ابھی دو دن پہلے ہی میں نے ایک تحریر کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کے نئے اہداف کے حوالے ایک تحریر کے زریعے دہشت گردانہ واقعات کی مذمت کی تھی ۔ اس تحریر میں میں نے لکھا تھا کہ پاکستان کے دہشت گرد اب اتنے خونخوار ہوگئے ہیں کہ انھیں انسانی خون بہانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ، اسی لیے وہ ہمیشہ اپنے اہداف بدلتے رہتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے انھوں نے اسکول کے طلبہ کو اپنا نشانہ بنایا اور کئی طالب علموں کی جانیں لے لیں ۔ اسی تحریر میں میں نے ان کے اہداف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ و ہ مسجد و خانقاہ کے بعد اب جنازے کے جلوسوں کو بھی اپنا نشانہ بنانے لگے ہیں۔لیکن جس چیز کی ہم نے بھر پور مذمت کی تھی وہ نماز جنازہ کو نشانہ بنا نے والوں کو کی تھی ۔ لیکن ہماری یہ تحریر ابھی پرانی بھی نہیں ہوئی تھی کہ15ستمبر کوخیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے دل دہلانے والی خبر آئی کہ نماز جنازہ کے جلوس میں ایک مرتبہ پھر دہشت گروں نے خود کش حملے سے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا۔پاکستانی اخبارجسارت کی رپورٹ کے مطابق ضلع لوئر دیرکے صدر مقام تیمرگرہ سے 35 کلومیٹر دور تحصیل ثمر باغ کے علاقہ شینہ سدبرکلے میں افغان صوبہ کنڑ کے سابق گورنر ملک زرین خان کے بھانجے اور مقامی امن لشکرکے رہنما بخت سلطان کی نماز جنازہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوگئے، زخمیوں میں متعدد کی حالت نازک ہونے سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ ترمقامی امن لشکر کے رکن ہیں، رپورٹ کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب گاؤں کے لوگ نمازجنازہ اداکررہے تھے۔ نمازجنازہ میں مقامی امن لشکر کے رہنماؤں سمیت قبائلی عمائدین اور علاقہ کے لوگوں کی کثیرتعداد موجود تھی، مقامی لوگوں کے مطابق امام نے جونہی تیسری تکبیرکیلئے اللہ اکبرکی آواز بلندکی توجنازہ گاہ میں پہلے سے موجود دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑادیا ۔اس کے بعد جاں بحق ہونے والے افراد کے جسم کے اعضاء دور دور تک بکھرگئے جس کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے افراد میں بیشتر کی شناخت نہ ہوسکی۔ابھی تک ثبوتوں کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بزدلانہ حرکت کس کی ہے۔ لیکن نجی ٹی وی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان ملاکنڈ کے ترجمان نے لوئر دیر میں نماز جنازہ کے اجتماع میں خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ لوئر دیر کے مکینوں نے تحریک طالبان کے خلاف لشکر بنایا تھا جس کے جواب میں کارروائی کی گئی ہے۔
اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ ان واقعات کے بعد اب پاکستان میں کوئی شخص کسی کی موت پر بھی گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرے گا ، کیونکہ اب تک لوگ بازار اور بھیڑ والی جگہ جانے سے پر ہیز کرتے ہیں خاص طور پر کسی جشن یا سیاسی یا سماجی جلسوں میں جانے سے پر ہیز کرتے ہیں ۔تہواروں کے موقعے پر بھی لوگ خود کو گھروں میں بند رکھنا مناسب سمجھتے ہیں کیونکہ ہر وقت یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ نجانے کب کس مقام پر کوئی حادثہ ہوجائے ۔ اسی طرح لوگ مسجدوں میں جاتے وقت بھی کہیں نہ کہیں خوف محسوس کرتے ہیں ۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں جو سکون اور امن میسر آسکتا ہے وہ اور کہیں نہیں مل سکتا ۔ لیکن تضاد کی حیرت ہے کہ پاکستان کی مسجدوں میں بھی دہشت گردوں نے اپنی گھناونی کرتوتوں سے خوف و دہشت کا ماحول پید ا کر دیا ہے۔اور حیرت اور استعجاب کی انتہا یہ ہےکہ کسی کی موت پر لوگ بڑی تعداد میں اس کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، مر حوم کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ساتھ وارثین سے تعزیت کااظہار بھی کرتے ہیں ۔ ایسے غمزدہ ماحول کو اور بھی غمزدہ بنانے کی یہ سازش کیوں رچی جارہی ہے اور کس طرح دہشت گردوں کا دل گوارہ کرتا ہے کہ ایسی جماعت میں گھس کر خود کش حملہ کرتا ہے اور سب کو مرحوم بنادیتا ہے۔
ایک مسلم ملک میں اس طرح کے دہشت گردانہ کاروائی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ لیکن اب یہ ناقابل تسلیم اور عقل کو ششدر کردینے والی حرکتیں لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ کوئی کیا کرسکتا ہے ؟ ہم جیسے لوگ اپنی تحریروں سے اپنے غم و غصے کا اظہار کرسکتے ہیں ۔لیکن ان کے دلوں اور ذہنوں سے خوف و ہراس اور دکھ دردکو کیسے دور کرسکتے ہیں جو براہ راست اس کے شکار ہوئے ہیں۔حکومت بھی خاموش تماشائی ہے اور دہشت گردی کے انسداد کی جتنی کو ششیں کی جارہی ہیں اسی قدر میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ کیا کبھی دہشت گردی پاکستان کی پاک سر زمین سے ختم بھی ہوسکتی ہے۔؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس پر پاکستان کو گہرائی سے سوچنا پڑے گا۔ مگر موجودہ حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے وجود کو بچانے میں مصروف ہے ۔ ایسے کتنے واقعات اور حادثات آئے دن ہورہے ہیں ، شہر کے شہر جل رہے ہیں ۔ اقتصادی طور پر کراچی تباہ ہوچکا ہے ۔ اس ساتھ ہی ملک میں وبائی امراض اور سیلاب سے تباہی مچی ہوئی ہے لیکن حکومت بے دست و پا نظر آرہی ہے۔اور پاکستانی عوام بس معصومانہ انداز میں دست دعا دراز کیے ہوئے ہے۔ خدا پاکستان کو ان مصائب سے محفوظ رکھے اور ایک اسلامی ملک کا وقار بحال ہوسکے ۔