Home / Socio-political / تم ترس نہیں کھاتے۔۔۔

تم ترس نہیں کھاتے۔۔۔

تم ترس نہیں کھاتے۔۔۔

سردیوں کا موسم تو ختم ہو چلا تھا پھر لاہور میں وہ کون ٹھٹھرتے ہوئے لوگ تھے جو ڈیڑھ سو سے زائد گھروں کو پھونک کر تاپ گئے۔ کیسی بے بسی تھی جس نے اپنے ہی ملک کے ایک حصے کو شعلوں کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا۔ کون بدنصیب ہیں وہ جن کے دماغ اس درجہ ماؤف ہو چکے ہیں کہ انہیں ماضی، حال اور مستقبل سپاٹ نظر آتا ہے۔ خدا یا کس جرم کی پاداش میں انہیں ان انسانی خصائص سے محروم کر دیا جنہیں رحم، عقل اور احساس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جلتے ہوئے لاہور کو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر ایک مصرعہ آتا ہے ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا۔  کم سے کم اس ویرانے میں انسانوں کی آہ و بکا تو نہ ہوتی۔ ماں اپنی بچی کے جہیز لٹ جانے پر ماتم کناں تو نہ ہوتی۔ آشیانہ اجڑ جانے پر سینہ کوبی کرتی ہوئی بلبلیں تو نہ ہوتیں۔ دیکھ لے ایے میرے خدا کہ تیرے نام پر بنایا گیا یہ ملک تیرے ہی بندوں کے لئے کس قدر تنگ اور اذیت ناک ہو چلا ہے۔

                جنرل کیانی ملک کا وہ سپوت ہے جس نے ملک کے وقار کو بام اوج ثریا تک لے جانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ۔ یہ میں نہیں کہتا پاکستان کی اکثریت کہتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل کیانی نے ملک کی بے لوث خدمت کی ہے اور اس نے ملک میں ڈکٹیٹر شپ کی وبا کو روکنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں جنرل کیانی کا کردار ایک ایماندار انسان کا کردار ہے جو پاکستان کی بقا کے لئے کوشاں ہے۔ اسی ایمان دار انسان نے کچھ عرصہ قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کا دشمن پاکستان کے اندر ہی مذہبی عدم برداشت کی شکل میں موجود ہے اور ہمیں اسے شکست دینی ہے۔  لیکن نہیں وہ بھارت یا امریکہ کے خلاف دیا گیا بیان تو تھا نہیں کہ اسے یاد رکھا جاتا اور اس پر عمل در آمد کی کوشش کی جاتی کچھ ہی دنوں میں اس بیان کی حالت قائد اعظم کے اس بیان کی سی ہوگئی جس میں انہوں نے مذہبی رواداری ، اور کرپشن کی بات کہی تھی۔ بہر حال جنرل کیانی کو بھی جلد ہی اپنی اوقات یاد آ گئی اور انہوں نے پھر اس موضوع پر کچھ بھی بولنے سے گریز کیا تاہم اس شخص کی ہمت کی تو داد دینی ہی پڑیگی کہ اس نے اس عہدے پر رہتے ہوئے سچ بولنے کی ہمت کی۔ جنرل کیانی چاہتے تو اس لعنت کا ٹھیکرہ بھی رحمان ملک کی طرح بھارت اور امریکہ کے سر پر پھوڑ سکتے تھے لیکن انہوں نے برملا کہا کہ یہ لعنت ہمارے ملک کے اندر ہے اور اس سے جنگ لازم ہو گئی ہے۔ ابھی دوسرا جرأت مندانہ قدم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے سانحہ جوزف کالونی کا از خود نوٹس لے کر اٹھایا گیا ہے۔ یہ قدم بھی لائق ستائش اور مستحسن ہے۔  عدالت کے اس قدم سے ممکن ہے کہ لوگوں میں قانون کا خوف پیدا ہو اور لوگ آئندہ اس طرح  کی حرکتوں سے باز آئیں۔ حالانکہ اس کی امید بہت کم ہے۔

نواز شریف  اور شہباز شریف جنہیں یہ دعوی ہے کہ وہ پنجاب کے رکھوالے ہیں آج تک ان متاثرین کے آنسو پونچھنے نہیں پہونچے۔ میاں شہباز شریف گئے بھی تو بغیر کسی سے ملے صرف نئے گھروں کی سنگ بنیاد رکھ کر واپس آگئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قوم کا رہبر مان کر طالبان مذاکرات کے لئے ثالثی کے طور پر رکھنے کی شرط رکھتے ہیں اور جو حضرت عمر کی خلافت کی مثال دیتے نہیں تھکتے۔  رائے ونڈ کی اونچی دیواروں کو عبور کر پانا  شاید ان ناتوں سسکیوں کے بس میں نہیں ہے جبی تو قہر خداوندی کے ان دیواروں کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی۔ امیر المومنیں حضرت عمر کے دور میں تو ہر ظالم کو اس کے ظلم کا حساب دینا ہوتا تھا۔ در اصل یہ جھوٹے اور مکار لوگ اقتدار کی ہوس میں اندھے بس انتخابات کی آہٹ پر کان دھرے اسی راستے پر گامزن ہیں  ورنہ گھونگریالے بال والے رحمان ملک کیمرہ کے سامنے اپنی نمائش کرنے ضرور پہونچتے۔

  خدا اور خلق خدا سے محبت کرنے والے نہ قائدین ہیں نہ عوام الناس۔  پھر یورپ ، امریکہ اور برما میں اگر مسلمانوں پر ظلم ہو تو کیا عجب ہے۔ اگر اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے گھروں کو پھونک ڈالے تو مسلمانوں پر ہونے والے تمام ظلم بجا ہیں۔  فرانس میں برقع اور ردا پر پابندی بھی بجا ہے اور مسلمانوں کو زدوکوب کیے جانے کے دیگر واقعات بھی۔  اگر اسلام کے نام پر بنائے گئے پاکستان میں خدا کے بندوں کو امان نہیں ہے تو اور کس ملک میں امان کی امید کی جائے۔

ٹی۔وی، اخبارات اور انٹرنیٹ پر متاثرین کے تصویریں دیکھ کر بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے۔

                                لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

                                تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *