حکومت کی نااہلی اور بے بسی کی انتہا تھی۔ تین دن سے دھرنا دئیے ہوئے عوام کو ہمدردی کے دو بول کہنے کوئی نہیں آیا۔ بلوچستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نازک صورت حال کو سنبھالا دینے کی نہ تو کسی نے ہمت کی اور نہ ہی کسی میں ایسا شعور دیکھا گیا۔ وزیر داخلہ جو ہر جگہ پریس کانفرنس کرنے کا موقع تلاش کرتے ہیں کو بھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ وہاں جا کر ہمدردی میں پریس کا نفرنس کا انعقاد ہی کر دیتے ۔ قومی لیڈر شپ نے اس موقع سے فائد ہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس میں سب سے پہلے ایم کیو ایم نے پہل کی ۔ نوٹنکی کے استاد یہاں بھی سب سے پہلے پہنچے ۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں ہونے والے واقعات میں سوائے مہاجر کے کسی کا درد نہیں ہوتا لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں اگر کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو درد سے اس کا سینہ شک ہونے لگتا ہے۔کراچی میں ایم کیو ایم کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے مہاجر ہونا ہی کیوں ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی عوامی پارٹی ہونے کی دعویدار اور جمہوریت کے لیے شہادتوں کے لیے خود کو سرفہرست قرار دیتی ہے۔ بھٹو اور بی بی کے علاوہ بھی اس دنیا میں لوگ بستے ہیں ۔ ان کی دہائی کیوں نہیں دیتی ۔کدھر ہیں بلوچستان کے حقوق کے علمبردار ان کو اس بربریت اور سفاکی نے بھی بولنے پر نہیں اکسایا۔جلادوں کو مسیحا بنا کر پیش کرنے والوں نے اب کیوں اسمبلی توڑی اور کیوں گورنر راج لگایا۔ سپریم کورٹ نے واضح آرڈر دیا تھا کہ بلوچستان کی حکومت فیل ہو چکی ہے اسے مستعفی ہو جانا چاہیے یا اس کو ہٹایا جائے ۔اس کے باوجود لٹیروں نے مل کر سپیکر کی اس کوشش کو ناکام بنا کر حق کی آواز کو دبا دیا۔ آج اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑا ۔عوام نے قربانی دی اور عوام ہی قربانی دے گی۔ سرداروں کو پہلے بھی کسی نے نہیں پوچھا کیوں کہ اس سے بلوچستان کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں صرف سردار اور سرداروں کے مفادات ہی بستے ہیں اور سب کچھ فضول ہے۔ان سرداروں اور ان کے مفادات کا نام ہی بلوچستان ہے ۔یہ ایسی حقیقت ہے جس کو صرف سردار دشمنی سے منسوب کر کے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب تک سرداروں کو یہ استحقاق دیا جاتا رہے گا انہیں ہی بلوچستان قرار دیا جاتا رہے گا یہ مسلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا۔ملک کے دیگر حصوں میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں ۔ خیبر پختونخواہ تو ایک عرصہ ہوا اسے امن کی بہار دیکھے ۔ پنجاب میں بھی ایسے کئی روح گھائل کرنے والے واقعات ہیں۔ کراچی عرصہ دراز سے جل رہا ہے ۔کس نے دھرنا دیا ، کس نے لانگ مارچ کیا۔ چار سال گدھ اس قوم کو نوچتے رہے کسی کو پرواہ نہیں ہوئی۔یہ قوم لٹتی رہی لوٹنے والے بھی یہیں ہیں اور دھرنے والے او رلانگ مارچ والے بھی دیکھتے رہے۔اس قوم کی بے بسی اور راہنمائوں کی بے حسی دونوں قابل دید رہیں۔ اب تو کوئی اس ملک کی اس قوم کی بات کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے مداری اپنا سودا فروخت کرنے کیلئے مجمع لگا رہا ہے۔ادھر اپنا مطلب پورا ہوا تو سب کچھ سمیٹا اور یہ جا وہ جا ۔اس قوم کی تقدیر کو سبز گھاس بنانے اور اس کو خود کاٹنے والے اس قوم کے مسیحا کہلاتے ہیں۔ یہ مسیحا تصور کرتے ہیںکہ ہر مرض کا علاج کرنے کیلئے اپریشن کرنا اور مریض کا خون بہنا ضروری ہے۔یہ مریض اور اس کے لواحقین کو کبھی لیبارٹری اور کبھی میڈیکل سٹور پر دوڑاتے ہیں۔ مریض آخر میں دم دے دیتا ہے اور یہ کہتے ہیں اللہ کی یہی مرضی تھی۔بھئی اس کا علاج تو کیا نہیں پھر اس کو شفا کیسے ہوتی ۔ جن کا علاج ہوتا ہے ان کو موت کے منہ سے بھی چھین لیتے ہو۔ یہ قوم جن کو مسیحا جانتی ہے وہ اس قوم کے ساتھ قصائی سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ جس طرح قصائی اپنے ذبیحہ کے ہر حصے کی قیمت وصول کرتا ہے اس طرح یہ بھی قوم سے اس کے ہر دکھ ، ہر تکلیف ، ہر محرومی کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ عوام قصائی کی دوکان کے باہر چھچڑے اٹھانے والوں کی طرح منتظر ہوتے ہیں کہ کب ان پر بھی نظر کرم ہو گی۔ پھر یا ان کے حصے میں کوئی چھچڑا آتا بھی ہے تو وہ جس میں طاقت ہوتی ہے وہ لے اڑتا ہے ۔ کمزور منہ دیکھتے رہتے ہیں اور پھر اس رحم دل قصائی کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کب اگلی نوازش کرتا ہے ۔ قصائی کی دوکان کے سامنے دم ہلانا اور اس کے گرد چکر لگانا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جس کی دوکان پر چھچڑے سامنے نظر آرہے ہوں۔ کچھ ملنے کی امید پر وہ اسی دوکان کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں ۔ اس کیلئے وہ آنے والے دیگر حشرات اور جانوروں کو بھی ڈرا دھمکا کر دور کرتے ہیں۔ اس کے گاہکوں کے اگے دم ہلاتے ہیں ،ہو سکتا ہے وہ وفاداری دیکھ کر کچھ ڈال ہی دیں۔ وہ بھی کچھ نہیں ملتا تو کسی روڑی سے بچی روٹی کھا کر گذارا کر تے ہیں وہ عوام بھی ہاتھ پائوں مار کر پیٹ کا دوزخ بھر کر پھر سے چوکیداری کا فریضہ سرانجام دینے لگتے ہیں۔ جن کو کچھ مل جاتا ہے وہ باڈی گارڈ اور پروٹوکول کی ذمہ داری نبھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی زندگی اور یہی زندگی کا مقصد بنا دیا گیا ہے۔ خدا بھی یاد نہیں رسول بھی یاد نہیں۔ ہمارا ایمان تو روٹی کپڑا مکان ہے ۔ ہم نفس کے پجاری بنا دئیے گئے ہیں ۔ ہمیں اللہ اکبر بھلا دیا ہمیں یا رسول اللہ بھلا دیا گیا، ہمیں پاکستان بھلا دیا گیا۔بس یا د ہے تو جئے بھٹو ۔
نہ روٹی ملی نہ کپڑا تن پر سلامت رہا اور نہ ہی چادر اور چاردیواری کا کوئی تقدس ہے ۔غریب کی نہ کوئی عزت ہے اور نہ کوئی زندگی ہے ۔ اس کی اس کمزوری کو ہر کسی نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ یہ بھوکا ہر ڈگڈی کے اشارے پر ناچنے لگتا ہے کہ شاید اس دفعہ اس کی منزل حاصل ہو جائے ۔ ہر دفعہ دھوکا کھا کر اسے اپنا مقدر جان کر پھر سر جھکا کر زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ پھر کوئی اس کی توجہ کسی ڈگڈی سے اپنی طرف مبذول کر اکے اسے پیچھے لگا لیا جاتا ہے ۔ غریب کی ساری زندگی اسی طرح گذر جاتی ہے اور وہ اس دوران میں وہ احکامات الہیہ سے انحراف کرتا جاتا ہے۔ اس کیلئے کبھی وہ غربت کی منطق پیش کرتا ہے ۔ کبھی اسے روزی روٹی کی جدوجہد اس کی وجہ تسمیہ نظر آتی ہے۔ کبھی وہ اللہ کو غفور الرحیم قرار دے کر اپنے دل کی تسلی کرتا ہے ۔وہ یہ کبھی نہیں سوچتا کہ اس نے زندگی کی جدوجہد کبھی ترک نہیں کی ، اس نے معاشرتی ترقی کیلئے ہر حربہ استعمال کیا ۔ وہ ایسا خدا کی راہ میں بھی کر سکتا تھا۔ اس نے نہیں کیا لیکن پھر بھی وہ پر امید ہوتا ہے کہ اسے جنت تحفہ میں پیش کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا اسے دنیا میں بھی اس ذلت سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ دنیاوی مقامات کے حصول کیلئے جدوجہد اگر لازمی ہے تو کیا جنت ریوڑی ہے جو ان میں بانٹ دی جائے گی۔ پہلوان ریوڑی مقدر والے ہی کھاتے ہیں۔ سوہن حلوہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ ضمنی مثالیں ہیں ان کا کوئی تقابل آخروی عقبی سے نہیں کیا جاسکتا۔ بھوکے کو کھانے کی سمجھ آتی ہے ۔ دین کی بھوک ہم میں نہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی پیاس ہم میں نہیں ۔ عوام پیاسے ہیں بھوکے ہیں اس کیلئے وہ سرآب کے پیچھے بھی بھاگ پڑتے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی نااہلی ہے کہ وہ ان کے در سے نامراد ہو کر دوسرے در پر حصول تمنا کی مراد کیلئے جائیں۔ اب یہ چلاتے ہیں کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے آئین کا تحفظ کب اور کہاں تک کیا ہے۔ اس آئین کی بے حرمتی کے سب سے بڑے ذمہ دار وں کو اب جب اپنا بوریا بستر گول نظر آ رہا ہے تو انہیں آئین یا د کیوں آ رہا ہے۔انقلاب کی چاپ سن کر ابھی للے تللے کیوں شروع کر دئیے ہیں۔ یہ وقت آپ لوگوں کا دیا ہوا تحفہ ہے اسے قبول تو کرنا ہی پڑے گا۔