Samiullah Malik , London
بالآخرسپریم کورٹ نے کراچی کے حالات پر سوموٹونوٹس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے اپنافیصلہ محفوظ کرلیاہے اورجب تک فیصلہ نہیں آجاتااس وقت تک سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کوحکم دیاہے کہ کراچی کی روزمرہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرواتے رہاکریں۔اب سارے ملک کی نگاہیں شدت سے اس فیصلے کی منتظرہیں کہ عدالت عالیہ جس کوپوری قوم کی حمائت حاصل ہے اورجس کی بحالی کیلئے ساری قوم نے ایک بے مثال قربانی دیتے ہوئے اس کی بحالی میں اہم کرداراداکیاتھا۔اس مقدمے کی سماعت کے آخری روزریاست کی طرف سے بابراعوان اورسندھ ہائی کورٹ کے صدرانورمقصودنے عدالت کے معاون کی حیثیت سے اپنے دلائل مکمل کئے۔آخری روزکی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب افتخارچوہدری نے فرمایا:کراچی کے معاملات میں ایسا لگتاہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے لیکن ریاست ناکام نہیں ہوئی ہے۔اب تک ۱۳۱۰لوگ ماے گئے ہیں پھربھی کہتے ہیں کہ حکومت ناکام نہیں ہوئی ہے؟
جرائم پیشہ افراددندناتے پھررہے ہیں،اخبارپڑھیں توملک کاوزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہرکوئی ملوث ہے۔ایف آئی آر توکٹ جائے گی لیکن بندہ تومرگیاناں،اس طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ قتل ہوگیاہے۔ کہاں سے حکومت کامیاب ہورہی ہے؟ڈی جی رینجرزنے عدالت میں یہ بیان دیاہے کہ کراچی کے حالات وزیرستان سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ہم نے واضح طورپرکہاہے کہ حکومت کی جانب سے مسلح گروپوں سے واضح تحریری طورپرلاتعلقی کااظہارکیاجائے۔انہوں نے مزیدکہاکہ کہ قانون موجودہے،اگرسیاسی جماعتیں مسلح گروپوں سے لاتعلقی ظاہرنہیں کرتیں توپھران کے خلاف قانونی کاروائی کریں۔ہم نے کہاکہ حکومت ناکام ہوئی ہے،کبھی نہیں کہاکہ ریاست ناکام ہوئی ہے۔گلیوں میں لاشیں پرٰی ہوتی ہیں،لوگ اغواء ہورہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے بابراعوان سے استفسارکیا”گینگ واراورٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے ۔ لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیاکوکھلی چھٹی ملی ہوئی ہے،کیالوگوں کومرنے دیں؟یتیموں اوربیواوٴں کے گھربھی چلے جائیں۔عدالت نے بابراعوان سے سوال کیا::کیاکبھی کٹی پہاڑی پرمرنے والوں کے گھرگئے ہیں آپ؟“
سپریم کورٹ بنچ کے ایک اورمعززرکن جسٹس سرمدجلال عثمانی نے کہاکہ”ہمارے ملک میں سیاسی اقدارنہیں ہیں اسی لئے فوجی مداخلت ہوتی ہے۔حکومت اورمملکت کے فرق کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنی سوچ اورعمل سے خودکوپاکستانی ثابت کرناچاہئے ،پولیس خودجرم کرتی ہے،امن وامان کی صورتحال جان بوجھ کرخراب کی جاتی ہے۔حکومت جرائم پیشہ افرادکاساتھ دے رہی ہے توہم کیاکریں؟ اسی بنچ کے ایک اورمعززرکن جسٹس انور ظہیرجمالی نے سندھ حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل فتح ملک سے استفسارکیا: ”حکومت سندھ کی طرف سے حفیظ پیرزادہ پیش ہوئے اورانہوں نے خودتسلیم کیاکہ سندھ حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے اوراب آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ناکام نہیں ہوئی؟ جسٹس غلام ربانی کاکہناتھا:شہریوں کے خوف کوختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
آ ج عدالت کے روبرو بابراعوان نے ایک اہم بیان دیاکہ:اگرہم یہ کہیں کہ ہم ناکام ہوگئے ہیں تواس کے بین الاقوامی اثرات ہونگے،ہم ایٹمی طاقت ہیں،ہم ناکام نہیں ہوسکتے، انہوں نے مزیدایک چونکادینے والابیان بھی دیاکہ ۱۹۹۶ء میں نصیراللہ بابرکی قیادت میں ہونے والاآپریشن اس وقت کے حالات کابہترین حل تھالیکن اس کے ہی نتیجے میں حکومت تبدیل کردی گئی تھی۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں ناکام نہیں ہوئیں،صرف اتناکہہ سکتے ہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے گئے،بہتری کی اشدضرورت ہے۔عدالت عالیہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھریہ دردمندانہ سوال پوچھاگیاکہ کیاکوئی حکومت کاکوئی نمائندہ ان ہزاروں متاثرہ خاندانوں کے گھروں میں ان کی دلجوئی یاان کودلاسہ دینے کیلئے گیاہے، کیاکسی ہسپتال میں ان ٹارگٹ کلنگ کے ہاتھوں شہیدہونے والے مظلوموں کی دادرسی یاان کے سروں پرہاتھ رکھنے کیلئے کوئی فردگیاہے تو اس کاجواب کوئی نہ دے سکا۔اس سے زیادہ حکومت کی بے حسی کااورکیاعالم ہوسکتاہے۔
سپریم کورٹ کے سوموٹونوٹس لینے سے پہلے بھتہ خوروں کاراج تھا۔کراچی کے تجارت پیشہ افراد،دوکانداروں اورصنعتی پہیہ چلانے والوں سے بندوق کی نوک پربھتہ وصول کیا جاتا تھا ۔ایک اندازے کے مطابق ہرماہ پانچ ارب سے زائد رقم بھتہ کی مدمیں وصول کی جاتی تھی۔ان بھتہ خوروں کاتعلق مختلف جماعتوں سے بتایاجاتاہے۔بھتہ خورکراچی شہرکے مختلف کارخانہ داروں،دوکانداروں اوردوسرے کاروبارکرنے والے افرادکوپرچیاں بھیج دیتے تھے جس میں ان سے یہ مطالبہ کیاجاتاتھاکہ فلاں وقت پرفلاں مقام پرفلاں شخص کومطلوبہ رقم پہنچادی جائے اورپولیس کواطلاع دینے کی جرأت نہ کی جائے۔عدم ادائیگی کی بناء پر جانی اورمالی نقصان کے آپ خودذمہ دارہونگے۔ایسی مثالیں بھی موجودہیں کہ جنہوں نے ان بھتہ خوروں کی بات نہیں مانی توان پردستی بموں اورگرینیڈبرسائے گئے،اگراس سے کام نہیں بناتوپھرلوگوں کواغواء کرلیاگیااوربھتہ کی دہری ر قم وصول کرکے چھوڑدیایاپھر اس کی بوری بندلاش کواس کے علاقے میں پرچی کے ساتھ پھینک دیاجاتا جس سے کراچی شہرمیں دہشت اورخوف کی بناء پرشہریوں میں سراسیمگی پیداہوگئی اورجان ومال کے تحفظ میں حکومت بے بس اورناکام دکھائی دینے لگی۔
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کوشہریوں کواس عذاب سے نکالنے کیلئے سوموٹونوٹس لیناپڑااوراس کے پانچ رکنی بنچ نے مسلسل اس کی سماعت کرتے ہوئے کراچی کے تمام شہریوں کو بلا تفریق معاونت کی دعوت دی تاکہ اس ہولناک عذاب سے کراچی کے شہریوں کوچھٹکاراہ دلایاجاسکے۔لیکن دیکھنایہ ہے کہ سپریم کورٹ کی کراچی کی موجودگی پرتوقانون نافذ کرنے والے تمام ادارے فی الحال چوکس نظرآرہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی سماعت ختم ہوجانے کے بعدکیا صورتحال میں کوئی بہتری کی امیدکی جاسکتی ہے،فی الحال اس کے کوئی واضح اشارے نہیں مل رہے۔کیابھتہ خوروں کی مجرمانہ کاروائیاں ختم ہوگئی ہیں اورقتل وغارت کی وارداتوں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اس کے بارے میں کراچی کے متاثرہ افراداب بھی خوف وہراس میں مبتلاہیں۔
کراچی میں تواترکے ساتھ ٹارگٹ کلنگ کے بعدوزیرداخلہ رحمٰن ملک آپریشن کے نام پرپچھلے ڈھائی ہفتوں سے کراچی کے عوام کی ناکام اشک شوئی کررہے ہیں۔ٹارگٹ کلنگ کے مجرموں کے خلاف اپنی فتوحات کاگاہے بگاہے اعلان بھی کرتے چلے جارہے ہیں ۔انہوں نے میڈیاکے سامنے بڑی دلیری کے ساتھ اعلان کیاتھاکہ گلی محلوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے دفاترمیں چھپے ہوئے دہشتگردوں کوبھی پکڑاجائے گااور گرفتارکئے جانے والے ٹارگٹ کلرزکو۴۸گھنٹوں کے اندراندرمیڈیاکے ذریعے قوم کے سامنے پیش کیا جائے گااوران کے چہرے بھی نہیں ڈھانپے جائیں گے لیکن پاکستانی عوام ان کے اعلانات پرنہ توپہلے یقین کرتے تھے اوراب توان کی اپنی جماعت اورسندھ حکومت کے سابقہ وزیر داخلہ ڈاکٹرذوالفقارمرزانے اپنی دھواں دارپریس کانفرنس میں سر پرقرآن رکھ کر ان کوپیدائشی جھوٹاقراردیتے ہوئے ملک توڑنے کاالزام بھی لگادیاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین کونہ صرف کراچی میں قتل وغارتگری،بھتہ خوری کاذمہ دارقراردیاہے بلکہ یہ انکشاف بھی کیاکہ الطاف حسین نے ان کوبتایا کہ امریکااوربرطانیہ مل کرپاکستان کوتوڑنے کی سازش کررہے ہیں اورانہوں نے فیصلہ کیاہے کہ وہ پاکستان کوتوڑنے کے منصوبے میں ان طاقتوں کاساتھ دیں گے۔ذوالفقارمرزانے اپنی پریس کانفرنس میں اوربھی بہت سے خوفناک انکشافات کئے جس میں الطاف حسین کی طرف سے ٹونی بلیئرکولکھے گئے خط میں آئی ایس آئی کوتوڑنے کی خواہش کے علاوہ ایسی کئی پیش کشوں کاذکر کیاجوملک دشمنی کے درجے سے کسی طورپربھی کم نہیں لیکن اس کے باوجودکسی سطح پرکوئی حرکت ہے نہ حمیت۔یہ معاملہ صرف حکومت اور حکومتی عہدیداروں کے ہاں ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کوبھی کئی دن گزرنے کے باوجودیہ تاثردیاکہ ان سے بھی کم ازکم ملکی سلامتی کے حوالے سے کسی حساسیت کی توقع وابستہ نہ کی جائے ۔
ایم کیوایم نے کئی دنوں کی خاموشی کے بعدان الزامات کاکوئی جواب تونہیں دیالیکن مزیدچندن گزرنے کے بعدمصطفٰی کمال نے جوابی الزامات کی بارش سے ان الزامات کے داغ دھونے کی ناکام کوشش کی لیکن حیرت اس دن ہوئی جب الطاف حسین نے براہ راست مختلف پاکستانی ٹی وی چینلزپرساڑھے تین گھنٹے پوری قوم کویرغمال بنائے رکھااور اپنے اوپر لگائے گئے کسی بھی الزام کاجواب دینے سے گریزکرتے ہوئے الٹاسپریم کورٹ اورملکی افواج کوبین السطوردہمکیوں سے خوفزدہ کرتے رہے۔تاہم ایک چیزجس میں خیر کا پہلو موجود ہے کہ ذوالفقارمرزاکے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں بھگوان بن کر بیٹھے عناصرکے بارے میں جس طرح اظہارکردیاہے اب ذرائع ابلاغ اورسیاست کے میدانوں میں مارے خوف کے چپ سادھے رکھنے والے عناصرکیلئے ایسی شخصیات اورجماعتوں کانام نہ لینے والے اوراس بارے میں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے رکھنے والوں کیلئے اپنی زبانوں اورسوکھے قلموں کوضرورحرکت میں لانے کاموقع میسرآگیاہے کہ اب بھی خوف کی دیوارکونہ گرایاگیاتویہ دیوارخودایسے عناصرکودھڑام سے اپنے نیچے دفن کردے گی۔ یاد رہے کہ اب پاکستان کوتوڑنے والوں کوامریکااوربرطانیہ کی آشیربادباقی نہیں رہی اوران کے دن یہاں گنے جاچکے ہیں البتہ وہ اب بھی بھارت کی ہدایات پرگزارہ کررہے ہیں۔
پاکستانی عوام مہنگائی،کرپشن اورلاقانونیت کے ہاتھوں مایوسی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں اورکراچی کے عوام جہاں آئے روزلاشیں اٹھااٹھاکرتھک گئے ہیں وہاں بھتہ دینے کے جابرانہ عمل سے بھی تنگ آچکے ہیں اوراب توحکمرانوں کے سیاسی بے تاثیراخباری بیانات سن سن کران کے کان پک چکے ہیں۔کراچی کے شہریوں کے قاتلوں ، سازشیوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ناکام آپریشن کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلاہوچکے ہیں۔ایسے میں تازہ ترین عسکری ترجمان کی طرف سے کراچی کے اس آپریشن کے بارے میں بیان گویایہ ایک انتباہ اوروارننگ ہے کہ اگرحکمران اوراپوزیشن نے اب بھی ملکی سلامتی اورامن وآشتی کی خاطراپناکردار آگے بڑھ کراداکرنے کی ہمت نہ کی تووزیراعظم گیلانی کاکہایہ سچ ثابت ہوجائے گاکہ ”اگرہم نے ایکشن نہ کیاتوکوئی اورآکے آپریشن کرے گا“۔