر پاک فوج کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھاکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف تمام تر وسائل بروئے کار لا رہا ہے اور اگر دہشت گرد حملوں کیلئے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو یہ اتحادی فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِن کیخلاف کارروائی کرے ۔
اسپین میں ناٹو کی افواج کے سربراہی کانفرنس کے دوران اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے برّی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے امریکی دھمکی کا جرا_ت مندانہ جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آزاد اور خود مختار ملک ہونے کی حیثیت سے آزادانہ فیصلے کرے گا،ہم سمجھتے ہیں کہ اصولی طور پرتو اِس الزام کا جواب حکومتی ذمہ داران کی جانب سے دیا جانا چاہیے تھا،کیونکہ پاکستان میں جمہوریت،منتخب حکومت اور پارلیمنٹ موجود ہے،ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کا اختیار منتخب جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ افواج پاکستان اور اُس کی قیادت کا فریضہ اُس پالیسی پر عمل کرنا ہے،لیکن افسوس کہ جمہوریت کی بالا دستی کے دعوؤں اور منتخب حکومت کی موجودگی کے باوجودہمارے دفترخارجہ نے امریکی وزیر دفاع اور نائب صدر جوزف بائیڈن کے مخالفانہ بیانات پر احتجاج سے گریز کرتے ہوئے نہایت ہی بھونڈا اور پھسپھسا موقف اختیار کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا گوارہ کیا یہ بیانات پاکستان امریکہ تعاون کے منافی ہیں،ہم انہیں مسترد کرتے ہیں اور پاکستان اِن مخالفانہ بیانات پراحتجاج نہیں کرے گا ۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ جیسے جیسے امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے،بے سروساماں حیرت پسند افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کا خوف امریکی انتظامیہ اور اسکی دفاعی قیادت کی مایوسی اور اضطراب میں اضافہ کررہا ہے،دراصل امریکہ کو افغانستان میں جنگی ہزیمت اور پسپائی کا سامنا ہے وہ اپنی جنگی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے الزامات کی نئی بوچھاڑ شروع کر دیتا ہے،جو امریکی انتظامیہ کے ہذیان آمیز،غیر مہذبانہ اور ترش بیانات سے صاف عیاں ہے،امریکہ اِس طرح کا رویہ اختیار کرکے اپنی ناکامی اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے،یہی وجہ ہے کہ اُس نے ایک بار پھر کابل میں طالبان کی طرف سے اتحادی فوجی ہیڈکوارٹر امریکی سفارتخانے پر کئے گئے حملوں کا الزام بالواسطہ طور پر پاکستان پر عائد کیاہے،جو ہماری نظر میں کسی اعلانِ جنگ سے کم نہیں،جہاں تک حقانی نیٹ ورک کے حملوں کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ناممکنات میں سے ہے اور سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔
کیونکہ پاک افغان سرحد پر ایک طرف پاکستان کے 60 ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور نیٹوافواج کے علاوہ افغان فوج اور پولیس سمیت پاکستان سے تین گنا زیادہ اہلکار تعینات ہیں،اِس کے علاوہ خفیہ ایجنسیاں اور جاسوسی سیٹلائٹ نظام علیحدہ کام کر رہا ہے،اِس تناظر میں بعید از عقل ہے کہ اتنے کڑے پہرے میں شدت پسند سرحد عبور کرکے جائیں اور اپنا مشن مکمل کرکے باحفاظت واپس لوٹ آئیں اور بالفرض محال ایسا ہوا بھی ہے تو سوال یہ ہے کہ چپے چپے پر موجود اتحادی افواج جب کابل میں اپنے ہائی ویلیو ٹارگٹس کی بھی حفاظت نہیں کر سکتیں تو امریکہ یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ بیرونی جارحیت کو کسی صورت بھی قبول نہ کرنے کا اعزاز رکھنے والے غیرت مند،غیور نہتے افغانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا،دوسری طرف امریکہ کا پاکستان پر مذکورہ الزام عائد کرنے کا پس پردہ مقصد پاکستان کو شمالی وزیرستان میں نام نہاد حقانی شوریٰ کیخلاف آپریشن کیلئے مجبور کرنا ہے ۔
اس تناظر میں سوا ل یہ ہے کہ آخر کب تک ہم امریکی آقاؤں کی مرضی اور خواہش پر سرتسلیم خم کرتے رہیں گے اورکب تک ہم جانتے بوجھتے اپنی تباہی وبربادی کا سامان کرتے رہیں گے،جبکہ دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ کیلئے ہم نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیاہے اور سوائے لاحاصلی کے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا،آج 35ہزار جانوں،68ارب ڈالر کے نقصان اور ملکی معیشت وثقافت کی بیش بہا قربانیوں کے باوجود بھی امریکہ ہمیں اِس کا صلہ دینے اور ہم پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے،اُس نے ہمارے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ہم سے ہر بار دھوکہ کیا،اُس نے ہم سے قربانی لے کر ہمیشہ ہمارے اذلی دشمن بھارت کو نوازا،آج بھی وہ یہی کھیل کھیل رہا ہے،وہ بھارت کے ساتھ مل کر بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے ذریعے _پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچارہا ہے،لیکن اس حقیقت کے ادراک کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار امریکی غلامی اور کاسہ لیسی میں پیش پیش ہیں،ہماری اس بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ ہمارے صدر محترم اور وزیر اعظم صاحب امریکی خوشنودی کیلئے امریکہ اور نیٹو افواج کو افغانستان میں اپنے قیام بڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں،جبکہ ملک کے عوام سمیت حزب اختلاف کی اکثر سیاسی جماعتیں،محب وطن اسلام پسند تنظیمیں،سول سوسائٹی اور قومی میڈیا حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں،اب ہمیں اِس دلدل سے باہر نکلنے کی کوشش کرنا چاہیے،لیکن سابقہ فوجی آمر کے پیروکار،سلطانی جمہور کے دعویدارڈالروں کے لالچ میں قومی خودمختاری،وقار اور غیرت و حمیت کا سوداجاری رکھے ہوئے ہیں ۔
آج ہم میں اتنی بھی جرا_ت اظہار نہیں کہ امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں اُس کے جارحانہ الزامات کا جواب دے سکیں،ہم سمجھتے ہیں کہ آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہمیں عزت ووقار سے جینے کیلئے دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے،موجودہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ امریکہ کو اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو پامال کرنے کے بہانے فراہم نہ کیے جائیں،ہم سمجھتے ہیں کہ بے چارگی کے زخم چاٹنے اور رنگارنگ خوشنما مگر بے اثر تاویلوں کے ذریعے اپنے آپ کو بہلاکر فریب دینے کے بجائے شکست خوردہ جوزف بائیدن،لیون پینٹا، کیمرون منٹر اور ہیری کلنٹن جیسے بدحواسوں کو لگام دی جائے،اگراب بھی ایسا نہیں کیا گیا تو خاکم بدہن پاکستان کو بیرونی مداخلت کا اکھاڑہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا،یاد رکھئے کہ یہ پاکستان کے وجود کی بقاء کا سوال ہے،ایک ایسے وجود کا،جو اپنے اساسی نظریات،اکابرین ملت کی بے لوث قربانیوں،قائداعظم کے افکار کی عظمت اور اٹھارہ کروڑ عوام کی قوت کا مظہر ہے، جسے جرات و بہادری سے سر اٹھاکر ہی قائم رکھا جاسکتا ہے،ہم اپنے ارباب اقتدار اور عسکری قیادت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جھک جانے والے سر کبھی گنتی میں نہیں آتے،ہمیشہ باطل و طاغوت کے سامنے اکڑے اور تنے ہوئے سروں کی ہی قیمت لگتی ہے اور یہی وہ سر ہوتے جو کٹتے کٹتے بھی ظلم کی تلواروں کی دھار موڑ کر حالات کا دھارا بدل دیتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس ميں کوئ شک نہیں اس کالم کے لکھاری کا تعلق اس تيزی سے غیر مقبول ہوتے ہوۓ گروپ سے ہے جو اب بھی ملک کے اندر دہشت گردی کی حقيقت کو تسليم کرنے سے انکاری ہے اور ابھی تک اسی پرانی دليل پر بضد ہے کہ پاکستان کو کسی طريقے سے زبردستی کسی اور کی جنگ ميں دھکيل ديا گيا ہے۔
دلچسپ امر يہ ہے کہ ايک طرف تو يہ دليل دی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس فضول اور بے معنی جنگ سے لاتعلق ہو جانا چاہیے اور ان کے نزديک ايسا کرنے سے القائدہ کی قوتوں سے جاری جنگ بھی ختم ہو جاۓ گی۔ گويا اس سوچ کا پرچار کرنے والے اس بات کو تسليم کرنے پر مجبور ہيں کہ القائدہ سے منسلک قوتيں ملک ميں متحرک ہيں اور بے گناہ شہريوں کے قتل کرنے کی ذمہ دار ہیں ليکن وہ پھر بھی اس بات پر بضد ہيں کہ ان عناصر کا معاشرے سے خاتمہ کرنا اور ان مجرموں کو انصاف کی عدالت ميں لانا فضول اور بے معنی ہے۔ اس بات پر صرف حيرت کا اظہار ہی کيا جا سکتا ہے کہ ايک طرف تو القائدہ کے دہشت گردوں پر ان خونی کاروائيوں کے ضمن ميں تنقيد کرنے سے تو اجتناب کيا جاتا ہے اور اس مسلۓ پر توجہ مرکوز کرنے کی بجاۓ سارا الزام امريکہ پر ڈال ديا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں۔ کراچی ميں سی آئ ڈی کی عمارت پر حاليہ حملہ دہشت گردی کی اس لہر کی تازہ مثال ہے جس نے معاشرے کی بنيادوں کے لیے خطرات پيدا کر ديے ہيں۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں ان دہشت گردوں کے خلاف جاری کاروائيوں کو روک کر اور انھيں اپنے حملے جاری رکھنے کے مواقع فراہم کر کے حکومت پاکستان اپنی رٹ قائم کر سکتی ہے اور ملک ميں پائيدار امن قائم کيا جا سکتا ہے؟ کيونکہ اس جنگ کو امريکی جنگ قرار دينے والوں کے مطابق تو دہشت گردوں کے خلاف کاروائ فضول اور بے معنی ہے۔
امريکہ نے اس مشکل وقت میں پاکستان کو تنہا نہيں چھوڑا ہے۔چاہے سيلاب سے متاثرين کی بحالی اور آبادکاری کا معاملہ ہو، اقوام متحدہ سميت مختلف عالمی فورمز پر يورپی ممالک کے سامنے پاکستان کے لیے مزيد امداد کی درخواست کا ايشو ہو يا امريکی کانگريس سے کيری لوگر بل کی منظوری جيسا معاملہ جس کے ذريعے اگلے 5 سالوں کے دوران پاکستان کو کئ بلين ڈالرز کی امداد دی جاۓ گی – امريکی حکومت ہر اس عالمی کوشش میں پيش پيش رہی ہے جس کا مقصد پاکستان ميں استحکام لانا اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافہ کرنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
بہت خوب اسی کو کہتے ہیں
جس کا کھانا اسی کا گانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب نہیں