اکیسویں صدی کی ایک دہائی اور دہشت گردی کے مضمرات
تقریبا ًایک دہائی سے سار ی دنیا دہشت گردی کے خلاف آوا ز اٹھا رہی ہے مگر دہشت گردی کے ہے رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔امریکہ میں 9/11 کے حملے کے بعد ایسا لگا کہ امریکہ اب اس وقت تک چین کی سانس نہیں لے گا جب تک دنیا سے دہشت گردی کو ختم نہیں کر دے گا ۔ مگر معاملہ اس کے بر عکس رہا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ امریکہ نے کبھی یہ پلان نہیں بنایا کہ دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے بلکہ اس کا مقصدصرف یہیں تک محدود رہا ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ دشمن ممالک کو کسی بھی طرح زیر کردے۔ اسی لیے امریکہ ،جب ہم اس دور میں امریکہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے صرف جارج بُش مراد ہے ، کیونکہ جارج بُش نے ایک آمر کی طرح تمام بین الاقوامی قوانین کو اپنے منشا کے مطابق توڑا اور اس کا غلط استعمال کیا ۔ جارج بش نے اپنے دور اقتدار میں صرف ذاتی دشمنی کا بدلہ نکالا۔ عراق کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے مین گیٹ کے داخلے پر صدام حسین نے جارج بُش کے والد کی تصویر لگا دی تھی ،جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر ٓنے جانے والااپنے قدموں سے اس تسویر کو روندے، جو امریکہ کو کسی بھی طرح پسند نہیں تھا ، اس لیے جارج ڈبلیو بُش نے کسی بہانے سے عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا اور صدام حسین کو صرف اس کی سزا دی کہ تم نے میرے والد کی ایسی بے حرمتی کیسے کی ؟ اسی لیے عراق پر حملے کے بعد سے اب تک بالواسطہ پورا عراق اس کے قبضے میں ہے مگر وہاں امن و سکون کی ایک گھڑی بھی لوگوں کو نصیب نہ ہوئی ۔ امریکہ اگر چاہتا تو عراق میں مکمل سکون اور امن بحال کر سکتا تھا ۔مگر وہ چاہاتا ہی نہیں اسی لیے آج بھی کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرتا جس میں کوئی بڑا خود کش حملہ نہیں ہوتا ۔
اس کے علاوہ اس جنگ کاجو سب سے بدترین پہلو تھا وہ یہ کہ جارج بش نے گوانتاناموجیل میں عراق اور افغانستان کے علاوہ کئی ممالک سے صرف شبہے کی بنیاد پر سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو پکڑ کر اس جیل میں سخت اور انسانیت سوز سزائیں دیں ۔امریکہ نے جنیوا معاہدے کی بھی پاسداری نہیں کی اور شاید دنیا میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ اس طرح قیدیو ں کے ساتھ حیوانیت کا سلوک کیا گیا۔اگر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ امریکہ نے صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کیا ۔اگر اس کا مقصد دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کا ہوتا تو شاید اب تک دنیا کی تصویر بدل چکی ہوتی ۔ مگر سار اکھیل دہشت گردی کی آڑ میں امریکی دہشت گردی پھیلانے کی سازش تھی۔اس لیے دہشت گردی تو ختم نہیں ہوئی اور جوابی دہشت گردی کی گونج کئی ممالک میں سنائی دینے لگی ہے ۔امریکہ نے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا کا استحصال کیا ۔ دہشت گردی مخالف جنگ میں ساری دنیا کو اس نے ساتھ لیا مگر صرف اپنا کام کیا۔ دنیا کو ڈار کر اس نے اسلحے کی ہو ڑ مچائی اور ساری دنیا کو اسلحہ بیچنے میں کامیاب بھی ہوا۔اب ان کا ساتھ دینے والے ممالک کی حالت یہ ہے کہ کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، وہ نہ ادھر جا سکتے ہیں اور نہ اُدھر ، مجبوراًامریکہ کی دوستی کا دم بھر رہے ہیں ۔
اگر واقعی امریکہ کو دہشت گردی مٹانے کی فکر ہوتی تو وہ ہر معاملے کو سنجیدگی سے لیتا ۔ابھی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ہندستان میں ممبئی حملے کا ایک بڑا گنہگار خود امریکہ کا شہری ہے ۔ قاعدے سے امریکہ کو چاہیے تھا کہ اس شخص یعنی ہیڈلی کو ہندستان کے حوالے کرتا تاکہ اس سے مزید معلومات حاصل کی جاتی ۔ مگر سب کو معلوم ہے کہ ہندستان کے بارہا اصرار پر بھی اس نے ہیڈلی کو ہندستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔یہ تو ایک تازہ ترین مثال ہے ۔لیکن اس میں ہماری بھی غلطی ہے کہ ہم امریکہ کے لیے سارے دروازے کھول دیتے ہیں اور وہ ہمیں اپنے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ یہ تو ہندستا ن کی بات ہے اب پاکستا ن کی سنئے ۔ وہ بھی امریکہ کے لیے چشم براہ ہے ۔ امریکہ کے ہر اشارے پر گردن خم کردیتا ہے ۔یہاں تک کہ اپنے پورے قبائلی علاقے کو امریکہ کے حوالے کردیا۔ امریکہ ہر روز ڈرو ن حملے کر رہا ہے ۔جس میں بہت سے معصوم لوگ بھی مارے جارہے ہیں لیکن پاکستان تو اس حالت میں نہیں کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے ۔لیکن دنیا کے اور ممالک کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ بھی اس غیر انسانی حملوں کی مذمت نہیں کرتے۔
اب دوسری مثالدیکھیں ۔امریکہ کی ناک کے نیچے اسرائیل کھلے عام حیوانیت کا ننگا ناچ کر رہا ہے مگر امریکہ کو وہاں دہشت گردی نظر نہیں آتی ۔صرف 2009 میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر کیا قہر برسایا ہے اس کی ایک روداد اس رپورٹ میں ملاحظہ فرمائیں ” ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل یکہجتی فاونڈیشن برائے انسانی حقوق نے رواں سال فلسطین میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں جاری کیے اعدادو شمار کے مطابق مغربی کنارے اور غرہ کی پٹی میں رواں سال میں 1594 شہریوں کو شہید کردیا گیا،شہدا میں 473 بچے اور 126 خواتین شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق قابض فوج نے یکم جنوری 2009 سے 30 سمبر2009 تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بد ترین ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو شہید کردیا۔ شہدا میں 1460 اسرائیل کی غزہ پر مسلط جنگ کے دوران اور 134 اس کے بعد مختلف کارروائیوں میں شہید کیے گئے افراد شامل ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم نے سال 2009 کو 1967 کے بعد فلسطینی تاریخ کا خونی سال قراردیا ہے جس میں اتنے بڑے پیمانے پر معصوم جانوں کو شہید کردیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق سال کے تین سو ساٹھ دنوں کے حساب سے یومیہ 30 افراد کو شہید کیاجاتا رہا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قابض فوج نے رواں سال دہشت گردی کی کارروائیوں میں 473 بچوں کو بھی شہید کیا، کم عمر شہدا میں 437 بچوں کو غزہ پر جنگ کے دوران جبکہ باقی کو اس کے بعد مختلف واقعات میں شہید کیاگیا۔شہدا میں 116 خواتین بھی شامل ہیں، پانچ شہری اسرائیلی فوج کی جنگ کے دوران بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے پھٹنے کے باعث شہید ہوئے ان میں تین بچے بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں تجزیہ کیاگیا ہے کہ قابض فوج کی جانب سے اتنی بڑی تعدادمیں ہلاکتوں میں فلسطینی مکمل طور پر بے قصور ثابت ہوتے ہیں، اسرائیل نے محض سیاسی انتقام کی بنیاد پر غزہ پر جنگ مسلط کی اور بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کو شہید کیا۔دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے عالمی اداروں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی غزہ پر مسلط جنگ کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر اسرائیل سے باز پرس کرے۔”( بحوالہ نیوز اردو ، پاکستان)
اب ذرا غور کریں کہ اکیسویں صدی کی ایک دہائی بھی ختم ہو گئی اور دہشت گردی ختم کرنے والے سوائے اسلامی ممالک کو تباہ وبرباد کرنے کے اور کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔عراق کوبر باد کیا اور وہاں ایسی آگ لگائی کہ ہر روز لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کو مارتے ہیں ۔ افغانستان میں ایسی چال چلی کہ یہاں بھی صورت حال وہی ہے ،نجانے کتنے لوگ مارے جارہے ہیں ،کتنے لوگ امریکہ کی جیل میں سڑ رہے ہیں ۔لیکن ان سے حساب لینے والا کوئی نہیں ۔ اب اس کے بعد باری پاکستان کی ہے ۔وہاں کے نا اہل اور نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے عارضی حکومت کے لیے پورے ملک کو ہی امریکہ کے حوالے کر دیا ہے ۔ امریکی فوجی دندناتے سارے ملک میں گھوم رہے ہیں ۔ ان کے شہری دہشت پھیلانے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں لیکن محمد شاہ رنگیلا کی حکومت کی طرح آصفی حکومت کی مجبوری دیکھئے کہ وہ امریکی گاڑیوں کی چیکینگ بھی نہیں کر سکتے ۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ حکومت پاکستان کتنی بے بس اور امریکہ کتنا سینہ زور بن کر ابھر ہا ہے۔ کاش جنوبی ایشیا کے ممالک امریکی چال کو سمجھ سکیں اور آپس میں متحد ہوکر خود ایک مضبوط طاقت بن کر ابھریں ۔ورنہ یہ سمجھ لیں کہ :
آج وہ کل ہماری باری ہے۔