نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا ہوں
دنیائے ادب میں میر تقی میر کا تین سو سالہ جشن منعقد کیا جارہا ہے ۔ ترجیحات رسالے میں میر کے حوالےسے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں تاکہ ہم بھی جشن میر میں شامل ہوسکیں ۔ اس شمارے میں ادارے کے طور پر میر کے حوالے سے یہ مضمون شامل کر رہا ہوں ۔
تفہیم میر کی چند جہتیں
اس سے پہلے کہ موضوع پر کچھ بات کروں ۔ ایک حقیقت کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتا چلوں بلکہ ایک المیہ کی طرف آپ کو متوجہ کروں ۔۔۔۔۔لیکن یہ بات صرف اردو ادب پر صادق نہیں آتی بلکہ تمام ادبیات پر صادق آتی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ جو بھی بڑا شاعر یا ادیب گذرا اور ان کی شہرت کی جو وجہ رہی ہے ۔ عام طور پر لوگ اسی حوالے سے باتیں کرتے ہیں اور اسی تخلیق کو بار بار پڑھتے ہیں ،جو بہت مشہور ہوئی ہے ۔ میں دوسری ادبیات سے مثالیں تو نہیں دوں گا مگر اردو ادب کے حوالے سے بات کروں تو :
میر امن کانام آتے ہی۔۔۔ طالب علموں سے ۔۔۔۔ باغ و بہار
میر حسن کا نام آتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحر البیان
مرزا رسواکا نام آتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امراؤ جان ادا
اسی طرح میر کا نام آتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوز گداز ، درو غم
خواجہ میر درد کا نام آتے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصوف
اسی طرح جب ہم غالب اور میر کا نام لیتے ہیں تو غالب کی چند مشہور غزلیں ہی پڑھ کر اکتفا کر لیتے ہیں یامیر کو جب پڑھتے
ہیں ۔۔۔۔۔ تو منتخب کلام اور چند انتخابات ہی کافی ہوتے ہیں ۔مختلف اداروں سے شائع شدہ انتخابات ہی ہمارے لیے میر
تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیں ۔ یہ در اصل میر فہمی کی کجروی ہے یا یوں کہیں کہ میر کو محدود کرنے کے مترادف ہے ۔
( انتخابات جو بیس پچیس یا پچاس برس پہلے شائع ہوئے وہی پڑھ رہے ہیں ، نئے انتخابات شاذ ہی سامنے آئے ہیں اس لیے میں تو سمجھتا ہوں ، ان تمام کو دفن کردینا چاہیے۔۔۔۔)
اب ذرا اس پر بھی غور کریں کہ اکثر یہ مانا جاتا ہے کہ درود غم کی ترجمانی ہی میر کی عظمت کی دلیل ہے ۔ لیکن غور کریں کہ میر صرف اس لیے میر نہیں یعنی عظیم المرتبت شاعر نہیں ہیں کہ انھوں نے نرمی و گداختگی اور سوز و گداز سے بھری شاعری کی ہے ۔ یہ ایک پہلو ضرور ہے مگر میر کو مجموعی طور پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا عہد اردو زبان کی تشکیلی عہد تھا ۔۔۔اصلاح زبان کی تحریک بھی اسی دور کی دین ہے ۔۔۔لیکن تین سو سال کے بعد بھی میر آج کا شاعر معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔ یہ کہنا آسان تو ہے مگر سمجھنا اور سمجھانا اس لیے مشکل ہے کہ میر کی شاعری کی تمام تر جہتوں کو جب تک سامنے نہیں رکھا جائے گا ، میری کی عظمت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا جاسکتا۔
میر کے چھ دیوان، جن میں غزلیات ، رباعی، قطعات،تضمین،مثلث، مخمس، مسدس،ترکیب و ترجیع بند، قصائد، مراثی،سلام ، حمد و نعت سب شامل ہیں ۔ میر کی غزلوں کے چھ دیوان، چالیس مثنویاں،اکتالیس مراثی و سلام، چھے قصیدے، انیس مخمس، چار مسدس، چار واسوخت، دو ترکیب بند، ایک ہفت بند تضمین، قطعات و رباعیات اور فردیات یہ کل اردو اثاثہ ہے۔ ان کے علاوہ ان کا فارسی دیوان اورنثر میں نکات الشعراء، فیض میر اور ذکر میر کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ تمام ادبی اثاثے میر کے ہیں۔
اب ذرا غور کریں کہ میر کو پڑھتے اور پڑھاتے وقت میر کی شخصیت کے کیا یہ تمام پہلو سامنے ہوتے ہیں ؟؟؟
جواب آپ سے طلب نہیں کروں گا اور نہ جواب میں دوں گا ۔۔ یہ خود سوچنا ہے اور غور کرنا ہے کہ ہم میر کی تدریس میں کیا رویہ اختیار کریں ۔
میر کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کو ایک بلند مقام عطا کیا ۔ اسی لیے عہد میر کو اردو شاعری کا عہد زریں کہا جاتاہے ۔۔۔۔۔اگرچہ میر اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور و معروف ہوئے لیکن دیگر اصناف میں بھی ا ن کا کلام وقیع اور اہم ہے۔ انھوں نے جہاں واقعاتی مثنویاں لکھیں وہاں عشقیہ اور ہجویہ مثنویاں بھی قلم بند کیں ہیں ۔ اپنی مثنویو ں میں جہاں انھوں نے مدحیہ عنصر کو جگہ دی وہاں مثنویوں میں قصے بھی بیان کیے۔ انھوں نے جہاں باد شاہوں اور نوابوں کی تعریف و توصیف میں قصائد لکھے وہاں منقبتی قصائد بھی لکھے ہیں ۔ میر نے مرثیے بھی کہے۔ سودا کی طرح میر نے ہجو گوئی پر بھی توجہ دی مگر اس فن میں وہ سوداکے مقام تک نہیں پہنچ سکے۔
البتہ جہاں تک ان کی غزلیہ شاعری کا تعلق ہے تو میر سے بڑا کوئی دوسرا غزل گو نہیں ہوا۔اسی لیے میر بادشاہ
سخن کہلائے ۔ میر کی شہرت کی اصل وجہ ان کی غزل گوئی ہے اور غزل میں میر کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس میں فکر اور فن کے کرشمے موجود ہیں ۔ غزل میں میر کا کوئی ایک اسلوب اور ایک انداز نہیں ہے انھوں نے غزل کو کئی جہتوں سے ارفع و اعلیٰ کیا ہے ۔ عام طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ میر کا کلام بہت سادہ ہے ۔ یہ بات عمومی طور پر درست ہوسکتی ہے لیکن کلی طور پر نہیں ۔ ان کے اشعار مشکل پسندی سے بھی تعبیر کیے جاسکتے ہیں اور سہل پسندی سے بھی ۔
اکثر ہم یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ میر کا کلام سوز و گداز سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔ لیکن اس سوز و گداز کی شدت کو بھی دیکھیں ۔۔۔۔ میر کے کلام میں جس طرح کا صوتی آہنگ ہے وہ میر کا اپنا رنگ ہے ۔ ان کے کلام میں آوازوں کا تاثر اور جملوں کی ساخت سے ایک خاص طرح کا آہنگ سامنے آتا ہے ۔ اسی آہنگ یا اسلوب یا طرز نگارش سے میر کے یہاں بیان میں شدت در آتی ہے ۔میر کے کلام میں آوازوں کے تاثر کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے میر کی شاعری کے اسلوبیاتی تاثر کو پیش نظر ایک جگہ لکھا ہے کہ :
” میرؔ کی شاعری کا درجۂ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ اس میں دیر تک ٹھہرنا ممکن نہیں۔۔۔۔۔!!”
فریحہ بخاری : اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
“آج صوتیاتی طور پر اس کو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ میرؔ کے ہاں سَکاری اصوات (موسیقی کی اصطلاح میں سب سے نیچلے سُریاساز کو کہا جاتا ہے یعنی ایسی آواز جس کا سُر بہت اونچا نہ ہو)بالخصوص [s]، ش `،ز [z] جو سانپ کی سرسراہٹ سے مشابہ ہیں اور پُراسراریت کے ساتھ ساتھ سوز بھی پیدا کرتی ہیں، اِس کثرت سے برتی گئی ہیں کہ سکاری صفیری س [s]کے ساتھ حنکی ش( [ʃ](تالوسے نکلنے والی آواز) کا ملاپ میرؔ کے ہاں اس اثر کو
شدید تر کر دیتا ہے:
دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا
شہرِ دل آہ عجب جائے تھی، پر اس کے گئے ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا
زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا
سرر زد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا ہے
عشق ہمارے خیال پڑا ہے ،خواب گیا آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا
گوتم بدھ نے کہا تھا کہ” یہ زندگی سراسر غم ہے “۔۔۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میر نے گوتم بدھ کا یہ قول سنا یا پڑھا تھا کہ نہیں ؟ لیکن میر نے جس زندگی کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے و ہ در اصل، اصل انسانی زندگی کا عکس ہے ۔ اسی لیے ان کی شاعری کو ” غم دوراں یا غم جاناں “سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔میر کی شاعری میں یاسیت و محرومیت نہیں ہے ۔ در اصل جس انداز و اسلوب سے وہ مضامین بیان کرتے ہیں ، ان مضامین میں دردو کرب ہے ۔
شکیل الرحمن میر کو شر نگاررس ” کا شاعر مانتے ہیں۔ ہے اور اس اثر نگار رس کا مرکز عشق کو گردانتے ہیں جس کے سبب جذبے میں شیرینی اور مٹھاس کا رس اُبلتا ہے اور یہی رس غمناکی میں گھل کر شعور ، احساس اور تخیل کو متاثر کرتا ہے۔ میر کا عشق ایک ایساسحر افسوں ہے جسے تادیر ٹھٹھک کر دیکھنے کی خواہش ہے:
خدا جانے کہ دل ،کس خانہ آباداں کو دے بیٹھے
کھڑے تھے میر صاحب گھر کے دروازے پر حیراں سے
میر کا یہ ایک رنگ ضرور ہے مگر ان کی شاعری میں یہی ایک رنگ نہیں بلکہ کئی اور رنگ موجود ہیں ۔شمس الرحمن فاروقی نے ” شعر شور انگیز ” میں لکھا ہے کہ ” ابھی تک میر کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے ۔”یعنی میر پر جس انداز سے کام۔ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکا ہے ۔( اتنے کام کے بعد بھی یہ کہنا یقیناً ایک سوال ہے)
تفہیم میر کے حوالے سے محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ ” جس نے عشق کوسمجھا اس نے میر کو سمجھا۔” گویا
عشق ان کی شاعری کی کنجی ہے ۔( طالب علمو!!)اب کنجی اگر ہاتھ میں آگئی تو میر کو سمجھنا آسان ہوگیا ۔۔۔ لیکن عشق کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ۔۔خود میر کہتے ہیں :
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہبِ عشق اختیار کیا
عشق اک میر بھاری پتھر ہے کب یہ مجھ، ناتواں سے اٹھتا ہے
میر کا غم ،عشق کا غم ہے ، یہ وہی عشق ہے جس کی تلقین ان کے والد نے ان سے کی تھی کہ بیٹا عشق کرو، عشق بنِا انسان انسان نہیں بنتا۔ وہ عشق میر کے یہاں دل کی آگ میں تبدیل ہو گیا ، لیکن اس آگ نےلذت کوشی کا رنگ اختیار نہیں کیا ، بلکہ گہری فکر اور فلسفے کی شکل میں ڈھل گیا۔ اب یہ چند سنیں اور خود سمجھیں کہ میر کے یہاں عشق کیا ہے۔ چند اشعار ان کی مثنوی” معاملات عشق “اور ” شعلۂ شوق ” سے ہیں:
کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے، نہیں ہے کچھ عشق بِن تم کہو کہیں ہے کچھ
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں، کیا کہیے ،میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سر الہیٰ، کچھ کہتے ہیں ،خدا ہے عشق
ان اشعار میر نے عشق کی مختلف حالتوں کو بیان کیا ہے۔اب مثنوی” شعلۂ شوق ” سے چند اشعار سن لیں ، اس کے بعد غزلیہ شاعر ی کی طرف آئیں گے۔
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت مسبّب محبت سبب محبت سے آتے ہیں کارے عجب
محبت ہے آبِ رُخ کارِ دل محبت ہے گرمیِ آزارِ دل
محبت عجب خوابِ خوں ریز ہے محبت بلائے دل آویز ہے
محبت کی آتش سے اخگر ہے دل محبت نہ ہو وے تو پتھر ہے دل
محبت لگاتی ہے پانی میں آگ محبت سے ہے تیغ و گردن میں لاگ
اس آتش سے گرمی ہے خورشید میں یہی ذرے کی جان نومید میں
کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں نہ ہو اس سے آشوبِ محشر عیاں
کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار غرض ہے یہ، اعجوبۂ روزگار
میر کا عشق مجاز اور حقیقت دونوں کا مجموعہ ہے۔ عشق مجازی میں میں ان کے یہاں سطحیت یا جسمانی لمس و
لذت کا عامیانہ بیان نہیں ہے بلکہ ایک خاص اسلوب ہے جس میں عشق کا احترام بھی ہے اور بلند مقام بھی ، ایسے اشعار میں نرمی و گداختگی بھی ہے اور بیان میں ایسی جدت ہے کہ یہی جدت ان کو عظیم شاعر بناتی ہے ۔ان کے یہاں عشق کا بیانیہ در اصل انسان کی جبلی فطرت کا اشاریہ بھی اور لازمہ بھی ہے۔ کون ہے جس نے عشق نہیں کیا ؟خود میر نے خود سے پوچھا :
میر سے پوچھا جو میں، عاشق ہو تم ہوکے کچھ چپکے، سے شرمائے بہت
اور سنیں :
کہتے تو ہو یوں کہتے، یوں کہتے جو وہ آتا یہ کہنے کی باتیں ہیں، کچھ بھی نہ کہا جاتا
وصل اس کا خدا نصیب کرے میرا جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
غزل کی شاعری کا مرکز و محور حسن و عشق ہے ۔ مگر صرف یہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسانی زندگی کی تمام داخلی اور خارجی کوائف کا بیانیہ ہوتا ہے ۔ غزل دراصل مخصوص لفظیات اور علامات کے ذریعے حسن و عشق، کیفیات و واردات عشق، اخلاق و تصوف، فلسفہ و حکمت، اسرار ورموز حیات و کائنات کی عقدہ کشائی اور زمانے کے حالات و کوائف بیان کرنے کا فن ہے جس میں حاوی رجحان حسن و عشق کا ہے۔ یعنی غزل کا لہجہ عاشقانہ ہوتا ہے چاہے جو بھی بات کریں ۔
غزل کے آئینے میں انسان اور انسانی تہذیب اپنا عکس دیکھ سکتی ہے۔ حیات و کائنات کی پُراسرار اور تہہ در تہہ پیچیدگیوں اور اس کی انتہاؤں اور وسعتوں کی طرح غزل بھی وسیع تر پس منظر رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں دنیا کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو پیش نہ کیا گیا ہو۔اب میر کی غزلیہ شاعری کو دیکھیں تو یہاں بھی یہی اوصاف نظر آتے ہیں کہ یہاں متنوع موضوعات ملیں گے ۔
جہاں تک اسلوب کی بات ہے تو اس میں سادہ و مشکل دونوں اسالیب موجود ہیں ۔ ان کے کلام کی یہ صورت
ہے کہ جو شعر مشکل ہے وہ بہت مشکل ہے اور جو آسان ہے وہ بالکل ہی آسان۔مثلاً:
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
کبھی آسان اسلوب میں ایسی گہرہ بات کر جاتے ہیں کہ دور تک جانا ہوتا تب معانی کی پرتیں کھلتی ہیں ۔مثلاً:
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
مصائب اور تھے پر دل کا جانا عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
اس شعر میں مشکل الفاظ تو نہیں۔ مگر اس کی تفہیم کے لیے ادبی ذوق ، تفہیم ادب کا شعور ہونا لازمی ہے۔ معمولی الفاظ میں دنیا کی بے ثباتی کو جس طرح پیش کیا ہے واقعی وہ شاعری کا بے مثل نمونہ ہے ۔
اس طرح کے بے شمار اشعار ان کے کلیات میں جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں ۔لیکن ان مشہور اشعار کے علاوہ
بھی بہت سے اشعار ہیں جو آسان بھی لگتے ہیں اور سادہ بھی مگر میر کا کمال یہ ہے وہ معمولی الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے ایک جہانِ معنی پیدا کرتے ہیں ۔ یہ میر کا ایک خاص وصف ہے ۔چند مثالیں دیکھیں :
محاکات اور تخیل کی بہترین مثال
دل گیا ، رسوا ہوئے ،آخر کو سودا ہوگیا اس دوروزہ زیست میں، ہم پر بھی کیا کیا ہوگیا
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا
آنکھوں سے پوچھا حال دل کا ایک بوند ٹپک پڑی لہو کی
دیکھ کہ دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ۔
ضرب الامثال اور محاورے
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے
اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا
شکوہٴ آبلہ ابھی سے میر ہے پیارے ہنوز دلی دور
کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم ہے خدا جانئے یہ کب کی بات
دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا میر کاٹا جیے ، نہ کالوں کا
تشبیہ و استعارے
اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھئے جیسے کسی کو کوئی نگر ہو، لُٹا ہوا
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اس کی آنکوں کی نیم خوابی سے
معلوم نہیں کیا ہے ؟ لبِ سرخِ بتاں میں اس آتشِ خاموش کا ہے شور ، جہاں میں
گہہ شیفتہ ہیں مُو کے ، گہہ شیفتہ ہیں رو کے احوال میر جی کا ، ہے شام کچھ ، سحر کچھ
ایسے آہو رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
ان اشعار میں مشکل الفاظ نہیں مگر ان کے معنی اتنے سیدھے نہیں ۔
میر تقی میر اپنی شاعری میں نے اپنے عہد کی تصویر بھی پیش کی ہے اور ایسی تصویر کہ اس میں آج ہم اور اپنا علس دیکھ سکتے ہیں ۔ شاعری اسی طرح بڑی بنتی ہے کہ اس میں آفاقیت اور ہمہ گیریت آجائے ۔
میر کے اشعار آج بھی ہم۔ اپنے حسب حال پڑھتے ہیں یہی آفاقیت ہے ۔
میر نے متصوفانہ رنگ میں بھی شاعری کی ہے ۔
اسی طرح میر صاحب کے وہ اشعار جن میں تصوف کا رنگ ہے یا جو غزل کے نئے تجربات سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان میں معنی اور مشکل ہو گئے ہیں ۔ میر کا تغزل اردو شاعری میں المیہ (Tragedy) کی بہترین مثال ہے۔
میر کی فارسی شاعری کا رنگ اور ارود میں اسی کا ترجمہ
بہ این وحشی غزالاں بے محابا عشق می بازد بیاباں مرگ خواهد شد چو مجنوں میر ہم آخر
پھرے ہے باولا سا پیچھے ان وحشی غزالوں کے بیاباں مرگ ہو گا اس چلن سے میربھی آخر
بہ امیدے کہ می نالی خموشی اے جرس بہتر نہ دار داہل دل ایں کارواں ضبط نفس بہتر
نہ ہو ہرزہ درااتنا، خموشی اے جرس بہتر نہیں اس قافلے میں اہل دل ضبط نفس بہتر
نہ دیدم میر را در کوے اولیک غبار ناتوانی با صبا بود
نہ دیکھامیر کو آوارہ لیکن غباراک ناتواں ساکو بہ کو تھا
کے پیش منعمان جہاں می شود در از بالینِ زیرِ سر شده دستِ گداے او
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
چوں شمع چند گریم بے اختیار ہر شب تاکہ زنم بر آتش پروانہ وار ہر شب
مجلس میں میں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
ہم طور عاشقی سے واقف تو نہیں لیکن سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے !!
***