Home / Articles / خودکش حملوں کا بڑھتا رجحان: اسبا ب و عوامل

خودکش حملوں کا بڑھتا رجحان: اسبا ب و عوامل

 

آج ساری دنیا میں خود کش حملوں سے ایک خوف و ہراس کی فضا پائی جارہی ہے۔آئے دن اس کے بڑھتے رجحان سے ہزاروں کی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔ کتنے معصوم ہلاک ہورہے ہیں اور خود ہلاک  کرنے والے بھی لقمہ ٴ اجل بن رہے ہیں۔ آخر وجہ کیاہے کہ لوگ دوسرے کی جان لینے کے لیے خود کو بھی ہلاک کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔وہ کون سے اسباب ہیں ؟ یا کون سے محرکات ہیں ؟کہ نوجوان نسل کی ایک پوری کھیپ تیار ہورہی ہے۔ فلسطین ، عراق ، افغانستان ، پاکستان ۔ ہندستان ہر جگہ یہ وباپھیل چکی ہے۔

پورا عراق ہر روز کسی نہ کسی خود کش حملے کا شکار ہوتا  جس کے نتیجے میں سینکڑوں جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ کیا اسے عراق کی داخلی پالیسی کی ناکامی کی وجہ کہیں گے یا امریکہ کی پالیسی کا نتیجہ یہ سوال اتنا واضح ہے کہ ایک لحظے میں بلا تاخیر کوئی بھی یہی کہتاہے کہ یہ امریکہ کی زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔ مگر یہ کیاہے کہ لوگ خود ایک دوسرے کو مار رہے ہیں ۔عراق میں کیا ہورہا ہے؟ یہی کہ کبھی شیعہ آبادی کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے تو کبھی سنّی آبادی کو ، اور ہر روز مرنے والوں میں کبھی سنی ہوتے ہیں تو کبھی شیعہ۔ اسی طرح افغانستان میں جو خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں جو جانیں ضائع ہورہی ہیں وہ زیادہ تر بے قصور اور معصوموں کی ہیں ۔عراق اور افغانستان میں ملک کی آدھی آبادی اپاہجوں ، بیواوں، یتیموں کی ہوگئی ہے ۔مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی مسلمان ، یہ کن کے خلاف جنگ کر رہے ہیں یہ سب کے سب  تو اسلام کے ماننے والے ہیں اور سب  کلمہ گو ہیں ۔ اس طرح اسلامی اصول کے تحت دونوں آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ تو کیا اسے بھائی بھائی کی لڑائی کہیں گے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں صرف یہی ایک ظاہری وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں کئی سطحوں پر مشتعل کیا جاتا ہے۔ اس اشتعال میں سیاسی ، معاشرتی اور ملکی مسائل اور غیر ملکی تسلط  بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔انھیں سوالوں کو کئی انداز سے ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح قائل کر لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان دے کر اسے حاصل کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ذرا غور کریں کہ دنیا صرف ایک پہلو کو دیکھتی ہے کہ مرنے والوں میں کتنوں کے  جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں ، کتنوں کے گھر تباہ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان میں خود کش حملہ کرنے والے بھی تو کسی کے جگر کے ٹکڑے ہی ہوتے ہوں گے۔ ان کے گھر بھی تباہ ہوتے ہوں گے، ان کے والدین بھی اولاد کے غم سے گزرتے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی خود کش حملے میں ایسے والدین بھی گرفت میں آئے ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو اس کی تربیت دی تھی۔ میرے علم میں اب تک ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ جماعتیں ، کچھ گروہ اور تنظیمیں ایسی ہیں جو ان کی نہ صرف تربیت کرتی ہیں بلکہ انھیں اس طرح قائل کر لیا جاتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دو ہی بات ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کو تیار کرنے میں یا تو بچپنے سے انھیں تربیت میں لے لیا جاتا ہے۔یا بچوں کو اغوا کر کے انھیں اس کے لیے تیار کیاجاتاہے ۔ لیکن غور کریں کہ یہ کام کوئی بھی جبراً نہیں کر سکتا جب تک وہ دل سے اس کام کے لیے آمادہ نہ ہوجائے۔کیونکہ اس دنیا میں انسان کے پاس جو سب سے بڑی الله کی نعمت ہے وہ خود اس کی جان ہے۔

اب اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود کشی اس اعتبار سے کہ انسانی جان الله کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کی ناقدری کفران نعمت پر محمول کی جاسکتی ہے۔اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ خود کش حملے وہ مسلمان نوجوان کرتے ہیں جن کو یہ بتا یا جاتا ہے کہ شہادت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ الله کی راہ میں خود کو قربان کر دیا جائے۔دینی حوالے سے بھی یہ لمحہٴ فکریہ ہے کہ ان خو د کش حملوں کے لیے نو جوانوں کو جو شخصیتیں ، تنظیمیں  یا تحریکیں آمادہ کر رہی ہیں اور جوان کو  بتاتی ہیں کہ جنت جانے کا یہی راستہ ہے ، کیا ان کی یہ فکر اور سوچ صحیح ہے؟ کیا اس طرح وہ اسلام کی حقیقی خدمت انجام دے رہی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے یہ بھی غور کریں کہ ان لوگوں کی باتوں میں بھی اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ نوجوان ان کی نہ صرف باتوں میں آجاتے ہیں بلکہ وہ دنیا کی ساری نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنی جان بھی دے دیتے ہیں ۔ یعنی ایسا کرنے والے اور ایسا کرانے والے دونوں میں ایک زبردست صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اگر ان کی یہی صلاحیتیں ملکی اور قومی مفاد میں استعمال کی جاسکتیں تو  کیا بات تھی۔ وہ نوجوان جو جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ اور سبق پڑھایا جا تا جس سےوہ ملک میں اصلاح اور ترقی کے لیے کام کرتے تو شاید ایسے لوگوں سے بہتر اور کوئی نہیں ہوتا ۔ مگر جو ملک بھی اس سے پریشان ہیں خود انھوں نے بھی اس سمت میں کچھ نہیں سوچا اور عالمی سطح پر بھی طاقت و قوت کے حامل ممالک نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی ہے۔

عراق، افغانستان اور فلسطین  کے بعد یہ رجحان پاکستان میں بھی تیزی سے پروان چڑھ رہاہے۔ واقعات سامنے آئے ہیں اور ابھی جس طرح سے انتہا پسندوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اس سے مزید ایسے حملے ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں،پاکستان تو اسلامی ملک ہے وہاں تقریباً لوگ مسلمان ہیں تو وہاں خود کش حملے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کی جان لینا، اپنےہی ہم وطن اور شہری کو مارنا کیا مطلب رکھتا ہے؟ اس میں ضرور کوئی ایسی وجہ ہے اور کسی مسئلے کو لے کر ایسی شدت ہے کہ وہ ان سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نوجوان ایسا کرتے ہیں ۔ لیکن یہ سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ آخر انھیں  ہتھیار کو ن دیتا ہے ، انھیں اسلحے کون سپلائی کرتاہے اور ، بم بنانے کے طریقے کون سیکھاتا ہے۔ ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آتاہے۔ وہ لوگ جو دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر سارا کام کر رہے ہیں  وہ اقتصادی طور پر کچھ کر بھی نہیں پاتے تو یہ وسائل کہاں سے آتے ہیں۔کیا وسائل کی فراہمی میں بھی ایسے ہی ممالک کا ہاتھ ہے جو خود ان کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو ان دہشت گردانہ کارائیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہے ۔ اب خود وہ ملک بھی اسی سے پریشان ہے۔پاکستان سمیت  وہ تمام ممالک اگر اِن کے اندرون میں جھانک کر دیکھیں یا ان مسائل کے پس پرد ہ اسباب وعوامل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں اس کے بعد مسائل کی حل کی بات کریں تو شاید یہ تیزی سے بڑھتا رجحان ختم ہوسکتا ہے۔

٭٭٭٭٭

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *