Home / Socio-political / جوشِ خطابت

جوشِ خطابت

جوشِ خطابت

سمیع اللہ ملک

انسانی نفسیات اور مزاج کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ اکثر دورانِ گفتگویا جوشِ خطابت میںجھوٹ بول جاتا ہے۔کبھی اس عمل کے پسِ پشت محض زبان کا چٹخارہ ہوتا ہے کبھی جھوٹی معلومات کے بل بوتے پر اپنا قد بڑھایاجاتا ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل میںاپنے مخالفین کے بارے میں ڈس انفارمیشن کو اسٹریٹجک طریقۂ کار سمجھ لیا جاتا ہے ۔ایسے روّیے شکست خوردگی کے احساس کی غمّازی کرتے ہیں۔یہ کہنا درست ہوگاکہ جھوٹ ،خود بولنے والے کے زاویہ نظر سے راست نسبت رکھتا ہے۔اس ذہنی کج روی کی گواہی قرآن مجید فرقانِ حمید ان الفاظ میں دیتا ہے کہ’’ص والقرآن ذی الذکر ‘ بل الذین کفرو فی عزۃ و شقاق ‘ ‘ ’’ص قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی،بلکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے،سخت تکبّر اور ضد میں مبتلا ہیں۔‘‘(سورۃ ص۱۔۲)

ایسے لوگ جو کچھ دیکھتے اور جو سنتے ہیں،اس کی تشریح اپنے نقطۂ نگاہ کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔دل کی تنگی اور فہم و فراست کی پستی اس سطح پر آجاتی ہے کہ عقل و فہم کے حوالے سے وہ خود کواس بلندی کا اہل ماننے لگتے ہیںکہ سمجھ کے پیمانے کو کل کی انتہاء ثابت کرنے پر بضد رہیں اور اس انتہاء تک جا پہنچتے ہیںکہ ہدائتِ ربانی میں بھی کھوٹ نکالنا سوجھ بوجھ کی علامت گردانتے ہیں۔اس بزعمِ خود غلط سوچ کے حامل انسانوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اپنی فطرت کے مطابق انسان نیک ہے۔اپنے منفی نفسِ ذات کے تحت کوئی فرد نیکی کرنے سے گریز کرتا ہو،تب بھی اس کی طبیعت نیکی سے نفرت پر مائل نہیں ہوتی ،نتیجے میں نیکی کے بجائے نیکی کرنے والے کے خلاف اس کے دل میں منفی جذبات پیدا ہو جائیں۔اس کی یہ دلی خواہش ہو جائے کہ نیکی کرنے والا بھی اس کے چلن پر چل نکلے۔قرآنِ مجید فرقانِ حمید اس نفسیاتی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ’’و د کثیر من اھل الکتاب لویردونکم من بعدایمانکم کفارا۔‘‘’’اگرچہ حق (عقلی طور پر قابلِ قبول طریقۂ زندگی)ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بناء پر (یعنی منفی نفسِ ذات کے دباؤمیں) تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے(کہ تم بھی ایمان کی روش کو کفر سے بدل لو)‘‘سورۃ البقرہ۱۰۹۔اس کے جواب میںنیک خو کو لازم ہے کہ اپنے خلاف حسد کے اظہار میں وہ اپنی متعین کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔بحث میں الجھنے اور خود اپنے دل میں منفی خیالات کو جگہ دینے کی بجائے اس حکمت کو اختیار کرے جس کی قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے اس بیان میں نشاندہی کی ہے۔’’فاعفوواصفحو حتی یاتی اللہ باامرہ ‘ ان اللہ علی کل شی ء قدیر۔‘‘’’تم عفو درگزر سے کام لو،یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے۔مطمئن رہو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔۱۰۹)

وہ لوگ جو اپنی برتری یا جوشِ خطابت میں جھوٹ پر اڑے رہتے ہیں،اس پہلو پر توجہ نہیں دیتے کہ کہی گئی بات عقل کے کسی پیمانے پر درست نہیں بیٹھتی ہے ۔تھک ہار کرالٹا وہ مخالف پر الزامات لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔سچائی سے چشم پوشی کے اس جرم  پر قرآنِ کریم فرقانِ حمید کا بیان ہے’’اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون  بافواھکم ما لیس لکم بہ علم و تحسبونہ ھینا ‘وھو عنداللہ  عظیم۔‘‘’’(غور کرو کہ تمہارا یہ رویّہ کتنی بڑی غلطی کے مترادف ہے کہ تم اکیلے ہی اپنے کہے کے دعوے دار ہو،تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان(بلا تحقیق بات کو آگے بڑھانے ولے)اس جھوٹ کو لیتی جارہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے ،جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہیں تھا،تم اسے ایک معمولی بات سمجھتے رہے،حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بہٹ بڑی بات تھی۔‘‘(سورۃ النور۱۵)

اخلاقی تقاضوں کا ایک رخ تو یہ ہے کہ غلط بات کہی نہ جائے اور اگر بے خیالی اور لا پرواہی میں کہی جا چکی ہے تو خود اس کی تردید کرنی چاہئے۔دل میں بسی منافقت پرپردہ ڈالنے اور اپنے غلط کو درست ثابت کرنے کو کوشش میںالزامات لگانے کی رِوش کوئی نئی نہیں ہے۔

مملکتِ مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی مختلف واقعات کے تناظر میںخطے کی سیاست میں انقلابی تبدیلی کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔اپنی انتہا پر’’صلح حدیبیہ‘‘متعارف ہوئی‘جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’کھلی فتح‘‘کا نام دیا۔اس واقعے کے تسلسل میں یہ واضح ہو گیا کہ کہ اب جزیرہ نما عرب کی بیش تر بستیاں مملکتِ مدینہ کی پاسبانی کے بغیر اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق پاسبانی کی خواہاں ان بستیوں کو فتح کرنااب آسان تھا۔اس مرحلے پر ایسے لوگ جو گزشتہ مراحل پر جنگ میں شرکت سے جی چراتے تھے،اب مالِ غنیمت کی لالچ میںاور خطرات نہ ہونے کے سبب اپنی نام نہاد سرفروشی کے اظہار میں پیش پیش ہو گئے۔سابقہ عدمِ شرکت پر انہوں نے یہ جھوٹا جواز گھڑ لیا تھا کہ ان کی کلیدی پوزیشن سے حسد کے سبب ان شرکت کی دعوت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ان کے رویوں کوقرآنِ مجید فرقانِ حمید نے ان الفاظ میں رد کیا ہے’’فسیقولون بل تحسدوننا‘ بل کانوا لایفقھون الا قلیلا۔‘‘’’نہیں‘بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو(حالانکہ بات حسد کی نہیں تھی)بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں۔‘‘(سورۃ الفتح ۔۱۵)

انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے ہدایاتِ ربّانی پرعمل کرنے کے برعکس ہردور میں مادیت پرستوں نے مالی ،معاشرتی اور سیاسی میدان میں حصولِ مفاد کیلئے دروغ گوئی کو سائنسٹفک

 ذریعہ سمجھا ہے۔ایک ایسی سیڑھی ‘جس کے استعمال پر ان کو کبھی شرمندگی نہیں ہوتی۔سچائی یہی ہے کہ جھوٹ کے پسِ پشت،جوشِ خطابت ہو،محض زبان کا چٹخارہ ہو،جھوٹی معلومات

انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے ہدایاتِ ربّانی پرعمل کرنے کے برعکس ہردور میں مادیت پرستوں نے مالی ،معاشرتی اور سیاسی میدان میں حصولِ مفاد کیلئے دروغ گوئی کو سائنسٹفک ذریعہ سمجھا ہے۔ایک ایسی سیڑھی ‘جس کے استعمال پر ان کو کبھی شرمندگی نہیں ہوتی۔سچائی یہی ہے کہ جھوٹ کے پسِ پشت،جوشِ خطابت ہو،محض زبان کا چٹخارہ ہو،جھوٹی معلومات  کے بل پر اپنا قد بڑھانا ہو یا مخالفین کی ڈس انفارمیشن ہو،نفسیاتی پیمانے پر ایسے تمام رویّے شکست خوردگی کے احساس کی غمازی کرتے ہیں۔ایسی زندگی انسان کو کامیابی سے دور کر دے گی۔وہ جاہ و حشم جو کسی دروغ گوکو ملا نظر آتا ہے ‘ایک دھوکا اور سراب ہے۔اس کی اصل وہی ہے جو قرآنِ مجید نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ’’ربنا اتنا فی الدنیا ومالہ فی الاخرۃ من خلاق۔‘‘ان میں سے کوئی تو ایسا ہے ،جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں سب کچھ دیدے(دیکھو اس کے مانگنے پر اس کو دے تو دیا جاتا ہے لیکن) ایسے شخص کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘(سورۃ البقرہ۔۲۰۰)

عقل و خرد کا تقاضہ ہے کہ وقتی تسکین اور خواہشات کی بجائے ہمیشگی پر نظر رہے اور صداقت اور راست گوئی کواپنا لازمی شعار بنالیا جائے،یہی نجات اور فلاح کی راہ ہے۔ارشادِ نبوی کے بموجب ’’سچائی انسان کو نجات دلاتی ہے اور جھوٹ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس کے قریب بونردیامروی نانگا پربت بیس کیمپ میںتقریباً بارہ مسلح حملہ آوروں نے نصف شب کو ایک مقامی ہوٹل کے اندر گھس کردس غیر ملکی سیاحوں جن میںیوکرائن، چین ،نیپال، روس کے شہری کے علاوہ ایک پاکستانی سیاح کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے بی بی سی کو فون کر کے بتایا کہ یہ حملہ اس علاقے میں ان کے ذیلی گروپ جنودِ حفصہ نے کیا ہے جس کا مقصد ڈرون حملوں کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانا ہے۔

دوسری جانب وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو معطل کر کے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ انھوں نے سکیورٹی اداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خود سے کام نہیں کرتے اور جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو تب ہی حرکت میں آتے ہیں جبکہ پچھلے دنوں بھی موصوف نے کہاتھاکہ’’ جنرل پاشاتوچلے گئے مگرآئی ایس آئی اورفوج میںان جیسے لوگ آج بھی موجودہیں،ان سے جان چھڑانابھی ضروری ہے‘‘۔یہ بیان کس قدردلچسپ ،حیرت انگیزاورمعنی خیزہے کہ امریکی حکومت کے خیالات بھی جنرل پاشاکے بارے میں یہی تھے۔پرویزمشرف کاانتخاب بھی توچوہدری نثار کی ہی سیاسی بصیرت کانتیجہ ہے جس کاخمیازہ ان کے اپنے قائدنوازشریف کے ساتھ ساتھ ساری قوم کوبھگتنا پڑا۔  بالآخر ان کے قائد کو اسی اسمبلی میںپرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے اورعدالتی فیصلے پر عمل درآمد کااعلان کرناپڑاجس کی تائید ساری جماعتوں نے کی ہے۔

 کیاہی اچھاہوتااگرچوہدری نثار سایوں کاتعاقب کرنے کی بجائے شرم الشیخ کے موقع پربھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کوپاکستانی طالبان اورلشکرجھنگوی کی سرپرستی کے جو واضح اورمضبوط ثبوت فراہم کئے گئے تھے جس کاوہ آج تک جوب نہیں دے سکے،قومی اسمبلی میںپاکستانی قوم اورعالمی برادری کواس سے آگاہ کرتے ۔آج انہی قوتوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے چین اوردیگرپاکستانی دوست ممالک کے شہریوں کواپنی بربریت کاشکارکرکے اس خطے میںپاکستان کوتنہااورنئی منتخب حکومت کیلئے عالمی برادری میں بے پناہ مشکلات سے دوچارکرنے کی ایک اور سازش کی ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *