سمیع اللہ ملک، لندن
دریائے نیل دنیاکے ان چندبڑے دریاؤں میں آتاہے جس کے کنارے صدیوں سے انسانی تہذیب بنتی اور بگڑتی رہی ہے۔یہ دریا جہاں فرعون اورموسیٰ کی داستان کاامین ہے‘ وہیں آج کے استعمارکے تعیش‘رنگارنگی اور تسلط کی کہانی بھی بیان کرتاہے۔ بجرہ اس کے ساحلوں سے روانہ ہوا تومیں اس کے عرشے پربیٹھادونوں جانب بلندوبالا ہوٹلوں کی عمارتوں میں جلتی بجھتی روشنیوں اور مرصع کمروں کی کھڑکیوں کے باریک پردوں سے جھانکتی زندگی میں کھوگیا۔ نیل جس میں کناروں سے اچھلتا‘جھومتا ‘گاتاپانی آج بھی اس کی ہیبت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس دریاکے کنارے ساراسال ساحلوں سے باہرامڈتے پانی سے بھرے رہتے ہیں اوراس میں بڑے بڑے جہاز روزانہ لاکھوں سیاحوں کولے کرکبھی موجوں کے ساتھ ساتھ اور کبھی موجوں کے مقابل رواں دواں ہوتے ہیں۔ رات ہوتے ہی ان بجروں پردنیاکی ہرقوم سے آئے ہوئے لوگوں کاتانتابندھ جاتاہے۔ فرعون اور قلوپطرہ کے دربار کی تصویروں والی پینٹنگز سے مرصع دیواریں ان دونوں کرداروں کی کہانیاں بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں جن کوہرسیاح بڑے غوروانہماک سے دیکھ کرتصورات کی دنیامیں پہنچ جاتاہے۔
جولیس سیرزجوروم کابادشاہ تھااس نے اپنے جنرل مارک انتھونی کومصرفتح کرنے بھیجامگروہ خودمفتوح ہوگیا۔اس نے جب مصرکی ملکہ قلوپطرہ کودیکھاتوساری جرنیلی کافورہوگئی حالانکہ وہ روم کاایسا جری جرنیل تھاکہ کہیں سے ناکام نہیں لوٹا تھا مگرقلوپطرہ کی اداوٴں نے اسے شکست دیدی۔انتھونی نے خودکشی کرلی تھی اس لئے کہ وہ ناکام حالت میں اپنے بادشاہ کا سامنانہیں کرناچاہتاتھا۔قلوپطرہ کواس کی خودکشی کاعلم ہواتواس نے اپنی کنیزخاص کوطلب کیاجس کے پاس پٹاری میں زہریلی ناگن ہواکرتی تھی تاکہ کبھی اسے خودکشی کی ضرورت پیش آئے تواس پٹاری میں اپناہاتھ داخل کردے۔کنیزنے قلوپطرہ کی خواہش پراس زہریلی ناگن کوقلوپطرہ کے سینے پرچھوڑدیاجس کے کاٹنے پروہ فوری طورپرآنجہانی ہوگئی اوراس طرح یہ دیومالائی کہانی اب مصرکی تاریخ کاایک حصہ بن گئی ہے۔
فرعون کے بارے میں قرآن سے بڑھ کراورکہاں گواہی مل سکتی ہے۔فرعون جوایک بڑی وسیع و عریض حکومت کا مالک تھااورخداکی زمین پراپنے ظلم وستم کی بناء پرخدائی کا دعویٰ کربیٹھا۔ جب اس کے درباری نجومی نے اسی کی سلطنت کے ایک بچے کے ہاتھوں اس کی بربادی کی خبرسنائی تواس نے اپنی سلطنت میں پیداہونے والے ہزاروں بچوں کو موت کے گھاٹ اتاردیالیکن اسے یہ نہیں معلوم تھاکہ اس تمام ظلم وستم کے باوجود کائنات کارب اس بچے کوبالآخراسی کے گھرمیں پہنچادے گاجہاں اسی کے ہاتھوں اس کی پرورش ہوگی ۔بالآخروہی بچہ اللہ کاجلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ کلیم اللہ بن کراس کے دربارمیں اللہ کایہ پیغام لیکر پہنچاکہ وہ اللہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینے کیلئے مبعوث ہواہے۔جنہوں نے اس کے پیغام کودل سے قبول کرتے ہوئے اللہ کی غلامی اختیارکی وہ کامیاب ہوئے اورنافرمانوں کے حصے میں دنیاوآخرت کی رسوائی کے سواکچھ حاصل نہ ہوسکااوروہ فرعون جوخودکوسب سے بڑاخداکہلواتاتھا،نیل کی لہروں میں غرق ہوگیا لیکن اللہ نے کی لاش کودنیامیں محفوظ رکھ چھوڑاتاکہ آئندہ بھی خدائی کا دعویٰ کرنے والے اس سے عبرت حاصل کرسکیں۔
دنیابھرکے سیاح آج بھی اسی دریائے نیل میں مختلف سفری بحری جہازوں میں بیٹھے لطف اندوز ہوتے ہیں جہاں چاروں طرف نظارے کے لئے کھڑکیاں اورکسی بڑی پارٹی کی طرح میزیں سجی ہوتی ہیں۔کھانا چن دیاجاتاہے اور پھر درمیان میں سجے پنڈال پرعرب موسیقی کی تال پررقص کاآغازہوتاہے۔ دنیاکے غریب اور مفلوک الحال لیکن نسبتاً سفید چمڑی اور خوبصورت نقش رکھنے والے ملکوں سے نوجوان لڑکیاں برآمد کی گئی ہیں جنہیں مصری رقص بیلے کے آداب سکھائے جاتے ہیں اورپھرسیاحت کے نام پرمصر کے زرمبادلہ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کھاناختم کرتے ہی میں عرشے پرچلا گیاکہ میرے لئے یہ غربت میں گندھا ‘ دوردیس میں کسمپرسی کے عالم میں کیاگیا رقص ناقابل برداشت تھا۔ لیکن عرشے پربیٹھنا بھی عذاب سے کم نہ تھا ۔ ساحلوں کے ساتھ ساتھ دونوں جانب دنیاکے بڑے بڑے ہوٹلوں ‘نائٹ کلبوں اور کیسینوں کی عمارتیں تھیں جن میں انہی عالمی طاقتوں کے شہری سیاحت کے نام پرعیش وعشرت کے چند یوم گزارنے آتے ہیں۔ صرف گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۰ء میں چار کروڑ سیاح اس سرزمین پرآئے ‘اہرام اورابولہول کے مجسموں کے گرد گھومے‘فرعون کی لاش کانظارہ کیا‘خان خل بلی کے بازار سے سووینئر خریدے اور رات نیل کے ساحلوں پررقص وسرود سے لطف اندوز ہوکرواپس چلے گئے۔
یوں تویہ سب بہت خوبصورت لگتاہے۔ایک رنگ رنگیلی دنیاہے جوآباد ہے۔لیکن اس سارے رنگ اورروشنی کے سیلاب نے مصرکی غربت وافلاس کوکم نہیں کیا۔ایساکیوں ہے۔ چندسال پہلے اپنے ملک میں ہم یہ قصے سناکرتے تھے کہ مصر کو دیکھو جب اسرائیل سے سمجھوتا کرنے لگا تواپنے سارے قرضے معاف کروالئے۔ ایک ہم ہیں کہ مفت میں دوسروں کی جنگ لڑرہے ہیں۔ہمارے لیڈروں میں نہ غیرت ہے اورنہ ہی بکنے کاسلیقہ۔ لیکن حیران ہوجائیے کہ بکنے کاسلیقہ بھی مصر کا مقدر نہیں بدل سکا۔۵۵فیصدلوگ آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ بھیک مانگنے اوربخششیں طلب کرتے مصری آپ کو ہرجگہ ملیں گے۔
دکاندار چارمختلف زبانیں‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘جرمن تک بولنا جانتے ہیں لیکن اس سب پرعبورکامقصد صرف سیاحوں کومختلف طریقوں سے لوٹ کرروزی روٹی کمانا ہے۔ جس جگہ سیدناامام حسین کے سرمبارک دفن ہے‘وہاں خوشبو لگانے سے لے کر زیارت کروانے‘ وضوکی جگہ دکھانے اوردیگرطریقے سے بخششیں طلب کرنے والوں کاہجوم ہے۔ اہرام کی طرف جانے والی سڑکیں جن پرلاکھوں سیاح آتے جاتے ہیں۔ہرلمحہ تعمیرکے مراحل میں رہتی ہیں کہ ٹھیکیداروں اور محکمے والوں کایہ ذریعہ رزق ہے۔ ناپائیدار سڑک بنائی جاتی ہے اورنہ کام کی طلب ختم ہوتی ہے۔ تیل اورگیس کی دولت سے مالامال ‘ اسوان ڈیم اور نیل کے پانیوں سے بہترین کپاس اورسبزیاں پیداکرنے کے باوجود اسرائیل کوتسلیم کرنے اور امریکی امداد حاصل کرنے میں دنیا کے سب سے بڑے ملک ہونے کے باوصف اس ملک میں نہ غربت ختم ہوسکی نہ افلاس‘ نہ خوشحالی آسکی اورنہ ہی عام آدمی کے حالات بدل سکے۔
یہ سب سوچتامیں اچانک اس چبوترے پرآنکلا جہاں صدرسادات کو قتل کیاگیاتھا۔ پریڈکا یہ چبوترہ ایک یادگارہے جس کے سامنے سڑک کی دوسری جانب سادات دفن ہے اور اس کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کاوہ معاہدہ بھی دفن ہے۔ کیونکہ کوئی مصری یہ نہیں جانتاکہ اس معاہدے میں کیاتھاجس پردستخط کئے گئے لیکن عام مصر کاشہری خواہ ٹیکسی ڈرائیورہویاہوٹل کابیرہ‘ مزدور ہویا سکول کااستاد‘آپ اس سے بات کرکے دیکھیں وہ پھٹ پڑے گا۔ تضحیک کے ساتھ ان لوگوں کے نام لے گاجنہوں نے اپنی قسمت بنانے کے لئے ان کی غیرت وحمیت کوبیچ ڈالااوراس خریدو فروخت میں مصریوں کے ہاتھ ذلت کے سوا کچھ نہ آیا۔
ایمن الظواہری کے والد کے کلینک کے پاس کھڑے ایک شخص سے میں نے سوال کیا یہ شخص کون تھا؟ اس نے وہاں لٹکتی نام کی تختی کو بوسہ دیتے ہوئے کہا ، پورا خاندان عظیم ہے۔ اس کاباپ قاہرہ کاسب سے بڑاڈاکٹر اورغریبوں کاہمدردتھا اور وہ خود اب ہماری جنگ لڑرہاہے۔مصرکی قدیم یونیورسٹی جامعہ الازہرجہاں میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مدعوتھا وہاں میں نے دلچسپی سے ایساہی ایک سوال ایمن الظواہری کے بارے میں طلباء کے ایک گروہ میں کھڑے ہوکرپوچھنے کی جسارت کردی کہ وہ تودہشت گرد ہے؟ وہاں موجود تقریباً ہر ایک کی آنکھوں میں خون اترآیا۔ تم صحرائے سینا سے گزرکرغزہ جاؤ‘ پھر عراق بھی جاؤ،پاکستان سے گزرکرافغانستان کاآنکھوں دیکھاحال دیکھنامت بھولنا اور اگر ہو سکے تو کشمیریوں کی چیخ وپکاراوران پرہونے والے ظلم وستم کی تصاویرکوبھی ذہن میں اتارلینا۔پھرتمہیں پتہ چلے گا کہ دہشتگرد کون ہے؟ کیاتمہیں پتہ ہے کہ کشمیراورفلسطین میں اب تیسری نسل اپنی جانوں کانذرانہ دیکرہمارے ضمیروں کو کچوکے لگارہی ہے ۔عراق میں اب تک امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق۱۴۵۵۶۱۳ بیگناہ شہریوں کوموت کے گھاٹ اتاراجاچکاہے اور اب تک ایک لاکھ سے زائد معصوم کشمیریوں کونہ صرف تہہ تیغ کیاجاچکاہے بلکہ چھ ہزارسے زائد ہماری بہنوں کوبے آبرو کر دیا گیاہے اورفلسطین کی توبات ہی مت پوچھوکہ وہاں ہرپیداہونے والے بچے کے کان میں جہاں اذان اوراقامت کہی جاتی ہے وہاں اس کی شہادت کی دعابھی کی جاتی ہے۔ ہزاروں میل دور سے آنے والوں غاصبوں کے سامنے ہماری عورتیں رقص اورغیراخلاقی کاموں کیلئے میسررہیں توہم مہذب ہیں ورنہ دہشت گرد۔
ایک نے سوال کیاتم کہاں سے آئے ہو۔ میں نے کہاپاکستان سے۔ایک دم بول پڑا۔ ابواعلیٰ مودودی کاپاکستان ۔میں نے پوچھاتم جانتے ہو‘ کہنے لگاپورا مصر جانتاہے۔ ہم سیدقطب کوجانتے ہیں اور سیدقطب نہ ہوتا اگر مودودی نہ ہوتا۔ حیرت میں گم یہ سوال میں نے ہرکسی سے کیاتوایک ہی جواب تھا مصر اس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتا جب تک سیدقطب کی راہ پرچل کرغلامی کاطوق نہیں اتار دیتا اوریادرکھوجس دن پاکستان نے ایٹمی دہماکہ کیاتھااس دن دنیابھرکے مظلوم اوربیکس مسلمانوں کے دلوں میں بیشمارامیدوں کے چراغوں نے ناامیدی اوربے بسی کے اندھیروں کورخصت کر دیا تھا ۔ امت مسلمہ کی ایک کثیرتعدادنے ایک دوسرے کومبارکباددیتے ہوئے دیوانہ وارمساجدکارخ کیااور اپنے سروں کوخالق حقیقی کے سامنے جھکا کر پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگی تھیں۔لیکن کیاوجہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ میں سب سے زیادہ مشکل ترین وقت پاکستان پرہے؟
یہ تاریخ کاکتناسچاجواب ہے جوہرمصری کی زبان پرہے۔کل کی بات ہے‘برازیل ایسے ہی غلامی کاطوق پہنے۱۲۰ /ارب کے قرضے لئے غربت میں جی رہاتھا۔ اچانک سب نے اسے کہاقرضے واپس کروورنہ دیوالیہ ہوجاؤگے۔ اس نے کہامیں امیزون دریاکے جنگلات کاٹ کرقرضہ واپس کرتاہوں ۔سب چیخ اٹھے یہ تودنیاکے پھیپھڑے ہیں۔ برازیل نے کہا تو پھر مجھے اس آکسیجن کاکرایہ اداکرو جوتم ان پھیپھڑوں سے حاصل کرتے ہو۔ غلامی کاطوق اترچکاتھا۔غیرت کے دن آگئے تھے۔ آج خودامریکہ برازیل کی حیثیت سے خوفزدہ ہے۔ جنوبی امریکہ کے جس ملک نے امریکی غلامی کاعالمی امداد کا قلاوہ گردن سے اتارا اورترقی کرگیا اورجوقرضے معاف کرانے‘عالمی طاقتوں کو خوش کرنے‘ خوف کے عالم میں معاہدے کرتے رہے وہ خواہ فلپائن ہو‘تھائی لینڈ ہو،پاکستان ہویامصرانہیں اپنی سرزمین پرعیش وعشرت‘رقص وسرودکی محفلیں اور ان روشنیوں اوررنگوں میں چھپے غربت وافلاس کے آنسووٴں کے سواکچھ حاصل نہ ہوسکا۔
بروزجمعتہ المبارک۷ شعبان ۱۴۳۲ھ۸جولائی ۲۰۱۱ء
لندن