Home / Socio-political / دہلی بم دھماکہ : سانحہ ،خود ساختہ یا منصوبہ بند

دہلی بم دھماکہ : سانحہ ،خود ساختہ یا منصوبہ بند


آج کی دنیا  کے تیزی سے بدلتے حالات  کے اسباب و عوام پر غور کریں تو دو ہی بات  نکل کر سامنے آتی ہے ۔ اقتصادی قوت حاصل کرنا  اور دیگر  ممالک پر اپنے اثرات مرتب کرنا۔غور کریں  تو دنیا کےچھوٹے بڑے تمام ممالک  کہیں نہ کہیں انہی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ظاہر ہے ان دنوں چیزوں کا حصول مثبت انداز میں کیا جائے تو بات کچھ اور ہوگی لیکن یہ ممکن بھی نہیں کہ مثبت انداز میں اس مقصد کو حاصل کیا جائے اس لیے لازمی ہےکہ ایسے حرص و ہوس رکھنے والے ممالک منفی فکر اور منفی اقدامات کر رہے ہیں  جو عموماٍ غیر اخلاقی ، غیر آئینی اور غیر انسانی  ہوتے ہیں۔ اسی لیےآج دنیا میں دہشت گردی اور تشدد کو انہی  کے زیر سایہ پروان چڑھنے کو خوب خوب موقع مل رہا ہے۔حرص و ہوس کے حصول کا یہ سلسلہ اگر چہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے مگر ان دنوں  اس  میں تیزی آئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اسی کے سبب کہیں خود کش دھماکے ہو رہےہیں تو کہیں  دہشت گردانہ واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ اس حوالے سے ابھی اسرائیل  کی کوششیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ بھی   ہے کہ آج کی دنیا میں جن ممالک کے پاس اسلحوں کی طاقت زیادہ ہے وہ کچھ بھی غیر اخلاقی ، غیر آئینی اور غیر انسانی کام کر لیں وہ  مورد الزام نہیں ٹھہرتے اور نہ ان پر دہشت گردی اور تشدد پسندی کا الزام عائد ہوتا ہے بلکہ ان کا ہر عمل دفاع سمجھا جاتاہے ۔ بات یہیں ختم ہوجاتی تو پھر بھی ٹھیک تھا بلکہ ایسی ہی طاقتوں کو دنیا کے امن کا ٹھیکیدار بھی سمجھا جاتا ہے ۔

اس سلسلے میں اسرائیل کا نام سر فہرست ہے ۔ اسرائیل وہ ملک ہے جس کے آگے امریکہ بھی سر نگوں رہتا ہے۔ظاہر ہے ایسی  صورت میں اسرائیل کی شہ زوری کوئی بھی رنگ دیکھا سکتی ہے۔ساتھ ہی اس کے ساتھ معمولی واقعہ بھی  دنیا میں ہنگامے بر پا کرسکتا ہے ۔ گذشتہ ہفتہ دہلی میں ایک اسرائیل سفارت کار کی گاڑی میں بم سے حملہ ہوا ۔ خیر کی بات یہ ہےکہ ایہ دھماکہ معمولی تھا جس کے سبب کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ لیکن اس واقعے کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہ دنیا کے لیے باعث تشویش ہے ۔ کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہندستان کی ایمبیسی کابل پر اس سے کہیں بڑا حملہ ہوا۔ پوری عمارت کو نشانہ بنایا گیا اور سرے سے ہندستانی ہائی کمیشن کو ختم کردینے کی کوشش ہوئی ۔ لیکن اس بڑے حاثے کو  عالمی سطح پر اس طرح نہیں لیا گیا جنتا کہ اس ایک چھوٹے سے بم دھماکے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔اسی طرح امریکہ سمیت دنیا کے کئی ہائی کمیشنوں اور ان کے افسران کو نشانہ بنایا گیا ، تب میڈیا نے اسے تیسری عالمی جنگ  کے آغاز کے طور پر اس کو نہیں لیا۔ مگر جیسے ہی دہلی میں بم دھماکہ ہوا اس کی گونج نے وہائٹ ہاوس کو بھی دہلا دیا ،اسرائیلی وزیر اعظم نے بغیر سی تفتیش اور بغیر کسی تاخیر کے فوراً یہ کہا کہ یہ دھماکہ ایران نے کرایا ہے اور اس میں حزب اللہ کا ہاتھ ہے۔اس بیان نے گویا شہد کے چھتے کو چھیڑ دیا اس کے بعد ہر طرف سے یہ آوازیں آنے لگیں جیسے اسرائیل بہت معصوم ہے۔ اس کے بعد امریکہ مہاراج نے بھی یہ حکم صادر کر دیا کہ دنیا کو ایران سے علاحدگی اختیار  کرنے کی ضرورت ہے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی چھ صحافیوں نے تو اسے علام اسلام کو شیعہ سنی  کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی اوراس حوالے سے بات کی۔ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی مسئلے کو ہمیشہ کیوں اس تناظر میں دیکھاجاتا ہے کہ کسی بھی واقعے کے پیچھے کوئی خاص طبقہ ہی ملوث ہوگا ۔

اس واقعے کا ایک اہم پس منظر یہ بھی ہے کہ ایران اور ہندستان کے تعلقات  بہت دیرینہ ہیں ۔ پورے بر صغیر میں اس کی ایک تہذیبی اور ثقافتی اہمیت بھی ہے۔ہندستان پر کئی حوالوں سے  ہمیشہ دباو ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ ہندستان ایران کے معاملے میں اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی لائے ۔ اس  دھماکے کے بعد  پھر سے  یہ کوشش شروع ہوگئی ہے ۔لیکن ہندستان ایسا ملک نہیں ہے کہ کسی کےاشارے پر چلے اور اپنی خارجہ پالیسی میں کسی دباو کے نتیجے میں تبدیلی لائے ۔

دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل کے کے رویے نے کئی ممالک کو صف بندی کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ پاکستان ، ایران اور افغانستان کے مابین جو اشتراک ہو رہا ہے وہ اس کا نتیجہ ہے۔ ویسے یہ اچھی بات ہے کہ پڑوسی ممالک آپس میں  مل کر خطے کے امن کو بحال کریں ۔ لیکن جب عالمی سطح پر کوئی طاقت  کام کر رہی ہو تو اس میں فوری رد عمل کا شامل ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی ۔اس سہہ  فریقی اجلاس میں بھی جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ خطے کے لیے اہم ہیں  لیکن خطے کے امن و سکون کے لیے صرف ان تین ممالک  کا آپس میں مل کر کام کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے  اہم پڑوسیوں کو بھی شا مل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سہ فریقی اجلاس میں جو باتیں سامنے آئیں اس میں اگرچہ امریکہ کا نام  نہیں لیا گیا  مگر واضح طور پر امریکہ اور اسرائیل ہی ہدف تھے۔کیونکہ  مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ خطے میں کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائےگی۔اس خطے کے مسائل بیرونی طاقتوں کی جانب سے مسلط کیے گئے ہیں اور صرف متحد ہو کر ہی ان کا حل نکالا جا سکتا ہے۔انہوں نے کسی عالمی طاقت کا نام لیے بغیرکہا کہ ’تمام مسائل باہر سے آ رہے ہیں اور اس سے ان کا مقصد اپنے مقاصد کا حصول اور عزائم کی ترویج ہے۔ وہ ہماری قوموں کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

دنیا کے تمام ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ رہیں لیکن یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے دیگر ممالک کو اپنے زیر نگیں کرنے کی کوشش کریں اور اسلحوں کی طاقت کی بنیاد پر یہ کہیں کہ وہی دنیا کے امن کے رکھوالے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تمام اسلحے محفوظ ہیں ۔ لیکن کوئی اور ملک اس طرح کی طاقتیں رکھنے کی سمت میں کوشش کریں تو وہ دہشت گرد ہیں اور ان سے عالمی امن کو خطرہ ہے ۔بات سمجھنے کی ہے کہ جو ملک عالمی امن کی بات کرتے ہیں پہلے وہ یہ طے کریں کہ  وہ ایسے اسلحوں اور طاقتوں کو ختم کریں گے جو  عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں ۔ اگر اسرائیل اور امریکہ دنیا کو تباہ کرنے والے اسلحے رکھیں تو ان  درست لیکن کسی اور ملک کے پاس  ایسی طاقتیں آجائیں تو وہ دنیا کے لیے خطرہ ۔ یہ کیسی بات ہے اس پر میڈیا والے کیوں بات نہیں کرتے اور کیوں ان کے اسلحے دنیا کے لیے خطرناک نہیں جو بات بات میں ایران پر حملہ کرنے کی دھمکی دیں اور آئے دن فلسطینی پر مظالم ڈھائیں ۔ اگر ان کو کوئی زور آور اور دنیا کو تباہ کرنے والا نہیں کہتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ایسے ممالک بھی انھیں طاقتوں کے حصول کے لیے کوشش کریں گے اور دنیا میں جنگ کی ابتدا ہوگی۔

اسی لیے وقت آگیا ہے کہ عالمی سازشوں کو سمجھاجائے اور  جنگی جنون کی اس مہم میں شامل ہونے کے بجائے ایسے ممالک کو آئینہ دیکھایا جائے کیونکہ یہ سارا کھیل در اصل اقتصاد کا ہے یا یوں کہیں یہ سب تیل اور گیس  کے لیے ہے ۔ اسی لیے ہندستان نے اب تک اس حواے سے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جو ان کو شہہ مل سکے ، ہندستان ا یک ذمہ دار ملک ہے اور اس کو معلوم ہے کہ کس طرح اپنا رد عمل دینا ہے اسی لیے  ہنگامہ مچانے کی اس کوشش میں ہندستان نے کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دے کر اپنی مضبوطی ظاہر کی ہےاور  ہندستان کو ایک عالمی جنگ کا اکھاڑا بننے  نہیں دیا۔کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کی یہی کوش

ابھی تو یہ بات سامنے آنی باقی ہے کہ اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی پر یہ حملہ خود ساختہ تھا یا واقعی یہ ایک دہشت گردانہ منصوبہ تھا۔ان تمام پہلووں پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *