ابرار احمد اجراوی abrarijravi20@gmail.com
اسلامی کلینڈر کا ہر مہینہ بیش قیمت خصوصیات اور بے پایاں اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مہینے اپنے جلو میں انسانی معاشرے کے ساتھ اسلامی و ملی زندگی کے حوالے سے بھی شادمانی اور سرخ روئی کا عظیم پیغام لیے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ایمان ان مبارک و مسعود مہینوں کو اخلاص وللہیت کے جذبات ، عجز و انکساری کے تصورات اور بے خودی و بے مائگی کے اسلامیانہ احساسات کے ساتھ گزار لے، تویقینا اس کے دل کی دنیا بدل جائے گی۔ ان مبارک و مسعود ایام میں عبادت و ریاضت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس مومن کے دل و دماغ میں نیکی وبزرگی ، تقوی و طہارت اور ورع و پاکیزگی کے جذبات انگڑائی لینے لگتی ہے، بلکہ اس کی دنیوی سعادت و خوش بختی اورہمہ گیر اقبال مندی و نصیبہ وری کی راہ بھی ہموار ہوجاتی ہے۔ ان مہینوں میں بھی رب دو جہاں نے چند ایسے مخصوص ایام مقرر فرمائے ہیں جن میں عبادت و ریاضت سے جاں بلب انسانی زندگی میں روحانی حرکت و عمل کی ایک حیات افروز لہر دوڑ جاتی ہے ۔ اگر ان مخصوص ساعتوں میں کوئی بندئہ خدا نفلی عبادات، دعاء و مناجات اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرلے، تو اس کے دور رس اثرات کی وجہ سے اس کی آنے والی زندگی کے لمحات، ماقبل کی زندگی سے یکسر مختلف ہوجاتے ہیں۔
انھی اسلامی مہینوں میں شعبان المعظم کا با برکت اور قدر و منزلت والا مہینہ بھی ہے، جس میں ہر طرف نیکیوں کا موسم بہار ہوتا ہے، جس کا ہر لمحہ اورہر پل رحمت و مغفرت اور لازوال سعادت و خوش حالی سے اولاد آدم کے دامن کو بھر دینے کی الوہی صدا بلند ہوتی رہتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں خالق کائنات کی طرف سے رحمت و برکت اور انوار و برکات کی بارش کا مقصد یہ ہے کہ ایک مرد مومن دنیا کی تمام ذہنی آلودگیوں اور نظریاتی و فکری آلائشوں سے دھل دھلاکر ایسا پاک و صاف ہوجائے کہ وہ مہینوں کے سردار ماہ رمضان کی بیش بہا نعمتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا کرسکے اور اپنے دروں میں تقوی اور پاکیزگی کی وہ نورانی قندیل روشن کرلے کہ اس کے ہر لمحے سے صحیح معنی میں فیض یاب ہوسکے۔ یہی وجہ تھی کہ آپﷺ ماہ شعبان کا چاند نظر آتے ہی دھیرے دھیرے دوسری مشغولیتوں سے کنارہ کش ہونے لگتے تھے اور تلاوت قرآن کریم اور ذکرو اذکار میں غیر معمولی سرگرمی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔عام مسلمان بھی عبادات کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ، اپنے مال سے زکاۃ و خیرات کی ادائیگی کرتے تھے۔امرا اور رؤسا غریبوں، بے کسوں اور تنگ دستوں کی مالی امداد کرتے تھے۔ حکام اپنے قیدیوں کو طلب کرتے اور عدل و انصاف کی مضبوط بنیادوں پراور اسلامی آئین و قانوں کی روشنی میں فیصلے صادر فرماتے تھے۔ جو مسلمان صنعت و حرفت اور تجارت وزراعت سے جڑے ہوتے ، وہ قرضوں کی ادائیگی اور دیگر معاملات کے تصفیے کے اصول پر سختی سے کاربند ہوجاتے تھے۔ماہ شعبان کی کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس مہینے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:’’ رجب میرا مہینہ ہے، شعبان اللہ کا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔‘‘(مشکوۃ)
ایک دوسری حدیث میںام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:’’آپﷺ سال کے کسی مہینے میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھتے تھے۔ ہاں شعبان میں پورے مہینے روزے کا اہتمام فرماتے، تا آں کہ رمضان آجاتا۔‘‘(نسائی، ترمذی)
ایک دوسرے موقع پر نبیﷺ نے فرمایا:’’شعبان کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے، جیسے تمام انبیاء کرام پر میری فضیلت اور دوسرے مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے، جیسے تمام کائنات پر اللہ کی فضیلت۔‘‘
انھی فضیلتوں کے پیش نظر شعبان کی آمد کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روزمرہ کی عبادات اور ذکر و اذکار میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا تھا۔ اور رمضان کے استقبال میں بکثرت روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے تاکہ رمضان کے مہینے میں روزوں کے نتیجے میں لاحق ہونے والی پیہم تکان اور مسلسل عبادات کے بار گراں کو برداشت کرنے کی طاقت و توانائی بھر پور طریقے سے حاصل ہوجائے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماہ شعبان اسلامی تاریخ کے بے شمار نشیب و فراز سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ اور تہذیب و تمدن کے ارتقائی عہد سے بھی اس کا رشتہ بڑا مضبوط ہے۔جگر گوشۂ فاطمہ اور نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش، قبلہ کے لیے کعبے کا انتخاب، جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا قتل، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ آپﷺ کا رشتۂ ازدواج، مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کا مرکز مسجد ضرار کا انہدام اور سب سے بڑی افضلیت یہ کہ سر چشمۂ رشد و ہدایت قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ اسی ماہ مکرم میں ہوا ہے۔
احادیث اور روایات کے مطابق اس مہینے کی عظمت و فضیلت کا مرکزی نقطہ شب براء ت ہے۔ یہ رات بڑی بابرکت ہے، خوبیوں کا مجموعہ ہے، خیر و فلاح کا سنگم ہے اور خدائی انعامات و نوازشات کا حسین گلدستہ ہے ، یہ رات عبادت و ریاضت کی مخصوص رات ہے جو اس رات میں عبادت کرنے والے انسانوں کو خدائی رحمت و مغفرت کا مژدۂ جاں فزا سناتی ہے۔ جوں ہی شعبان کی چودہویں تاریخ کا سورج مغرب کی گود میں جاتا ہے، ایک طرف آسمان سے خدائی فیصلوں کے نزول کا غیر مرئی حسین منظر ہوتا ہے تو دوسری طرف گنہ گاروں اور سیہ کاروں کی جہنم سے گلو خلاصی کا عظیم پیغام نازل ہورہا ہوتا ہے۔ اس رات میں عبادت و ریاضت اور نفس کشی کے وسیع اثرات سے دل میں خدا سے لگاؤ اور تعلق کی قندیل روشن ہوجاتی ہے، افسردہ اور مایوس دلوں میں محبت اور شوق کی نئی حرارت اور نیا سوز و گداز بیدار ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس رات کے تعلق سے حضرت عائشہؓ کے سوال کے سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا:’’آج شب براء ت ہے، یہ رات مغفرت و بخشش کا پروانہ لیے ہوتی ہے اور اللہ تعالی قبیلۂ بنی قلیب کے بکریوں اور بھیڑوں کے برابر گنہگاروں کی بخشش فرماتا ہے۔‘‘(ترمذی)
روایتوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اس رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور مغفرت کے طلب گاروں کو مغفرت، رزق کے خواست گاروں کو رزق، بے روزگاروں کو روزگار ، معاشی اعتبار سے پریشان حال لوگوں کومعاش کے مواقع، مصیبت زدگان کو گردش ایام کی کلفتوں سے نجات اور ضرورت مندوں کی وسیع پیمانے پر حاجت روائی کرتا ہے اور دبے کچلے اور حوادثات زمانہ کے شکار لوگوں کی راحت رسانی کا انتظام فرماتا ہے۔ لیکن جس نے شرک کیا، کینہ پروری کو اپنے دل میں جگہ دی، والدین کی نافرمانی ، شراب نوشی، چغل خوری میں اپنی متاع حیات کو صرف کیا، اسے بخشش کا پروانہ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک روایت کے مطابق شعبان کی پندرہویں رات(شب براء ت) کو آئندہ سال پیش آنے والے تمام امور کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ اور آئندہ سال روئے ارضی پر پیش آنے والے تمام حادثات و واقعات کو آخری شکل دے کر، اس کو متعلقہ فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ سارے فرشتے اسی خاکے اور منظور شدہ پروگرام کے مطابق سارے امور کی انجام دہی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ آئندہ سال کتنے انسانوں کی پیدائش مقدر ہے، کتنے لوگوں کو اپنی حیات مستعار کی مدت پوری کرکے سفر آخرت پر روانہ ہونا ہے، کس شخص کو کتنا رزق دیا جانا ہے اور کس شخص کو کن کن مصائب اور حالات سے گزرنا ہے، غرضے کہ انسانی زندگی سے متعلق تمام امور کا فیصلہ اسی رات کو صادر کردیا جاتا ہے۔استاد دارالعلوم دیوبند(وقف) اور عصر حاضر کے نامور محدث مولانا غلام نبی کشمیری نے اس رات کو ہونے والی پروگرام بندی کو ان جامع الفاظ میں بیان فرمایا ہے:’’موت و حیات، طلاق و نکاح، خوشی و غمی، امارت و غربت، عزت وذلت، عروج و زوال، غرض یہ کہ بندوں کی قسمت سے متعلق تمام امور طے کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں ، جماعتیں اور تجارتی ادارے ہر سال آمدو خرچ کا حساب کرکے نفع و نقصان کا اوسط نکالتے ہیں، سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور آئندہ سال کا لائحۂ عمل تیار کرتے ہیں۔ مولائے کریم بھی ہر سال شب براء ت کو اپنے بندوں کا بجٹ بناتا ہے۔شب براء ت گویا خدائی بجٹ کی رات ہے۔‘‘
مذکورہ فضائل و مناقب کی روشنی میں اس رات کی اہمیت اور اس قدرو قیمت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ موجودہ مسلم معاشرے نے اس قیمتی اور بابرکت رات کی قدرو منزلت پر ناقدری اور ناشکری کا لبادہ ڈال دیا ہے۔ وہ اس رات کو مغفرت و بخشش اور عبادت و ریاضت کی رات نہیں، بلکہ( معاذ اللہ) بدعات و خرافات کی رات تصور کر بیٹھے ہیں۔جو لوگ مغربی تہذیب کے گرویدہ ہیں، جن کے تصورات و نظریات پراس تہذیب نے اپنے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں اور جو لوگ اس کی ہر حرکت کی نقالی پر آمادہ نظر آتے ہیں، ان کے طرز زندگی اور رسم و رواج کے غیر فطری طوفان نے اس کی عظمت و تقدس کو پامال کیا ہے۔وہ اس رات کو تفریح اور محض شب بیداری کے طور پر مناتے ہیں۔ قبرستان جاتے ہیں، لیکن اکیلے اور تنہا نہیں کہ قبر کی سنگینیوں اور اس کی خوفناکی کا اندازہ ہوسکے، بلکہ گروپ اور ٹولیاں بناکر گپ شپ اور ہنسی ٹھٹھولی کرتے ہوئے اور تیز رفتار موٹر بائیک پر جاتے ہیں۔ نہ قبر کی خطرناکیوں کا انھیں احساس ہوپاتا ہے اور نہ مرنے کے بعد کی زندگی کے دشوار گزار مراحل کا خیال ان کے ذہن میں آتا ہے۔ہونا تو چاہیے تھا کہ اس رات کو ہمارے رگ و پے میں عبادت کی تیزی اور ذکرو فکر کی چستی دوڑتی، خدا کی یاد میں دل مضطرب اور بے چین ہوکر دھڑکتا، آنکھیں چند قطرے نہیں، بلکہ آنسووں کا دریا بہاتیں، مگر ہم نے اپنے غیر اسلامی طرز عمل کی وجہہ سے اس بابرکت رات کو جشن و تہوار ، پٹاخوں، آتش بازی اور پھلجھڑیاں چھوڑنے کی رات بنادی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ اب اس رات میں اسراف و فضول خرچی کے حوالے سے مسابقاتی جوش و خروش کا ماحول بنتاجارہا ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے اس رات کو انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی قبیح اور بدنما شکل دے دی ہے۔ہم لوگ اس رات گھروں اور مسجدوں میں نوافل، اورادو و ظائف اور تلاوت قرآن کا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ ہمارے جوان اس رات کو ٹولیاں بناکر مٹر گشتی کرتے پھرتے ہیں، چوک چوراہوں پر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہماری مائیں اور بہنیں بھی اس رات کو بے پردہ گلی کوچوں میں نکل کر اس کے تقدس کو ملیامیٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ اس بابرکت رات کا تقاضا تویہ تھا کہ اس میں عبادت کا مطلوبہ شوق دل کی گہرائیوں میں کروٹ لے اور سینے میں سوز و تپش کی ایک زوردار حرکت ہو، مگراس رات میں شور و شغب اور ہنگامہ آرائی سے ایک ناپسندیدہ انقلاب آیا رہتا ہے۔ عبادت کے لیے نہ مطلوبہ سکون اور نہ ہی یکسوئی کا کوئی لمحہ میسر آتا ہے۔
مختلف احادیث اور اکابر کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ رات مغفرت اور مقبولیت کی رات ہے۔ باران رحمت کی رات ہے، اس لیے ہم مسلمانوں کو اس رات کو ایک قیمتی سوعات تصور کرتے ہوئے اور اس کا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر بارگاہ خداوندی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ اس کے حضور میں اپنی ضروریات کی فہرست پیش کرنی چاہیے۔ اس وقت مشرق و مغرب میں اسلام اور امت مسلمہ پر جو برا وقت آن پڑا ہے، اس سے گلو خلاصی کے لیے خدا کے حضور میں درخواست پیش کی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس رات کے کسی لمحے میں ہماری یہ پکار سن لی جائے۔بارگاہ خداوندی کا در ہر وقت کھلا ہوا ہے۔
خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس بابرکت رات میں غیر اسلامی اور غیر شرعی امور سے گریز کرے اور اسلامی روح کے منافی تمام افعال قبیحہ سے اجتناب کرتے ہوئے تنہائی میں عبادت و ریاضت کے چراغ سے اپنے دل کو روشن کرے۔ اللہ ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق دے۔
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB: 9910509702