Home / Socio-political / برف، بارود اور لہو!

برف، بارود اور لہو!

سمیع اللہ ملک

صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں اور ہمیں اتنی فراغت بھی نہیں کہ اپنی تسبیح روز شب کا دانہ دانہ شمار کرسکیں۔سرکار کے متضاد بیانات کی آتش بازی، لاہور میں مسلم لیگ(ن) کی ریلی،جواب میں عمران خان کامینارپاکستان پربھرپورتاریخی جلسہ ،نوجوانوں کاتبدیلی کیلئے جوش وخروش اورغریب عوام سے بے شماروعدے ،بالکل ذوالفقاربھٹوکی طرح،سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش ایک مرتبہ پھرسست روی یاکچھ مغربی مفادات کی شکار،لاہورمیں ان ریلیوں کے جواب میں اسلام ٓبادمیں مقیم حکمرانوں کی مکمل آشیرباد سے کراچی میں ایم کیوایم کاپیپلزپارٹی کے حق میں جلسہ ، آگ بھڑکانے والے اشتہارات،بے یقینی کی دھند میں لپٹی عوامی خواہشات، دلوں کو کچو کے لگانے والے خدشات، بجلی غائب، گیس ناپید، ضروریات زندگی عنقا…حادثہ در حادثہ، سانحہ در سانحہ، روتی بلکتی، کہیں زندہ رہنے کے سو سو جتن کرتی اور کہیں مرنے کے بہانے تلاش کرتی زندگی، کوئی کہاں تک روئے، کتنے نوحہ گر ساتھ رکھے،پورا پاکستان لاوے کی طرح دہک رہا ہے اور میں کس بے تکے سوال میں اُلجھ گیا ہوں کہ ”برف، بارود اور خون کی آمیزش سے کون سا رنگ بنتا ہے؟

کس کو خبر نہیں سوات اورہمارے شمالی علاقوں کے باسیوں کے دلوں میں اب بھی کس خوف نے جگہ بنارکھی ہے میں ؟ آنے والی شدید سردیوں کے اس موسم میں جب شمال کی یخ بستہ ہوائیں،ہڈیوں کا گودا تک جما دے گی اور سوات کی وادی پر برف کی اُجلی چادر پھیل جائے گی توغریب و خستہ لوگ کس حال میں ہونگے؟خطرات میں جکڑی بستیوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟ جب بڑے بڑے پُر شکوہ شہر بھی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں تو وہاں کیا حال ہوگا؟ لوگ چولہے جلانے کے لئے ایندھن کہا سے لا رہے ہوں گے ؟اُن کے گھروں میں پڑی سوکھی لکڑیاں ختم نہ ہوگئی ہوں گی؟ ان دوردراز آبادیوں کے لوگ بھوک سے بلکتے بچوں کے لئے کلو بھر آٹا کہاں سے لائیں گے؟سوات والوں کے پاس روٹی کے لئے پیسے بھی کہاں ہوں گے؟مینگورہ سے کالام تک سینکڑوں ہوٹل ابھی بند پڑے ہیں۔جیپیں،گاڑیاں رکی کھڑی ہیں، جس نگر سے ہجرتوں کے کارواں اب بھی واپسی کاحوصلہ ہاردیں وہاں کون سیا ح جائے گا؟ہزاروں افراد کا روزگار ختم ہو چکا ہے۔ نہ معلوم اُن کے بال بچے کیا کھارہے ہیں ؟کس طرح زندہ ہیں؟بیماروں کو دوا دارو کہاں سے مل رہاہوگا؟جن کے گھر بار نہ رہے وہ کس سائبان تلے پناہ لئے بیٹھے ہوں گے؟آفتوں میں جکڑے دن اور سردی سے ٹھٹھرتی لمبی سیاہ راتیں کیسے گزر یں گی؟

ہم جلد بھول جانے والی مخلوق ہیں۔ہم بھول چکے ہیں کہ ڈمہ ڈولہ،باجوڑ اور وانا میں کیا ہوا تھا؟ہم بھول چکے ہیں کہ جامعہ حفصہ کی عفت شعار بیٹیوں کی راکھ کون سی ہوا اُڑا لے گئی؟ہم بھول چکے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نامی شخص بظاہرآزادلیکن پابندیوں کی وجہ سے اب بھی بندی خانے میں پڑا ہے اور کون سا موذی مرض اس کے جسم و جاں کو چاٹ رہا ہے؟ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کبھی پاکستان بہت بڑا ہوا کرتا تھا اوردسمبرکی سرد راتوں میں ایک شام وہ آدھا رہ گیا تھا۔نائن الیون کے بعد سے ایک عفریت نے ہماری شہ رگ میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان پر قابض بندوبست نے امریکی خوشنودی کو اپنے اقتدار کے استحکام اور دوام کا ذریعہ بنا لیا ہے۔معاملات کو حکمت سے سنبھالنے، متعلقہ عناصر کو اعتماد میں لینے، افہام و تفہیم کی راہ نکالنے اور کسی خرابی کو ابتدا میں ہی سنبھال لینے کی بجائے دانستہ یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بگاڑ کو آخری صورت تک جانے دیا جائے،پھولنے، پھلنے اور پھیلنے کے لئے اُسے سازگار آب و ہوا فراہم کی جائے اور جب بگاڑ کی فصل جوان ہو کر لہلہانے لگے تو پھر ریاست کی بے محا با قوت سے اُسے اس طرح کاٹا جائے کہ وائٹ ہاؤس عش عش کر اُٹھے۔

چھوٹے سے مسئلے کو ابتدا ہی میں ختم کردیا جاتا،مفاہمت کے جذبے کے ساتھ سلجھا دیا جاتا، گھر کی بات جان کر نیک دلی کے ساتھ چٹکی بھر آگ پر پانی ڈال دیا جاتا تو دنیا کوخبر ہی نہ ہوتی۔ دہشت گردی کی جنگ لڑنے والے حکمرانوں کی اہمیت، افادیت اور ان کی اعلیٰ کارکردگی کا اندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔ پاکستان کے سر پر امریکی کروسیڈ کاہر اول دستہ ہونے کی کلغی کبھی نہ سجتی۔ وزیرستان سے بلوچستان اور جامعہ حفصہ سے سوات تک اسی ”حکمت عملی“کے کرشمے کبھی ظہورپذیرنہ ہوتے۔’لیکن ہماری پالیسی کہ ”آگ کاالاؤ“بھڑک جانے دو تاکہ بھرپور ریاستی قوت کا جواز پیدا ہو اور امریکہ ہمارے بازوؤں کی طاقت دیکھ سکے۔

مینگورہ سے کوئی پانچ سات کلو میٹر دور امام ڈھیری میں درس قرآن کا آغازکرنے والافضل اللہ آج ہمارے لئے دردِ سرکیوں بن گیاہے؟اس تنظیم میں عسکریت پسندی نے کیسے جگہ بنالی؟بگاڑ کہاں سے پیدا ہوا؟ایسا راتوں رات نہیں ہوا۔چوکس اور بیدار انتظامیہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔افغانستان کے چپے چپے پہ بیٹھے فتنہ گروں نے کیا کردار ادا کیا؟بھارتی ”را“نے کیا تانا با نا بُنا؟ان باتوں سے کس نے اور کیوں صرف نظر کیا؟ اور پھر جب مولانا فضل اللہ سے ایک معاہدہ طے پا گیا، انہوں نے خود شہر شہر،قصبہ قصبہ، امن کمیٹیاں قائم کردیں،اپنے خطبوں میں ہر نوع کی دہشت گردی کی مذمت کی،خود کش حملوں کو ناروا قرار دیا اور طے پایا گیا کہ فضل اللہ اور اُن کے ساتھیوں پر قائم چوالیس مقدمات ختم کردئیے جائیں گے تو صلح و خیر اور امن و آشتی کے اس لمحے کو کیوں گرفت میں نہیں لیا گیا؟ کس نے اس معاہدے کو سبوتاژ کیا؟اگر این آر او کے تحت موجودہ حکمرانوں کے ہزاروں سنگین مقدمات بحیرہ عرب کی نذر کئے جاسکتے ہیں تو چوالیس مقدمات میں رعایت کیوں نہ دی گئی؟اور اگر آپریشن ناگزیر ہوگیا تھاتو مہینوں اس کا انتظار کیوں کیا گیا ؟پھر اُسے انتہائی ماہرانہ انداز میں، مختصر محدود موثر اور نتیجہ خیز کیوں نہ بنایا گیا؟

مولانا فضل اللہ کبھی اتنی بڑی طاقت نہ تھاکہ ایک ایٹمی ریاست کی قوت اتنی طویل مدت تک دیواروں سے سر پھوڑتی اور لاکھوں عوام کی زندگی اجیرن بنائے رکھتی۔ وادیٴ سوات کو یقینا اس آشوب سے بچایا جاسکتا تھا،وزیرستان کو بھی قہرستان بننے سے بچایاجاسکتا تھا،جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے معاملے کو تیرہ نجت ساعت سے بہت پہلے نہایت عمدگی کے ساتھ سلجھایا جاسکتا تھا لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں ہر بات کو بگاڑ کے نقطہٴ عروج تک پہنچا کر بھرپور قوت آزمائی کوحکمت عملی بنا لیا گیا ہے۔ وزیرستان ہو یا سوات، دہشت گردی کا خاتمہ لازم ہے اور اس کے اسباب و محرکات کا بھی۔ حکومت نے کانٹوں کی فصل فوری کاشت کرنے اور پھر خود ہی کاٹ کر امریکیوں کا دل لبھانے کا جومشغلہ اپنارکھا تھاوہ بالآخراب اپنے انجام کوپہنچ رہاہے۔

پاکستان کے عوام بدامنی کے خلاف ہیں،جولوگ بھی حدوں سے گزر رہے ہیں،اُن کا محاسبہ ضروری ہے۔خود سوات کے عوام،عسکریت پسندی سے عاجز ہیں لیکن سلجھاؤ کی کوئی سبیل پہلے کیوں نہ ہوسکی؟آج تک سرکار دربار کی کسی شخصیت نے سوات کا رخ کیوں نہیں کیا؟ کیا صرف اس لئے کہ بگاڑ کو بگڑنے دیا جائے تاکہ تلوار زنی کا ہنر آزمایا اوردنیا کو دکھایا جا سکے کہ ہم کس عزم اور جذبہٴ فدویت کے ساتھ یہ جنگ لڑرہے ہیں تاکہ این آراوکے خالقوں کومطمئن کیاجاسکے اور آنے والے دنوں میں اقتدارمیں رہنے کیلئے آشیرباد حاصل کی جاسکے ۔ شمالی علاقہ جات اورسوات میں سرگرم فوج بھی میری ہے، ہر سپاہی ،ہر افسر کی زندگی سے مجھے ہمدردی ہے۔اُن کے بدن پر لگنے والا ہر زخم میرے بدن پہ لگتا ہے،لیکن وہ بھی تو میرے ہیں،جو شمال سے آتی یخ ہواؤں کی برفانی رتوں میں جاں کنی کی کیفیت سے دو چار ہوئے تھے،جو ہجرتوں پر مجبور کردیئے گئے تھے لیکن اب بھی جن کے گھر ایندھن ہے نہ آٹا، جو اب بھی چند گھنٹوں کاسفر کئی کئی ہفتوں میں کرنے پرمجبور ہیں، جن کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں،جن کے روزگار رہے نہ گھر بار۔

صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں اور ہمیں اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے کی فراغت تک نہیں لیکن آئیے! آج پاکستان کو درپیش نوع بہ نوع مسائل اور نصرت بھٹو کے سوگ سے تھوڑا سا وقت نکال کر شمالی علاقوں کے باسیوں اورسوات والوں کو یاد کرلیں، ہم اُن کی تاریک راتوں کا جگنو نہیں بن سکتے،اُن کے بجھے چولہوں کا ایندھن نہیں ہوسکتے، آفتوں اورمصائب کی میلوں لمبی قطار سے نکال نہیں سکتے،لیکن انہیں یادتو کرسکتے ہیں؟ اُن کے لئے دستِ دعا تو پھیلا سکتے ہیں؟ اُن کے لئے ہمدردی کے دو چار آنسو تو بہا سکتے ہیں؟

معاف کیجئے گا۔میں آپ کے معمولات میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا لیکن…لوٹ جاتی ہے اِدھر کو بھی نظر کیا کیجئے!

آج صبح صبح ایک انتہائی بے تکی سی سوچ نے بے کل کردیا تھا…”برف،بارود اور لہو“کی آمیزش سے کون سا رنگ بنتا ہوگا؟گلابی،عنابی، گہرا بنفشی یا سات رنگوں کی دھنک؟باباجی سے پو چھتا ہوں!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *