نیب ان دنوں کرپشن کے سب سے بڑے چور دروازے کو بند کرنے میں مدد دینے میں مصروف ہے ۔ نیب اس مقصد کیلئے تشکیل دیا گیا تھا کہ یہ کرپشن سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر ان سے عوام کے خون پسینے سے کمائی رقوم کو باہر نکال لے گا۔ یہ ادارہ جس انداز میں کام کر رہا ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کرپشن کو روکنے اور پکڑنے کی بجائے اس کو تحفظ دینے کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہا ہے ۔رینٹل پاور کیس میں جس طرح اس ادارے نے اپنا کردار سامنے لایا ہے اس سے طبقہ اشرافیہ کی اداروں پر گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ادارے اب مافیا کے طفیلی اور ذیلی بن چکے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم کا پورا خانوادہ کرپشن کے الزامات میں لتھڑا معاشرے میں تعفن پھیلا رہا ہے لیکن طفیلی اور ذیلی اداروں کو ان سے خوشبو آتی ہے ۔ یہ عدلیہ تک کوئی ایسا ثبوت نہیں لے جاتے جس سے طبقہ اشرافیہ کو کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ اگر کوئی غیرت ملی یا قومی کے تقاضوں میں ڈھل کر ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اسے خود کشی کے ڈرامے کی صورت دے دی جاتی ہے۔ڈرامہ عشق ممنوع کو امپورٹ کرنے والے اس کو آن آئیر کرنے والے اس کو آن آئیر کرنے کی اجازت دینے والوںنے کیوںخود کشی نہیں کی ۔اس ملک کا پرچم سر بلند کرنے والے ہی رسوائیوں اور تنہائیوں کا شکار کیوں بن جاتے ہیں۔ قومی ہیرو زیرو اور قوم کو زیرو بنانے والے ہیرو کون بناتا ہے ۔ یہ ملک وقوم کا درد رکھنے والے کو اس درد سے نجات دلانے کیلئے اسے موت کی مسکن وادی میں داخل کر دیتے ہیں۔ جذبے کیوں سرد نہ ہوں ۔ محبتیں کیسے پروان چڑھیں۔ عامر احسن خان soal informerریکروری نیب اپنی بپتا سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ1997 میںکس طرح انہوں نے شون گروپ کی640ملین کی کرپشن بے نقاب کرنے میں انہوں نے کام کیا۔ ان کے کام سے نہ صرف میاں نوازشریف ذاتی طور پر باحیثیت وزیراعظم اگاہ تھے بلکہ ان کے کردار کو بین الااقوامی طور پر بھی سراہا گیا۔کرپشن کے خلاف جہاد میں اہم کردار ادا کرنے پر انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امیتاز سے نوازا جا چکا ہے ۔ اس کے ساتھ Ehtasab آرڈینس 1999پیراگراف 33Aکے تحت ان کو ۱۰ فیصد30ملین کا وعدہ کیا گیا۔ اسی کردار پر انہیں IHRCانٹر نیشنل ہیومین رائٹس کمیشن کی جانب سے بھی تعریفی اسناد اور اعزازی سفارتی عہدے سے نوازا گیا۔انہیں who is whoکی بین الااقوامی شخصیات کے طور پر بھی چنا گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شون گروپ کی مینجمنٹ نے ان پر بلز پاس کرنے کیلئے پریشر ڈالا ۔ ایسا کرنے کی بجائے میں نے نیب چیئرمین سیف الرحمان اور جوائنٹ سیکریڑی مسڑ حسن اور وسیم افضل تک پہنچ کر کے شون گروپ کی کرپشن سے انہیں آگاہ اور بے نقاب کیا۔میری دی گئی دستاویزات سے جب شون گروپ کی کرپشن بے نقاب ہو گئی تو اس کے بعد میں نے مسڑ حسن ، وسیم افضل ، مسڑ شاہد حسین راجہ، مسڑ طلعت گھمن، مسڑ عامر عزیز، کرنل افتخار رسول مسڑ کوثر اقبال ملک ،مسڑ خاور حسین ، بشمول جناب سیف الرحمان چیئرمین نیب ،لفٹینٹ جنرل مسڑ امجد ، لفٹینٹ جنرل خالد مقبول، منیر حفیظ ، شاہد عزیز، مسڑ نوید احسن ، جسٹس رٹیائرڈ دلدار حسین شاہ، ڈپٹی چیئرمین جاوید ضیا قاضی ، کو اپنے انعام کے سلسلے میں ملا ۔ ہر دفعہ مجھے یہی کہا گیا کہ تمھارا کیس ترجیحی بنیادوں پر جیسے ہی کلی ریکوری ہوجائے گی طے کر دیا جائے گا۔ 19فروری 1999کو وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اس سلسلے میں ٹیلی فون پر بات ہوئی اور انہوںنے میرا موقف سننے کے بعد نہ صرف سراہا بلکہ اس کیلئے انہوں نے تمغہ امتیاز کا اعلان کیا اور ساتھ میں میری فائل پر خصوصی ہدایات چیئرمین کو لکھی کہ میری انعامی رقم کا اجراء جلد از جلد کیا جائے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں چیئرمین نیب مسڑ نوید احسن نے میرا کیس بیدخل کیے گئے ڈی جی FCIWمسڑ کوثر اقبال ملک کو مارک کیا۔انہوں نے جان بوجھ کر ہیرا پھیری کے آرادے سے آٹھ سال تک اس کیس کو لٹکائے رکھا۔ نیب ہیڈ کواٹر کی ایک میٹنگ جو کہ ڈی جی FCIWامسڑ کوثر اقبال کے ساتھ 11مارچ 2010کو 11pm تا1300منعقد ہوئی میں انہوں نے مجھے انعامی رقم سے دستبرداری کیلئے دبائو ڈالا ۔ انہوں نے مجھے شدید نتائج کی دھمکی کے ساتھ اسلام آباد جلد چھوڑ دینے کیلئے نہ صرف گالی گلوچ کی بلکہ موجود سیکورٹی سٹاف کو مجھے اسلام آباد ائیر پورٹ سے کراچی روانہ کرنے کا حکم دیا۔انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میرا نام بھی گم شدہ افراد کی فہرست میں آسکتا ہے اور تمھارا خاندان اس کے نتائج بھگتے گا اگر تم اس سے دستبردار نہ ہوئے۔ کامران فیصل خود کشی کیس کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی حقائق سے پردہ اٹھانے کیلئے میں سپریم کورٹ کے سامنے تیار ہوں۔ مسڑ اقبال کوثر اس وقت بھی شو ن گروپ کیلئے کام کر رہا تھااور اس کے علاوہ بھی کئی کرپٹ عناصر کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ کئی کالز ، فیکس ، ای میلز اور خطوط کے بعد موجود ہ چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے میری انعامی رقم کے اجراء اور اس کی ایڈمنسٹریشن کیلئے برگیڈئیر ریٹائرڈ مصدق عباسی ڈی جی اے اینڈ پی کی سربراہی میں ایک کمیٹی لیٹر نمبر 19(14)NAB/A&P DATED AUGUST 01,2012کے تحت قائم کی ہے ۔میں نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر تین گھنٹے بریفنگ دی ہے ۔ جس میں صدر ، دو مستقل وکیل، ڈپٹی ڈائریکٹر اے اینڈ پی شامل تھے ۔ کمیٹی کے صدر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر رسپانس کریں گے۔ سطور ہذا تحریر ہونے تک وہ ہفتہ نہیں آیا ۔
ارباب اختیار کو شاید وطن کے اس بیٹے کو دینے کیلئے خزانے میں کچھ نہیں کیونکہ یہاں انعام نہیں یہاں لوٹ سیل چلتی ہے۔ جو لوٹ سکتا ہے وہ لوٹ لے ۔ حق کسی کو نہیں مل سکتا۔ حق کیلئے آپ کو فقیروں کی طرح گلی گلی صدا لگانی ہوتی ہے ، اب معلوم نہیں کس در سے بھیک یا خیرات ملے ۔چیف جسٹس صاحب کو انہوں نے آئینی موشگافیوں میں اس طرح مصروف کر رکھا ہے کہ وہ اور کسی طرف خاص طور پر ان کی کرپشن کی طرف نہ آسکیں۔ پھر بھی وہ ان کے سیاہ کارناموں پر نظر ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ کو اگر آئینی تشریحات کے زریعے نہ مصروف کیا گیا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ طبقہ اشرافیہ کے خلاف زیادہ تن دہی اور توجہ سے ایکشن لیتی۔ یہ بھی طبقہ اشرافیہ کے ان نمائیندوں کی سوچ تھی کہ افتخار چوہدری کو کس طرح مصروف کیا جائے تاکہ وہ ہمارے کرتوں پر نظر نہ رکھ سکے۔ اربوں روپے لوٹ کر کوئی ڈیول نیشنل بھاگ جائے تو مسلہ نہیں۔ اربوں کی لوٹ مار کر سپریم کورٹ میں اپیل کر دو کہ میں نے تو فیصلے بحیثیت وزیر اعظم کیے تھے ۔ مجھے اکیلے کو کیوں سزا دی مجھے تو وزیراعظم بنانے والے عوام ہیں ۔ محترم آپ نے بہت پہلے عوام کو وزیر اعظم بنانے پر سولی چڑھا دیا تھا۔ اب مردے کا کفن اتارنے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ عوام نے جو اعزاز آپ کو بخشے تھے آپ نے اس کے صلہ میں جتنی رسوائی وذلت ان کا مقدر کی وہ ان کا نصیب تھا۔ شاید کہ اب انہیں عقل آ جائے اور یہ سنور جائیں۔ یہاں عشق ممنوع ہے صرف وطن سے ، عوام سے ، آئین وقانون سے، غیرت وفاداری سے ۔یہاں حقیقی نہیں مجازیات پر سب کچھ قربان کیا جاتا ہے۔بے حسی کو حیات ہے اور جذبو ں کو یہاں زندگی نہیں موت دی جاتی ہے ۔ ایسے میں اس قوم سے اس ملک سے اس قانون سے آئین سے کون وفا کرے گا۔