کافی دنوں سے سوشل میڈیا فیس بک پر ملالہ اور اس پر تنقیداور توصیف کرنے والوں میں گہری چھن رہی ہے۔ ابھی تک فوجیں آمنے سامنے ہیں اور مسلسل ایک دوسرے پر تنقید کے تیرونشر برسا کر ایک دوسرے کو چھلنی کرنے میں مصروف کا رہیں۔ یہ جنگ دو نظریات کے پیروکاروں اور تقلیدکاروں کی درمیان لڑی جارہی ہے۔ جس کا فیصلہ ایک دم ہونا ممکن نہیں البتہ وقت یہ بتائے گا کہ کون صیح تھا اور کون غلط تھا۔ ملالہ کے چاہنے والے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی بیٹی اور اس کے فخر کی علامت ہے۔ جبکہ دوسری طرف کا طبقہ فکر یہ کہتا ہے کہ وہ غیر ملکی استعمار کے ہاتھوں میں کھیلتا کھلونا ہے۔ اس نے بحث کو طول دے رکھا اور معاشرے میں نظریاتی کشیدگی اور نظریاتی کٹائو کی خلیج کو مزید وسعت دے کر معاشرے کے دو طبقات میں دوری مزید بڑھا دی ہے۔
طالبان ازم کے مخالفین ملالہ کی آڑ میں اپنے نظریات کا پرچار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس میں مغربیت پسندی کا عنصر بھی غالب ہے ۔ اس کے علاوہ اس نظریہ کے پرچار کرنے والوں کے مفادات میں مغربی نظریات وتہذیب کی دل پسندی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر مقیم ایک خاص طبقہ فکر جو کہ مغرب سے زیادہ متاثر اور اس کو مشرقیت سے زیادہ قابل ترجیح تہذیب گردانتے ہیں عام طور پر ایسے ہی مواقع کو اپنے نظریات کا پرچارکرنے کیلئے استعمال کر تے ہیں۔
تعلیم جس کیلئے ملالہ کو ماٹو اور سلوگن بنا کر پیش کیا جا تا ہے اگر غور کیا جائے تو اسلامی تعلیمات کی اہم ترین بنیادی تعلیم ہے۔علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے چین کا سفر کرنا پڑے ۔ علم حاصل کرو لحد سے محد تک ۔ علم ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ۔ان تعلیمات کا ماخذ کہاں ہے ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے کی یہ تعلیمات سرکار دوعالم ﷺ کی ہیں۔ اگر مسلمان معاشرے اس پر عمل پیرا نہیں یا اس کیلئے وہ مطلوبہ معیار فراہم کرنے سے کسی بھی وجہ سے قاصر ہیں تو پھر اس میں اسلامی تہذیب و معاشرت پر تشنہ زنی کرنااور اس کو مئورد الزام ٹھہرانا لاعلمی اور دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ علم دوست عناصر کے طور پر پاکستان میں بہت سی دیگر شخصیات نے بہت قربانیاں دیں اور ان کی علم دوستی قابل توصیف وتقلید ہے۔ خواتین کے حقوق اور ان کے علم اور دیگر حقوق کے حوالے سے بھی پاکستان میں ملالہ سے پہلے بھی بہت کام ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔ اس وقت بھی ملک میں بچیوں کی تعلیم کے مراکز کی تعداد اور ان میں توصیح و ترقی کی منازل لڑکوں سے بہتر ہیں۔
ملالہ کے پیغام یا اس سے کی ذات سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کو استعمال کرنے اور ہونے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ سیاستدانوں جیسے بیانات سے اپنی شخصیت پر لگے ہوئے دھبے مٹانے کی بیشک کوشش کی جارہی ہے لیکن حقائق کو چھپانا اتنا آسان نہیں۔ ملالہ نے جو تحریریں بی بی سی کو لکھیں جو اس کی ڈائری کے طور پر شائع کی گئیں وہ اور اس کی کتاب کے اقتباسات کو اگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں تحریری اسلوب کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتاہے۔ اس میں جن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے وہ ایک دور آفتادہ علاقے کی محصور بچی کی ذہنی اپروچ سے بہت بالا ہیں۔ وزارت داخلہ و خارجہ کے اہم ترین امور پر دسترس اور حقائق تک رسائی یہ دکھانے بتانے اور سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ یہ کسی بچی کی تحریر اس کے دماغ کی اختراع نہیں بلکہ کسی مصنف کی ڈائریکشن میں لکھوائی ہوئی تحریر ہے۔بچے جینئس بھی ہیں اور اس کی کئی امثال وقت عصر میں موجود ہیں لیکن ان کی آب بیتی اور ملالہ کی بیان کردہ آب بیتی بھی یہ فرق واضح کرنے میں ممدد ہے کہ اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف تعصب رکھنے والے اور اسلام دشمن عناصر اسے خواتین کے حقوق کا استعارہ بناکر استعمال کر رہے ہیں ۔ سوش میڈیا پر اسے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ ملالہ کو گولی نہیں لگی بلکہ یہ ایک ڈرامہ سٹیج کیا گیا۔اگر ملالہ کو گولی لگنے کے بعد پاکستان میں طبعی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں پھر اس قدر پیچیدہ آپریشن کی سہولت دی جا سکتی ہے تو پھر اس کا دیا ر غیر میں چلے جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس پیچیدہ ترین آپریشن کے بعد اسے اتنی جلدی صحت یاب ہو جانا اور عالمی میڈیا پر اسے لے آنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ درپردہ حقائق کچھ اور ہیں۔
یقینا معاشرے میں خواتین کے حقوق پر بہت کام ہونا باقی ہے لیکن اس کو اسلام اور مشرقیت کے خلاف استعمال کرنے کی جو پیش بندی کی گئی ہے اور اس کیلئے اس معاشرے کے ایک رکن کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی جو روایت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ اس سے پہلے بھی موجود ہے اور اگے بھی چلتی رہے گی۔ ایسے بہت مظلوم معاشرے میں موجود ہیں اور ایسی کئی خواتین بھی موجود ہیں جنہوں نے ملالہ سے کہیں اگے جا کر معاشرے کی خدمت اور خواتین کے حقوق کیلئے کام کیا ہے۔ اس کے باوجود انہیں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ ان کی محنت کام لگن کو تسلیم نہیں کیا گیا تو کیا وجہ ہے کہ ملالہ کو اس قدر پرموٹ کیا جارہا ہے۔ مقصد اسلام اور پاکستان پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس سے طالبان کے خلاف محاذ آرائی کو استعمال کرنے اور پاکستان کو طالبان کا حمایتی ثابت کرنے کی کوشش کے سوا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے ۔وہی ملالہ جو پاکستان آرمی کے خلاف بات کرتی ہے اس کو بچانے والی پاکستان آرمی ہے۔ اس کے گھر بار اور اس کے علاقے کو طالبان کے قبضے سے چھڑانی والی پاکستان آرمی ہے۔ پھر بھی بغض معاویہ میں سب ہی گنہگار ٹھہرے ۔حالانکہ یہ بات ثابت ہے کہ طالبان اسلام کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں۔ یہ نہ صرف اسلام دشمن ہیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کا جتھا ہیں۔ اس میں انڈیا اور امریکن ایجنٹس کی موجودگی کے بھی ثبوت دکھائے جاچکے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی طالبان ازم کو پاکستان سے منسوب کرناحقائق سے چشم پوشی اور دشمنی برائے دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں تمام لوگوں خواہ وہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں یا اکثریت سے ایک جیسے ہی مواقع دستیاب ہیں۔ جس کے پاس کچھ دولت ہے وہ معاشرے میں سے اپنے لیے بہتر تمدن وتہذیب کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے۔ ہرطرح کی آزادی ہے جو مذہبی اور تمدنی دونوں طور پر ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ اقلیتیں بعض اوقات خود ہی اپنی حدود سے باہر جاکر اپنے لیے مسائل پیدا کر لیتی ہیں۔ جس میں کسی طرح بھی اکثریت کا کوئی قصور نہیں ہوتا ۔ کسی بھی اکثریتی معاشرے کی روایات کو اقلیت چیلنج کرنے لگے تو اس میں قصور اکثریت کا نہیں اقلیت کا ہے۔ پاکستان بنیاد پرست ملک ہے لیکن اس کی بنیادی پرستی کا سب سے خوبصورت پہلو یہی ہے کہ اس میں اقلیتوں کو بھی بنیادی حقوق تک رسائی کے پورے مواقع موجود ہیں۔ ایسے میں ملالہ یا پر ملامت ڈرامے پاکستانیوں کے دل پر چرکے لگاتے ہیں کہ وہ تو سب کیلئے اچھا سوچتے ہیں پھر سب ان کیلئے کیوں برا سوچتے ہیں۔ برا سوچنے والوں کو دیکھناچاہیے کہ ان کا اپنا کیا کردار ہے ۔ کیا ملالہ کے علاوہ کشمیر فلسطین افغانستان چیچنیا بوسینا عراق شام اردن مصر لیبیا سوڈان منیمار میں کتنی ملالہ بے آسرا پڑی ان کی توجہ کی منتظر ہیں ۔ کیا انہوں نے ڈرون حملوں میں جان س جانے والی ملالہ کے جینے کے حق کے بارے میں کبھی سوچا۔ ایک ملالہ کو لے کر لاکھوں ملالہ نظر انداز کرنے والوں کو اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔