ڈاکٹر قمر تبریز
پاکستانی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرات
پاکستانی میڈیا میں آج کل ملک کی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرات سے متعلق ایک امریکی صحافی کی تازہ ترین رپورٹ اور اس کے ذریعے کیی گئے سنسنی خیز خلاصے کو لے کر زور شور سے بحث چل رہی ہے۔ اس امریکی صحافی کا نام ہے سیمور ہرش جو اپنے کالم کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اور جس نے گوانتا نامو جیل میں امریکی فوجیوں کے ذریعے کیی جانے والے مظالم کا پردہ فاش کرنے کے بعد عالمی سطح پر کافی شہرت حاصل کی تھی۔ امریکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’نیویارکر‘ میں چھپی اپنی اس تازہ رپورٹ میں ہرش نے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے تحفظ، اس کے حوالے سے امریکی پالیسی، پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے اس موضوع پر بات چیت اور صدر زرداری کے بارے میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے توہین آمیز کلمات کا ذکر کیا ہے۔ کالم نگار نے پاک فوج میں بغاوت اور کسی بھی دیگر بحران کی صورت میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے امریکی یونٹوں کی پاکستان آمد کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کا بھی ’’انکشاف‘‘ کیا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے ان صورتوں کی تردید کی گئی ہے۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر اخبارات یہ تاثر دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہرش نے یہ رپورٹ ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل کی پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش کے تحت شائع کی ہے۔ پاکستانی میڈیا کا ماننا ہے کہ چونکہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی دہشت گردی مخالف جنگ میں شکست کا سامنا ہے اور اس کے لیی اسے پاکستانی فوج کی مزید مدد درکار ہے، لہٰذا اس نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندوستان کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ تیار کیا ہے کہ پوری دنیا میں پاکستانی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرات کا پروپیگنڈہ کیا جائے کہ دہشت گرد ان جوہری اسلحوں کو حاصل کرکے پوری دنیا میں بھاری تباہی مچا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے یہ دبائو بڑھے گا کہ وہ اپنے جوہری اسلحوں کو تحفظ فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ کسی بھی طرح دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔ ایسے میں امریکہ ان جوہری اسلحوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق اپنی امداد دینے کو پوری طرح تیار ہو جائے گا۔ لیکن اس کا اصل مقصد ہوگا ہندوستان سے جنگ کی حالت میں پاکستان کو اتنا کمزور کردینا کہ وہ ہندوستان کے خلاف اپنے جوہری اسلحوں کا استعمال نہ کرسکے۔ پاکستانی میڈیا سے وابستہ زیادہ تر افراد کی یہی رائے ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکہ پاکستان سے ہمدردی جتا کر اس کی مغربی محاذ یعنی ہندوستان سے ملحق سرحد پر تعینات فوج کو ہٹا کر اسے مشرقی محاذ یعنی افغانستان سے منسلک سرحد پر تعینات کرنا ہے تاکہ طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی میں امریکہ کو تعاون حاصل ہو سکے۔
سیمور ہرش نے اپنی اس تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے اہل کار پاکستان اور واشنگٹن میں بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ پاکستانی فوج کے ساتھ نہایت حساس اور نازک مفاہمت کے لیے مذاکرات کرتی رہی ہے۔ ’’مفاہمت‘‘ کے مطابق کسی بحران کی صورت میں امریکی خصوصی تربیت یافتہ (فوجی) یونٹ پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے تحفظ میں امداد فراہم کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ ضروری اسلحہ وغیرہ خرید سکیں، پاکستانی فوج کے دستوں کو تربیت د ے سکیں اور ان کے لیے ضروری سہولتوں کی فراہمی بہتر بناسکیں۔ یہ ایسا ہدف یا مقصد ہے، جس کی ضرورت کا اظہار پاک آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کافی عرصہ قبل کیا تھا۔ جون 2009 میں امریکی کانگریس نے 40 کروڑ ڈالر کا ایک فنڈ منظور کیا تھا، جس کا مقصد امریکی انتظامیہ نے یہ بتایا کہ اس کا مقصد پاکستان کو کسی بھی خطر ے کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اس فنڈ سے پاک فوج ضروری آلات خرید سکے گی، فوجیوں کو تربیت د ے سکے گی، انتظامات کو بہتر بناسکے گی اور ضروری تعمیرات کرسکے گی۔ اس ’’مفاہمت‘‘ کو خفیہ رکھنے کی وجہ بڑی اہم تھی، کیونکہ پاکستان میں امریکہ کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کو یقین ہے کہ امریکہ کا اصل مقصد پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کا تحفظ نہیں، بلکہ اس میں تخفیف اور اسے تباہ کرنا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی ایٹمی اسلحہ کو قومی افتخار کا نشان اور ہندوستان کے حملہ کے خلاف مؤثر دفاع تصور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان سے نکلنے والے روزنامہ اوصاف کے ایک کالم نگار نوید مسعود ہاشمی ’پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو خطرہ! مگر کن سے؟‘ کے عنوان سے 17 نومبر، 2009 کو یوں لکھتے ہیں، ’’پاکستان کی قوم اگر آج اپنے آپ کو انڈیا کے مقابلے میں طاقتور سمجھتی ہے، اپنے ملک کی طاقت پر نازاں ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہے ۔ ۔ ۔ اگر آج بھارت اپنی تمام تر مکاریوں کے باوجود پاکستان پر براہ راست حملہ کرنے سے گریزاں ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہے۔‘‘
لیکن سیمور ہرش کی رپورٹ ایک طرف اور پاکستانی میڈیا کی لن ترانی دوسری طرف، اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حالیہ دنوں میں راولپنڈی میں واقع پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر اور کامرا اےئربیس (جہاں پر پاکستان کے بعض جوہری اسلحے رکھے ہوئے ہیں) کے باہر ہونے والے دہشت گردانہ حملے، اس شک میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری اسلحے اب دہشت گردوں کی پہنچ سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج میں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو انتہاپسندوں کے تئیں نرم گوشہ رکھتا ہے، لہٰذا کون شخص پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ فوج کا یہ حلقہ شدت پسندوں کو جوہری اسلحوں تک پہنچنے میں مدد نہیں کرے گا؟ دوسری بات یہ کہ خود پاکستان کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ طالبان کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور وہاں کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں برسرپیکار روسی فوج کے خلاف کھڑا کیا تھا۔ تو کیا آج یہی آئی ایس آئی طالبان کی خفیہ مدد نہیں کر رہی ہوگی؟ ساری دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کو آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج نے ہندوستان کے خلاف کھڑا کیا ہے، تو کیا مصیبت کی گھڑی میں یہ افراد ان دہشت گردوں کو جوہری اسلحہ فراہم نہیں کرسکتے؟ یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تو ہندوستانی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرات سے متعلق بھی خبریں آنے لگی ہیں۔ حالیہ تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ بعض دہشت گرد ہندوستانی جوہری تنصیبات کو اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ اس میں پاکستانی حکومت کی کوئی سازش کام کر رہی ہے۔ حالانکہ اس سازش میں پاکستانی دہشت گردوں کے ناپاک منصوبوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیی کہ اگر واقعی اس قسم کا کوئی خطرہ موجود ہے تو پھر اس کا تدارک کیسے کیا جائے، کیوں کہ دہشت گردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک۔ اگر پاکستان یہ سمجھ رہا ہے کہ جوہری اسلحے حاصل کر لینے کے بعد یہ دہشت گرد اسے پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، تو یہ اس کی بہت بڑی خام خیالی ہے۔ پاکستان کو ہندوستان کی طرف انگلی اٹھانے کے بجائے ان دہشت گردوں کو ٹھکانہ لگانے کی کوشش کرنی چاہیی جنھوں نے ہندوستان کا خون کم لیکن پاکستان کا خون زیادہ بہایا ہے۔