ڈاکٹر خواجہ اکرام
اڈوانی ہندستانی سیاست میں اب رتھ یاتری کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ اڈوانی اس رتھ یاترا کے حوالے سے ملک میں فرقہ وارانہ فساد، نفرت اور عداوت پیدا کرنے کے حوالے سے بھی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ 90 کی دہائی میں پہلی دفعہ اڈوانی نے سومناتھ مندر سے رتھ یاترا نکال کر پورے ہندستان میں بابری مسجد کے خلاف عوام کو بھڑکایا اور ہند و اور مسلم کے درمیان ایسی نفرت پیدا کی کہ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ، سیکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا گیا ۔ مسلمانوں نے اقتصادی ادارے تباہ کیے گئے اور یہ نفرت بھری ہوا پورے ملک میں ایسی چلی کہ لگا شاید اب ہندستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اسی نفرت اور شر انگیزی نے پہلی دفعہ بی جے پی کو اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی ۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ جس شر اور فتنہ کی پالیسی سے وہ اقتدار میں آئے ہیں ، اس کے سہارے اقتدار کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا ۔
لیکن اس سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کی رتھ یاتر ا نے فوری طور ضرو ر پورے ملک کی فضا میں زہر گھول دیا مگر اسے قبول کرنے والوں کی تعداد کم تھی اور سیکولر ہندستانیو ںٕ کی تعداد زیادہ تھی اس لیے ان کی پالیسی آگے تک نہیں جاسکی ۔ البتہ درمیان میں کچھ سیاسی گرگوں نے اس حربے کا استعمال کیا ۔ ان لوگوں میں مودی سر فہرست ہے جس کی شہہ پر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور اسی کے بعد سے اس نے اپنی پوزیشن مضبوط کی اور آج بھی اس استحصا ل کی نیتی سے وہ سیاست میں سر گرم ہے۔
لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کے یہی وہ بدنام لیڈر ہیں جنھوں نے اتنے بڑے پیمانے پر ملک میں فرقہ پرستی کو ہوا دی اور ملک کی سیکولر کردار کو دغدار کیا لیکن اب تک وہ ملک میں دندناتے گھوم رہے ہیں ، جن کے سروں پر فتنہ و فساد کے سیکڑوں کیس ہیں وہ آزاد ہوا میں نہ صرف سانس لے رہے ہیں بلکہ ملک کی سیاست کو نئی سمت دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ ایسے لیڈروں کو شرم وحیا بھی نہیں ۔ اڈوانی جو جن چیتنا یاترا نکال کر شہروں شہروں گھوم رہے ہیں کود ان کے ریلی میں صحافیوں کو اس لیے کھلے عام رشوت کے پیسے دئے گئے کہ وہ اپنے اخبارات میں اڈوانی کی رتھ یاترا کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں ۔ لیکن جن اسی میڈیا نے اڈوانی کے یاترا کے اس سچ کو سامنے لایا تو وہ بوکھلا سے گئے ہیں ۔ لیکن ابھی وہ سانس بھی لے پاتے کہ بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ یدورپا کرناٹک میں گرفتار ہوگئے ۔ وہ دھاندلی اور لوٹ کھسوٹ کے الزام میں وزیر اعلیٰ کی کرسی سے ہٹائے گئے اوراب جیل میں بند ہیں ۔ کرپشن کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے نام اڈوانی جی کے پاس اب اخلاقی طور پر منہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ دوسروں کے خلاف باتیں کریں ۔ لیکن ان شاید پارٹی کے تمام لوگ ہی شرم سے عاری ہیں ۔ ان دھاندلیوں کے بعد بھی چرب زبانی سے باز نہیں آتے ۔ وہ جو خود تمام کرپشن میں ملوث ہیں وہ دوسروں کو سمجھانے نکلے ہیں ، اس محاورے کے مصداق کے ستر چوہے کھاکر بلی چلی حج کو۔
ہندستان کی عوام ان کو آئینہ دیکھا رہی ہے ، انھوں نے سوچا تھا کہ 90 کی دہائی جیسی ان کو مقبولیت ملے گی ۔اور لوگ اس یاترا کے بعد اڈوانی جو اپنی پارٹی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے یہ کوشش کر رہے ہیں ،خود ان کو بھی اس بے ربگ رتھ یاترا سے سمجھ میں آگیاہوگا اور جو کچھ باقی ہے وہ عوام الیکشن میں سمجھا دیں گے۔