انڈین طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر میاں صاحب کی پرآسرار خاموشی کو کیا معنیٰ پہنائے جائیں ۔ میاںصاحب تو انڈیا سے اچھے تعلقات کیلئے بیتاب ہیں اور اس کیلئے انہوںنے وقت سے پہلے ہی بیان بھی دیا۔ نہ جانے جاتی آمرا کے منتظمین نے ان کی اس خواہش پر منفی رد عمل کیوں ظاہر کیا ۔ ڈرون حملوں پر احتجاج کیا تھا کہ ساتھ ہی یہ بلا بھی آن پڑی ۔ حکومت کا اس پر کوئی بیان یا وضاحت سامنے نہ آنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ وزارت خارجہ میاں صاحب کے پاس ہونے کی وجہ سے بیان بھی انہیں ہی دیناتھا۔ شاید سیاسی مصروفیات میں سے پاکستان کیلئے وقت نکالنے کا خیال نہ رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصل آباد میں جاری واپڈا کی لوڈشیڈنگ کے خلاف جاری مظاہروں نے اس غیر اہم خبر کو گوش گذار ہونے سے روک دیا ہو۔ میاں صاحب تجربہ کار لیڈر شپ کے یہ اطوار نہیں ہوتے۔ تجربہ کو بروئے کار لائیں اور چومکھی لڑنے کیلئے ہر وقت تیار رہیں۔ ہم دفاع پر معمور شاہینوں کی بے بسی پر بھی انگشت بااندام ہیں کہ ان کی پرواز میں کیا حائل تھا۔ ایران سے تیل نہیں تو کم ازکم وہ طریقہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کیسے ڈرون کو اتارا تھا۔ ڈرون حملے اگے غیر قانونی ہیں تو پھر ان کے خلاف افواج پاکستان اپنا قانونی حق کیوں استعمال نہیں کر رہی ۔ صدر پاکستان آج پانچ سال کے بعد اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ یہ غیر قانونی ہیں توپھر انہوں نے ماضی میں اس بارے میں کوئی قدم نہ اٹھا کر اپنے حلف کی پاسداری کی۔ اگر انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور فرض میں کوتاہی کی تو کیا یہ جرم نہیں ۔ صدر پاکستان جو آئینی طورپر افواج پاکستان کے پیڑن ان چیف ہیں ہی پاکستان کے دفاعی معاملات سے غافل اور کوتاہ ہے تو پھر کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس ان کے اس آئینی فرض کی عد م ادائیگی پر سموٹو آیکشن نہ لے کر کیا اپنے فرض سے چشم پوشی نہیں کر رہے۔ ان کا احتساب نہ تو ایسے ہو ا نہ ہی ویسے ہوا۔ انصاف قانون اور آئین کی پھر کیا وقعت ہے ۔یہ انصاف قانون اورآئین کا کون سا روپ ہے۔ پاکستان پر جس کا جس طرح دل چاہتا ہے انگلی اٹھا دیتا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری پر آنچ آتی ہے تو کوئی دفاع نہیں کرتا ۔ پاکستان کی عزت پر کوئی حرف آتا ہے تو کوئی اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا۔ سب کس لیے پھر عہدہ جلیلہ پر فائز ہیں ۔ کیا مراعات اور اختیار ہی مقصود پاکستانی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سب کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ گلوبل تناظر اور خارجہ معاملات کی فکر ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ تو پاکستان کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور اس کو پاکستان کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ اگر پاکستان کے خود مختاری سلامتی اور عزت سے کوئی بھی اقدام ٹکراتا ہوا نظر آئے تو اسے پاش پاش ہو جانا چاہیے۔ بجائے اس کے الٹا پاکستان کی خود مختاری اور عزت کے دھجیاں بکھرتی دیکھ کر دیگر معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور عزت دیگر امور سے غیر اہم ہے۔ مسلمان کسی کے خلاف نہیں لیکن وہ مسلم کش پالیسیوں کے خلاف ضرور ہیں۔ مسلمانوں کی آہانت پر ہر مسلمان کا دل دکھتا ہے ۔ اس کے دل میں ہر اس عنصر کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے جو اس کے بھائی اس کے دین کے خلاف عمل پیرا ہوتی ہے۔ مسلمان سے عزت سے جینے کا حق چھینے کی کوشش کرنے والے کس طرح حق کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے دیس میں تو سب کو اپنے ادیان اور اپنے طریقے سے جینے کا حق دیتا ہے۔ یورپ اپنے معاشرے میں ہم جنس پرستوں کے نظریہ کو تسلیم کر کے انہیں اپنے طریقے سے جینے کا حق دیتا ہے ۔ پھر مسلمان کواپنے طریقے سے جینے کا حق کیوں نہیں۔ ہر ایسے اقدام اور ہر ایسے گروہ کی پشت پناہی کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بر سرپیکارہیں۔ مسلمانوں میں ریشہ دوانیوں کیلئے کوشاں کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہر گردن ان کے سامنے خم ہو گی۔ مسلمان بیشک اپنی نااتفاقی سے کمزور ہو چکے ہیں لیکن ان کی گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن کسی غیر کے سامنے جھک نہیں سکتی ۔ اکابرین سلطنت کیلئے بھی پیغام ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو دل سے نکال دیں کہ پاکستانی کسی سے مرعوب ہیں یا کوئی انہیں بزور طاقت مطیع کر سکتا ہے۔ یہ کٹے پھٹے ہیں لیکن جو ان کے قریب آئے گا وہ بھی کٹ سکتاہے ۔مسلمان کو عزت سے جینے کی تمنا ہوتی ہے اور غیرت کی موت چاہیے ہوتی ہے۔ عوام کی قربانیوں کو یوں غیروں کے در پر نچھاور کرنے والے شیر نہیں گیدڑ کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہوتے۔ اگر لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کا گھر تک پیچھا کیا کر انہیں اس گستاخی کی سزا دی جا سکتی ہے تو پھر دشمن جو منہ پر طمانچہ مار کر چلا گیا اس کو کیوں نہیں۔ سالے اب کے مار کے دیکھ کا فارمولا غیرت مند قوموں کے اکابرین کے منہ پر زیب نہیں دیتا۔ اقوام عالم سے تعلقات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس کا دل چاہیے وہ ڈرون بھیج کر ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرے ۔ جس کا دل چاہے اس کے ہنٹر طیارے ہماری سرحدوں کو روند ڈالیں۔ اکابرین نے اس کا جواب نہ دے کر پاکستان اور اپنے فرض اور اپنے حلف سے روگردانی کی ہے۔ پاکستان کی خود مختاری اور اس کی آزادی کے دفاع میں اس غفلت کی کچھ بھی توجیہہ پیش کی جائے وہ ناقابل قبول ہوگی۔ اس سے پہلے بھی امریکہ نے ایبٹ آباد اپریشن کرکے دفاع پاکستان کا حلف اٹھانے والوں کو شرمندہ کیا۔ اس پر بھی عوام میں شدید مایوسی کی لہر دوڑی ۔ اب انڈین طیاروں کے اس طرح سرحدوں کی خلاف ورزی پر مناسب ردعمل نہ پا کر عوام کے دل پاش پاش ہیں۔ محافظین پر اٹھنے والی انگلیوں کو ہرگز بھی غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کی
چوری ہوتی ہے اس کا ایمان بھی جاتا ہے۔ عوام سیاستدانوں کے ساتھ اب محافظین سے بھی نالاں ہیں ۔ محافطین اپنی پیٹھ پر عوام کی طاقت سے محروم ہو کر اپنی اصل طاقت سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ دشمن یہی چاہتے ہیں کہ اس قوم کا اپنے محافظین سے اعتماد کا رشتہ ٹوٹ جائے ۔ ان کی پیٹھ ننگی ہو جائے تو پھر وہ اس کی ننگی پیٹھ پر وار کر سکیں۔ مختلف طریقے سے محافظین اور عوام کے درمیان اعتماد کی خلیج کووسیع کیا جا رہاہے ۔ اس نقطے پر غور کرنے اور اس کے سدباب کی انتہائی ضرورت ہے۔ سویلین معاملات میں عسکری مداخلت نہ ہونے سے ماضی قریب میں عدم اعتماد کی خلیج کم ہوئی ۔ سیاستدانوں کو اپنے امیج کے ساتھ عسکری قوتوں کوبھی ڈی مورال ہونے سے بچانے کیلئے سیاسی محاذ پر اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنا ہوگا۔ ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جس سے عوام سیاستدان مل کر اس شکستہ دلی کے بھنور سے نکلنے میں ممدد ہوں۔ ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی آڑ میں میر جعفروں کا دفاع کیا جائے۔ ایسے عناصر جواس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں غافل رہے یا بروقت کمزوری دکھائی انہیں اس پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ انہیں اگراپنے کہے گئے لفظوں کا پاس نہیں تو پھر انہیں اس جگہ پر اس اختیار کو استعمال کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ ضروری ہے کہ اس واقعہ کے ذمہ داران اور موقع کی مناسبت سے مناسب کاروائی نہ کرنے والوں کے خلاف انصباطی کاروائی کی جائے ۔ میاں صاحب بھی انڈیا کی دوستی میں اتنے موم نہ ہوں کہ انہیں لاکھوں شہداء کے خون اور لاکھوں عصمتوں کی قربانی بھول جائے۔ انڈیا سے دوستی کی جلدی میں وہ پاکستانیوں کے جذبات اور پاکستان کی خود مختاری پر آنے والی آنچ کو نظر انداز نہ کریں۔