Home / Socio-political / امن مذاکرات اور سیز فائر کی پامالی

امن مذاکرات اور سیز فائر کی پامالی

امن مذاکرات اور سیس فائر کی پامالی

بھارت اور پاکستان کا رشتہ رفتہ رفتہ مختلف ادوار سے گزرتا ہواآج پھر ایک ایسے دور میں داخل ہوا ہے جہاں دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بہت سے امیدیں ہیں۔ دونوں ملک اس رشتے سے اپنا کوئی نہ کوئی مسئلہ حل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی۔ دوسری طرف بعض مبصرین کی رائے میں موجودہ مذاکرات کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے کیونکہ ان میں فوجی قیادت کی مرضی شامل نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ان مبصرین کی رائے درست بھی ہو لیکن کیا ان خدشات کی بنا پر مذاکرات کا عمل روک دینا چاہئے؟ کوئی بھی سنجیدہ اور ذی ہوش آدمی یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ مذاکرات کے اس عمل کو منقطع کر دیا جائے اور بھارت اور پاکستان پڑوسی ہونے کے باوجود ایک مسلسل سرد جنگ میں ملوث رہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد ایک تعطل کے بعد پھر سے دونوں ملک مزاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے کوشاں ہیں اور کسی حد تک کامیاب بھی۔ بھارت کو پسندیدہ ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا پاکستان کا ایک مستحسن فیصلہ ہے لیکن پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتیں اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آج تک ان کی دکانیں کسی نہ کسی کے خلاف نعرہ لگانے سے چلی ہےلہذا یہ امن و آشتی کا راستہ انہیں پسند نہیں۔ جہاں تک تعلق فوج کا ہے ہر چند کہ فوج ان مذہبی قائدین سے نالاں ہے لیکن کہیں نہ کہیں اسے ان قائدین کے مدد درکار ہے اور بدلے میں فوج کو بھی ان کی مدد بظاہر یا پس پردہ کرنی ہوتی ہے۔ یہاں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پوری فوج ان کی مدد نہیں کرتی بلکہ اس میں موجود  کالی بھیڑیں یہ کام انجام دیتی ہیں جنہیں پھر فوج اپنے مفاد کے لئےوقتا ً فوقتا ً  استعمال کرتی ہے۔  یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاک اور بھارت کی سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ ہوتی ہے جس کی آڑ میں دہشت گردوں کو بھارت کی سرحدوں میں داخل کرایا جاتا ہے اور ان سےمختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دلوائی جاتی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق پچھلے تین سال میں ۱۵۴ بار سیس فائر کو پامال کیا گیا ہے جن میں بی ایس ایف کے کئی جوانوں شہید ہوئے۔ ہر بار فائرنگ کی آڑ میں کچھ دہشت گرد سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ تر بی ایس ایف کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سرحد پر ایک سرنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے جو ظاہر سی بات ہے کسی وجہ سے ہی تیار کی گئی تھی اور وہ وجہ نیک نہیں تھی۔

                اب اس تناظر میں اگر بھارت اور پاکستان کے رشتے پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ ممبئی حملوں کی طرح کی کوئی کارروائی بھارت میں انجام دیں تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہو رہے امن مذاکرات پھر سے تعطل کا شکار ہو جائیں اور دونوں ممالک کے لوگ پھر سے ایک دوسرے سے بدظن اور خائف ہو جائیں۔ بھارت اس ضمن میں جو کرسکتا تھا اس نے کیا ہے کیونکہ اگر یہ دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو جاتے تواس کا نقصان دونوں ممالک کو برابر ہوتا۔ اب یہ ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ اپنی طرف سے در اندازی کے خاتمے کو یقینی بنائے کیونکہ اتنے دنوں تک ان راستوں پر چل کر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس طرح کے توقعات رکھنے چاہئیں۔ پاکستان کے لئے ابھی زیادہ خطرناک یہ مذہبی شدت پسند ہیں جو اپنے مفاد کے لئے کسی بھی پالے میں جانے کو تیار ہیں نہ کہ بھارت یا کوئی بھی دوسرا ملک۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *