Home / Socio-political / ایک رات انسان کی صحبت

ایک رات انسان کی صحبت

                                          

سردی گرمی ہمارا مسئلہ نہیں ہے سر۔ تو پھر تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ آج کی دال روٹی۔ اس نے پانی کی تیزدھار گاڑی پر مارتے ہوئے کہا۔ بوسیدہ سی ٹی شرٹ اور ٹراوٴزر میں بھیگا ہوا وہ مزے سے اپنا کام کررہا تھا۔ سرد ہوا کا منہ چڑاتا ہوا نوجوان۔ میں اس کے پاس گاڑی کی سروس کرانے کبھی کبھار چلا جاتا ہوں۔ اب تو اس سے میری دوستی ہوگئی ہے۔ تو پھر آج کی دال روٹی کا انتظام تو ہوگیا ہوگا ناں! میری اس بات پر وہ مسکرایا اور کہنے لگا: میری دال روٹی کا تو ہوگیا اور یہ جو میرے ساتھ اور لوگ ہیں ان کی بھی تو چاہئے۔ آج شام تک آج کی دال روٹی کے ساتھ کل کی دال روٹی کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ تو پھر پرسوں کیا کرو گے؟ میں نے پوچھا۔ آپ بھی کمال آدمی ہیں، پرسوں کس نے دیکھی ہے؟ میں کمال آدمی نہیں تم ہو پاگل آدمی․․․․․․․․․․․تو پھر کل کس نے دیکھی ہے؟ ہاں یہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ سچ بتا کبھی فکر نہیں ہوئی کہ آج تو مل گیا کل کیاکریں گے؟ نہیں بالکل بھی نہیں میں تو بہت چھوٹا تھا جب یہ کام کرنے لگا تھا۔ کبھی فکرنہیں ہوئی۔ میں اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔

 ہاں وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ پھر مجھے اپنا دوست فقیر محمد بلوچ جسے میں پیار سے فقری کہتا ہوں یاد آیا۔ وہ اکثر کہتا تھا، اڑے فکرمکر چھوڑو ،جس نے چونچ دیا ہے دانا بھی دے گا اور جب دانا پانی ختم تو چونچ بھی ختم، پھرکیا فکرکرنی۔ گدھا گاڑی چلاتا اور مست ملنگ رہتا تھاوہ۔ کبھی آزردہ نہیں ہوا۔ یہ ہے ناں زندگی!فکرنہ فاقہ، عیش کرکاکا۔ میں اپنے دوستوں سے اکثر پوچھتا ہوں: کاروبارکیسا چل رہا ہے؟ بس یار گزارا ہے بہت پریشان ہوں اور جب مزدور دوستوں سے ملتا ہوں تو رشک آتا ہے۔ میری اس بات سے آپ اختلاف کریں ،ضرور کریں۔ میں اسی طرح سے انہیں دیکھتا ہوں۔ یہ جوہمارے اردگرد خودکشیاں ہورہی ہیں ان میں میں خود بھی شریک ہوں۔ اس لیے کہ ہم سب کوصرف اپنی اپنی فکر ہے۔ مہینہ بھرکا راشن جمع کرکے بھی میں پریشان رہتے ہیں۔ یہ کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ڈالر اوپر نیچے نہ ہوجائے کہ اس کابہانہ بناکرپٹرول کی قیمتوں میں جونہی اضافہ کااعلان ہوتاہے توزندگی مشکل بنادی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈالرکے ساتھ ہمارے سانس کی ڈوری بندھی ہوئی ہے۔ ہمارے دل کی دھڑکن ڈالر کے اوپر نیچے ہونے سے منسلک ہے۔ یہی ہے ناں زندگی!

اور جب میں ان سے ملتا ہوں تو وہ مزے سے ہیں، نہ ان کے پاس ڈالر ہے نہ ہی ان کی دھڑکن بے ترتیب․․․․․․․․․․مست مولائی لوگ۔ ہم محلات میں رہ کر بھی خوف زدہ اور وہ جھونپڑیوں میں رہ کر پرسکون اور مطمئن۔ چلئے چھوڑیئے میں کیا بحث لے بیٹھا۔ آپ میری مانیں گے اور نہ میں آپ کی۔ مجھے بچپن میں ایک بابے نے یہ کہانی سنائی تھی اور پھر کہیں پڑھی بھی تھی:

ایک ہرے بھرے جنگل میں ایک گائے رہتی تھی۔ علی الصبح وہ تازہ گھاس چرنے نکل جاتی۔ سارا دن گھاس چرتی اور سورج ڈوبنے تک خوب موٹی تازی ہوجاتی لیکن ساری رات وہ اس غم میں گھلتی رہتی کہ خدا معلوم اگلے روز گھاس چرنے کو ملے گی یا نہیں۔ اس غم میں صبح تک پھرسوکھ کر پہلے کی طرح دبلی پتلی ہوجاتی یہاں تک کہ بدن کی ایک ایک پسلی نمایاں ہوجاتی۔ اب خدا کی قدرت دیکھئے کہ ہر روز صبح سویرے وہ جنگل پھر سرسبزوشاداب ہوجاتا اورگھاس اونچی اونچی ہوجاتی تاکہ گائے اپنا پیٹ اچھی طرح بھرسکے اور اس کے بدن پر چربی کی تہہ چڑھ جائے۔ یہ سلسلہ بہت عرصے تک جاری رہا۔ دن میں گائے گھاس چرتے چرتے فربہ ہوجاتی اور رات کو اس فکر میں کہ کل کیا کھائے گی گھل گھل کر دبلی پتلی ہوجاتی۔ آخر اسی کشمکش میں اس کی زندگی ختم ہوگئی اور وہ مرگئی۔

 اسے اتنی سی بات سمجھ نہیں آئی کہ جب خالقِ کائنات ہر روز اس کے جنگل میں جانے سے پہلے ہی اس کے لیے رزق کا انتظام کردیتا ہے تو پھر اسے اگلے روزکی فکر میں اپنی ہڈیوں کا گودا سکھانے کی کیا ضرورت ہے!لیکن وہ نادان تھی سمجھ ہی نہ سکی۔ پھر بابا کہتے: کہانی مزے کی تھی ناں!اور ہم سب کہتے: ہاں بہت مزے کی۔ پھر وہ کہتے: یہ گائے کون ہے؟ ہم کہتے: ہم تو نہیں جانتے یہ گائے کون ہے۔ تب وہ بتاتے: یہ گائے انسان کا نفس ہے اور سرسبز جنگل یہ دنیا۔ اللہ میاں اپنی مخلوق کو ہر روز اپنے وعدے کے مطابق رزق عطا فرماتا ہے لیکن یہ کم عقل بدفطرت انسان پھر اسی فکر میں سوکھ سوکھ کر کانٹا ہوا جاتا ہے کہ ہائے کل کیا کھاوٴں گا۔ وہ کم عقل اور بدبخت یہ نہیں سوچتا کہ روز پیدائش سے لے کر وہ اب تک برابر کھاتا آرہا ہے اور اس کے رزق میں کمی نہیں آئی بلکہ رزق بڑھتا گیا جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا رہا۔ کیا اس کے بچپن اور جوانی کی خوراک مقدار میں ایک ہی ہے!پھر وہ بہت پیار سے کہتے: کل کی فکر چھوڑو اور خدا کی رزاقی پر پکا ایمان لا وٴ،توکل اختیارکرو۔

ہاں ایک مرتبہ انہوں نے ہمیں یہ کہانی بھی سنائی تھی، کہانی نہیں واقعہ: ایک دفعہ شیخ ابوسعید ابوالخیر اپنے عقیدت مندوں کے ایک گروہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ صفائی کی جارہی تھی۔ ہر طرف غلاظت بکھری پڑی تھی اور سخت بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ سب رک گئے اور اپنی ناکوں پرکپڑا رکھ کر برا سا منہ بناکر منتشر ہونے لگے۔ لیکن جناب شیخ ابوسعید وہیں کھڑے رہے اور فرمانے لگے: اے لوگو جانتے ہو یہ نجاست اس وقت زبانِ حال سے کیاکہہ رہی ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ ہی فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ کہتی ہے کہ کل میں بازار میں مٹھائی اور خوش رنگ پھلوں کی شکل میں دکانوں کی زینت بنی ہوئی تھی اور لوگ پیسے خرچ کرکے مجھ کو خرید رہے تھے اور اب صرف ایک رات انسان کی صحبت میں رہ کر اس حالت کو پہنچ گئی۔ حق تو یہ ہے کہ مجھے تمہاری صحبت سے بھاگنا چاہیے اس کے برعکس تم مجھ سے بھاگ رہے ہو۔

لیکن اب توایسی کہانیاں سنانے اوراس پرعمل کرنے والے پاگل سمجھے جاتے ہیں۔ہمارے وزیراعظم گیلانی کواپنے حسب ونسب پربڑافخرہے کہ وزارتِ عظمیٰ چلی بھی جائے توہماراشاہِ جیلاں سے تعلق توکوئی نہیں چھین نہیں سکتا۔ابھی کل کی بات ہے کہ جن بچوں کی فیس دینے کیلئے گھڑی فروخت کی تھی آج ان کے زیرسایہ ملک کوفروخت کیاجارہاہے۔اب تواپنی کابینہ کوبھی اعتمادمیں لیکرہمنوابنانے کااعلان ہوگیاہے کہ اب ساری کابینہ بھی ان کے سپوتوں کودودھ میں نہلانے میں ان کاساتھ دے گی۔گیلانی صاحب ابھی تک بضدہیں کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کوواپس لانے کیلئے وہ سوئس عدالتوں کوخط نہیں لکھیں گے اوران کی وکالت کیلئے دلائل دیتے ہوئے اعتزاز احسن کے ماتھے پرندامت کاکوئی قطرہ تک موجودنہیں جو کل اسی ملک کی شاہراہوں پرعدالتی سربلندی اورکرپشن کے خلاف پوری قوم سے قربانی مانگ رہاتھا۔ اس نے ساری قوم سے جووعدے کئے تھے آج خودان کی دھجیاں اڑارہاہے ۔واقعی دنیاکی ایک دن کی صحبت نے کیارنگ دکھایا!

 آپ بتائیے کہ ہم اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں؟ اگر رکھتے ہیں تو پھر کیوں اتنا کچھ جمع کرتے رہتے ہیں؟ ناداروں کو کیوں نہیں دیتے؟ میرا مالک آپ کا رزق فراواں کردے ۔ دنیا کے دھوکے اور نفس کے بہکاوے سے بچالے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا اللہ کا۔

 یہ حوصلہ بھی بہت ہے کہ ہم نے آنکھوں میں تمام خواب رکھے، خوابِ زر نہیں رکھا

کسی کو کاوشِ زر سے یہاں نہیں فرصت سنانا چاہیں تو کس کو سنائیں غم اپنا

بروزجمعتہ المبارک۲۷جمادی الاول۱۴۳۳ھ۲۰/اپریل۲۰۱۲ء

 لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *