سمیع اللہ ملک
نئے عیسوی سال کوشروع ہوئے کچھ دن ہوگئے ہیں اورمیری دعاہے کہ یہ سال امن وسلامتی اورمسائل کے مداواکاپیغام لیکرآئے اورملک میں چھائی ہوئی پژمردگی ،مہنگائی،کرپشن اورناانصافی سے قوم کونجات مل سکے۔سیاسی تجزیہ نگاراس کوپاکستان میں اہم سیاسی تبدیلیوں کے سال سے تشبیہ دے رہے ہیں اورواقعات وحالات بھی اس کی تائید کی طرف اشارہ کرتے نظرآتے ہیں۔پاکستان کی بڑی سیاسی قوتیں،مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،کرپشن اورامن وامان کی بگڑتی ہوئی صور حال کے پیش نظرموجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے پوری قوم کومیدان میں اترنے اور ملک میں فوری انتخابات کامطالبہ کررہے ہیں ۔ملک کے مجموعی سیاسی حالات بھی بتاتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ہاتھوں سب کچھ تیزی سے نکل رہاہے۔سپریم کورٹ میں موجودہ حکومت کے زیرسماعت اہم ترین تمام مقدمات نہ صرف ختم ہوچکے ہیں بلکہ ان پرعملدرآمدکے فیصلے بھی حکومت کے لئے شدیدپریشانی کاباعث ہیں۔
دوسری طرف جوڈیشنل کمیشن نے میموسکینڈل کی تحقیق کاآغاکرتے ہوئے آئندہ ایک مہینے میں اس کی تحقیقات مکمل کرنے کاعندیہ دیاہے۔بظاہر لگتایوں ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے بعد اس سکینڈل کے اثرات حکومت کیلئے انتہائی سنگین اور مزیدپریشانی کاپیغام لیکرآسکتے ہیں۔خودوزیراعظم یوسف رضاگیلانی بھی اس بات کااقرارکررہے ہیں کہ آئندہ چند ہفتے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن وہ اس بات سے پرامیدبھی ہیں کہ آئندہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات تک سیاسی سرگرمیاں عروج پررہیں گی لیکن اس کے بعدیہ گردبیٹھناشروع ہوجائے گی لیکن موجودہ حالات سینیٹ کے انتخابات تک مہلت دکھائی دیتے نظرنہیں آتے اورکچھ ایسے سنگین مسائل سراٹھارہے ہیں جو حکومت کے مستقبل کیلئے سوالیہ نشان بن سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ”کرائے کے بجلی گھروں“ کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے کرپشن کے مقدمے کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اورعدالت نے اس اہم مقدمے کافیصلہ فی الحال محفوظ کرلیاہے اوراس کافیصلہ کسی بھی وقت آسکتاہے۔اس مقدمے کی اہمیت اس لئے بہت اہم ہے کہ حکومت کی کابینہ کے ایک اہم سنیئر وزیرصالح حیات نے ۷/اکتوبر۲۰۱۰ء کو ملک کے سب سے بڑے کرپشن کے مقدمے میں گواہی دیتے ہوئے ٹھوس ثبو ت اورشواہدسپریم کورٹ میں جمع کروائے جس میں انہوں نے اس کرپشن میں ملک کی دواہم سیاسی اورانتہائی اعلیٰ آئینی عہدیداروں کوملکی دولت کے اربوں روپے لوٹنے کاذمہ دارقراردیا۔ دوسری جانب این آراوکیس کے فیصلے پرپچھلے ڈیڑھ سال سے حکومت نے عملدرآمدنہیں کیا۔ منگل ۳جنوری ۲۰۱۲ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت اور قومی احتساب بیورو کو آخری موقع دیا ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر این آر او پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا تو خواہ کوئی بھی شخص چاہے جتنے بڑے عہدے پر فائز ہوا، اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔عدالت نے سیکرٹری قانون کو حکم دیا کہ۱۰ جنوری کو آئندہ سماعت کے موقع پر سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق سمری کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کو سپریم کورٹ نے این آر او سے متعلق اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں ہدایات جاری کی تھیں تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اس لیے ان کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک مقدمات نہیں کھولے جا سکتے۔عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا سے کہا کہ عدالت نے این آر او سے مستفید ہونے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات کو ۵ /اکتوبر ۲۰۰۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ بتائیں کہ اس ضمن میں اب تک کتنے مقدمات بحال ہوئے ہیں اور اس میں کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل مولوی انور الحق نے کہا کہ این آر او پر عمل درآمد سے متعلق کام اس لیے شروع نہیں کیا جا سکا کیونکہ حکومت نے عدالت سے این آر او فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔
سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک میٹرک پاس شخص عدنان خواجہ کو تیل اور گیس کے سرکاری ادارے او جی ڈی سی کا سربراہ مقرر کیا گیا حالانکہ یہ پیشہ وارانہ عہدہ ہے اس کے علاوہ مذکورہ شخص نیب سے سزا یافتہ بھی ہے۔ اسی طرح نیب کے ایک اور سزا یافتہ شخص احمد ریاض شیخ کو ایف آئی اے یعنی وفاقی تحقیقاتی ادارے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل لگا دیا گیا۔عدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کیا جن لوگوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے ؟جس پر پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ نیب میگا سکینڈل کی تحقیقات کر رہا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ۱۴ دسمبر کو سپریم کورٹ نے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر صدر، وزیراعظم سمیت متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کیا تھا۔اس سے پہلے وفاقی حکومت کی طرف سے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جسے۸ دسمبر کو مسترد کر دیا گیا تھا اور عدالت نے اپنے ۱۶ دسمبر کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس آرڈیننس سے مستفیذہونے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات کو ۵/ اکتوبر ۲۰۰۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔فاسق کمانڈوپرویز مشرف کے دور میں جاری ہونے والے اس آرڈیننس کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیے گئے تھے۔سپریم کورٹ میں جمع کراوئے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں اور رہنماں کے خلاف سینکڑوں فوجداری مقدمات تھے جو اس آرڈیننس کے تحت ختم کر دیے گئے۔این آراوپرعدالتی احکام پرعملدرآمدکاسنگین بحران بھی منہ کھولے اس حکومت کونگلنے کیلئے تیاربیٹھاہے۔میموسکینڈل جس کی جوڈیشنل تحقیقات ملک کی تین ہائی کورٹس کے سربراہ کررہے ہیں جویقیناملکی سلامتی کاانتہائی اہم معاملہ ہے جس نے ملک کے دواداروں میں تصادم کی صورت حال پیداکردی ہے۔
حسین حقانی کے اس سارے معاملے میں ملوث ہونے کے بارے میں بھی فوجی حکام کی رائے ہے کہ وہ اس معاملے کے اصل مجرم نہیں ہیں اور اسی بنا پریوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس یا اس سے پہلے ہونے والے رابطوں میں پاکستانی فوجی حکام نے حسین حقانی کے مستعفی ہونے یا عہدے سے الگ کیے جانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ فوجی حکام اس بات پر قائل ہیں کہ یہ یادداشت پاکستانی فوجی قیادت کی توہین کے مترادف ہے جو کئی سالوں سے موجودہ سیاسی حکومت کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کیے ہوئی تھی ۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر کے مطابق جو سول حکومت کے ساتھ رابطے کا کام بھی کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اور فوج کے درمیان گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک طرح کے آئیڈیل تعلقات قائم تھے اوراب اس واقعے کی وجہ سے ان تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے جو بدقسمتی کی بات ہے۔
مسلم لیگ ن آجکل سارے ملک میں نئے انتخابات کے مطالبے کے ساتھ ایک تحریک چلا رہی ہے اورعین ممکن ہے کہ مسلم لیگ آئندہ چندہفتوں میں دباوٴ بڑھانے کیلئے اپناترپ کاپتہ استعمال کرتے ہوئے قومی اورصوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکرحکومت کواسمبلیاں تحلیل کرنے اورنئے انتخابات کیلئے مجبورکردے جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سیاسی قوت کے جوہردکھانے کیلئے مختلف شہروں میں جلسے شروع کردیئے ہیں ۔ان تمام حالات میں اگرحکومت واقعی مجبورہوجاتی ہے تودیکھنایہ ہے کہ پھرعبوری حکومت کاسیٹ اپ کیساہوگا؟عبوری حکومت میں کون سے ایسے افرادشامل ہوتے ہیں جوتمام جماعتوں اوراداروں کیلئے قابل قبول ہوں گے۔جنرل کیانی کی طرف سے کھلم کھلایہ عندیہ دیاگیاہے کہ وہ ہرحال میںآ ئین کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری سیٹ اپ کی حمائت کرے گی۔
ایک اوربات جوآئندہ ہفتوں کیلئے بہت اہم ہے کہ صدرزرداری کی صحت کس حدتک بہترہوتی ہے۔پچھلے دنوں خرابئی صحت کی بناء پرانہیں دوہفتے دبئی کے ایک ہسپتال میں گزارنے پڑے۔صحت کی خرابی سے تین گھنٹے قبل ان کی جو۲۵منٹ کی گفتگو صدراوبامہ اورپونے دوگھنٹے جنرل کیانی سے ہوئی تھی وہ بڑی تہلکہ خیزاورانتہائی اہمیت کی حامل ہے۔کیاحکومت اس کے مندرجات کبھی قوم کے سامنے لائے گی؟جبکہ ایک امریکی اخبارنے صدرزرداری کی اوبامہ سے گفتگو کوبے ربط قراردیتے ہوئے کچھ شکوک کااظہارکیاتھا اب دیکھنایہ ہے کہ صدرزرداری کی صحت کی بناء پرپیپلزپارٹی کی قیادت پرکیااثرات نمودارہوتے ہیں۔کیا پارٹی کی قیادت بدستورزرداری صاحب کے پاس رہے گی یاپھربلاول بھٹوکے سونپ دی جائے گی جبکہ بے نظیرکی برسی پرزرداری صاحب نے پہلی مرتبہ اپنی بڑی بیٹی آصفہ کابڑے معنی خیزاندازمیں نام لیتے ہوئے بے نظیرکاعلم اس کے ہاتھ میں تھمانے کااعلان کیاہے۔مجموعی طورپرحالات یہ بتاتے ہیں کہ تبدیلیوں کاوقت آن پہنچاہے۔اب یہ پاکستانی قوم کی ذمہ داری ہے کہ سمجھداری اورپوری ہوش کے ساتھ اپنی قسمت سنوارنے کیلئے کسی دیدہ ورکی تلاش کرے۔
نظرتلاش کرو دیدہ ور تلاش کرو خوداپنے دل سے خودی کاگوہرتلاش کرو
اجالے چھیننے پڑتے ہیں خودنہیں ملتے جبین شب کو تراشو سحر تلاش کرو
***