حامد میر
بوڑھا شیر بیمار ہو چکا تھا لیکن شیر کی آواز میں رعب و دبدبہ آخری وقت میں بھی قائم تھا۔ شیر نے دہاڑتے ہووے کہا کہ دشمن کو بتا دو ہم پاکستانی واقعی ایک مشکل وقت میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن انشاء اللہ ہم اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے اور ایک دفعہ پھر تم پر حاوی ہو جائیں گے۔ دشمن کو خبردار کرنے والی یہ آواز 10 جنوری 2011 کو خاموش ہوگئی۔ یہ آواز جناب نصیراللہ بابر کی تھی۔ آخری دنوں میں بیماری کے باعث ان کی زبان میں تھوڑی سی لکنت آ چکی تھی لیکن انھیں جب بھی موقع ملتا وہ بستر علالت سے فون کرکے میرے ساتھ ملکی حالات پر تبادلہ خیال ضرور کرتے۔ 1993 سے 1996 کے درمیان بطور وزیر داخلہ ان کا کردار خاصا متنازعہ رہا اور ان پر تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن وہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ جب تک وہ صحت مند رہے تو ہر سال قائد اعظم کے یوم وفات پر بانی پاکستان کی بخشش کے لیے پورا قرآن پڑھتے رہے۔ میرے ساتھ ہمیشہ خصوصی شفقت کرتے اور میں نے پاکستان کی سیاست و تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے نصیراللہ بابر سے بہت کچھ سیکھا۔ انھیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ انھوں نے ایک فوجی افسر کی حیثیت سے 1948، 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور دو مرتبہ ستارہ جرات اور ایک مرتبہ ہلال جرات حاصل کیا اور پھر جب جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا دور میں انھیں گرفتار کرکے فوجی عدالت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے اپنے میڈل جج کی کرسی پر بیٹھے ہوئے فوجی افسر کے منہ پر دے مارے۔ وہ ہماری سیاسی تاریخ کے کئی رازوں کے امین تھے۔ میں جب بھی تقاضا کرتا کہ ایک کتاب لکھ ڈالیں تو نصیر اللہ بابر مسکراتے ہوئے کہتے کہ ایک نہیں کئی طوفان آ جائیں گے۔ نصیر اللہ بابر نے آرمی ایئر ڈیفنس کے میجر کی حیثیت سے کشمیر کی آزادی کے لیے ترتیب دیے گئے آپریشن جبرالٹر میں حصہ لیا تھا۔ کشمیر کے ساتھ ان کے قلبی لگاؤ کی وجہ ان کا بچپن تھا۔ انھوں نے 1939 سے 1941 تک برن ہال اسکول بارامولا میں تعلیم حاصل کی۔ یہ اسکول 1947 کے بعد ایبٹ آباد میں منتقل ہوا۔ 1965 کی جنگ میں بھارتی ایئر فورس نے راولا کوٹ کے آس پاس پاکستانی فوج کے مورچوں پر بمباری کی تو میجر نصیراللہ بابر اپنے ایک ساتھی پائلٹ کے ہمراہ زخمیوں کی تلاش میں ہیلی کاپٹر لے کر نکلے۔ غلطی سے دشمن کے علاقے میں جا اترے لیکن حواس قائم رکھے۔ دشمن کی چیک پوسٹ میں سکھ رجمنٹ کے 70 افسران اور جوان موجود تھے۔ نصیر اللہ بابر نے انھیں ڈرا دھمکا کر ہتھار ڈالنے پر مجبور کیا، تمام ہتھیار ہیلی کاپٹر میں رکھے، ساتھی پائلٹ سے کہا کہ ہتھیار لے کر راولا کوٹ چلے جاؤ اور خود ایک رائفل ہاتھ میں تھام کر 70 جنگی قیدیوں کو کئی کلومیٹر پیدل چلا کر اپنے علاقے میں لے آئے۔ یہ ہماری جنگی تاریخ کا ایک دلچسپ اور انوکھا واقعہ تھا۔
1971 کی پاک بھارت جنگ میں وہ ایک دفعہ پھر آزاد کشمیر میں تھے اور اس مرتبہ آرٹلری ڈویژن کے بریگیڈیر کی حیثیت سے اگلے مورچوں پر لڑتے ہوئے دشمن کی ایک توپ کا گولہ لگنے سے شدید زخمی ہوگئے۔ 1972 میں انھیں آئی جی ایف سی بنایا گیا تو وہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ہمراہ جنوبی وزیرستان اور مہمند لے کر گئے اور وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرائے۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت نے افغانستان کے راستے سے صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مداخلت شروع کر رکھی تھی۔ اکتوبر 1973 میں ان کے ایک افغان دوست حبیب الرحمان نے انھیں استاد برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے ملوایا۔ اس ملاقات کے بعد نصیر اللہ بابر نے وزیر اعظم بھٹو کو مشورہ دیا کہ اگر پاکستان کی طرف سے افغانستان کے اسلام پسند مزاحمت کاروں کی مدد کی جائے تو افغانستان میں بھارت کا اثر و نفوذ روکا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم بھٹو نے ہاں کر دی اور یوں نصیر اللہ بابر نے ربانی، حکمت یار، اور احمد شاہ مسعود کو ایف سی کے کاغذوں میں فرضی ناموں سے کلرک بھرتی کرکے پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بنا دیا۔ بعد ازاں جب افغانستان میں روسی فوج داخل ہوئی تو پاکستان میں بیٹھے ہوئے انہی افغان مزاحمت کاروں نے وہ جہاد شروع کیا جس کا سہرا امریکا نے جنرل ضیاء الحق کے سر پہ باندھ دیا۔ نصیر اللہ بابر اکثر مجھے حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے باہمی لڑائی جھگڑوں کے قصے سناتے اور بتاتے کہ ان سب کو اکٹھے رکھنا کتنا مشکل تھا اور کس طرح وزیر اعظم بھٹو نے ان مزاحمت کاروں کے ذریعہ دباؤ ڈال کر افغان حکمران سردار داؤد کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے سب کچھ بدل دیا۔
نصیر اللہ بابر 1975 سے 1977 تک خیبر پختونخواہ کے گورنر تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو 1977 میں انھیں گورنر کے عہدے سے ہٹا کر پنجاب لانا چاہتے تھے تاکہ پنجاب میں بیٹھ کر بھارتی پنجاب کے سکھوں کی تحریک آزادی کو منظم کیا جائے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ خالصتان تحریک کے ذریعہ بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیر کو آزادی دلوائی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سکھ رہنماؤں سے رابطے بھی ہو چکے تھے۔ لیکن بھٹو حکومت ختم ہو گئی اور جنرل ضیاء الحق خالصتان تحریک کو آگے نہ بڑھا سکے۔ 1995 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے مجھے طالبان سے ملوایا اور پھر انہی طالبان کے ذریعہ میں القاعدہ کی قیادت تک پہنچا۔ نومبر 1996 میں نصیر اللہ بابر نے ملا عمر، احمد شاہ مسعود اور عبدالرشید دوستم کے درمیان صلح کی تیاری مکمل کر لی تھی۔ اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ لیکن ایک دن پہلے بے نظیر بھٹو حکومت ختم ہوگئی اور ایک بڑا بریک تھرو نہ ہوسکا۔ نصیر اللہ بابر کہا کرتے تھے کہ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا تو آج اس خطے کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔
نصیر اللہ بابر نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد 27 جولائی 1977 کو پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور آخری دم تک پارٹی سے وفادار رہے۔ انھوں نے این آر او کی شدید مخالفت کی تھی جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو ان سے ناراض بھی ہوئیں لیکن بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پشاور جا کر ان سے خود کہا کہ آپ ٹھیک کہتے تھے کیوں کہ مشرف دھوکہ باز نکلا۔ نصیر اللہ بابر نے رابرٹ اوکلے سے 50 کروڑ روپے لے کر طالبان تحریک کو منظم کیا اور پھر یہی طالبان امریکا کے دشمن بن گئے۔ ان کے طالبان سے لے کر امریکا تک ہر طرف روابط موجود تھے اور انہی روابط سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کا ذمہ دار پرویز مشرف ہے۔ وہ ان چند بزرگوں میں سے ایک تھے جو اپنے وجدان کی بنیاد پر ہمیشہ پاکستان کے لیے پرامید رہے۔ ان کی آخری ٹیلی فون کال ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ بوڑے شیر نے للکارتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا، ہمارے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا البتہ ہمارے دشمن ضرور تباہ ہو جائیں گے۔