جس طرح قرآن کا مسلمانوں کی زندگی سے گہرا تعلق ہے اسی طرح رمضان کا بھی ہے۔قرآن بھی مومن کی روحانی اورمادی زندگی کی رہنمائی کرتا ہے اوررمضان بھی مومن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔انفرادی تربیت اوراجتماعی شعورکا استحکام دونوں ہی سے حاصل ہوتے ہیں ۔رمضان اورقرآن کا آپس میں بھی گہرا تعلق ہے،رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اورماہِ صیام بھی ہے۔قرآن مجید نے ان دونوں حقیقتوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔قرآنِ پاک جہاں روزے کے فلسفے کو بیان کیا ہے وہیں قرآن کی صفات بھی بیان کی ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیاجو لوگوں کو ہدائت کرنے والاہے اورجس میں ہدائت کی اورحق و باطل کی تمیزکی نشانیاں ہیں،تم میں سے جو کوشخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے ،ہاں جو بیمار ہو یا مسافر تو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے ‘سختی کا نہیں،وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرواوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدائت پراس کی بڑائیاں بیان کرو،اس کا شکر ادا کرو۔‘‘اس آیت میں چار باتیں بیان کی گئیں ہیں۔
(۱)رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اورقرآن کی صفات یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو ہدائت مہیا کرنے والا ہے،اس میں ہدائت کی نشانیاں ہیں اوریہ حق و باطل کے معیار کی حیثیت کا حامل ہے۔
(۲)جو مومن اسے پائے ،وہ روزے رکھے اوراگر کوئی شخص مریض ہے یا حالتِ سفر میں ہے تو اسے اجازت ہے کہ یہ روزے کسی اورموقع پر رکھ لے۔
(۳)اللہ اپنے بندوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے،انہیں مشکل میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔
(۴)مومنوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات پر اس کی بڑائی بیان کریں اورشکرگزاری کارویہ اختیار کریں۔
ان چار امور پر غور کریں تو واضح ہوگا کہ روزے کے بارے میں صرف ایک بات ہے،دوسرے تمام امور کا تعلق حکمتِ الٰہی ،ارادۂ خداوندی ،ہدائت الٰہی پر مومنوں کے رویے ‘رمضان المبارک میں نزولِ قرآن اورصفاتِ قرآن سے ہے۔
یہ امرذہن نشیں رہے کہ رمضان المبارک کوماہِ صیام قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نزولِ قرآن ہوا ہے۔رمضان کے فضائل کے سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں وہ محض روزے کے حوالے سے نہیں ہیں ،ان کا تعلق اس مہینے کی مجموعی روحانی فضاء اوربرکاتِ الٰہی سے بھی ہے۔مثلاًحضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ایک روایت میں (جنت کے دروازوں کی جگہ)رحمت کے دروازوں کا ذکر ہے۔
حضرت عباسؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺخیر میں سب سے زیادہ فیاض ہوتے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملتے اورقرآن پیش کرتے ، جب حضرت جبرئیل امین سے ملاقات ہوتی تو خیر کی فیاضی میں تیز ہوا سے بھی بڑھ کرہوتے۔
رمضان اورقرآن کا بڑا گہرا باہمی تعلق ہے۔رمضان اگر نیکی و تقویٰ اورخیرواصلاح کا ماحول فراہم کرتا ہے تو قرآن ہدائت باطنی،اصلاح اورروحانی پاکیزگی عطا کرتا ہے،اس لئے رمضان میں قرآن پاک کے ساتھ ربط بڑھ جانا چاہئے،اس کی تلاوت،فہم اورعمل کیلئے اہتمام کرنا چاہئے۔’’تراویح کا عمل اس ربط وتعلق کو مستحکم کرتا ہے،اس کے علاوہ حسبِ استطاعت تلاوتِ قرآن مجید ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔رمضان کا مہینہ قرآن سے قربت کا مہینہ ہے ۔ایک مرتبہ انسان اس کے قریب آجائے تواس کی لطف اندوزی سے محروم نہیں رہے گا۔
ارشادِ خداوندی ہے :اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جوایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اورباربار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔آخر میں ان کے جسم اوردل اللہ کے ذکر سے نرم ہوجاتے ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی ہدائت ہے جس کے ذریعے جسے چاہے راہِ راست پر لگا دیتا ہے اورجسے اللہ ہی راہ بھلا دے ،اس کا ہادی کوئی نہیں۔
رمضان کی راتوں میں نوافل ادا کرنااورقرآن پاک کی تلاوت کرناروح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے۔یوں تو قیام اللیل روحانی زندگی کا حاصل ہے لیکن رمضان المبارک میں قیام اللیل کا لطف ہی کچھ اور ہے۔اس سے مراد صرف تراویح ہی نہیں بلکہ آخرِ شب کی زندہ داری بھی ہے۔لیلتہ القدر کی جستجواورقیام ،آخری عشرے کا اعتکاف،انفاق فی سبیل اللہ،خدمتِ خلق اورذکرِ دعا سے پورے مہینے کو بھرپور بنایا جا سکتا ہے۔رمضان اورقرآن کے تعلق میں بنیادی پہلو دن کا روزہ اوررات کی تلاوت ہے۔یہی وجہ ہے کہ تراویح کا اہتمام دراصل قرآن ہی کیلئے ہے۔امام بیقہی کی ایک روایت کے مطابق روزہ اورقرآن بندۂ مومن کیلئے ربِ کریم کے حضور شفاعت کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’روزہ اورقرآن بندے کیلئے شفاعت کریں گے،روزہ کہے گا اے پروردگار!میں نے دن کے وقت اسے کھانے اورخواہشات سے روکے رکھا لہندااس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمااورقرآن کہے گا :میں نے اسے رات کی نیند سے دور رکھالہندا میری شفاعت قبول فرما،اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت اس بندے کے حق میں قبول فرمائے گا‘‘۔گویا قرآنِ پاک کلام الٰہی ہونے کے لحاظ سے اوررمضان روحانی تربیت کے پروگرام کے اعتبار سے مومن کی زندگی میں بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں اورچونکہ رمضان میں قرآن کا نزول ہوا،اس لئے ماہِ رمضان کی اہمیت بڑھ گئی ہے اوردونوں مومن کی ابدی زندگی سنوارنے کا باعث ہیں، اس لئے ایک مومن کیلئے بے حد ضروری ہے کہ وہ دونوں سے خصوصی تعلق رکھے۔
اس رمضان الکریم کے مبارک مہینے کے استقبال کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے رب کے سامنے سچی توبہ کرنا ہوگی،ایسی توبہ جس میں اپنے تمام سابقہ گناہوں پر ایسی ندامت ہو کہ دوبارہ کبھی اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہ ہو۔پاکستان اس وقت دہشتگردی ،مہنگائی ،عریانیت اوردوسری کئی افتاد میں مبتلا ہے اوریقیناً یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمای کا نتیجہ ہے۔ یہ خطہ ارض اورمعجزاتی ریاست ہم کو اسی ماہِ رمضان کی لیلتہ القدر کو عطا کی گئی جس کیلئے ہم نے اپنے ربِ کریم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اس خطے میں اللہ کی حاکمیت نافذ کریں گے، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں دیں گے اورنظامِ حیات میںاپنے رب کی مکمل اطاعت کریں گے لیکن ہم نے پچھلے۶۶ سالوں میں مسلسل اللہ سے بغاوت کا عمل جاری رکھا ہوا ہے جس کی بناء پر پاکستان میں ایسے حکمران مسلط کردیئے گئے جو طاغوت کو اپنا آقا اورانہی کے احکام کی تعمیل میں شب و روز مصروف رہے۔
پچھلے چندسالوں سے جس طرح روشن خیالی کے نام پر احکام الٰہی کا تمسخر اڑایاگیا بالآخر اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔یہ عقل کے اندھے ان تمام مصیبتوںکی ذمہ داری ہماری پسماندگی اورمذہب پر بے پناہ اعتقاد کو گردانتے ہیں کہ اس دور میں جب انسان نے آفتوں اورمصیبتوں پر اپنی عقل سے قابوپانا سیکھ لیا ہے انسان ایسی عمارتیں تعمیر کررہا ہے کہ وہ زلزلے میں بھی جھولے کی طرح جھولتی ہیں اورہر قسم کے جانی و مالی نقصان سے محفوظ رہتی ہیں،انسان نے دریاؤں کے رخ موڑنے کا سلیقہ حاصل کرلیا ہے اورانہی دریاؤں کے پانی سے انرجی حاصل کرکے انسان کوترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے ،انسانی عقل نے موذی امراض ہیضہ ،طاعون اورچیچک پر مکمل قابو پالیا ہے لیکن یہ اس دور میں بھی ان تمام آفات اورمصائب کا علاج مذہب اوراستغفارمیں ڈھونڈتے ہیں۔
مجھے ان روشن خیال دانشوروں کے اس مضحکہ خیز تمسخر سے خوف آتا ہے کہ کہیں ان کے استہزاکی وجہ سے مزید کسی ایسی گرفت میں نہ آجائیں کہ عادوثمودکی طرح عبرت کیلئے ہماری مثالیں دی جائیں۔مجھے قرآنِ کریم کی یہ آیات یاد آجاتی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے بڑی صراحت کے ساتھ نوعِ انسانی کو مطلع کیا ہے:’’اوریہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہواوراس کی طرف پلٹ آؤتووہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گااورہرصاحبِ فضل کواس کا فضل عطا کرے گالیکن اگر تم منہ پھیرتے ہوتو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں(سورۃ ہود۔۳)۔استغفارکا مذاق اڑانے والے کم علموں کا اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ توبہ و استغفار صرف گڑگڑاکراورروروکر اللہ سے معافی مانگنے کا نام نہیں بلکہ اس عمل کی طرف لوٹنے کانام ہے کہ جس کے قبول ہوجانے کی وجہ سے ہی ان مصائب اورافتاد سے جان چھوٹ سکتی ہے اورہم ایفائے عہد کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔یادرکھیں کہ ان روشن خیال افراد سے جوتوبہ کا تمسخر اڑاتے ہیں، قرآن کی آیات ان سے پردہ کرتی ہیں۔
دل کو دہلا دینے والا پیغام بھی پڑھ لیں:’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہرسال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟مگر اس پربھی نہ توبہ کرتے ہیںنہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں۔سورۃ توبہ:۱۲۶‘‘۔ارضِ پاکستان پرآئے دن سیلاب،ٹارگٹ کلنگ،خودکش حملے اورظلم وناانصافی کے عذاب ٹوٹ رہے ہیں ۔ ان تمام مصائب اورافتاد سے ہم اس وقت نہیں نکل سکتے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے نام پر حاصل کرنے والے اس ملک کو دوبارہ ا للہ تعالی کے سپرد نہیں کر دیتے۔رمضان المبار ک کے اس بابرکت مہینے میں اگر ہم اپنے ا للہ سے ایک دفعہ پھر استغفار کرتے ہوئے وعدہ کریں کہ اس ارضِ پاک پر اسی کا عطاکردہ نظام رائج کریں گے تو میرارب بڑا کریم ہے ،یقیناً ہمیں ان تمام افتاد سے نکال کر وہ نعمتیں عطا کرے گا جس کا اس نے وعدہ کررکھا ہے۔ آئیے اپنے رب کومنانے کاآغازآج ہی سے کریںکہ رمضان المبارک کاپہلا عشرہ جورحمتوں کے نزول کاپیغام لیکر آیاتھاوہ اب رخصت ہوگیاہے اوراب تومغفرت اورجہنم سے خلاصی کے دن باقی رہ گئے ہیں۔