خوف و نفرت کی سیاست اور جاسوسی کے شکارہندوستانی مسلمان
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا کے عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ان انتخابات کولوک سبھا انتخابات کے لئے سیمی فائنل سمجھا جارہا ہے اسی لئے ترکش کے تمام تیر استعمال کئے جارہے ہیں۔ سام ،ڈنڈ، بھیدکا بی جے پی بڑے پیمانے پر استعمال کر رہی ہے ۔یہ ریاستی الیکشن تمام انتخابات سے کئی معنوں میں جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں ان دونوں (اسمبلی اور لوک کے سبھا عام انتخابات) الیکشن میں جہاں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنی تمام طاقتوں کو جھونک دیا ہے وہیں بی جے پی اپنے لئے کرو یا مرو کی پوزیشن کے تحت تمام حربے آزمانے کے درپے ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ الیکشن آر ایس ایس بنام کانگریس ہے اور لوک سبھا کا الیکشن بھی اسی کے ارد گھومے گا۔ دونوں الیکشن فرقہ پرستی بنام نام نہاد سیکورلرزم لڑا جائے گا۔ لال کرشن اڈوانی کو پوری طرح کنارے لگاتے ہوئے جس طرح سے نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا دعویدار اعلان کیا گیا ، اس کے بعد سیاسی تجزیہ نگار وں کی حتمی رائے یہی ہے کہ سال 2014 میں ہونے والا عام انتخابات کانگریس اور آر ایس ایس کے درمیان لڑا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اس بات کے اشارے بار بار مل رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آرایس ایس براہ راست بی جے پی کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے بی جے پی میں اپنے سب سے پرانے اور سب سے زیادہ قابل اعتماد لیڈر اڈوانی تک کوٹھکانے لگاکر مودی کو آگے کردیا۔ اس کے لئے آر ایس ایس کے لیڈروں نے کئی سطح پر معاہدہ کئے ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے نریندر مودی کا رشتہ نشیب و فراز سے پر رہا ہے۔ بابو بجرنگی اور دیگر وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کو سزا ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس مودی سے درمیان میں خفا بھی رہا ہے ۔ مودی میں ڈکٹیٹر شپ کی بھی خاصیت پائی جاتی ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے مستقبل کے لئے دردسر ثابت ہوسکتی ہے۔ کئی ایسے معاملے آئے ہیں جہاں انہوں نے آر ایس ایس کی نہیں سنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ہی ایک سینئر لیڈر کے مطابق ’’آر ایس ایس میں اس بات کو لے کر یہ سوچ بھی ہے کہ کہیں وہ ایک نئی شکل میں اندرا گاندھی (جیسی شخصیت ) کو تو اقتدار میں نہیں لارہے ہیں‘‘۔بی جے پی کی ملک میں منعقدہ ریلیوں میں نریندر مودی کی باڈی لنگویج ،زبان و بیان طرز تکلم سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں کوئی محترم شخص نہیں۔ کسی پر بھی وہ کچھ بھی الزام لگاسکتے ہیں، کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی کرسکتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2007کے گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران انہوں نے راہل گاندھی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ’’ ان کو یہاں کوئی ڈرائیور تک رکھنا پسند نہیں کرے گا‘‘۔نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’مودی سے اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ ان کے دشمن ہیں‘‘ بہت سے لوگ مودی کو فیصلہ کن مگر لوگوں کو تقسیم کرنے والے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔ا قتدار کے ساتھ آر ایس ایس کا ہمیشہ محبت کا رشتہ رہا ہے۔نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں آر ایس ایس اقتدار کے فریم میں فٹ نہیں ہوسکا تھا لیکن ایمرجنسی کے بعد اس نے اقتدار کی سیاست میں اپنی جڑیں پیوست کرلی جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ پہلے جنتا پارٹی کی حکومت میں اور پھر دو دہائی بعد اٹل بہاری واجپئی کے دور میں آر ایس ایس کا اثر زبردست طریقے سے بڑھا۔اقتدار کا فائدہ آر ایس ایس کو بھرپور طریقہ سے ملا اور اس کے حامی افسرشاہ تمام اہم عہدوں پر پہنچ گئے۔ لیکن گزشتہ دس سال سے بی جے پی اقتدار سے باہر ہے اور اس بار کے بی جے پی کے انتخابات ہارنے کا مطلب مسلسل پندرہ سال تک دہلی کے اقتدار سے دوری ہے ۔ اسی سوچ نے آرا یس ایس کو پریشان کردیا ہے۔ نریندر مودی آر ایس ایس کی پسند نہیں مجبوری ہیں اور وہ اس کے لئے کسی طرح کا کوئی رسک لینا نہیں چاہتا۔ اسی لئے مودی کو مقبول بنانے اور ترقی کا چہرہ پیش کرنے کے لئے آر ایس ایس اور اس کے تربیت یافتہ صحافیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار اعلان کرتے ہی آر ایس ایس کے اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ ان کی راہ میں ان گنت روڑے ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے اور یہ سچ بھی ہے دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکرگزرتاہے اس لئے مرکز میں برسراقتدار آنے کے لئے اس ریاست میں پارٹی کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہے لیکن اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پارٹی کی حالت مسلسل خستہ ہوتی چل گئی ہے۔جب 1990 میں رام مندر تحریک بلندیوں پر تھی اس وقت ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو 45ء31 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور 221 سیٹیں ملی تھیں جب کہ اس سال لوک سبھا انتخابات میں ووٹ کا تناسب بڑھ کر 28ء32 فیصد ہوگیا تھا اور 85 میں سے 51 سیٹیں ملی تھیں۔ 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں ملنے والے ووٹ کی 44ء33فیصد ہوگئی اور سیٹیں بھی بڑھ کر 52 ہوگئیں۔ لیکن 1993 کے اسمبلی انتخابات میں سیٹوں کی تعداد گھٹ کر 177 ہوگئی اور ووٹ فیصد 3ء33 رہ گیا۔لوک سبھا کے 2004 اور 2009 میں پارٹی کو 80 میں سے 10،10 سیٹیں ملی لیکن ووٹ کا تناسب بالترتیب 17ء22 اور 54ء17 پرٹھہرگیا۔سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی حالت سب سے زیادہ کمزور ہوگئی کیوں کہ صرف 15 فیصد ووٹ ملے اور سیٹوں تعداد 47 رہ گئی۔ مسٹر مودی کے سامنے اب سخت چلینج ہے کہ پارٹی کو 1998 کی حالت میں اترپردیش میں کیسے لے جائیں۔ اس کے لئے فسادات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ مظفر نگر فسادات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
نریندر مودی کے لئے اتحاد سے باہر حمایت حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اتنا ہی نہیں، انہیں پارٹی کے اندر کی مخالفت سے نمٹنا ہوگا۔ ساتھ ہی ، نریندر مودی کو قومی سطح پر خود کو ثابت کرنا پڑے گا۔2014 کے انتخابی دنگل کی تصویر صاف ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی انتخابات جیتنے ، نئے ووٹر کو پاس لانے اور نئے ساتھیوں کو شامل کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس پر بی جے کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ امریکی اخبار’’نیو یارک ٹائمز ‘‘کے ادارتی بورڈ نے کہا ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی اگر لوگوں میں’ خوف ‘ اور ’دشمنی‘کو فروغ دیتے ہیں تو ان سے ہندوستان کو متاثر کن قیادت دینے کی امید نہیں کر سکتے۔ اخبار کے ادارتی بورڈ نے 63 سالہ مودی پر لکھے اداریہ میں کہا ،’’ مودی میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور مخالفت کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں دکھائی دیتی ہے‘‘۔اداریہ میں کہا گیا ہے کہ مودی نے پہلے ہی بی جے پی کے 17 سال پرانے اتحادی جنتا دل ( یو ) کو الگ کر دیا۔دونوں جماعتوں کا اتحاد ٹوٹ گیا کیونکہ جے ڈی یو نے پایا کہ ‘ مودی قابل قبول نہیں ہیں۔ ‘ اس میں کہا گیا ’’ ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے اور مودی سے مؤثر قیادت دینے کی امید نہیں کر سکتے اگر وہ اپنے بہت سارے لوگوں کے درمیان خوف اور دشمنی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘‘۔ نیویارک ٹائمس کے اداریہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے بارے میں لوگوں کے کیا تاثرات ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستانی میڈیا سے انہیں ہیرو بنانے پر کمر بستہ ہے۔ ان کی ایک ایک سرگرمی کو راست نشر کرتا ہے۔
بی جے پی نریندر مودی کو ہیرو بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ صنعتی گھرانوں کی حمایت جگ ظاہر ہے۔ صنعتی گھرانوں نے نریندر مودی کے لئے خزانہ کا دہانہ کھول دیا ہے۔ریلیوں میں جس طرح پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں نریندر مودی کو اگلا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان سے مفاد وابستہ ہے۔ ابھی خبر میں میڈیا میں گشت کر رہی ہے کہ ہندوستان کے تمام بڑے ہندی اور انگریزی کے مدیرا ن نے یہ طے کیا ہے کہ وہ نریندر مودی کے خلاف کوئی اسٹور شائع نہیں کریں گے جس سے ان کے امیج کو دھچکہ پہنچے۔ حالیہ دنوں میں بہت ساری رضا کار تنظیموں نے نریندر مودی کے گجرات ماڈل کا پردہ فاش کیا تھا۔ یہ سچ بھی ہے کہ نریندر مودی گجرات کی ترقی کے بارے میں مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اور ہندوستانی میڈیا راست ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ اسے ملک کے کونے کونے تک پہنچا رہا ہے۔ ہندوسانی میڈیا کا کریہہ چہرہ سامنے آرہا ہے اور اخبارات اور نیوز ایجنسیوں میں بیٹھے صحافی ان چھوٹی سرگرمی اور ریلی کو عظیم الشان ریلی بناکر پیش کر رہے ہیں ۔ سیاست داں مودی کوپانی کا بلبلہ قرار دے رہے ہیں ۔ ان کے مطابق مودی نے ایک نجی فوج بنا رکھی ہے جو انٹرنیٹ پر غلط معلومات پوسٹ کرتی رہتی ہے۔ مودی کی فوج ہی ہے جو انٹرنیٹ پر ان کی مقبولیت کی خوبیاں کرتی ہے۔گجرات میں جس طرح بچے نقص تغذیہ کا شکار ہیں، جس طرح بچے اسکول نہیں جارہے ہیں اور جس طرح بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ اس کے علاوہ وائبرینٹ گجرات کے حوالے ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری بہت ہوئی ہے لیکن اعداد وشمار اس کی تصدیق نہیں کرتے۔اعداد وشمار کے مطابق 36فیصد گجراتی اسکول نہیں جاتے۔ گجرات کی حالت آسام سے بھی بدتر ہے۔کیوں کہ اسکول جانے والوں کی شرح گجرات سے بہتر ہے۔ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران ممبئی میں دو لاکھ چھپالیس ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی اور دہلی میں ایک لاکھ اکیاون ہزار کروڑ روپے جب کہ گجرات میں صرف 36ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کی گئی۔ یعنی صرف پانچ فیصد سرمایہ کاری ہوئی ہے۔گجرات میں مسلمانوں کی آبادی نو یا دس فیصد ہے لیکن ان کی نمانئدگی یہاں صرف چار فیصد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ انتخاب مسلمانوں کے سخت آزمائش ہے ، ایک طرف خوف کی سیاست ہے تو دوسری طرف نفرت کی سیاست اور پٹنہ میں ہونے والے بم دھماکے کو اسی نظریہ سے دیکھنے سے بہت ساری چیزںآسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔دھماکے باوجود ریلی میں دہاڑ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کس کو مقبول بنانے کی سازش ہے۔مسلمان مسلکوں کے نام پر منتشر ہیں۔ان کا کوئی رہنما نہیں ہے،تمام مسلم لیڈران مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ایسی صورت میں مسلمانوں کے گھڑی مزید سخت ہوجاتی ہے اور بدترین میں سے بدتر کے انتخاب کا متبادل رہ جاتا ہے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
ڈی۔ 64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com