Home / Socio-political / جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کو احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں

جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کو احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں

جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کو احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں

عابد انور

                ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنے دکھ درد اور جذبات کے اظہار کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح کی حماقت کرے گا تو موت ان کی مقدر ہوسکتی ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ پولیس کے رویے، میڈیا ٹرائل اور ہندی میڈیا میں چلنے والی بحث سے یہ بات چھن کر آرہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی مسلمان اپنے دکھ درد کو لیکر سڑکوں پر اترتے ہیں انہیں گولیوں سے جواب دیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کا تالا کھولنے، شہادت اور برسی کے موقع پر ہونے والوں مظاہروں میں بیشتر مواقع پر مسلم نوجوانوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے اس کے برعکس دوسرے فرقے کے افراد پوری انتظامی مشنری کو مفلوج کردیتے ہیں یہاں تک کہ پولیس والوں اور دیگر اعلی افسران کی جم کر پٹائی بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کچھ نہیں بگڑتا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کیا جاتا ہے اگر کیا جاتا ہے بھی تو اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ دو چار سماعت کے بعد ہی دم توڑ دیتے ہیں مگر جب مسلمان اپنے مسائل، اپنے اوپر ہونے والے مظالم، امتیازی سلوک اور ظلم و زیادتی کے سبب کوئی احتجاج یا مظاہرہ کرتے ہیں تو  پولیس فوراً حرکت میں آجاتی ہے اور مسلمانوں کو سبق سکھانے کے عزم کے ساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ ممبئی میں گزشتہ ۱۱ !۔اگست کو جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں کا غصہ تھا جو حکومت ہند کے سامنے ظاہر کررہے تھے۔ گزشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں کو جس طرح دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر منظم منصوبہ بندی کے تحت کے تباہ و برباد کیا جارہاہے اس سے مسلم بہت ناراض ہیں۔ کہیں بھی بم دھماکہ ہوتا ہے حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کا پہلا نشانہ مسلمان ہوتا ہے۔ دھماکہ سے چند منٹ پہلے تک پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور ہندوتو میڈیا کو کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے دھماکہ کے فوراً انہیں سب کچھ ،معلوم ہوجاتا ہے۔ یہاں تک تنظیم اور اس کا پورا شجرہ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ وہ عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں تاکہ عوام مسلمانوں کو حقارت کی نظر دیکھیں اور تمام مسلمانوں کو فسادی ، دہشت گرد اور تمام جرائم کے لئے ذمہ دار سمجھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دھماکہ سے پہلے ہر ٹی وی چینل کے پاس اسکرپٹ تیار ہوتی ہے اور بحث میں حصہ لینے والے تمام ارکان کو تیار بیٹھے رہتے ہیں اور دھماکہ ہوتے ہی یہ تمام حضرات میدان میں کود پڑتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ممبئی فساد کے بعد ہی ہوا اورتمام ہندی نیوز چینل نے مسلمانوں کا ٹرائل شروع کردیا اور تمام مسلمانوں کو فسادی ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے ۔سارا زور اس پر تھا کہ مسلمان تشدد برپا کرنے کی نیت سے ہی آئے تھے۔ میڈیا کو اس بات پر افسوس پر تھا کہ کم مسلمان کیوں مارے گئے تھے۔ پولیس کمشنر کے ہدایت دینے کے انداز کو آمرانہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی گئی حالانکہ پولیس کمشنر کا قدم تشدد کو کنڑول کرنے والا تھا۔ہندوتو میڈیا کی یکطرفہ خبر نگاری اس وقت سامنے آئی جب بہت سارے نیوز پورٹل میں یہ دکھایا گیا کہ مسلمانوں نے دنگا کیا اور پولیس والے زخمی ہوئے۔ اس میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ مسلمان بھی زخمی ہوئے ہیں یا جن دو لوگوں کی اس تشدد میں موت ہوئی ہے وہ دونوں مسلمان ہی ہیں۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر مسلمانوں کے اپنے میڈیا ہاؤس کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا خواہ وہ ہندی ہو یا انگریزی آسام فسادات کے لئے بنگلہ دیشی درانداز (مسلمانوں) کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے اور اس کو ثابت کرنے کیلئے من گھڑت یک طرفہ رپورٹیں پیش کر رہا ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کی یہ تیسری اور چوتھی نسل ہے اور وہ اس وقت آسام میں گئے تھے جبکہ بنگلہ دیش کا وجود تک نہیں تھا تویہ پھر بنگلہ دیشی کیسے ہوگئے۔یہ سوال بی جے پی، میڈیا اور دیگر امن دشمنوں سے کیا جانا چاہئے۔

                ممبئی کے آزاد میدان میں ۱۱، اگست کو مسلمان آسام میں مسلمانوں کے قتل عام اور برما میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام اور ملک بدری کے خ۔لاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ کیوں کہ حکومت ہند نے آسام فسادات پر کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا تھا اور چار لاکھ سے زائد پناہ گزیں کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت رہ رہے ہیں۔ برما کے بارے میں حکومت ہند نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا جبکہ امریکہ میں گردوارہ پر حملہ ہوا تو وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سمیت پوری مرکزی حکومت حرکت میں آگئی لیکن جب امریکہ میں مسجد کو شرپسند عناصر نے نذرآتش کردیا تو حکومت ہند کو سانپ سونگھ گیا اوروزیر اعظم بھی خاموش رہے۔ برما میں کم از کم چ۳۰ ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے لیکن حکومت نے اس پر کسی طرح کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جس پر مسلمانوں کو غصہ آنا لازمی ہے۔ جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں ہزاروں افراد آسام اور برما میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔کچھ لوگ جوش میں آگئے اور اپنے ہم وطنوں کی طر ح ان لوگوں نے بھی اپنا غصہ گاڑیوں اور بسوں کو اتارنا شروع کردیا جس کی وجہ سے متعدد گاڑیوںکو بھی نقصان پہنچا اس فعل کو صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ان پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم پچپن افراد زخمی ہوئے جن میں سے دو شخص محمد عمر اور الطاف شیخ نے بعد میں ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ پولیس انتظامیہ کو معلوم تھا مسلمان جمع ہوں گے اس کے لئے خاطر خواہ بندوبست کرنا چاہئے۔ اتنی بھیڑ میں یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی۔ مسلم دشمن عناصر اسی بھیڑ کا فائدہ اٹھاکر مجمع میں گھس جاتے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے تخریبی کارروائی کرگزرتے ہیں۔ اس فساد میں بھی یہی ہوا۔اس احتجاج کے کنوینر سعید نوری کے مطابق اکیڈمی کے لوگوں کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ان کے مطابق تشدد برپا کرنے والے کوئی اور تھے اور تنظیم کے لوگ آزاد میدان کے اندر بیٹھے تھے۔تشدد برپا کرنے والے کون لوگ تھے ان کے بارے میں انہیں کچھ نہیں معلوم۔ بھیڑ میں سماج دشمن عناصرشامل ہو گئے تھے۔پولیس نے ان تمام لوگوں پر جم کر اپنا ہاتھ صاف اور گرفتار کیا جو اپنی گاڑی لینے کیلئے آزاد میدان گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے تشدد کے سلسلے میں اتوار کو ۲۳ لوگوں کے خلاف قتل، قتل کی کوشش، چھیڑ چھاڑ اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔ ان تمام لوگوں کو ۱۹ اگست تک کے لئے پولیس حراست میں بھیج دیا ہے ۔ملزمان میں سے ایک کے وکیل حسین اے آر شیخ نے بتایا کہ ان کا موکل ۲۲ سالہ غلام ایم موسی شیخ باندرا کے رضوی کالج میں انجینئرنگ کے آخری سال کا طالب علم ہے۔اس نے آزاد میدان کے پاس موٹر سائیکل کھڑی کی تھی، جسے لانے گیا تھا اسی وقت اسے گرفتار کر لیا گیا۔

                یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہندوستان میں احتجاج میں تشد د بھڑک اٹھا ہو۔ یہاں احتجاج کی تاریخ ہی تشدد سے عبارت ہے۔ آج تک کوئی احتجاج یا بند ایسا نہیں ہوا ہے جس میں جان و مال کا نقصان نہ ہوا ہو، خاص طورپر احتجاج کے دوران مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانوں کو نشانہ بنایا جانا تو عام بات ہے ۔ہم یہاں صرف دو پرتشدد تحریکوں کا ذکر نے پر اکتفا کر رہے ہیں جس کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے۔ پہلی تحریک گوجر تحریک ہے جس نے راجستھان ہی نہیں پورے ملک کو یرغمال بنالیا تھا۔ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۱ کے دوران چلنے والی اس تحریک میں نہ صرف ۷۰ افراد ہلاک ہوئے تھے بلکہ ریاست کی پوری مشنری ٹھپ ہوگئی تھی۔ ریل خدمات ہفتوں تک معطل رہی تھی لیکن گوجروں کا بال تک باکا نہیں ہوا تھا بلکہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اس کی ناجائز مانگیں تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی تھیں جب کہ گوجر کو راجستھان میں گوجروں کو او بی سی کا درجہ حاصل ہے لیکن وہ ایسی ٹی کے زمرے میں شامل کئے جانے پر مصر تھے ۔ سب جانتے ہیں کہ راجستھان میں میں جنگل نہیں ہے بلکہ وہ ریگستانی خطہ ہے۔ اس کے باوجود وہ اس پر مصر رہے۔ ریل اور اور زمینی ٹریفک خدمات کو معطل کرنے پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تحرایک چلانے والے جاٹ طبقے کے لوگوں کو لازمی خدمات ریل اور زمینی ٹریفک کو درہم برہم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کیونکہ اس سے عام لوگوں کو زحمت ہوتی ہے۔جسٹس التمش کبیر کی سربراہی والی بنچ نے مفاد عاملہ کی ایک پٹیشن پر خصوصی سماعت کے دوران یہ ہدایت جاری کی تھی۔ درخواست دہندہ نے عدالت سے کہا تھا کہ ریل اور زمینی ناکہ بندی کی وجہ سے عام لوگوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ملک کو ٹرینوں کی منسوخی کی وجہ سے پہلے ہی سینکڑوں کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے اور اب تک بارہ سو ٹرینیں منسوخ کی جاچکی ہیں۔عدالت نے تحریک چلانے والے لیڈروں کی ان دھمکیوں کا بھی سخت نوٹس لیا ہے تھا کہ اگر ان کی مانگیں پوری نہ کی گئی تو وہ۲۸ مارچ کو دہلی سیل کردیں گے۔ صرف ۲۰۰۸  کے گوجر تحریک سے ریلوے کو قریب ۵۰ کروڑ روپے کا نقصان صرف ٹکٹ کینسل کرانے سے ہوا تھا اور ریلوے املاک کو جو نقصان پہنچا تھا وہ الگ تھا اور اسی کے ساتھ صنعتی دنیا کو سات ہزار کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔یہ نقصان صرف چند دن کا تھا ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۱ کے درمیان ہونے والے نقصان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اس تحریک سے لاکھوں کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اپنی پرتشدد تحریکوں کے درمیان گوجروں نے نہ صرف زمینی ٹریفک درہم برہم کردی تھی بلکہ ریل کی پٹریاں تک اکھاڑ دی تھیں اور ہفتوں ریل کی پٹریوں پر بیٹھے رہے تھے لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

                ایک اور تحریک جو ممبئی سے وابستہ ہے۔ شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے قبل ۱۹۶۹میں جنوبی ہند کے لوگوں کو نشانہ بنایا تھا اور غریب مزدوروں کو زدو کوب کیا تھا اور اس پرتشدد تحریک کی بنیاد پر اپنی پارٹی شیو سینا کھڑی کی تھی۔ اسی کی پیروی کرتے ہوئے ان کے بھتیجے راج ٹھاکرے نے اپنی پارٹی مہاراشٹر نونرمان سینا  (ایم این ایس )کے ۲۰۰۶ میں قیام کے بعد سے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے چاچا کے راستے پر چلتے ہوئے شمالی ہند کے باشندوں کو نشانہ بنایا۔ اس دوران ایم این ایس کے کارکنوں گاہے بگاہے پورے ممبئی کو یرغمال بنایا۔ درجنوں گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔سرکاری بسوں اور املاک کو نقصان پہنچایا، خصوصاً شمالی ہند کے باشندوں کے مکانوں، دکانوں اور گاڑیوں کو چن چن کرکے تباہ کیا۔ یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا تھا۔اس میں بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔اس موقع پر پولیس نے کتنے ایم این ایس کے کارکنوں کو گرفتار کیا۔ پولیس اس موقع خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ شمالی ہند کے باشندوں کو سرعام پیٹا جارہا تھا ۔ امتحان دینے والوں کو طلباء کو ایم این ایس کے کارکنوں نے ہوٹل، بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن پر سرے عام زدوکوب کر رہے تھے لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔راج ٹھاکرے کے پاس اپنی پارٹی کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ مراٹھی ووٹ بینک کے لیے انہوں نے اپنے چاچا ٹھاکرے کی ہی طرح کارڈ کھیلا ہے اور شاید وہ اس میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئے آج اس پارٹی کے کارپوریشن سمیت اسمبلی میں درجنوں ممبران ہیں۔۲۰۰۴ میں لوک سبھا انتخابات میں شیو سینا لیڈر منوہر جوشی کی شکست نے شیو سینا کو یہ احساس دلایا کہ ان کی پارٹی شمالی ہند کے باشندوں کو نظرانداز کر کے کامیاب نہیں ہو سکتی اس لیے انہوں نے ان باشدوں کے پروگراموں میں شرکت شروع کی۔ ممبئی اور اس کے نواحی علاقوں کی آبادی ایک کروڑ پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اس میں مراٹھی محض اٹھائیس فیصد ہیں جبکہ شمالی ہند کے رہنے والوں کی آبادی ۳۳ فیصد ہے۔اس جھڑپ کو جس طرح میڈیا نے منظم فساد ثابت کرنے کی کوشش کی اس سے ایک بار پھر اس کا دوہرا معیار اور مسلم دشمن چہرہ سامنے آگیا۔اگر مسلمانوں نے او بی وین کو نشانہ بنایا ہے تو میڈیا اہلکار کو اپنے رویے پر نظرِثانی کرنا چاہئے اور اپنے آپ کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ خبر نگاری میں کس حد تک صحافت کے اصول پر گامزن ہے یا وہ ہندوتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔

                 مولانا اسرارالحق قاسمی ممبر پارلیمنٹ کی قیادت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کشن گنج میںشاخ کے لئے زمین فراہم کرنے کے حکومت بہار کے ٹال مٹول رویے کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا اور پرامن طور ریلوے کی پٹری پر دھرنا دیا تو انتظامیہ نے تمام لوگوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے جو اب بھی جاری ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی میں اکبری مسجد ڈھانچے برآمد ہونے کے بعد مسلمانوں نے نماز ادا کرنا شروع کردیا اور پولیس جب اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف احتجاج کیا تو درجنوں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج ہیں اور ایک درجن کے قریب مسلم نوجوانوں کو پولیس کے گرفتار کیا ہے۔ اس مطلب یہ ہوا ہے کہ مسلمان اگر اپنی حق تلفی، امتیازی سلوک، ظلم و زیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو اولاً پولیس والے پہلے ان کا استقبال گولیوںسے کرتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ان پر مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے کال کوٹھری میں ٹھوس دیا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے احتجاج، دھرنااور جلسے جلوس کو پرتشدد رنگ ہرگز نہ دیںکیوں کہ سرکاری املاک اور عوامی سہولت کے مقامات کو نقصان پہنچانا خلاف اسلام ہے ۔ اپنا احتجاج جمہوری طریقے سے کریں اور اپنے نمائندوں خصوصاً مسلم نمائندوں کا ناطقہ بند کریں اور انہیں مجبور کریں وہ آپ کے مسائل کے لئے آواز اٹھائیں۔ آپ نے ان کو اپنا قیمتی ووٹ دیا یہ آپ کا حق ہے کہ ان سے سوال کریں کہ وہ آپ کے حقوق کیلئے کیا کررہے ہیں۔ کوئی لیڈر مسلمانوں کا قاتل ہے اپنا احتجاج اس وقت تک پرامن اور جمہوری طریقے سے جاری رکھیں جب تک کے ان پر عدالت کا شکنجہ نہ کس دیا جائے۔ حکومت یا سرکاری ایجنسیوں پر دباؤ ڈالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ آپ پرامن طریقے سے اپنا احتجاج کام پورا ہونے تک جاری رکھیں۔ ہم غیروں سے کیا شکایت کریں ہمارے اپنے نمائندے (مسلم نمائندے) کسی بھی ناانصافی اور ظلم کے معاملے میں اپنا منہ نہیں کھولتے۔ کوسی کلاں ، بریلی یا دیگر علاقوں میںہونے والے مسلم کش فسادات کے خلاف کتنے مسلم نمائندوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *