عابد انور
ہندوستان میں فرقہ پرست مشنری، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا نیمسلمانوں کے لئے حصول انصاف اس قدر دشوار کیوں بنادیاہے۔کہیں سے ایک موہوم سی امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید اب انصاف کاراستہ ہموار ہوجائے لیکن جیسے جیسے انصاف کا وقت قریب آتا ہے انصاف اتنا ہی دور چلاجاتا ہے ۔یہ عمل آج سے نہیں آزادی کے بعد سے جاری ہے۔ مسلمانوں کو پستی میں مبتلا کرنے اور ان کے عزم کو متزلزل کرنے کے لئے نت نئے طریقے اپنائے گئے۔پہلے فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا اس کے بعد بھی حکومت میں موجود فرقہ پرست اور مسلم دشمن طاقتوں کو سکون نہیں ملا تو ان تمام جگہوں کو نشانہ بنایا جہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھوڑا بہت کاروبار تھا۔ اس طرح مسلمانوں کو تباہ کرنے کے بعد بھی ان کے مورل ڈاؤن نہیں ہوئے تو بابری مسجد شہید کرنے کی راہ ہموار کی گئی اور اس میں ر یاستی حکومت سے لے کر مرکزی حکومت تک ملوث تھی۔ اس کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کو اخلاقی پستی میں مبتلا کرنا تھا بلکہ ہر سطح پر مسلمانوں کو تحت الثری میں پہچانے کی تیاری تھی۔ مسلمان کسی طرح مایوسی کے اس عمیق غار سے نکلنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ 2002 کا گجرات قتل عام انجام دیا گیا جسے اقوام متحدہ نے بھی مسلمانوں کا قتل عام قرار دیا تھا۔ خفیہ ایجنسی، فرقہ پرست سیاست دانوں، متعصب میڈیا، مسلم دشمن طاقتوں اور حکومت میں بیٹھے زہریلی ذہنیت کے حامل اعلی افسران کو یہ احساس ہوا کہ اس سے ملک اور ہندو فرقہ کی بدنامی ہورہی ہے تو ان لوگوں نے سازش کا نیا جال تیار کیا۔ وہ جال تھا دہشت گردی کا ۔ ہندو دہشت گرد دھماکے کرتے رہے اور سیکولر ہندوستان کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں مسلم نوجوانوں کو پکڑتی رہیں۔اس وقت ان مسلم دشمن طاقتوں کا نشانہ مسلمانوں کا وہ طبقہ بنا جو اپنے ہم وطن کے دوش بدوش چل کر ترقی کی بلندیوں کو چھونا چاہتاتھا۔ ان طاقتوں نے بیشتر بم دھماکوں کے جھوٹے الزام میں ان مسلم نوجوانوں کو پکڑا جو اطلاعاتی تکنالوجی شعبہ سے وابستہ تھے یا زیر تعلیم تھے۔ گرفتار شدہ نوجوانوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو بیشتروہ ہیں پروفیشنل کورسیز کر رہے ہیں جیسے کہ آئی ٹی، ایم بی اے، ایم بی بی ایس اور اسی طرح کے دیگر شعبوں میں زیر تعلیم تھے یا فارغ۔ان طاقتوں نے بہت حکمت عملی اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان نوجوانوں کو اپنی سازش کا شکار بنایا۔ 2002 میں گجرات قتل عام ایسا واقعہ ہے جو نایاب ترین ہے۔ یہ ایسا پہلا واقعہ تھا جس میں اعلی سیاست داں لے کر ادنی کارکن اور اعلی افسران سے لے کر معمولی درجہ کے ملازم اس میں ملوث تھا۔ گجرات ہائی کورٹ نے بھی کئی بار اعلی سیاست دانوں کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا۔لیکن ہندوستانی میڈیا نے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی۔ توجہ رہی بھی تو مودی کے اپواس پر اور مودی کو ”وکاس پرش“ کے طور پر پیش کرنے پر۔کہیں بھی انصاف کا خون ہوتا ہے کہ میڈیا چیخ چیخ کر آسمان اٹھالیتا ہے اور اٹھانا بھی چاہئے۔ میڈیا کی وجہ سے جسیکا لال اور روچیکا گہروترا قتل کے ملزمان سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مگر جب معاملہ مسلمانوں کا ہوتا ہے خاص طور پر جب کسی ہندو تو لیڈر کے خلاف تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ میڈیا مسلمانوں کو کسی بھی معاملہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ٹرائل کرکے قصوروار ٹھہرادیتا ہے مگر جب معاملہ ہندو دہشت گرد کا ہوتا ہے تو میڈیا کے سر پر ضوابط اور اخلاقی بھوت فوراً سوار ہوجاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گلبرگہ سوسائٹی قتل عام کے معاملے میں ایس آئی ٹی کو معاملے کی تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھاکہ وہ مقامی عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم مقتول ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی عرضی پر دی تھی جس میں مودی سمیت 63 سیاست دانوں، اعلی حکام اور دیگر کے خلاف مقدمہ چلانے کی بات کہی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس قضیہ کو گجرات کے نچلی عدالت میں منتقل کردیا ہے تاکہ آگے کی کارروائی جاری رہے اور ضابطے کے مطابق فیصلہ ہو۔ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران گلبرگہ سوسائٹی میں ہونے والے قتل عام پر سپریم کورٹ نے کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس پر فیصلہ گجرات کی نچلی عدالت سنائے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم اس عرضداشت پر سنایا ، جس میں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی اور 63 دیگر حکام پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے گلبرگ سوسائٹی میں قتل عام کو روکنے کے لئے جان بوجھ پر کوئی قدم نہیں اٹھایا اور تشدد کو پورے گجرات میں پھیلنے دیا۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تفتیش کے لئے قائم کی گئی خصوصی تفتیشی کمیٹی ایس آئی ٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی آخری رپورٹ گجرات کی نچلی عدالت میں پیش کرے۔یعنی اب نچلی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ گجرات فسادات میں وزیراعلی نریندر مودی کے خلاف مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔
گلبرگہ سوسائٹی کے قتل عام کا پتہ لگانے لئے سپریم کورٹ نے سی بی آئی کے سابق ڈائرکٹر آر کے راگھون کی قیادت میں ۲۰۰۸ میں ایس آئی ٹی قائم کی تھی تاکہ گلبرگہ سوسائٹی قتل عام کے حقائق ، ۶۳ دیگر معاملے اورفسادات میں نریندر مودی کے کردار پر پڑی دبیز چادر کو اٹھایا جاسکے۔ ایس آئی ٹی نے اس ضمن میں نریندر مودی سے طویل پوچھ گچھ بھی کی تھی لیکن اس میں مسٹر راگھون شریک نہیں تھے۔ یس آئی ٹی نے وزیر اعلی نریندر مودی پر 2002 کے فسادات کے دوران مسلمانوں کے خلاف جانبداری کے متعدد واقعات نوٹ کیے تھے لیکن اس نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جو بھی شواہد ملے ہیں وہ مسٹر مودی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کے بعد سے ایس آئی ٹی کے طریقہ کار پر متعدد سوال اٹھتے رہے ہیں اورمیڈیا رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ ایس آئی ٹی نریندر مودی کے دباؤ میں کام کررہی ہے اور اس کی ساری توجہ نریندر مودی کو بچانے تک محدود ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کی کاپی مودی کے چہیتوں کو بھیجتی رہی تھی۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینل نے دعوی کیا تھا کہ اس کے پاس وہ دستاویزات ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس آئی ٹی اپنی خفیہ رپورٹ مودی سرکار کو بھیجتی رہی ہے اور مودی سرکار اور خصوصاً وزیر اعلی نریندر مودی کے بارے میں اپنی تیار کردہ رپورٹ مودی حکومت کو بھیجتی رہی ہے تاکہ وہ اس کا جواب تیار کرسکیں اور اپنے بچاؤ کا طریقہ بہ آسانی تلاش کرسکیں۔ ایس آئی ٹی نے گجرات کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تشار مہتہ، مودی کے سکریٹری جی سی مورمو اور سنگھ پریوار کے انتہائی قریبی ایس گرومورتی کویہ دستاویزات بھیجتی رہی ہے۔اس ٹیم نے اپنی عبوری رپورٹ عدالت عظمی کو سونپ دی تھی لیکن ابھی تک عدالت کی طرف سے اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
ایس آئی ٹی اپنی حتمی رپورٹ گجرات کی نچلی عدالت میں پیش کردی ہے ۔ حقیقت کیا ہے یہ تو رپورٹ عام ہونے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا لیکن میڈیا میں لیک ہوئے اس رپورٹ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس میں وزیر اعلی نریندر مودی سمیت 63 لوگوں کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ اس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایس آئی ٹی جس طرح رپورٹ دینے میں آنا کانی کر رہی ہے اور رپورٹ عام نہ ہو اس کی کوشش کر رہی ہے اس سے ظاہر ہے کہ دل میں کچھ کالا ضرور ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔ ایس آئی ٹی پر شروع سے جانبداری اور مودی کو بچانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ گجرات کے معطل آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ ، سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس سری کمار سمیت متعدد اعلی افسران نے ایس آئی ٹی کو کئی اہم ثبوت فراہم کئے ہیں لیکن ایس آئی ٹی تمام ثبوتوں کو نظر انداز کرکے مودی کو کلین چٹ دے رہی ہے۔ پوری دنیا کو یہاں تک کے گجرات کے ہر انسان کو معلوم ہے کہ نریندر مودی قتل عام میں ملوث تھے۔ 1992-93 کے فسادات کے دوران زبردست جانی و مالی نقصان کا شکار ہونے والا سورت شہر میں بھی مودی نے آگ لگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی سے یہ کہہ دیا تھا کہ 1992-93 کے فساد کے دوران ہمارا کافی نقصان ہوچکا ہے جس کی بھرپائی اب تک نہیں ہوسکی ہے اس لئے ہم لوگ اپنا کوئی نقصان نہیں چاہتے اس لئے یہ شہر 2002 میں قتل عام کا شکار ہونے سے بچ گیا تھا۔ مودی کے قصور وارہونے کے ثبوت پورے گجرات میں بکھرے ہوئے ہیں ایک ادنی پولیس والا بھی اسے اکٹھا کرسکتا ہے تو ایس آئی ٹی نے اس پر کیوں نہیں توجہ دی۔ اتنے سارے اعلی افسران کہہ رہے تھے کہ اور ثبوت فراہم کر رہے تھے تو آخر ایس آئی ٹی نے کس کے اشارے پر ان ثبوتوں کو نظر انداز کردیا۔
گجرات ہائی کورٹ نے کارکنوں کی درخواست داخل کرتے ہوئے ایس آئی ٹی رپورٹ کو معاملے سے متعلق لوگوں کے درمیان 13 فروری کو عام کرنے کا حکم دیا تھا لیکن کورٹ اسے بڑھا کر 15 فروری کردیا۔ خصوصی جانچ ٹیم نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اپنی آخری رپورٹ گجرات کے مجسٹریٹ عدالت میں داخل کی. احمد آباد کے گلبرگ سوسائٹی میں سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت 69 افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ذکیہ جعفری کا کہنا تھا کہ انہوں نے مدد کے لئے پولیس اور نریندر مودی کے دفتر کو مسلسل فون کئے لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ریاستی حکومت کے خلاف ان کی لڑائی گزشتہ دس سال سے جاری ہے۔سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی اور گجرات کی نچلی عدالت کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ نریندر مودی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ذکیہ جعفری کی بات بھی سنی جائے لیکن ایس آئی ٹی اس پر کوئی توجہ دی۔ اسی کے ساتھ ایس آئی ٹی یہ حکم بھی دیا تھا کہ رپورٹ کے ساتھ سارے ثبوت بھی پیش کئے جائیں لیکن ایس آئی ٹی نے رپورٹ تو پیش کردی لیکن ثبوت پیش نہیں کیا۔ اب نچلی عدالت نے ذکیہ جعفری اور دیگر انسانی حقوق کارکنوں سے کہا ہے کہ رپورٹ کی کاپی اس وقت نہیں دی جائے گی جب تک متعلقہ دستاویزات عدالت میں پیش نہیں کردئے جاتے۔ اس کامطلب یہی ہوا ہے کہ نریندر موردی اور دیگر 63 کو کلین چٹ دینے کے بعد اس کے موافق ثبوت گڑھنے اور جھوٹے دستاویزات تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اگر واقعی مودی بے قصور ہے تو رپورٹ کے ساتھ دستاویزات جمع کیوں نہیں کئے گئے۔
مودی کو کلین چٹ دینا قانون اور انصاف کا مذاق اڑانا ہے۔ ایسا رہا تو ہندوستان پر مسلمانوں کا ہی نہیں پوری دنیا کا انصاف پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ مودی کے ملوث ہونے کا اشارہ گجرات ہائی کورٹ کے اس حکم سے بھی ملتا ہے کہ جس میں اس نے نقصان ہونے والے مذہبی مقامات کی مرمت کا حکم دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی ہے کہ فسادات کے دوران جن مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا ان کے مرمت کے لئے وہ ہرجانا دے۔چیف جسٹس بھاسکر بھٹٹاچاریا اور جسٹس جے بی پارڈی والا کی سربراہی والی بینچ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 500 سے زیادہ مذہبی مقامات کی مرمت کا خرچ اٹھائے۔اسلامی ریلیف کمیٹی آف گجرات کے نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے داخل کی گئی ایک درخواست پر عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے۔ ہائی کورٹ کا خیال ہے کہ فسادات روکنے میں ریاستی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مذہبی مقامات کو اتنا نقصان پہنچا۔ سپریم کورٹ مودی کو بار بار پھٹکار لگا چکی ہے۔ کئی مقدمات کو گجرات سے دوسرے شہروں میں منتقل کرچکی ہے لیکن یہ دیدہ دلیری اور بے شرمی کی انتہا ہے ہر معاملے کو مودی اپنے موافق کرناچاہتا ہے۔ تہلکہ اور دیگر میڈیا کے اسٹنگ آپریشن میں بھی یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں کے بیانات کھل کر سامنے آچکے ہیں نریندر مودی نے کس طرح فرقہ پرست طاقتوں کو مکمل چھوٹ دی تھی اور گودھرا کاسچ بھی سامنے آچکا ہے کہ کس طرح پیٹرول پمپ کے ورکروں جھوٹے بیانات دینے کے لئے پیسے دئے گئے تھے لیکن حیرانی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرف نہ تو ایس آئی ٹی اور نہ ہی عدلیہ نے کوئی توجہ دی۔
ایس آئی ٹی کی کی کارکردگی پر کانگریس کے مرحوم ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا ، “سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔میرے پاس ایک بار پھر اس کے خلاف اپیل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ 2002 میں جو کچھ بھی ہوا تھا ، اس کے ہر پل کی سچی تفصیلات میں نے ایس آئی ٹی کو دی ہے۔ذکیہ جعفری کے مطابق یہ معاملہ ریاستی عدالت میں جانے کا مطلب یہی ہے کہ نریندر مودی کے حق میں ہی فیصلہ آئے گا۔ذکیہ پہلے ہی کہہ چکی تھیں معاملہ ریاست میں منتقل کرنے کی وجہ سے فیصلہ مودی کے حق میں ہی آئے گا اور یہی ہوا بھی ہے۔ سنیجو بھٹ کے بعد ایک اور آئی پی ایس افسر کے ایس سبرامنین نے بھی سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا ہے کہ مودی نے فسادات کے دوران وشو ہندو پریشد کے جذبات کی قدر کرنے کی ہدایت دی تھی۔ مودی نے یہ ہدایت ہڑٹال کے دوران دی تھی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی آر کرشنن ایر کی سربراہی میں آبزرو ٹیم جس میں سپریم کورٹ کے سابق جج پی وی ساونت اور بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ایچ سریش تھے، نے گجرات فسادات کے بعد مارچ اپریل 2002 میں گجرات کا دورہ کیا تھا۔ اس ٹیم کے سامنے سابق مقتول وزیر داخلہ ہرین پانڈیا نے کہا تھا ”وزیر اعلی نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ فسادات کے دوران ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے کی کھلی چھوٹ دیں“۔ جسٹس ایچ سریش نے کہا ہے کہ میرے اور پیپلز ٹریبونل کے دیگر رکن جسٹس پی وی سانت کے ذریعہ درج بیانات کو ایس آئی ٹی نے نظر انداز کیا۔ اس ٹیم نے ایس آئی ٹی کو پانڈیا کے بیان کی ریکارڈنگ بھی دی تھی۔ اس ٹیم کو پانڈیا نے مزید کہا تھا کہ گودھرا حادثہ کے چند گھنٹے کے بعد مودی نے میٹنگ طلب کی تھی جس میں پولیس سے کہا گیا تھا کہ ہندوؤں کو اپنے طریقے سے کام کرنے کی چھوٹ دیں۔ جس وقت پانڈیا نے بیان دیا تھا کہ اس وقت یہ تمام جج حًضرات موجود تھے۔ گجرات کے وزیر اعلی ہندوستان کے ماتھے وہ کلنگ بن چکے ہیں یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ آخر مرکز کی یو پی اے حکومت کیوں کہ اس داغ مٹانے کے لئے تیار کیوں نہیں ہے۔ کیا حکومت مودی کا خوف دلاکر مسلمانوں کو اپنے سحر میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے۔وہ کیوں اس پر سخت کارروائی کرنا نہیں چاہتی۔ کارروائی تو دور کی بات فرضی انکاؤنٹر اور مسلمانوں کے قتل عام کے خاطی افسران مرکزی حکومت میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ گجرات میں اس وقت تک انصاف ممکن نہیں جب تک کہ وہاں سے مودی کو ہٹایا نہیں جاتا۔ انصاف کا عمل بھی اسی وقت شروع ہوسکتا ہے جب خاطی کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے ۔ بدعنوانی کے معاملے میں وزیر جیل جاسکتا ہے تو قتل عام معاملے میں مودی کو کیوں نہیں ۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com