سمیع اللہ ملک
روز روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے کہ حق باطل کی طاقت سے کبھی خو فزدہ نہیں ہوا اور حق وباطل کی کشمکش روز اول سے قیامت تک جاری رہے گی ۔ لیکن اللہ کی نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ رہی ہے ۔ باطل قوت کی مختلف شکلیں وصورتیں ہو تی ہیں جس کا قرآن میں سورہ اعراف میں اس طرح ذکر کیاگیاہے ۔
(۱)نظام باطل نے قانون شرعی کی بالادستی سے انکار کر دیا اور حکم خداوندی کی مخالفت کی ۔ (۲)اس نے تکبر کیا یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور ذاتی بالادستی اور مطلق العنا نیت کو اختیا رکیا۔ (۳)اور تھا کا فروں میں سے ‘یعنی کا فروں کے مقابلے میں کا فروں کو تر جیح دینا ۔ (۴)اس نے کہا کہ اب میں تیری سیدھی راہ پر انسانوں کی گھا ت میں لگا رہوں گا یعنی انسانوں کو اغوا اور گمراہ کرنے کی ہر صورت کو شش کر تا رہوں گا۔ (۵)مخلوق خدا کو دھو کا دینا اور جھوٹ کو سچ کی صورت میں پیش کر نا ابلیس کی پسندید ہ پا لیسی ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
لیکن اللہ رب لعا لمین نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے رسول مبعوث فرمائے ۔ رسولوں کے ساتھ حق کی صورت میں تورات ، انجیل ، زبور صحیفے نازل کیے ۔ با لخصوص امتِ محمدی کے لیے تیس پاروں کی صورت میں قرآن مجید نازل کیا تا کہ انسان صراط ِ مستقیم پر ہمیشہ گا مزن رہے اورباطل سے کبھی مر عوب نہ ہو ۔ قرآن مجید میں ابوالا نبیاء حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا کئی مقام پر ذکر کیا تا کہ مسلمان کو کامل یقین ہوجائے کہ اللہ کہ نصرت حق کے ساتھ ہوتی ہے چنانچہ سورہ مریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا ” بے شک ابراہیم بڑا سچا پیغمبر تھا اس نے اپنے باپ آذر سے کہا :ابا ان کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ تو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تجھ سے کفایت کر سکتے ہیں ۔
اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے مردہ بتوں کی نفی کردی تو فوری باطل کی طرف سے دھمکی ملی کہ یہاں سے نکل جا وٴ ورنہ پتھروں سے مروادوں گا ۔ قرآن مجید نے واضح بیان کیا کہ حق باطل سے مرعوب اور خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ مزید حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے زندہ بتوں کی یعنی نمرود کی اور اس کے باطل نظام کی نفی کردی بلکہ ان کے مردہ بتوں کو پاش پاش کر دیا اور باطل کے مقابلے کے لیے ڈٹ گئے‘ گھبرائے نہیں ۔ باطل نے بہت بڑا فریب کیا ‘ آگ کا الا وٴتیار کیا ۔ بظاہر زمینی حقائق پر نظریں دوڑ انے والوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام پورے ملک میں اکیلے ہیں ، کمزور ہیں جماعت نہیں قوت نہیں، اسلحہ نہیں․․․․․ جبکہ دوسری طرف تمام تر وسائل موجود ہیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ حق غالب ہو گیا اور باطل مٹ گیا ، کیوں کہ حق کبھی باطل سے مر عوب نہیں ہوا اور خوف زدہ نہیں ہوا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زندہ اور مردہ بتوں کی نفی کردی ۔ فرعون کی اور اس کے باطل نظام بلکہ تمام پا لیسیوں کا انکار کر دیا ۔ فرعون نے مقابلہ کر ایا ۔ جادوگروں کو جمع کیا جو مقابلے کے لیے میدان عمل میں سامنے آئے ۔ ایک طرف پوری سلطنت مخالف ، حکمران مخالف ، بظاہر نظام باطل بڑی قوت اور طاقت کا مالک ہے ‘ دولت ، سر مایہ رعب، ودبدبہ تھا دوسری طرف دوبھائیوں کی صورت میں حق اکیلا اور کمزور نظر آرہا تھا‘مقابلہ ہوالیکن حق غالب آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا لیکن مقابلے کیلئے باطل کی صورت میں ابو جہل اور ابو لہب آئے۔ مکہ میں کشمکش شروع ہوئی‘ باطل اپنی پوری قوت کے ساتھ حق کو کچلنے اور مٹانے کے لیے بر سر پیکا ر رہا ، مسلمانوں پر بے پناہ ظلم کیے لیکن مسلمان کبھی باطل قوت سے خو فزدہ نہیں ہوئے ‘مقابلہ کرتے رہے ۔
مکہ سے مدینہ ہجرت کی لیکن کفر کی طاقت نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ سب سے پہلے معرکہ جنگ بدر ہوا۔ زمینی حقائق یہ تھے کہ ایک طرف زبردست طاقت ہے اسلحہ ہے ، افرادی قوت ہے ‘ دوسری طرف بظاہر حق کمزور ہے، بے سر وسامان ہے۔ ا س پیر کہن نے دیکھا ، فضاء نے دیکھا کہ اللہ کی نصرت اور مدد فرشتوں کی صورت حق کے لیے آئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کفر کی کمر ٹوٹ گئی حق غالب ہوا یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا۔ باطل ہمیشہ کے لیے شکست فاش سے دوچار ہوا۔ اللہ کے رسول ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے ۔ آپ ان کے مرد ہ بتوں پر ضربیں بھی لگا رہے تھے اور قرآن مجید کی آیت تلاوت فرمارہے تھے کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے “ ۔ خلاصہ یہ کہ اللہ کی زمین پر عدل وانصاف کا نظام قائم ہوا۔ ظلم اور بے انصافی ختم ہو گئی ۔ اسلامی ریاست قائم ہوئی ‘اخوت ومحبت کا چر چا عام ہوا‘عریانی فحاشی ختم ہو گئی۔ اسلامی ریاست کا دستور قرآن اور سنت محمد یﷺ مقر ر ہوا۔
جس کا مفہوم اور مقصد یہ ہے کہ(۱)حاکمیت اللہ کی ہوگی ۔ (۲)قرآن مجید ضابطہ حیات ہو گا اور رسول ﷺ کی سنت اور شریعت ماخذ ہو ں گے ۔ (۳)عدل بین الناس کا نظام قائم ہوگا ۔ (۴)مساوات بین الناس یعنی مسلمانوں کے تما م حقوق بلا لحاظ رنگ ، نسل ، زبان ووطن برابر ہوں گے ۔ (۵)قانون سے بالا تر کوئی نہیں ہوگا ۔(۶)تمام خزانے حکومت کے پاس اللہ کی امانت ہوں گے ، عدل وانصاف سے تقسیم کیے جائیں گے۔(۷)نظام شوریٰ قائم رہے گا جس کا مقصد یہ ہے کہ سر براہ ریاست کا تقرر مسلمانوں کے مشورے اور رضامندی سے ہو گا ۔(۸)نظام اطاعت ہو گا جس کامقصد یہ ہے کہ حکومت کی اطاعت معروف میں واجب ہو گی ،معصیت یعنی گناہ میں حکمرانوں کی اطاعت کا کوئی حق نہیں پہنچتا (۹) اقتدار کی طلب وحرص کا ممنو ع ہو نا ، جس کا مقصدیہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ منصب اور عہد وں کے لیے با لعموم اور خلافت کے منا صب کے لیے وہ لوگ سب سے زیادہ غیر منا سب اور غیر موزوں ہوں گے جو خود منا سب اور عہدوں کے طالب اور اس کے لیے کو شش کریں گے(۱۰) اسلامی ریاست کا مقصد نیکیوں اور بھلا ئیوں کو پروان چڑھانا‘ عریانی ، فحاشی ، ظلم ، بد امنی کو مٹا کر صالح معاشرہ قائم کرنا ہو گا (۱۱)امر با لمعر وف اور نہی عن المنکر مسلم معاشرے کے ہر فرد کا فرض منصبی ہے کہ حق سے تعاون کرے ظلم اور گناہ میں کسی سے تعاون نہ کرے۔
لیکن خلفاء راشدین کے بعد اسلامی ریاست کے دستور میں بے شمار تغیرات آئے مثلا ًطریقہ اقتدار میں تبدیلی واقع ہوگئی ‘ حکمران طبقہ شاہی محلات میں عیش وعشرت کی زندگی میں مشغول ہو گیا‘ اسلامی بیت المال کو قومی خزانہ سمجھا گیا یہاں تک کہ شاہی خاندان اور با دشاہوں کی ملکیت ہو گیا ۔ آزادی اظہار رائے کا خاتمہ ہو گیا ۔ حق بات کرنے والے لوگوں کو جیل میں بند کر دیا جا تا ۔ عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ ہوگیا ۔ نظام شوریٰ مکمل ختم ہو گیا ،نسلی اور قومی عصبتیوں کا ظہور شروع ہو گیا ۔ قانون یعنی دستور کی بالادستی کاخاتمہ ہو گیا ۔ اس دوران یزید کی حکومت قائم ہو گئی جس کی زبردستی بیعت لے جا رہی تھی۔ حضرت امام حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ۔ ادھر کوفہ والوں نے امام حسین کو خطوط بھیجے کہ آپ تشریف لائیں ہم آپ کی بیعت کریں گے ۔ آخر امام حسین اپنے اہل وعیال معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ تیار ہوئے جس میں ۳۲ شہسوار تھے اور ۴۰ پیدل چلنے والے تھے ‘کوئی فوج نہیں، طاقت نہیں لیکن یزید کی طرف سے چار ہزار فوج سامنے آئی۔ حق وباطل کا معرکہ چلتا رہا ۔ امام حسین نے حق کے لیے قربانی پیش کر دی ۔ سارا خاندان ِ رسول شہید ہو گیا ۔ آخر میں امام حسین اکیلے میدان کر بلا میں مقابلہ کر رہے تھے ۔ عصر کی نماز کا وقت ہوا ‘ امام حسین کوشہید کر دیا گیا‘ اما م حسین کے سر کو کوفہ لے جا یا گیا ۔ ابن زیاد نے جا مع مسجد میں امام حسین کے سرکی نمائش کی اور کہا : امام حسین آپ ہار گئے اور یز ید جیت گیا لیکن یہ فضا زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ یز ید جیت کر ہار گیا ہے اور امام ہار کر جیت گئے ہیں کیوں کہ قدرت کا قانون یہی ہے کہ فتح اور نصر ت حق کی ہوتی ہے ۔کچھ بھی تو نہیں رہے گا ، کچھ بھی تو نہیں بس نام رہے گا اللہ کا!