تمام ہی مقامات پر جموری نظام میں الیکشن کا مقصد عوام کی رائے جاننے اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر کسی صوبہ و ملک کی حکومت تشکیل دیناہوتا ہے۔عام طور پر مروجہ نظام کے تحت اکثریت اور اقلیت میں لوگوں کی رائے شماری کی جاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں ایک شخص کامیاب تو دیگر ناکام ٹھہر تے ہیں۔لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف جماعتوں کی موجودگی میں کوئی ایک جماعت اکثریت حاصل نہیں کرپاتی کیونکہ رائے دہندگان کسی ایک جماعت کے حق میں واضح فیصلہ کرنے میں ناکام ٹھہرتے ہیں۔کچھ ایسا ہی واقعہ حالیہ دنوں چار ریاستوں میں ہونے والے صوبائی الیکشن کے دوران شہر دہلی میں ہوا۔دہلی میں موجود سیاسی جماعتوں میں کانگریس اور بی جے پی اس دوڑ میں سرفہرست تھیں،اس کے باوجودحکومت بنانے میں وہ ناکام رہیں۔دوسری جانب گزشتہ سال مخصوص تحریک کے پس منظر میں ایک نئی سیاسی جماعت “عام آدمی پارٹی”منظر عام پر آئی جو درحقیقت اُس تحریک کے بانیوں سے فکری و عملی “ظاہری دوری “کے نتیجہ میںپیدا ہوئی جس تحریک کے آغاز میں بی جے پی کا کیڈر بڑی تعداد میں سرکردہ تھا۔اور یہ وہی بی جے پی ہے جو درحقیقت ایک مخصوص نظریہ کو فروغ دینے میں اُن افکار و نظریات کا ماحاصل ہے جسے عرف عام میں ” سنگھ “کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دہلی کی موجودہ غیرمستحکم صورتحال جہاں سابقہ برسراقتدار جماعت کے ڈھل مل رویہ کا نتیجہ ہے وہیں بڑ بولے پن،اندرونی خلفشار،لاء اینڈآڈرکا فقدان اور عوام کے بنیادی حقوق کی ادائیگی میں غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا۔اس کے برخلاف اے اے پی کو عوام کا حد درجہ تعاون بی جے پی اور کانگریس پر عوام کے بے اطمینانی کا فطری نتیجہ ہے۔معاملہ یہ نہیں ہے کہ اے اے پی اس بنا پر عوام میں مقبول ہوئی کہ اس نے گزشتہ دنوں دہلی یا کسی اور صوبہ میں حکومت تشکیل دی ہو،عوام اُن کی خدمات سے خوش ہوں،ان کو پسند کرنے لگے ہوں اور ان بنیادوں پر انھیں دہلی میں غیر متوقع ووٹ اور سیٹس حاصل ہو گئیں۔ برخلاف اس کے حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ دہلی و ملک میں عوام دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رویوں سے مطمئن نہیں ہیں۔اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کو عوام نے ثابت کیا ہے۔دہلی کے نتائج نے جہاں یہ ثابت کیاکہ عوا م جو ملک کے کسی بھی صوبہ سے تعلق رکھتے ہوں، وقتاً فوقتاً برسر اقتدار آنے والی متذکرہ دو سیاسی پارٹیوںسے حد درجہ متنفر ہیں۔وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عوام متبادل کی تلاش میں ہیں۔اس کی زندہ مثالجموں کشمیر ،مغربی بنگال،بہار، پنجاب، اڑیسہ اور تمل ناڈو میں متبادل سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں کی شکل میں موجود ہے۔متذکرہ ریاستوں کے علاوہ بھی دیگر ریاستوں میںمثلاً آندھرا پردیش، جھارکھنڈ وغیرہ میں،عوام نے مختلف ادوار میں متبادل تلاش کیے ہیں ۔اس پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ ان دو سیاسی جماعتوں سے عوام ناراض کیوں ہیں؟ہمارے خیال میں اس بے اطمینانی کی وجہ یہ رہی ہو کہ دونوں ہی پارٹیوں کے فکری سوتے شاید ایک ہی جگہ سے جا ملتے ہیں۔نتیجتاً عوام کو تو یہ ایک دوسرے سے کبھی ڈرا کر اور کبھی دھمکاکر حکومت بنانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ لیکن درحقیقت ملک اور عوام کے بنیادی مسائل تک کو حل کرنے میں یہ دونوں ہی پارٹیاں گزشتہ ستر سالہ عرصہ میں سنجیدہ نظر نہیں آئیں۔مسائل میں سرفہرست اقلیتوں کے مسائل ہیں تو وہیں دوسری جانب دلت سماج کے مسائل بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ہندوستان میں فی الوقت 17.7%دلت ہیں تو وہیں مسلمان تقریباً 20فیصد ہیں۔ان دو مذاہب کے ماننے والوں کے علاوہ عیسائی،سکھ،بودھ،جین و دیگراقلیتیں بھی ہیں جن کی آبادی تقریباً6%ہے،دیکھا جائے تو یہ تعدادبھی کچھ کم نہیں۔مسائل سے دوچار یہ طبقہ ملک میں تقریباً44%فیصدہے ۔دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ موجودہ دو سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی نہ صرف قائل بلکہ اس کے فروغ میں بھی سرکرداں ہیں۔نتیجہ میں ملک کی غریب عوام سرمایہ دارانہ نظام کی مار برداشت کر رہے ہیں اور حکومت ہے کہ خواب خرگوش میں کھوئی ہوئی ہے۔2011-12کے پلاننگ کمیشن رپورٹ کی روشنی میں ہندوستان کے گائوں میں 25.7%اور شہروں میں 13.7%آبادی blow powerty lineپر زندگی گزارنے پر مجبور ہے،جہاںزندگی حد درجہ تنگ ہوچکی ہے۔ساتھ ہی ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ خط افلاس کیا ہے؟دیہاتی علاقوں کے لیے کمیشن نے یومیہ27.2روپے طے کیے ہیں تو وہیں شہری علاقوں کے لیے 32روپے۔خط افلاس کے اس پیمانہ پر ایک لمحہ کے لییغور فرمائیں تو آپ جواز تلاش کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ مخصوص مسائل کے علاوہ دیگر اور بے انتہا مسائل ہیں ،جن میں عوام مبتلا ہیں لیکن سابقہ تمام حکومتیں عدم دلچسپی کا ہی اظہار کرتی رہیں ہیں۔اس پورے پس منظر میں محسوس ہوتا ہے کہ برسراقتدار طبقہ شاید یہی چاہتاہے کہ مسائل برقرار رہیں،اسی میں ہماری عافیت ہے ۔کیونکہ یہی وہ آسان نسخہ ہے جو شناخت برقرار رکھنے میںمعاون ہے ۔لیکن اگر ایسا ہے! جو واقعہ بھی ہے تو پھر ان پارٹیوں کی یہ سوچ ملک اور شہریوں کے حق میں مثبت نہیں کہلا ئی جا سکتی ہے۔اور انھیں وجوہات کی بنا پر عوام متبادل کی تلاش میں سرکرداں رہے ہیں۔لیکن جو متبادل موجود ہیں یا محسوس ہوتے ہیںان میں اکثریت ان کی ہے جو اپنے غیر واضح رویہ کی بنا پر عوام کو مطمئن نہیں کرپاتے۔کچھ یہی حال فی الوقت دہلی میں “آپ”پارٹی کابھی نظر آرہا ہے۔
چالیس سال پہلے کے واقعہ کو بھی یاد کرتے چلیں!
واقعہ یہ ہے کہ سیاست ہندوستان کے ہر دور میں نہایت پیچیدہ رہی ہے۔ہندوستان کی پیچیدہ سیاست میں جہاں ایک جانب متشدد تنظیموں،تحریکوں اورافکار و نظریات کا اہم کردار ہے وہیں دوسری جانب کمیونسٹ نظریہ بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا۔اسی پیچیدہ سیاست کا ایک دور سن 1973-74ء کا تھا،جب گجرات اور بہار میں طلباء نے سنگھرش سمیتی کے نام سے کانگریس کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا۔متشدد نظریہ جس کو عموماً “سنگھ”کے نام سے جانا جاتا ہے، نے مارچ 1974ء میں ایک اہم فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ جے پی تحریک کی تائید کا تھا۔ جئے پرکاش نارائن(بمعروف جے-پی) بہار کے ایک پرانے سوشلسٹ تھے۔عوام میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ 1954 میں سیاست کو خیر آباد کہہ کر ونوبھاوے (ونوبا ،پرانے گاندھیائی لیڈر تھے)کی سرودیہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔
خراب معاشی صورتحال اور کرپشن کی وجہ سے جنوری1974ء میں گجرات میں بڑی بے چینی پائی جاتی تھی۔ آواز اٹھانے والوں میں طلباء آگے تھے۔ سنگھ کی طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)اس تحریک میں شامل تھی۔ اس وقت سنگھ کے سیاسی بازو “جن سنگھ”نے قیمتوں میں اضافہ کے خلاف مہم کو اس تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی۔وہیں بہار میں چلائی جا نے والی اسی طرح کی طلبہ تحریک میں ودیارتھی پریشد آگے اور نمایاں تھی۔ دسمبر1973ء میں پریشد نے سوشلسٹ یوتھ ونگ کے ساتھ مل کر بہار میں گجرات کی طرح کا اجیٹیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔اور اس طلبہ تحریک میں سنگھ بہت زیادہ لگی ہوئی تھی۔ پٹنہ میں اس کے پرچارک گووند اچاریہ ودیارتھی پریشد کے کام پر نظر رکھے ہوئے تھے۔چنانچہ فروری74ء میں قائم چھاتر سنگھرش سمیتی میں پریشد پوری طرح شریک تھی۔ مختلف پارٹیوں بشمول پریشد کی طرف سے جے پی سے اپیل کی گئی کہ وہ اس تحریک کی رہنمائی و قیادت کریں۔ بلا ٓخر وہ اس پر راضی ہو گئے۔ جے پی کی قیادت میں ودیارتھی پریشد اور سنگھ کا رکنان نے تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔1975ء میں اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی اور آر ایس ایس کو banکردیا۔ پابندی کے وقت اس کی شاکھائوں کی تعداد10ہزار تھی۔جب پابندی ختم کی گئی تو 1978ء میں یہ تعداد 13ہزار ہو گئی۔ کیرالہ، کرناٹک، راجستھان، اترپردیش اور بہار میں سنگھ کا کام نسبتاً تیزی سے پھیلا۔اسی دور میں سنگھ کا ایک اور اہم سیاسی فیصلہ جن سنگھ کو ختم کرکے جنتا پارٹی میں ضم کردینے کا تھا۔ جن سنگھ کو 30؍اپریل 1977ء میں تحلیل کر دیا گیا۔ جنتا پارٹی کی حمایت سنگھ نے کی تھی۔ بعد میں اس تجربہ کے ناکام ہو جانے پر 15؍اپریل1980ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) کے نام سے ایک نئی پارٹی بنائی گئی ( آرایس ایس ایک مطالعہ،صفحہ:22-23، Cosmos Books, new delhi)۔
ہندوستان کی یہ وہ مختصر اور پیچیدہ سیاسی جدوجہد ہے جس نے عام آدمی کو ہمیشہ کنفیوژن میں مبتلا کیا ہے۔سن 74ء میں جے پی تحریک جو دراصل عوامی سطح پر ایک شخص جئے پرکاش نارائن اور ان سے وابستہ افراد نے بڑے پیمانہ پر شروع کی تھی اور بعد میں نتائج کے لحاظ سے پہلے جن سنگھ، پھرجنتا پارٹی اور اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میںسامنے آئی۔پوری جے پی تحریک اور اس کے نتائج سے واضح ہو تا ہے کہ پس پردہ عزائم، منصوبے اور مقاصد”مخصوص گروہ “کے کچھ اور ہی تھے،جو پوری جے پی تحریک کے رخ کو موڑنے میں کامیاب رہے ۔دہلی کی موجودہ تحریک کو اگر ایک لمحہ کے لیے گزشتہ جے پی تحریک سے منسلک کرکے دیکھا جائے تو ایک عام آدمی بھی بہت آسانی سے مستقبل کے نتائج اخذ کرسکتا ہے۔اس پوری گفتگو میں دہلی کی موجودہ “اے اے پی “پارٹی لیڈران کا پہلے لوک پال بل کے لیے اننا ہزارے کی حمایت، بعد میں اپنی مخصوص پہچان بناتے ہوئے موجودہ لوک پال اور اننا سے اختلاف،سیاسی پارٹی کا قیام جوابتدا میں تحریک کا مقصد ہی نہیں تھا،کے باوجود پارٹی کی تشکیل، دہلی الیکشن میں عوام کا غیر متوقع تعاون ،دہلی اسمبلی میں کوئی بھی پارٹی حکومت نہ بناسکے اس پوزیشن میں “آپ”کودہلی میں پیش کرنا،بطور ملک کی راجدھانی دہلی کی موجودہ غیر مستحکم صورتحال پر قومی و بین الاقوامی میڈیا کی نظر،اے اے پی پارٹی کے عوام سے بے تحاشہ وعدے کرنے کے باوجو دکانگریس کی بلا شرط اور “آپ”کی تمام شرائط مان لینے کی صورت میں بھی حکومت بنانے سے گریز اور آئندہ 2014ء پارلیمانی الیکشن کی تیاریاں، ان تمام باتوں سے اہل ملک ایک بار پھر کنفیوژن کا شکار ہیں اور “آپ”ہیں کہ کچھ واضح نہیں کرتے!
محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com