Home / Socio-political / انقلاب!تیونس،ِمصر کے بعد باری پاکستان کی ہے

انقلاب!تیونس،ِمصر کے بعد باری پاکستان کی ہے

انقلاب!تیونس،ِمصر کے بعد باری پاکستان کی ہے

 

تحرےر! محمد اکرم خان فریدی

 

 

          قارئین !بالاآخر مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کرپشن اور لاقانونیت کے عذاب اور عتاب کے مسلسل نزول نے مصری عوام کی برداشت اور صبر کا بندھن توڑ ہی دیا،یہ درست ہے کہ حسنی مبارک فلسطین کے مقابلے میں اسرائیلی پالیسیوں کے حمائتی ہیں لےکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی جائے ،مہنگائی اورلاقانونیت جیسی امراض غریب عوام کا گھےروﺅ شروع کردیں اور اِن بیمارےوں کا علاج کرنے والا کوئی نہ ہوتو تو بالآخر قوم کو اپنا دفاع خود کرنا پڑتا ہے ۔معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر قوم ہو تو وہ دفاع کرتی ہے اور انقلاب ضرور آتا ہے۔بہر حال بات جاری تھی مصر کے حالات کی،مصر کی حکومت نے اپنے ملک میں کرفیو لگا دیا‘لےکن مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کرپشن اور لاقانونیت کیخلاف مظاہروں میں شدت بڑھتی جارہی ہے ۔ دنیا کوحیران کر دےنے والی خبر ہے کہ قاہرہ کے لوگوں نے حکومتی اقدامات سے تنگ آکر صدارتی محل کا گھیراﺅ کرلیا‘ حکمران جماعت کا ہیڈکوارٹر گورنر ہاﺅس جلا دیا‘ کئی پولیس اہلکار بھی وردیاں پھاڑ کر مظاہرین میں شامل ہو گئے ۔ دوسری جانب محمد البرادعی مظاہروں کی قیادت کرنے کیلئے ملک واپس پہنچ گئے ‘ لےکن مزید حالات کی خرابی سے بچنے کے لئے ان کو نظربند کردیا گیا۔ فوج صدارتی محل اور دیگر اہم تنصیبات کی حفاظت کر رہی ہے ۔ گزشتہ روز مظاہروں میں کئی افراد ہلاک اور سےنکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں شہرےوں کو گرفتاربھی کیا جا چکا ہے۔ایک طرف صدر حسنی مبارک نے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے حکومت توڑ دی اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے ۔ جبکہ دوسری جانب اپوزیشن نے صدر کی طرف سے کئے گئے تازہ ترین اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے حسنی مبارک کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے ۔ انور سادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک 30 سال سے اقتدار میں ہیں‘ جن کی پالیسیوںسے عوام نالاں چلے آرہے ہیں۔ لےکن جو حالات بن گئے ہیں اسکے بعد محسوس ہو رہا ہے کہ فوج انکے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے ‘ کرفیو کا نفاذ نہ کسی قسم کی کوئی اور کارروائی نہ جبر‘ بادی النظر میں حسنی مبارک کا اقتدار آخری سانسیں لے رہا ہے جس کو بچانے کیلئے وہ ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالمی اداروں کی طرف سے غزہ کے بھوکے محصورین تک خوراک‘ بیماروں تک ادویات اور معصوم بچوں تک دودھ پہنچانے کی راہ میں حسنی مبارک کی قیادت میں مصر رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ حسنی مبارک کو اقتدار بچانے کیلئے امریکی تعاون کا یقین تھا‘ لیکن امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور سینیٹر جان کیری نے یہ کہہ کر حسنی مبارک کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور آرزوئیں خاک میں ملا دیں کہ عوامی احتجاج پر حسنی مبارک استعفیٰ دے دیں۔ دراصل امریکہ کا تو شروع سے ایک ہی وطےرہ رہا ہے کہ وہ گےلی جگہ پر خود پاﺅں نہیں رکھتا بلکہ مےکسےکو جےسے ممالک کو آگے کر دےتا ہے یا پھر مصر اور پاکستان جےسے ممالک کو استعمال کرتا ہے۔نہ جانے مسلمان حکمران تیونس کی تارےخ کےوں بھول گئے؟ جہاں زین العابدین بن علی کی آمریت 23 سال سے جاری تھی‘ اس نے بھی اسلامی ملک کو دہریت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ امریکہ کو اپنا مربی و آقا مانا‘ وسائل سے بھرپور ملک کو لوٹا‘ عوامی فلاح کی طرف توجہ نہ دی تو عوام کرپشن‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور بدامنی کیخلاف سڑکوں پر نکلے ‘ احتجاج‘ مظاہرے اور صدارتی محل کا گھیراﺅ کیا تو زین العابدین ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ انکا بھی امریکہ اور یورپ پر تکیہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات تھے ‘ لیکن امریکہ سمیت کوئی بھی نہ صرف ان کا اقتدار نہ بچا سکا‘ بلکہ فرار ہوئے تو اپنے ہاں لینڈنگ کی اجازت بھی نہ دی۔ اب اپنے پیارے ملک پاکستان کو ایک نظر دےکھتے ہیں کہ یہاں انقلاب کی ضرورت ہے کہ نہیں ،لےکن اس بحث سے قبل میں ایک کہانی قارئین! کی نظر کروں گا۔””ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ حکمرانی کے مزے لوٹتے لوٹے عوام کے دکھ درد بھول گیا تھا ۔ایک رات وہ گہری سوچ میں گم ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں نے تو اپنی عوام سے تمام بنیادی سہولتیں چھےن لی ہیں اور کبھی انکے دکھ درد کا مداوا بھی نہیں کیا لےکن اسکے باوجود میری رعایا میرے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھاتی ۔اُس انے اگلے روز اپنی کابےنہ کا اجلاس بلایا اور اُن سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ عوام میری طرف توجہ دے اور میری غلط پالیسیوں پر میرے خلاف آواز اُٹھائے ،وزراءکی بے ہنگم فوج نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ آپ عوام پر 5روپے ٹےکس لگا دیں تو عوام چےخ اُٹھے گی اور ضرور احتجاج کرے گی ،بادشاہ سلامت نے احکامات جاری کر دئےے اور اگلے ہی روز اِن احکامات پر عمل درآمد شروع ہو گیا ۔حیران کُن بات تھی کہ لوگ ٹےکس دے رہے ہیں لےکن بادشاہ کے احکامات کے بارے میں کوئی بھی احتجاج نہیں کر رہا ،بادشاہ سلامت نے وزراءکی مشاورت کے بعد مزید 5روپے ٹےکس لگا دیا لےکن اسکے باوجود بھی ٹےکس دےتی جا رہی ہے اور بادشاہ کے خلاف نہیں بول رہی ،ہر ماہ ٹےکس بڑھتا گیا اور عوام دےتے گئے ہر شخص 100روپے ماہانہ ٹےکس دے رہا تھا لےکن بادشاہ کے خلاف کوئی بھی شخص آواز اُٹھانے کے لئے تیار نہیں تھا ۔بادشاہ اور اسکی کابےنہ حیران

 رہ گئی ،بالآخر ایک اور اجلاس بلایا گیا جس میں بادشاہ کے وزےر داخلہ نے مشورہ دیا کہ حضور آپ اس طرح کریں کے ایک اور اعلان کریں کہ ہر شخص حکومت کو 100روپے ٹےکس دے اور پانچ پانچ جوتے کھائے ۔بادشاہ سلامت نے اعلان کر دیا ،عملدرآمد شروع ،ہر شخص بےنک میں 100روپے جمع کروا رہا ہے اور جمع کروانے کے بعد کان پکڑ کر 5جوتے کھا رہا ہے ۔ٹےکس جمع کروانے اور جوتے کھانے کا عمل ڈےڑہ ماہ سے جاری ہے لےکن بادشاہ کے خلاف پھر کوئی نہیں بول رہا ۔بالآخر بادشاہ نے فےصلہ کیا کہ مجھے عوام کے پاس جا کر اُن سے پوچھنا چاہئے کہ اُنہیں مجھ سے کوئی تکلےف تو نہیں ۔بادشاہ سلامت اگلی صبح ہی بےنک پہنچ گئے جہاں 100روپے جمع کروانے والوں کی لمبی لائینیں لگی ہوئی ہیں اور ہر شخص پےسے جمع کروا رہا ہے اور دوسری لائن میں 5جوتے کھانے کاانتظار کر رہا ہے ۔بادشاہ سلامت آگے بڑھے اور ایک اونچے چبوترے پر چڑہ کر بولے کہ میں آپ لوگوں کا بادشاہ ہوں اور آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ آپکو مجھ سے اور میری پالیسیوں سے کوئی تکلےف تو نہیں ،بادشاہ سلامت نے سوال کیا تو اسکے باوجود سب کے سب خاموش ہوگئے ۔بادشاہ سلامت ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ عوام بے حس ہوگئی ہے تو ایک بزرگ آدمی اُٹھا اور بولا کہ بادشاہ سلامت عوام کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے اگر آپ حل کردیں تو ہم آپکے مشکور ہوں گے ۔اُس نے کہا بادشاہ سلامت مسئلہ یہ ہے کہ خدارا یہ جوتے مارنے والے سپاہی بڑھا دیں تاکہ جوتے کھانے میں ہمارا وقت ضائع نہ ہو ۔بدشاہ سلامت سمجھ گئے کہ عوام بے حس ہو چکی ہے اور مجھے کوئی خطرہ نہیں ،اور خوشی خوشی اپنے ساتھےوں کے ساتھ اقتدار کا مزہ لےنے لگے۔“‘

قارئین! بادشاہ سلامت کی کہانی سُن کر آپ سمجھ تو گئے ہی ہونگے کہ یہ خاکسار کہنا کیا چا ہ رہا ہے۔بہر حال پاکستان کی جب بھی کسی پلےٹ فارم پر بات آتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں جمہورےت ہے لےکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ جمہورےت مصر اور تیونس کی آمریت سے اچھی ہے؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ جمہورےت مصر اور تیونس کی آمرےت سے اچھی ہے تو وہ یہ خیال کےوں نہیں سوچتے کہ آٹا جمہوری حکومت کی آمد سے قبل دس پندرہ روپے کلو تھا‘ آج 35 روپے تک پہنچ چکا ہے ‘ چینی کی قلت معمول بن گئی‘ اگر ملتی ہے تو 85, 80 روپے کلو‘ یہ قیمت بھی ڈیڑھ سو سے واپس آئی ہے ۔ سبزیاں اور دالیں بھی قیمتوں کے حوالے سے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ وافر مقدار میں پیدا ہونیوالا پیاز بھارت کو برآمد کرنے سے 100 روپے کلو تک جا پہنچا‘ گھی اور دودھ کی قیمتوں میں جب اور جتنا چاہا‘ اضافہ کر دیا جاتا ہے ‘ جس ادارے ‘ شعبے اور محکمے کو دیکھیں کرپشن کی سڑاند آتی ہے ۔ باکمال لوگ اور لاجواب سروس کا حامل پی آئی اے دیوالیہ ہونے کو ہے ‘ آج بھی ریلوے کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا ہے ‘ اسکے باوجود اربوں کے خسارے میں ہے ۔ ایک کرپشن سکینڈل کی صدائے بازگشت ابھی تھمتی نہیں کہ دوسرا منظر عام پر آجاتا ہے ۔ این آراو کرپشن ہنوز برآمد نہیں ہوئی‘ حاجیوں تک کو لوٹا گیا‘ تازہ ترین این آئی سی میں 18 ارب کی بدعنوانی سامنے آئی ہے ۔ 2 سو ارب کے رینٹل پاور پلانٹس گھپلوں کی ایک داستان ہے ‘ ریکوڈک کے بارے میں جسٹس رمدے نے کہا کہ حکومت نے سب کچھ تھالی میں رکھ کر تحفے میں دیدیا۔ یہ سن کر ہر محب وطن پاکستانی کا دل پھٹتا ہے کہ 13 ہزار مربع کلو میٹر سونے کے ذخائر کا علاقہ چند کروڑ ڈالر پر بیرونی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دیدیا گیا۔ بقول ڈاکٹر ثمرمبارک مند اگر خود ہمارے انجینئر یہاں کام کریں‘ تو 8 ارب ڈالر کا سالانہ سونا نکال سکتے ہیں۔ کرپشن کی داستانوں کے بعد ملکی امن پر نظر ڈالیں تو ہر طرف لاقانونیت‘ قتل‘ ڈکیتیاں‘ چوریاں اور رہزنی کی روزانہ بے شمار وارداتیں ہوتی ہیں۔ پورا ملک امریکی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے ‘ ڈرون حملوں اور اسکے ردعمل نے ملک کو آتش فشاں بنا دیا ہے ۔ کراچی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ایک آسیب بن چکا ہے ‘ حکومت اپنے معاملات چلانے کیلئے اپنے اخراجات کم کرنے اور مروجہ ٹیکسوں کی شفاف وصولی کے بجائے ‘ مزید ٹیکس لگانے کیلئے پرعزم ہے ۔ بجلی‘ پانی اور گیس کی شدید قلت کے باعث کاروبار ٹھپ ہے ‘ اسکے باوجود بلوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ سب مسائل کے باوجود پاکستانی قوم خاموش ہے ،کےوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اکرم خان فریدی

کالم نگار

36مجاہد نگر،جنڈیالہ روڈ ،شےخوپورہ شہر

فون نمبر 03024500098

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *