باراک حسین اوبامہ دورہ ہند۔
admin
November 18, 2010
Socio-political
771 Views
باراک حسین اوبامہ دورہ ہند
ہندستان میں باراک حسین اوبامہ کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا ۔ ان کی إٓمد سے ہند امریکہ تعلقات میں مزید خوشگواری اور پائداری آنے کی امید ی جارہی ہے ۔ عام طور پر لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی آمد غیر متوقع اس لیے نہیں ہے کہ ہندستان عالمی نقشے پر اقتصادی اور جمہوری طاقت کے اعتبار سے جس تیزی کے ساتھ ابھر رہا ہے کہ ہر ملک کی نگاہ ہندستان کی جانب ہے ۔امریکہ بھی ہندستان کی جانب کئی امیدیں لیے دیکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ مستقل تین صدور امریکہ نے ہندستان کا دورہ کیا۔ بل کلنٹن ، جارج بش اور اب باراک اوبامہ۔ قابل غو ر پہلو یہ ہےکہ یہ تینوں صدور ایک کے بعد ایک امریکہ کی سیاست میں آئے اور ان تینوں نے ہندستان کا دورہ کیا ۔ اس سے بھی ہندستان کی اہمیت اور ہند امریکہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔ماضی کی دورے اور اس دورے میں بنیادی فرق یہ ہےکہ موجودہ امریکی صدر اوبامہ ایک ایسے وقت میںیہ دورہ کر رہے ہیں جب خود امریکہ میں اقتصادی بحران کی حالت ہے اور یہی وجہ ہے مڈ ٹرم الیکشن میں انھیں مایوسی ہاتھ لگی۔ اس اعتبار سے اوبامہ کایہ دورہ امریکی نقطہ نظر سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ انھوں نے امریکی مفاد کو سامنے رکھ کر سب سے پہلے ہندستان کی اقتصادی راجدھانی ممبئی کا رخ کیا اور انھون نے وہاں ہندستان کے جن اقتصادی اداروں کے ساتھ معاہدے کیے وہ امریکہ کے لیے فائدے کاسواد ثابت ہوگا۔اوبامہ نے اسی لیے اپنے قیام کی مدت طویل کی ۔یہ ان کا کسی ملک میں سب سے طویل دورہ تھا۔ظاہر ہے ایک طاقتور ملک کےایک طاقتور رہنما کا قیام یوں ہی بے مقصد نہیں ہوسکتا ۔
اقتصادی مقاصد کے علاوہ یہ دورہ کئی اہم سیاسی معاہدے کے لیےبھی تھا۔ امریکہ نے پہلی دفعہ واضح طور پر سیکورٹی کاونسل میں ہندستان کی رکنیت کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوشش بھی کریں گے ۔ یہ بات ہندستان کے لیے اہم ہے کیونکہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں ہندستان کا شمار ہوتا ہے ۔ اور اب تک ہندستان کو اس کی مستقل رکنیت نہیں مل سکی ہے ۔ حالانکہ اوبامہ کے اس بیان سے پڑوسی ملک پاکستان کو کافی پریشانی لاحق ہے اور وہ اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ہندستان کے ساتھ کئی اور بھی معاہدے کیے جو آگے چل کر ہندستان کو کافی مضبوط کر سکتاہے ۔ اس کے علاوہ امریکی صدر نے پہلی دفعہ یہ بات کی کہ اسے کشمیر کے معاملے میں پہل کرنے کی کوئی چاہت نہیں اوبامہ نے صاف صاف لفظو ں میں یہ کہا کہ اگرچہ کشمیر کا معاملہ ہند و پاک کے درمیان یہ پرانا نزاعی معاملہ ہے اس لیے بہتر ہے کہ ہند و پاک دونوں ممالک آپس میں مل کر اس معاملے کو حل کریں امریکہ اپنی جانب سے کوئی حل ہندستان پر نہیں تھوپنا چاہتا ۔اوبامہ کے اس بیان سے بھی پاکستان کو کافی پریشا نی ہے کیونکہ پاکستان ہمیشہ امریکہ سے یہی مطالبہ کرتا رہا ہے کہ امریکہ ہندستا ن پر دباو ڈالے اور دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا رول ادا کرے تاکہ یہ معاملہ حل ہوسکے اور پاکستان کے حق میں فیصلہ ہوسکے ۔ لیکن اس دورے میں اوبامہ کے بیان سے پاکستان کی امیدوں پر بانی پھر گیا۔ پاکستان کی مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ اس سے پہلے بل کلنٹن اور جارج بش نے جب ہندستان کا دورہ کیاتو انھوں نے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی پاکستان میں بھی قیام کیا مگر یہ پہلے صدر ہیں جنھوں نے پاکستان کا رخ بھی نہیں کیا ۔ اسی لیے پاکستان کے کئی اخبارات میں اس حوالے سےالگ الگ باتیں کی گئی ہیں ۔ اعظم عظیم اعظم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ’’امریکاکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر جو شیڈول کے مطابق اِن دنوں اپنے دس روزہ ایشیاءکے دورے کے دوران پہلے مرحلے میں اپنے نئے پروگرام کے مطابق تین روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں اورجہاں سے تازہ ترین یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ مسٹر بارک اوباما(میں نے اِن کے نام سے حسین کا لفظ خود سے احتجاجاََ ہذف کردیاہے کیونکہ اِن میں اگر ذرابرابر بھی مسلمانیت ہوتی تو کم ازکم یہ اپنی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا بین ثبوت دیتے ہوئے پہلے اپنے دوست اور مسلم ریاست پاکستان آنے کا شیڈول ترتیب دیتے تو پھر بھارت جاتے مگر شائد اُنہوں نے یہ گوارہ ہی نہیں کیا …..؟کہ وہ کم ازکم اپنے پیش رو سابق امریکی صدربش کی طرح ہی چندگھنٹوں کے لئے پاکستان چلے آتے میرامطلب ہے کہ تھوڑی سی دیر کے لئے ہی پاکستان میں اپناقیام کرتے اور بھلے سے یہ بھی یہاں کرکٹ کھیل کرہی بھارت چلے جاتے ….اِن کے اتنے سے عمل سے زیادہ نہیں تو تھوڑابہت پاکستانیوں کا بھرم رہ جاتاکہ اوباما پاکستان سے بھی اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں…..
مگر یہاں افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو پاکستان سے متعلق اُن ہی پالیسیوں پر اُسی طرح سے عمل پیراہیں جن پالیسیوں پر سابق امریکی صدر بش چلاکرتے تھے مگراِس باوجود بھی مسٹر اوباما نے تو یہ بھی نہ کیا….کہ وہ اپنے دورے میںترجیحی بنیادوں پر پاکستان کو شامل کرتے جہاں حال ہی میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچارکھی ہے اور پاکستان کی جنگ لڑتے لڑتے زخموں سے چُورچُور ہوچکاہے اور آئے روزیہاں 9/11 اور 26/11جیسے واقعات کا رونماہونامعمول بن چکاہے مگر الٹاوہ اپنے اِس دوست مُلک پاکستان کو جو اِن کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائین کا کردار اداکرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ رہاہے اُس کو بھی ردکرتے ہوئے بھارت یاتراکو پہنچ گئے ہیں اُنہوں)نے بھارت میں انتہائی سخت ترین سیکورٹی میں اپنی مصروفیات سے بھر پور دن گزارے اور اِس دوران اُنہوں نے بھارت میں مختلف معاہدوں کی شکل میں اپنی نوازشیں لٹائیں اور بھارتی اِن نوازشوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے سمیٹتے تھک کر چُورچُور ہوگئے مگر اوباما کی معاہدوں کی صُورت میں بھارتیوںپر نوازشوں کا جاری رہنے والا سلسلہ آخری وقت تک ختم نہ ہوا۔’’ }بحوالہ عالمی اخبار{ ظاہر ہے اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اوبامہ ہندستان سے محبت کرتے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندستان نے دنیا میں وہ مقام بنایا ہے کہ امریکہ کوبھی ہندستان کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس پاکستان کسی اعتبار سے بھی وہ مقام بنانے میں ناکام رہا ہے ۔ اس لیے پاکستان کو چاہیےکہ وہ شاکی ہونے کے بجائے اپنی سیاسی اور اقتصادی حالت کوبہتر بنائے ۔
ان باتوں کے علاوہ ایک خاص بات جس کی جانب ہمارے جیسے کئی لوگوں کے ذہن اَن سلجھے سوالات میں الجھے ہوئے ہیں اور وہ یہ ہےکہ اوبامہ کے آنے سے قبل ہی ہندستان کی زمین کو سیکورٹی کے نام پر امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ ممبئی کے قیام کے دوران یومیہ مزدوری کرنے والوں کی روزی روٹی کی بھی فکر کسی نے نہیں کی اورممبئی میں وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے یہی ہوٹل تھاجس پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ، اس کے ماسٹر مائنڈ نہ سہی لیکن علم رکھنے والے ہیڈلی سے پوچھ گچھ کرنے میں بھی ہندستان کی ایجنسیوں کو کافی وقت لگ گیا۔ہندستان میں ان کی گاڑیإں ، کتے ، ساز وسامان کے ساتھ اسلحے اور کھوجی جہاز بھی بے روک ٹوک اڑتے رہے ۔ لیکن یہی وہ امریکہ ہے جہاں ہندستانیوں کو ویزا کے لیے کئی طرح کی ذلتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ سیکورٹی کےنام پر ان کے نام کو اسکرینگ پر رکھ دیا جا تا ہے اور اگر بد قسمتی سے کسی شخص کانام کسی دہشت گرد سے مل رہا ہو تو اسے ویز اتو مل ہی نہیں سکتا کیونکہ کمپیوٹر کے مطابق وہ بھی دہشت گرد ہو سکتا ہے لیکن وہ یہاں دماغ سے کام لینے کے بجائے مشین کی بات مانتے ہیں اور ہندستانی عوام کو خاص طور پر مسلمانوں کی کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح ہندستان سے امریکہ جانے والے عام لوگوں کی بات تو چھوڑیں بڑے سیاسی لیڈران اور فلم اسٹار وغیرہ کو بھی کئی بارتفتیش کے نام پر برہنہ کیا گیا او ر ذلیل کیا گیا۔ لیکن امریکی حکام اور ایجنسیوں نے کبھی معذرت کے الفاظ تک نہیں کہے ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہندستانی حکام کی جانب سے اس طرح کے واقعات کی جانب امریکہ کو متوجہ کیا جائے اور مستقبل کے لیے متنبہ بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے امریکی صدر کا یہ دورہ ہندستانی نقطہ نظر سے بھی کامیاب رہا۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس دورے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
2010-11-18